گجرات میں ریاستی سطح کی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد

علم کےمعنی معلومات کی ترسیل نہیں بلکہ شخصیت کی تبدیلی ہے : سید تنویر احمد

احمد آباد(دعوت نیوز ڈیسک)

قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے بہتر پہلو قابل تعریف مگر اقلیتوں کے خدشات بھی ختم کیے جائیں
"یہ حقیقت ہے کہ آج امت مسلمہ اپنی تابناک تاریخ کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے مگر خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ کل وہ نیچے کی طرف گامزن تھی اور آج وہ اونچائی کی جانب پیش رفت کر رہی ہے ۔” ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی ہند گجرات حلقہ کے امیر ڈاکٹر محمد سلیم پٹی والا نے فیڈریشن آف مسلم ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنز (FEMII) اور مرکزی تعلیمی بورڈ گجرات چیپٹر کی جانب سے ہوٹل ریویرا سروور پورٹیکو (Rivera Sarover portico )، احمد آباد میں ایک ریاستی سطح کی تعلیمی کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کیا۔
کانفرنس کا مرکزی موضوع ‘مسلم تعلیمی اداروں کو درپیش چیلنجز اور مستقبل کی حکمت عملی’ رکھا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں گجرات کے مختلف اضلاع سے مشہور و معروف مسلم اقلیتی تعلیمی اداروں کے منتظمین اور عہدیداروں کے ساتھ ساتھ مدارس اسلامیہ کے منتظمین نیز علم و تعلیم سے وابستہ تقریباً 400 مندوبین نے شرکت کی۔ ملک کے مختلف ماہرین تعلیم اور اسکالروں نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔
کانفرنس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ استقبالیہ کلمات کے بعد مرکزی تعلیمی بورڈ ، گجرات چیپٹر کے صدر ڈاکٹر افتخار ملک نے کانفرنس کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مسلم معاشرے میں تعلیم کے میدان میں تبدیلی کے نقطہ نظر سے بہت زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے البتہ تشویش یہ پائی جاتی ہے کہ یہ کام کس طرح انجام پائے۔ اس مقصد کے لیے ایک عرصے سےکوششیں جاری ہیں لیکن متوقع کامیابی نہیں مل سکی۔ چنانچہ آج ریاست بھر سے تعلیم کے شعبوں سے وابستہ مختلف ذمہ داروں اور مفکرین کو اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے تاکہ سب لوگ سر جوڑ کر اس کے تعلق سے غور و فکر کریں۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کے آئین اور پالیسیوں کو بھی سمجھنا ہوگا اور اس میں سے اپنے لیے راستے نکالنے ہوں گے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
پہلے سیشن کے آغاز میں پروفیسراختر الواسع (سابق VC، MANUU، جودھپور) اور ناظم تعلیمات، دارالعلوم امام ربانی، نیرل، مہاراشٹر جناب مجیب الرحمن عتیق ندوی نے اسلام میں تعلیم کی اہمیت کو بیان کیا اور کہا کہ مذہبی اور دنیوی تعلیم کی دوئی کو مٹانے اور اس تفریق کو کم کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ طلباء جامع تعلیم حاصل کر سکیں۔
ٹرسٹی، مرکزی تعلیمی بورڈ جناب مجتبیٰ فاروق نے اقلیتی تعلیمی اداروں کے تئیں حکومت کی معاندانہ پالیسیوں کی تفصیلی وضاحت کی۔ انہوں نے مدارس کے ساتھ حکومت کے نازیبا رویے کی مذمت کی۔ انہوں نے مسلم معاشرے کے افراد سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ تعلیم کے حوالے سے اپنے آئینی حقوق کو سمجھیں اور اس کے مطابق ترقی کی راہیں تلاش کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مشنری قوم بننا ہوگا اور ہندوستان کی دیگر برادریوں کو اسلامی تعلیمی و تربیتی نظام سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری بھی نبھانی ہوگی۔
پہلے سیشن کے صدر جماعت اسلامی ہند کے نیشنل سکریٹری ڈاکٹر محی الدین غازی نے تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مدارس جدید دور سے اپنے کو ہم آہنگ نہیں کر پا رہے اور جدید علوم سے منسلک نہیں ہو پا رہے ہیں جبکہ ہمارا مشن بنی نوع انسان کی رہنمائی کرنا ہے اور اس کے لیے ہمیں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم حاصل کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی دین کی بنیادی روایتی تعلیمات کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا مدارس کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنا نصاب تیار کرنا ہوگا۔
