گجرات میں شہری ترقی کے نام پر رہائشی مکانات کا انہدام
پچاس سال سے زیادہ عرصے سے مقیم مکینوں کو مکان خالی کرنےکا نوٹس ۔جب گھر غیر قانونی تو ووٹوں کی حیثیت قانونی کیسے؟
محی الدین، ممبئی
آکاش کنٹاریہ نامی فوجی کے والد اور دیگر مقامی لوگوں کا حکومت سے ’متبادل رہائش‘ کا مطالبہ
موجودہ حکومت گجرات ماڈل کو پورے ملک میں ایک آئیڈیل اسٹیٹ کی طرح پیش کررہی ہے۔ مرکزی حکومت بین الاقوامی سطح پر بھی گجرات کو پرموٹ کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتی ہے لیکن خود گجرات میں حالت یہ ہے کہ وہاں غریبوں کے ساتھ ناانصافی کے معاملات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ حال ہی میں گجرات کے شہر بھاؤنگر میں شہری ترقی کے نام پر چودہ نالہ علاقے کے سو سے زیادہ مکانات کو خالی کرنے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بستی میں تقریبا پچاس سالوں سے زیادہ عرصے سے رہائش پذیر ہیں اس کے باوجود ان پر مکان خالی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ان کا سوال ہے کہ اگر انہیں یہاں سے نکالا گیا تو وہ سر چھپانے کے لیے کہاں جائیں گے؟ اس بستی کے مکین نصف صدی سے یہاں مقیم ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں متبادل جگہ فراہم کی جائے لیکن حکومت اور انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ اس بستی میں کئی بوڑھے، معذور اور تنہا زندگی بسر کرنے والے افراد بھی رہائش پذیر ہیں لیکن حکومت اور مقامی انتظامیہ ان پر رحم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور انہیں گھر خالی کرنے کا نوٹس تھمایا جا رہا ہے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ چودہ نالہ کے تقریباً ایک سو تیس خاندانوں کو مکان خالی کروانے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ جن افراد کو نوٹس جاری کیا گیا ان میں ضعیف خواتین بھی شامل ہیں۔ مقامی انتظامیہ نے روڈ کی تعمیرکے نام پر اتنی بڑی تعداد میں گھروں کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جن لوگوں کے گھروں کو منہدم کرنے کی نوٹس جاری کی گئی ہے ان میں فوجی نوجوان آکاش کنٹاریہ کا گھر بھی شامل ہے جو اروناچل پردیش کے بارڈر پر ملک کی حفاظت کے لیے تعینات ہے۔ آکاش کنٹاریہ کے والد نے بتایا کہ وہ یہاں چالیس سالوں سے رہائش پذیر ہیں۔ وہ اس وقت سے یہاں رہ رہے ہیں جب یہاں بجلی بھی نہیں ہوتی تھی۔ ان کے پاس 1994 کا بجلی بل بطور ثبوت موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ محنت مزدوری کے ذریعے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ محنت مزدوری کرکے انہوں نے اپنے بیٹے کو پڑھایا اور آرمی افسر بنایا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 19 مئی کو پہلی 26 مئی کو دوسری اور 4 جون کو تیسری نوٹس موصول ہوئی۔ کارپوریشن نے انہیں تمام دستاویزات کو جمع کروانے کی ہدایت دی تھی لیکن کسی کے پاس بھی دستاویزات دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تینتیس سالوں سے ووٹ دیتے آرہے ہیں۔ بی جے پی امیدوار سیجل بین ووٹ مانگنے آئی تھیں، ان سے رابطہ کرنے پر انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ حکومت غریبی ہٹانے کی بات کرتی ہے لیکن غریبوں کو ہی ہٹا رہی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو دوسری جگہ رہائش فراہم کی جائے۔ متبادل جگہ کی فراہمی کے بعد ہی وہ اس علاقے کو چھوڑ سکیں گے ورنہ وہ کہاں جائیں گے۔
