گجرات میں مسلمانوں کومذہب کی بنیاد پر مقامی علیحدگی کا سامنا؟

کیابھارت اس بات پر فخر کرے گا کہ مسلم اقلیت سے وہی سلوک ہوجو ماقبل مسیحی یورپ میں یہودیوں کے ساتھ کیا گیا تھا؟

سید خلیق احمد

وزیراعظم نریندر مودی جب اٹلی میں تقریر کر رہے تھے، جس میں انہوں نے کہا کہ بھارت کے انتخابی نتائج ’’جمہوری دنیا کی فتح‘‘ ہیں، ہرنی کے علاقے میں موتناتھ ریزیڈنسی کوآپریٹو ہاؤسنگ سروسز سوسائٹی لمیٹڈ کے تقریباً تین درجن باشندے ایک مسلمان عورت کو فلیٹ الاٹ کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ یہ فلیٹس سماج کو وڈودرا میونسپل کارپوریشن (VMC) نے کم آمدنی والے گروپ کے لوگوں کے لیے مکھیہ منتری آواس یوجنا کے تحت تیار کیے گئے تھے۔ 44 سالہ مسلم خاتون، جو وزارت صنعت و تجارت اور فروغ ہنر مندی کے تحت ملازم ہے، اسے قرعہ اندازی کے عمل کے ذریعے اس ہاؤسنگ کمپلیکس میں ایک اپارٹمنٹ الاٹ کیا گیا تھا جس کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ مظاہرین مطالبہ کر رہے تھے کہ مسلم خاتون کو دی گئی الاٹمنٹ کو اس بنیاد پر منسوخ کیا جائے کہ وہ دوسرے رہائشیوں کے لیے ممکنہ ’’خطرہ اور پریشانی‘‘ کا باعث بن سکتی ہے۔ سوسائٹی میں کل 461 فلیٹس ہیں اور مذکورہ خاتون پورے ہاؤسنگ کمپلیکس میں واحد مسلم الاٹی ہے۔
مظاہرین اس قدر حوصلہ مند تھے کہ انہوں نے وڈوڈرا کے ضلع کلکٹر، VMC میونسپل کمشنر، VMC میئر اور وڈوڈرا پولیس کمشنر کو تحریری طور پر کہا ہے کہ اس خاتون کی الاٹمنٹ کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیا جائے اور اسے کسی دیگر ہاؤسنگ سوسائٹی میں مکان الاٹ کیا جائے۔ ہندو مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہرنی ایک ہندو اکثریتی علاقہ ہے اور تقریباً چار کلومیٹر کے دائرے میں کوئی مسلم آباد نہیں ہے اور اس کمپلیکس میں اس کی موجودگی سے وہاں کے رہائشیوں کی پرامن زندگی متاثر ہو گی۔ ان کا مشورہ ہے کہ شہر کے مسلم اکثریتی علاقے میں مسلم خاتون کو اختیار دیا جانا چاہیے۔
وی ایم سی حکام نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ خاتون کو مناسب قانونی عمل کے ذریعے مکان الاٹ کیا گیا تھا جو مذہب، نسل، ذات یا برادری کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا فیصلہ دونوں فریقین کے درمیان بات چیت یا مجاز عدالتوں کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ یہ ریاستی حکومت کی کمزوری نظر آتی ہے۔ مظاہرین کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کے بجائے، وہ چاہتی ہے کہ مسلم خاتون خود اس کا مقابلہ کرے۔
اگرچہ مظاہرین جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان آئینی دفعات کی خلاف ورزی ہے جو ایک ہندوستانی شہری کو حکومت کی طرف سے ممنوعہ علاقوں کے علاوہ ہندوستان میں کہیں بھی رہنے اور آباد ہونے کی اجازت دیتی ہے لیکن ایک خاص سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے لیڈروں، بالخصوص مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے پچھلے دس سالوں میں ملک میں ایسا مسلم مخالف ماحول بنایا ہے جس کے نتیجے میں مظاہرین ایک مسلم خاتون کو ہندو محلے میں رہنے کی مخالفت کرنے کی اکساہٹ محسوس کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حال ہی میں ختم ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں، وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پارٹی کے امیدواروں کے حق میں ہندو ووٹروں کو پولرائز کرنے کے مقصد سے 19؍ اپریل سے یکم؍ جون تک اپنی انتخابی مہموں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی زبان استعمال کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندوؤں نے اس کھیل کو سمجھ لیا اور اپنی پارٹی کے امیدواروں کے خلاف ووٹ دیا جس کی وجہ سے انہیں حکومت بنانے کے لیے تلگو دیشم پارٹی اور جنتا دل (یونائیٹڈ) کی حمایت لینی پڑی۔
