گجرات میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات نشانے پر کیوں ہیں؟
غیر قانونی تعمیرات کے نام پر800سالہ قدیم مزارات کا انہدام۔سپریم کور ٹ کی ہدایات کی کھلے عام خلاف ورزی
نوراللہ جاوید، کولکاتا
وقف ترمیمی ایکٹ 2024، غیر رجسٹرڈ وقف جائدادوں کے لئے سنگین خطرہ
گجرات کے پربھاس پٹن میں سومناتھ مندر کی زمین پر قبضہ کے خلاف کارروائی کے نام پر عدالتی احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے 28ستمبر کو گجرات حکومت نے درجنوں مکانات اور 8سے زائد مزارات بشمول 800سالہ قدیم پیر حاجی مینگولی شاہ کے مقبرے کو منہدم کردیا ہے۔ اس کونئے وقف ترامیم بل کے تناظر میں ’’ویک اپ کال ‘‘ کے طور پر دیکھنا چاہیے ۔کیوں کہ وقف (ترمیمی) بل 2024 میں ’صارف کے ذریعہ وقف‘اور سروے سے متعلق کئی اہم ترامیم کی گئی ہیں۔اگر یہ بل پاس ہوجاتا ہے تو ایسے قبرستان ، مزارات اور مسلم ادارے جو وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہیں ان پرحکومت آسانی سے قبضہ کرسکتی ہے۔وقف املاک ایکٹ 1954 اور وقف ایکٹ 1995 میں وقف املاک کا سروے لازمی قرار دیا گیا تھا۔المیہ یہ ہے کہ 75برس بعد بھی وقف کی تمام جائیدادوں کا سروے نہیں کرایا گیا ہے۔اس کی وجہ سے بہت سی وقف جائیدایں نامعلوم اور غیر ریکارڈ شدہ رہ گئی ہیں۔اب اگر وقف ایکٹ 2024قانون کا درجہ حاصل کرلے گا تو سروے کاکام مزید التوا کا شکار ہوجائے گا اس کی وجہ سے وقف املاک کی شناخت اور تحفظ کو مزید خطرہ لاحق ہوجائے گا۔اس لیے نئے وقف ترمیمی ایکٹ کی مخالفت انتہائی ضروری ہے۔یہ نوشتہ دیوار ہے کہ نئےوقف ترمیمی ایکٹ 2024کے بعد حکومتوں کے لیے وقف جائیداد پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے گا۔
انگریزی ویب سائٹ ‘indiatomorrow.net’ پر بھاس پٹن، سومناتھ، ویراول میں حالیہ انہدامی کارروائی پر "Massive Demolition at Somnath Violates Waqf Act Provision, Threatens Muslim Waqf Properties Nationwide”
کے عنوان سے شائع ہونے والی اسٹوری میں گجرات میں جاری انہدامی کارروائی اور گجرات حکومت کے ذریعے کی جانے والی انہدامی کارروائی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح عدالتی احکامات اور ماضی کے ریکارڈ کو نظرانداز کرتے ہوئے انہدام کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے 17 ستمبر کو "بلڈوزر کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف تعزیری اقدامات” پر سخت سوالات اٹھاتے ہوئے یکم اکتوبر تک عدالت کی اجازت کے بغیر انہدامی کارروائی پر روک لگا دی تھی، تاہم غیر قانونی تجاوزات، بالخصوص سرکاری جائیداد پر غیر قانونی تعمیرات کے انہدام کی اجازت برقرار رکھی گئی۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات اور سخت تبصروں کا بیشتر حلقوں نے خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ "سپریم کورٹ کے سخت تبصرے حکم رانوں کے لیے تنبیہ ثابت ہوں گے۔”مگر ضد، انا اور طاقت کے نشے میں اندھے حکم رانوں نے سپریم کورٹ کی ہدایات کا احترام اور اس کی پاسداری کرنے کے بجائے کھلے عام خلاف ورزی کی، جس کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ان کا جذبہ انتقام اتنی آسانی سے سرد ہونے والا نہیں ہے۔آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے جو مسلم مخالف بیانات اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے، سپریم کورٹ کی ہدایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے گوہاٹی سے متصل ضلع میں مسلمانوں کے مکانات گرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ آسام کے مسلمانوں نے عدالت سے رجوع کیا جس پر سپریم کورٹ نے انہدامی کارروائی پر روک لگا دی اور توہینِ عدالت کے نوٹس پر تین ہفتے کے اندر جواب طلب کیا ہے۔اسی دوران گجرات حکومت نے عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باوجود درجنوں مکانات اور آٹھ سے زائد مزارات کو جن میں کئی تاریخی مزار بھی شامل ہیں، منہدم کر دیا۔
