!گجراتی ترقی کا دُھندلا پہلو: امیر ریاست میں غربت کی داستان

بھارتی تارکین وطن؛کیوں گجراتی لوگ ’ ماڈل اسٹیٹ‘ چھوڑ نے پر مجبور ؟

0

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

کا بند ہونا قابل افسوس MSMEs صرف دس سالوں کے درمیان، گجرات میں 60 ہزار
گجرات کی صنعتی پالیسی نہایت مضر، سرمایہ داروں کوبےتحاشا فائدہ،متوسط تاجروں اور عوام کو بھاری نقصان!
بھارتی تارکین وطن کو ہتھکڑیوں و زنجیروں میں جکڑ کر وطن واپس بھیجنے کے معاملے پر وزیر خارجہ ایس جے شنکر نےپارلیمنٹ میں کہا کہ اس طرح کی پابندیوں کا استعمال ایک اسٹرانٹیڈ پروسیجر ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی پچھلے دنوں امریکہ کے دورے پر گئے، شاید پہلی بار مودی نے جوائنٹ پریس کانفرنس کی ہو گی، اس میں انہوں نے تارکین وطن کے بارے کہا کہ "انسانی اسمگلنگ کے اس ایکو سسٹم” کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے، جو بھولے بھالے نوجوانوں کو بڑے خواب دکھا کر لالچ دلاتے ہیں اور غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک کو لے جاتے ہیں۔
بھارتی تارکین وطن کو واپس بھیجنے پر ملک بھر میں ہنگامہ ہوا، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر واپس بھیجا گیا، جو واقعی غیر انسانی سلوک تھا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں جتنے بھی تارکین وطن ہیں ان میں سے اکثریت گجراتی تارکین وطن کی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ایسی ریاست جو ملک کے لیے ایک نمونہ ہے، گجرات ماڈل کے راگ الاپے جاتے ہیں، اس کی ترقی کے گن گائے جاتے ہیں، ایسی ترقی کہ بس اب ملک میں اس کے بالمقابل کوئی دوسری ریاست نہیں، ترقی تو ایسی کہ امریکہ اور گجرات میں بس انیس بیس کا فرق ہے۔ لیکن پھر کیا کہ امریکہ سے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر بھیجے جانے والوں میں گجراتی لوگ ہی زیادہ ہیں؟ 2023 میں جملہ 67 ہزار 391 بھارتی غیر قانونی طور پر امریکہ گئے تھے، ان میں گجراتیوں کی تعداد 41 ہزار 330 تھی۔ مودی نے کہا کہ ان کو لالچ دلائی جارہی ہے، سنہرے خواب دکھائے جا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان لوگوں نے آپ کے جھوٹے خوابوں پر بھروسا کیوں نہیں کیا، گجرات میں ایک لمبے عرصے تک آپ ہی تو چیف منسٹر تھے، آپ نے ہی تو گجرات کو آپ نے ماڈل اسٹیٹ بنانے کا دعوٰی کیا تھا؟ پھر کیوں لوگ وہاں سے غیر قانونی طور پر امریکہ جا رہے ہیں؟ گجراتی صدیوں سے افریقہ اور پھر یورپ کا سفر کرتے رہے ہیں، وہاں جا کر تجارت کرتے ہیں لیکن غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر نہیں جاتے تھے۔