دوسرے سیشن کے آغاز میں منعقدہ پینل ڈسکشن میں قومی تعلیمی پالیسی (NEP 2020 )کے اثرات بالخصوص اقلیتی اداروں پر پڑنے والے اثرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس بحث میں ماہرین تعلیم اور سماجی رہنماؤں نے شرکت کی، جن میں زبیر گوپلانی صاحب (ڈائریکٹر، حنیفہ اسکول اینڈ ٹرسٹی، اسلامک اسٹڈی سنٹر) افضل میمن صاحب (صدر، گجرات ساروجنک ویلفیئر ٹرسٹ) پروفیسر ڈاکٹر عقیل علی سید (وائس چانسلر، جی ایم وستانوی یونیورسٹی (مجوزہ) مفتی ساجد بیلم فلاحی (صدر، سٹریٹ پاتھ فاؤنڈیشن) اور شکیل احمد راجپوت (صدر، ریڈیئنس ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ) شامل تھے۔ پینل ڈسکشن سے یہ بات ابھر کر آئی کہ NEP میں کچھ مثبت پہلو ہیں، لیکن اقلیتوں کے لیے بہت سے خدشات بھی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو اقلیتی برادریوں کے ساتھ مل کر ان خدشات کو دور کرنا چاہیے اور NEP کے نفاذ میں ان کی ضروریات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر بلال سیٹھ اور ڈاکٹر یاسر عمر نے بحسن و خوبی اس پینل ڈسکشن کو چلایا۔ ڈاکٹر سید ظفر محمود (ریٹائرڈ آئی آر ایس اور صدر، زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف
انڈیا) نے مسلم کمیونٹی میں تعلیم کے میدان میں دستیاب وسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم تعلیمی اداروں کے عہدیداروں کو بیوروکریسی میں مسلمانوں کی شرکت بڑھانے کے لیے طلبا کو تیار کرنے پر زور دینا چاہیے۔ انتظامیہ اور مقننہ کے ساتھ ساتھ دیگر انتظامی عہدوں پر بھی مسلمانوں کی شمولیت کو بڑھانے کے لیے تیاریاں کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مسجد، کمیونٹی ہال جیسی جگہوں کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تاکہ انہیں تعلیم کے شعبے میں استعمال کیا جا سکے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر (چیئرمین، شاہین فاؤنڈیشن، کرناٹک) نے موجودہ اداروں کے منتظمین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ایک چھوٹے سے کلاس روم سے شروع ہونے والا سفر شاہین فاؤنڈیشن جیسے بڑے برگد کے درخت میں تبدیل ہوا۔ ان کا فاؤنڈیشن اب تک کئی طلبا کو میڈیکل کے شعبے میں سرکاری کالجوں میں داخلہ دلاچکا ہے۔ انہوں نے مسلم کمیونٹی کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ غیر ضروری اخراجات سے گریز کریں اور تعلیم کے شعبے میں زیادہ خرچ کریں۔
جناب سید تنویر احمدسکریٹری جماعت اسلامی ہند نے صدارتی خطاب میں کہا کہ تعلیم کے معنی اور اس کا مقصد معلومات کی ترسیل نہیں بلکہ شخصیت کی تبدیلی ہے۔ انہوں نے تعلیم کے ہمہ جہتی نقطہ نظر پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیمی اداروں کو پیشہ وارانہ انداز اپنانا ہوگا۔ انہوں نے اداروں کی انتظامیہ، اساتذہ، والدین اور طلباء کو مختلف مفید اور اختراعی مشوروں سے نوازا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومتی پالیسیوں کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مسلم ماہرین تعلیم کو تیار کرنا ہوگا اور ان کو آگے بڑھانا ہوگا۔ مسلم سماج میں تعلیم کے حقیقی پھیلاؤ کے لیے سماج کے مختلف ذمہ داروں کو مکمل تعاون اور باہم مربوط طریقے سے کام کرنا ہوگا۔
اس تعلیمی کانفرنس میں اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیمی اداروں کی طرف سے مولانا آزاد پری میٹرک اسکالرشپ کو دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
کانفرنس کے دوران معروف ایڈووکیٹ جناب طاہر حکیم کو FEMII (فیڈریشن آف مسلم ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنز)، گجرات چیپٹر کے مختلف قانونی کاموں میں تعاون کرنے پر مومنٹو پیش گیا اورشال پوشی کی گئی۔
کانفرنس کے اختتام پر کنوینرجناب ارشد حسین شیخ کی جانب سے کانفرنس کی قرارداد پیش کی گئی۔ جناب واصف حسین شیخ، سکریٹری حلقہ، جماعت اسلامی ہند، گجرات نے مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
کانفرنس کے شرکاء نے بڑے اچھے تاثرات کا اظہار کیا اور اس سلسلے کہ جاری رکھنے اور آئندہ بھی اس طرح کے پروگرام کے انعقاد کی خواہش کی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024