لیکن مودی اور ان کی پارٹی ورکروں نے مسلمانوں کے خلاف بار بار جو باتیں کہیں اس کا یقینی طور پر ہندوؤں کے ایک طبقے کی نفسیات پر مجموعی اثر پڑا، خاص طور پر بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ بنیاد پرست عناصر ہی شاید چھتیس گڑھ اور کچھ دیگر مقامات پر لوک سبھا انتخابات کے اختتام کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد کے ذمہ دار ثابت ہوئے اور اب ایک مسلم خاتون سرکاری ملازم کے خلاف جسے ایک ہندو محلے میں ہاؤسنگ یونٹ الاٹ کیا گیا ہے، اس خے خلاف احتجاج بھی اسی کا اثر ہے۔
وڈودرا مودی کی آبائی ریاست گجرات کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ مودی وزیر اعظم کے طور پر دہلی منتقل ہونے سے پہلے 2001 سے مئی 2014 تک گجرات کے وزیر اعلی تھے۔ یہ ان کا ہی دور تھا جب گجرات نے فروری۔مارچ 2022میں ہندوستان کے بدترین فرقہ وارانہ فسادات کا مشاہدہ کیا جس میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری سمیت تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
وڈودرا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2015میں فتح گنج کے اعلیٰ ترین علاقے سے بے گھر ہونے والے مسلمانوں کو ہندی اکثریتی علاقوں میں حکومت کی طرف سے تیار کردہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہاؤسنگ یونٹس دینے سے بھی انکار کر دیا گیا تھا۔
احمد آباد میں 1986کے فرقہ وارانہ تصادم کے بعد، اس وقت کی گجرات حکومت نے خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں مکانات اور جائیدادوں کی فروخت کو روکنے کے لیے ڈسٹربڈ ایریاز آرڈیننس لایا تھا۔
آرڈیننس کے تحت متاثرہ علاقوں میں جائیداد کے مالکین ضلع کلکٹر کی اجازت کے بغیر اپنی جائیدادیں فروخت نہیں کر سکتے تھے۔ اگرچہ یہ خیال اچھا تھا، لیکن عام طور پر اس کا استعمال اس وقت کیا جاتا تھا جب کوئی مسلمان مسلم اکثریتی علاقے میں کسی ہندو مالک سے جائیداد خریدنا چاہتا تھا۔ آرڈیننس کی دفعات کو ہندوؤں کے علاقوں میں بھی استعمال کیا جاتا تھا یہاں تک کہ جب یہ ڈسٹربڈ ایریا کا حصہ نہیں تھا اگر کچھ ہندو کسی مسلمان کے ذریعہ جائیداد خریدنے کی مخالفت کرتے تھے۔ وہ آرڈیننس جسے 1991 میں مستقل قانون سازی میں تبدیل کیا گیا تھا اور وقتاً فوقتاً اس میں ترمیم کی گئی تھی، مخلوط علاقوں میں مسلمانوں کی مقامی توسیع اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ماقبل مسیح یورپ میں ’’یہودی بستیوں‘‘ کی طرز پر ’’مسلم بستیوں‘‘ کی نشوونما ہوئی ہے۔ ماقبل مسیح یورپ میں قانون کے مطابق یہودیوں کو مخلوط بستیوں میں رہنے کی اجازت نہیں تھی اور ان کے لیے واحد جگہ دیواروں والے شہروں یا علاقوں سے باہر تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرکزی دھارے میں شامل یورپی کمیونٹیوں کے ’’قدیم غیر مہذب‘‘ کلچر کو گجرات میں دہرایا جا رہا ہے۔
کیا ہم مذہب کی بنیاد پر علیحدگی کے اس کلچر پر فخر محسوس کریں گے جیسا کہ یہودیوں کے ساتھ ما قبل مسیحی یورپ میں کیا گیا تھا؟۔
(بشکریہ: انڈیا ٹوماروڈاٹ نیٹ)

 

***

 اگرچہ مظاہرین جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان آئینی دفعات کی خلاف ورزی ہے جو ایک ہندوستانی شہری کو حکومت کی طرف سے ممنوعہ علاقوں کے علاوہ ہندوستان میں کہیں بھی رہنے اور آباد ہونے کی اجازت دیتی ہے لیکن ایک خاص سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے لیڈروں، بالخصوص مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے پچھلے دس سالوں میں ملک میں ایسا مسلم مخالف ماحول بنایا ہے جس کے نتیجے میں مظاہرین ایک مسلم خاتون کو ہندو محلے میں رہنے کی مخالفت کرنے کی اکساہٹ محسوس کرتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024