ان تارکین وطن کا سفر بھی کوئی آسان سفر نہیں ہوتا، امریکہ یا یورپ جانے کے لیے جو خطرات اٹھانے پڑتے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں۔جیسا کہ 2022 میں، ڈنگوچا گاؤں سے ایک چھوٹا سا خاندان جس میں جگدیش پٹیل، اس کی بیوی اور ان کے دو بیٹے امریکہ – کینیڈا کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔اسی دوران وہ برفانی طوفان میں گِھر گئے جس کی وجہ سے وہ منجمد ہو گئے۔ اگر گجرات ایک امیر ریاست بن گئی تو پھر یہ لوگ وہاں غیر قانونی طور پر کیوں جا رہے ہیں اوروہ بھی اتنی بڑی تعداد میں؟ایک ایسی ریاست جس کی شرح نمو سب سے زیادہ ہے اور سب سے زیادہ فی کس ریاستی جی ڈی پی ہے – 2022-23 میں گجرات کی جی ڈی پی 1,81,963 روپے تھی، جو کہ قومی اوسط سے دگنی سے بھی زیادہ ہے۔
بڑے پیمانے پر مسلسل غربت کی وجہ
گجرات میں جہاں امیر لوگ زیادہ ہیں، وہیں انتہائی غریب لوگ بھی بہت زیادہ ہیں، کیونکہ وہاں کی حکومت نے برسوں سے انہیں اچھی ملازمتیں فراہم نہیں کی ہیں، روزگار پیدا نہیں کیا۔ ریاستی جی ڈی پی کی جو شرح نمو ہے، اس تناسب سے ملازمتوں میں اضافہ نہیں ہوا، یہی نہیں بلکہ ملازمتوں کا جو معیار ہے، اس میں بھی کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ جیسا کہ جاب مارکیٹ میں غیر رسمی طور پر کام سے ظاہر ہوتا ہے۔
2022 میں پیراڈک لیبر فورس سروے کے مطابق 74 فیصد گجراتی مزدوروں کے پاس کوئی تحریری معاہدہ نہیں تھا، اس کے مقابلے میں کرناٹک میں 41 فیصد، تمل ناڈو اور کیرالا میں 53 فیصد، مدھیہ پردیش میں 57 فیصد، ہریانہ میں 64 فیصد، مہاراشٹر میں 65 فیصد اور بہار میں 68 فیصد مزدوروں کے پاس تحریری معاہدے تھے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس ورک فورس میں غیر رسمی کیفیت کے نتیجے میں انہیں کم اجرتیں ملتی ہیں۔ اپریل تا جون 2024 میں گجرات میں عمومی مزدوروں کی روزانہ کی اوسط اجرت 375 روپے تھی جو کہ قومی اوسط سے بھی کم ہے، قومی اوسط 433 روپے ہے، کیرالا میں عمومی مزدوری 836 روپے، تمل ناڈو میں 584 روپے، ہریانہ میں 486 روپے، پنجاب میں 449 روپے، کرناٹک میں 447 روپے، راجستھان میں 442 روپے، اتر پردیش میں 432 روپے، یہاں تک کہ بہار میں 426 روپے ہے۔صرف ایک ریاست ایسی ہے جہاں کے مزدوروں کی اجرت گجرات سے کم ہے، وہ ہے چھتیس گڑھ جہاں کی اوسط اجرت 295 روپےہے۔
یہ تو عمومی مزدوروں کی بات ہے۔اسی طرح گجرات کے باقاعدہ تنخواہ یافتہ ملازمت سے وابستہ افراد کی اوسط ماہانہ کمائی بھی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اپریل تا جون 2024 میں اوسط تنخواہیں ساڑھے سترہ ہزار تھیں، یہ بھی قومی اوسط سے کم ہے، قومی اوسط 21,103 روپے ہے۔ کرناٹک میں اوسط تنخواہیں 25,621 روپے، ہریانہ میں 25,015 روپے، مہاراشٹر میں 23,723 روپے، کیرالا میں 22,287 روپے، آندھرا پردیش میں 21,459 روپے، تمل ناڈو میں 21,266 روپے، اتر پردیش میں 19,203 روپے، راجستھان میں 19,105 روپے، مدھیہ پردیش میں 18,918 روپے اور مغربی بنگال میں 17,559 روپے ہیں۔