اسی علاقے میں پچھلے کئی برسوں سے رہائش پذیر کلثوم بین نے بتایا کہ جس وقت مقامی لوگ اس زمین پر رہائش پذیر ہونا شروع ہوئے اور پختہ مکانوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا تو اس وقت مقامی انتظامیہ سے کوئی افسر انہیں انتباہ دینے کیوں نہیں آیا۔ اب اتنے سالوں کے بعد وہ ہوش میں کیوں آئے ہیں؟ ضعیف خاتون وسنت بین نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور نہ ان کے پاس کوئی متبادل مکان ہے، اگر ان کا مکان چھین لیا گیا تو وہ سر چھپانے کے لیے کہاں جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ جب سیاست داں ووٹ لینے آتے ہیں تو پیر پکڑتے ہیں مگر اس وقت ان کی مدد کے لیے کوئی آگے نہیں آرہا ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں گھر کے انہدام کی خبر سن کر ایک شخص کو دل کا دورہ پڑا اور وہ فوت ہوگیا۔ اس بستی میں ایسی کئی دکھ درد بھری داستانیں ہیں لیکن حکومت اور مقامی انتظامیہ ان کو سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ان مکینوں کا معاملہ گجرات ہائی کورٹ پہنچ چکا ہے۔ ہائی کورٹ نے مکینوں کو راحت دیتے ہوئے انتظامیہ کو تیس دنوں تک کے لیے انہدامی کارروائی روک دینے کی ہدایت دی ہے۔ اس معاملہ کی پیروی کرنے والے وکیل کا کہنا ہے کہ کورٹ کی جانب سے راحت ملی ہے، اور اب عدالت میں ان مکینوں کو متبادل گھروں کی فراہمی کے مطالبے کو لے کر دوسری عرض داشت جلد ہی داخل جائے گی۔
احمدآباد کے دریا پور حلقہ سے کانگریس کے سابق رکن اسمبلی غیاث الدین شیخ نے بتایا کہ وہ اس ناانصافی کے خلاف گجرات کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرچکے ہیں۔ انہوں نے مکینوں کو سہولت فراہم کرنے کی بھی بات کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مکینوں کو متبادل مکان کی فراہمی ان کا حق ہے انہیں متبادل جگہ فراہم کی جانی چاہیے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ احمد آباد ریور فرنٹ کی تعمیر کے وقت بھی کئی مکانات اجاڑے گئے تھے۔ ہائی کورٹ نے ان لوگوں کو متبادل مکانات فراہم کرنے کا حکم دیا تھا نتیجے میں تقریباً تیرہ ہزار لوگوں کو متبادل مکانات فراہم کیے گئے تھے۔ اسی نظیر کو پیش کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے چودہ نالہ کے مکینوں کے لیے بھی متبادل جگہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ بھاؤ نگر چودہ نالا کے مکینوں کو اپنی جگہ بچانے یا اس کے عوض متبادل جگہ کی حصول یابی کے لیے اتنی جدوجہد کیوں کرنی پڑ رہی ہے۔ اگر یہ بستی غیر قانونی تھی تو اسے اتنے برسوں تک باقی کیوں رکھا گیا۔ یہاں بجلی اور پانی کی فراہمی کیوں کی گئی، انہیں آدھار کارڈ اور ووٹنگ کارڈ کیوں فراہم کیا گیا اور ان سے انتخابات کے وقت ووٹ کیوں لیے گئے۔ اگر یہ بستی غیر قانونی تھی، یہاں رہنے والے باشندے غیر قانونی طریقے سے یہاں آباد تھے تو ان کا ووٹ کیسے قانونی ہو گیا۔ اگر ان کا ووٹ غیر قانونی ٹھہرتا ہے تو پھر جن امیدواروں کو انہوں نے ووٹ دیا تو ان کی جیت اور ہار بھی غیر قانونی ہوئی؟ ایسی صورت میں اس علاقے کے اسمبلی، میونسپل کارپوریشن اور پارلیمنٹ کے انتخابات پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے اور ‘رائٹ ٹو ری کال’ کو عملی جامہ پہنانے کے متعلق بھی غور کیا جانا چاہیے۔ اسی لیے یہاں کے سماجی کارکنان لمبے عرصے سے ‘رائٹ ٹو ری کال’ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
***
سوال یہ ہے کہ بھاؤ نگر چودہ نالا کے مکینوں کو اپنی جگہ بچانے یا اس کے عوض متبادل جگہ کی حصول یابی کے لیے اتنی جدوجہد کیوں کرنی پڑ رہی ہے۔ اگر یہ بستی غیر قانونی تھی تو اسے اتنے برسوں تک باقی کیوں رکھا گیا۔ یہاں بجلی اور پانی کی فراہمی کیوں کی گئی، انہیں آدھار کارڈ اور ووٹنگ کارڈ کیوں فراہم کیا گیا اور ان سے انتخابات کے وقت ووٹ کیوں لیے گئے۔ اگر یہ بستی غیر قانونی تھی، یہاں رہنے والے باشندے غیر قانونی طریقے سے یہاں آباد تھے تو ان کا ووٹ کیسے قانونی ہو گیا۔ اگر ان کا ووٹ غیر قانونی ٹھہرتا ہے تو پھر جن امیدواروں کو انہوں نے ووٹ دیا تو ان کی جیت اور ہار بھی غیر قانونی ہوئی؟ ایسی صورت میں اس علاقے کے اسمبلی، میونسپل کارپوریشن اور پارلیمنٹ کے انتخابات پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے اور ’رائٹ ٹو ری کال‘ کو عملی جامہ پہنانے کے متعلق بھی غور کیا جانا چاہیے۔ اسی لیے یہاں کے سماجی کارکنان لمبے عرصے سے ’رائٹ ٹو ری کال‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جولائی تا 08 جولائی 2023