جو لوگ امریکہ گئے ہیں وہ تنخواہ یافتہ افراد ہوں گے اور غالباً ان لوگوں کا تعلق گجرات کے دیہاتوں سے ہوگا، جہاں غریب کسانوں کی حالت بڑی خستہ ہے۔2023 میں زرعی مزدوروں یعنی کھیتوں میں کام کرنے والوں کی یومیہ اوسط اجرت 242 روپے تھی جو کہ ملک میں سب سے کم ہے، یہاں تک کہ بہار جیسی غریب ترین ریاست سے بھی بہت کم۔ رورل ایریا یعنی گاؤں میں کام نہ کرنے والے لوگوں کی یومیہ اجرت 273 روپے جب کہ بہار میں 313 روپے ہے۔ گجرات یہاں بھی بہار سے بہت پیچھے ہے۔ تعمیراتی کام کرنے والے مزدوروں کی یومیہ اجرت 323 روپے ہے جو کہ نیچے سے تیسرے درجے اوپر ہے، اس کے اوپر مدھیہ پردیش 278 روپے اور تریپورہ 286 روپے ہے۔
پیمائش کے دیگر پیمانے
غربت کی پیمائش کرنے کے لیے صرف اجرت ہی پیمانہ نہیں ہے بلکہ ریاست کے دیہی اور شہری علاقوں میں رہنے والوں کے ماہانہ فی کس اخراجات ایم پی سی ای سے بھی بہت کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نیشنل سیمپل سروے آفس کے مطابق 2022-23 میں گجرات کا ایم پی ایس ای شہری علاقوں میں 6,621 روپے اور دیہی علاقوں میں 3,798 روپے تھا، وہیں بھارت کی دیگر ریاستوں جیسے تمل ناڈو کے شہری علاقوں میں 7,630 اور دیہی علاقوں میں5,310 روپے، کیرالا 7,078 اور 5,924 روپے، کرناٹک (7,666 اور 4,397 روپے، آندھرا پردیش 6,782 روپے اور 4,870 روپے یہاں تک کہ ہریانہ کے شہری علاقوں میں 7,911 اور دیہی علاقوں میں 4,859 روپے تھا۔ مہاراشٹرا کے شہری علاقوں میں بسنے والوں کا ماہانہ خرچ 6,657 اور دیہی علاقوں میں بسنے والوں کا خرچ 4,010 روپے تھا۔
ہمہ جہتی غربت کا اشاریہ(ملٹی ڈائمینشنل پاورٹی انڈیکس ) جسے اقوام متحدہ نے تیار کیا ہے جس میں غربت کی پیمائش کے لیے نہ صرف معیار زندگی بلکہ تعلیم اور صحت عامہ تک رسائی کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے، گجرات اس پیمانے سے تیار کردہ ٹیبل کے وسط میں ہے، 2020-21 میں 11.66 فیصد غربت پائی جاتی تھی جب کہ مغربی بنگال میں 11.89 فیصد غربت پائی جاتی تھی، اس سے بمشکل کچھ کم، لیکن مہاراشٹر، کرناٹک، ہریانہ، آندھرا پردیش، تلنگانہ، ہماچل پردیش، پنجاب، تمل ناڈو، جموں و کشمیر اور کیرالا ان سب ریاستوں سے یہاں غربت زیادہ پائی جاتی ہے۔ ایک اور پیمانہ دیکھیں، خاص طور پر خوراک تک رسائی کے معاملے میں گجرات کی کارکردگی سب سے خراب ہے، ریاست کے 38 فیصد باشندوں کو مبینہ طور پر اپنی ضرورت کے کھانے تک رسائی نہیں ہے۔ اس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہےکہ گجرات ماڈل کی حقیقت کیا ہے؟
اس متضاد صورت حال کو سمجھنے کے لیے نریندر مودی کی قیادت میں چلنے والی گجرات حکومت کو سمجھنا ہوگا۔ 2001 تا 2014 کے درمیان، سرمایہ دارانہ طرز حکومت کی بنیاد پڑی۔ انفرااسٹرکچر کے منصوبے جس میں بندرگاہیں، تھرمل پلانٹس اور ریفائنریوں اور پیٹرو کیمیکل انڈسٹری پر ترجیحات مرکوز کی گئیں، ان کاموں پر ہی زیادہ پیسہ خرچ کیا گیا، سوشل ایکسپنڈیچر – بشمول صحت اور تعلیم کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔
درحقیقت، گجرات روایتی طور پر کاروباریوں کی سرزمین رہی ہے، اسی لیے یہاں کی ریاستی حکومت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ای) کی مدد کرتی تھی۔ 1990 کی دہائی میں ریاستی حکومت کی صنعتی پالیسی ایس ایم ایز پر مرکوز تھی جو اوسطاً بڑے کاروباری اداروں سے چار گنا زیادہ فائدہ مند تھیں۔
نریندر مودی نے 2003 میں نئی صنعتی پالیسی متعارف کروائی، جس نے سابقہ روایتوں کو توڑ دیا، اسی طرح 2009 میں مزید پالیسیاں تبدیل کی گئیں، جس میں چھوٹے صنعتوں کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہی۔ گجرات اسپیشل انویسٹمنٹ ریجن ایکٹ پاس کیا گیا ‘ریاست میں بڑی سرمایہ کاری اور صنعتی علاقوں کی ترقی کو قانونی حیثیت فراہم کی گئی’۔ اس کا مقصد ‘عالمی معیار کا انفراسٹرکچر تیار کرنا اور معاشی سرگرمیوں کا عالمی مرکز بنانا تھا۔ یہ ایکٹ 2009 کی صنعتی پالیسی کی بنیاد ہے، جس نے ‘گجرات کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں سرمایہ کاری کا سب سے پرکشش مقام بنا دیا’۔ اس نے نہ صرف ‘بہ اعتبار یونٹس’ جو 3 بلین روپے یا 37.5 ملین ڈالرز بلکہ ‘میگا پراجیکٹس’ جس سے 10 بلین روپے 125 ملین ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہوئی، اس پروجیکٹ نے بڑی کمپنیوں کو اپنی طرف راغب کیا لیکن اس سے صرف دو ہزار لوگوں کو ہی ملازمت مل سکی، جن کی تنخواہیں
پانچ لاکھ روپے تھیں۔ 2009 میں صنعتوں کے لیے زمین کا حصول ایک اہم عنصر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے گجرات انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (جی آئی ڈی سی) نے صنعت کاروں کو بیچنے کے لیے زمین حاصل کرنا شروع کیا اور انہیں 99 سال کی لیز پر دیا یا اسپیشل اکنامک زون خصوصی اقتصادی زونز بنا دیا۔
نئی صنعتی پالیسی نے نہ صرف کسانوں کو متاثر کیا بلکہ ورک فورس کو بھی بری طرح سے متاثر کیا، کیونکہ اس میں زمین حاصل کرنے سے متعلق کئی دفعات تھیں۔ 1990 کی دہائی تک نئی سرمایہ کاری کرنے پر حکومت انہیں سبسیڈی یا مراعات دیتی تھی لیکن اس کے بدلے میں سو افراد کو مستقل ملازمت دینا لازمی تھا، سال 2000 میں اس پالیسی کو تبدیل کر کے محض ‘100 افراد کو ریگولر ورکرز میں تبدیل کردیا گیا۔
گجرات کی نئی صنعتی پالیسی نے مٹھی بھر علاقائی یا قومی اولیگارکیوں کو فائدہ پہنچایا، جن کی تمام فرمس انتہائی سرمایہ دارانہ طرز پر تھیں اور ملازمین کے لیے تباہ کن تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 2009-10اور 2012-13کے درمیان گجرات ،صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہندوستان کی نمبر ون ریاست بن گئی جو مہاراشٹر اور تمل ناڈو سے بھی اوپر تھی لیکن اس کارکردگی سے ملازمتیں پیدا نہیں نہیں ہوئیں، جب کہ وہ ریاستیں جہاں چھوٹے کاروباری ادارے ہیں وہاں زیادہ ملازمتیں جنریٹ ہوئیں۔ گجرات اور تمل ناڈو کے درمیان موازنہ کرنے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آئے گی۔ 2013 میں گجرات کے صنعتی شعبے نے ہندوستان کے مقررہ سرمائے فکسڈ کیپٹل کا 17.7 فیصد حصہ ادا کیا، وہیں فیکٹری ملازمتوں کا حصہ صرف 9.8 فیصد ہی تھا، جب کہ تمل ناڈو کی صنعت نے مقررہ سرمائے یعنی فکسڈ کیپٹل کا 9.8 فیصد حصہ ادا کیا، لیکن فیکٹری ملازمتوں کا حصہ 16 فیصد تھا۔
اس پالیسی سے نہ صرف ملازمتیں ہی گئیں بلکہ ان کارپوریٹس نے گجرات میں قائم ایس ایم ایز یعنی چھوٹی صنعتوں کو بھی ختم کردیا، کیوں کہ ان کے اور بڑی صنعتوں کے درمیان سپلائی چین تھی اکثر بڑی کمپنیاں انہیں وقت پر ادائیگی نہیں کرتی تھیں اور اپنی سرگرمیوں کوجاری رکھنے کے لیے انہیں اہم اجزاء خریدنا ہوتا تھا، وقت پر وہ خرید نہیں پاتے تھے۔ دوسری طرف اڈانی گروپ کی طرح انرجی اولیگوپولیوں نے انہیں بہت زیادہ قیمت پر بجلی فروخت کرنی شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں 2004 اور 2014 کے درمیان گجرات میں 60 ہزار MSMEs بند ہو گئے۔
کتنا عجیب اتفاق ہے کہ اڈانی گروپ جس کے سربراہ گوتم اڈانی آج کے کرونی کیپٹلزم کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہیں، اڈانی گروپ میں کام کرنے والوں کی کل تعداد صرف 36 ہزار ہے، یعنی ہندوستان کے جو سب سے بڑے تجارتی گروپس ہیں ان میں سب سے کم تعداد انہی کے پاس ہے ۔ ان سارے مسائل کے ہوتے ہوئے پھر بھی گجرات ملک کی سب سے ترقی یافتہ ریاست بن گئی ہے، یہی ہے گجرات ماڈل۔ شاید اسی لیے گجراتی لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

 

***

 گجرات کی نئی صنعتی پالیسی نے مٹھی بھر علاقائی یا ’قومی اولیگارکیوں ‘کو فائدہ پہنچایا، جن کی تمام فرمس انتہائی سرمایہ دارانہ طرز پر تھیں اور ملازمین کے لیے تباہ کن تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 2009-10اور 2012-13کے درمیان گجرات ،صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہندوستان کی نمبر ون ریاست بن گئی جو مہاراشٹر اور تمل ناڈو سے بھی اوپر تھی لیکن اس کارکردگی سے ملازمتیں پیدا نہیں نہیں ہوئیں، جب کہ وہ ریاستیں جہاں چھوٹے کاروباری ادارے ہیں وہاں زیادہ ملازمتیں جنریٹ ہوئیں۔ گجرات اور تمل ناڈو کے درمیان موازنہ کرنے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آئے گی۔ 2013 میں گجرات کے صنعتی شعبے نے ہندوستان کے مقررہ سرمائے فکسڈ کیپٹل کا 17.7 فیصد حصہ ادا کیا، وہیں فیکٹری ملازمتوں کا حصہ صرف 9.8 فیصد ہی تھا، جب کہ تمل ناڈو کی صنعت نے مقررہ سرمائے یعنی فکسڈ کیپٹل کا 9.8 فیصد حصہ ادا کیا، لیکن فیکٹری ملازمتوں کا حصہ 16 فیصد تھا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025