انہدامی کارروائی میں پیر حاجی مینگولی شاہ کے 800 سال قدیم مقبرے کو اس بنیاد پر منہدم کر دیا گیا کہ 1947 سے ریونیو ریکارڈ میں زمین کی ریکارڈنگ غلط تھی اور اسے درست کرنے کی ضرورت تھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ریکارڈنگ 75 سال تک برقرار رہی۔ یہ مزار حضرت مائی پوری مسجد کے قریب واقع ہے۔ پیر حاجی مینگولی شاہ کا اصل نام خواجہ ابوالحسن بغدادی ہے جو بغداد سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ تاریخی کتابوں کے مطابق خواجہ غریب نواز کے بھارت آمد سے قبل ہی خواجہ ابوالحسن بغدادی بھارت تشریف لا چکے تھے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر گجرات کی بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود سومناتھ کے قریب ان تاریخی عمارتوں اور مسلمانوں کی آبادیوں کو منہدم کرنے کی اتنی جلدی کیوں کی؟ جبکہ پیر حاجی مینگولی شاہ کی درگاہ کا معاملہ گجرات ہائی کورٹ میں زیر غور تھا اور حاجی مینگولی شاہ کی درگاہ ریاست جوناگڑھ کے ریونیو ریکارڈ میں 1924 سے درج ہے۔گجرات میں 1400 سے زائد مذہبی عمارتیں، جن میں مندر، مسجد اور چرچ شامل ہیں، مبینہ طور پر سرکاری جائیداد پر تعمیر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ان میں سے 1200 ہندو مذہبی عمارتیں شامل ہیں تو سوال یہ ہے کہ صرف مسلمانوں کی مذہبی عمارتوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟تیسری اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ ایک طرف بلڈوزر کے نام پر تعزیری کارروائیوں کے خلاف سختی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس بات کا اعادہ کر رہی ہے کہ ایک گائیڈ لائن دی جائے گی جو ملک کے تمام حصوں میں یکساں طور پر نافذ ہوگی۔ عدالت نے یہ بھی یاد دہانی کرائی کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ تفریق نہیں کی جا سکتی۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے یہ بھی کہا کہ اگر دو غیر قانونی عمارتوں میں سے ایک کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور دوسری کو منہدم کر دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔اتنے سخت تبصروں کے باوجود گجرات میں انہدامی کارروائیوں کے سلسلے پر روک کیوں نہیں لگائی گئی؟ اگرچہ سپریم کورٹ نے پتنی مسلم جماعت کی درخواست پر کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ فیصلوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو وہ نہ صرف ان جگہوں کو بحال کریں گے بلکہ ملوث افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انہدامی کارروائی غیر قانونی تھی، تاریخی مزارات حکومت یا سومناتھ ٹرسٹ کی زمین پر تعمیر نہیں ہوئے تھے، اور ان مزارات کے پاس درست دستاویزات ہیں تو کیا سپریم کورٹ ان مزارات کی دوبارہ تعمیر کرائے گی؟
تاریخی مزارات کی انہدامی کارروائی اور سومناتھ ٹرسٹ کی زمین کا قضیہ
پربھاس پٹن میں جاری انہدامی کارروائی کو جائز قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قبرستان اور مزارات سرکاری زمین پر تعمیر ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 800 سال پرانے مزار کی زمین سرکاری کیسے ہو سکتی ہے؟ قبرستان کی زمین کو سرکاری ریکارڈ میں حکومتی جائیداد کے طور پر درج کیا گیا ہے، مگر اس دعوے کی حقیقت کے بارے میں انڈیا ٹومارو نے اپنے آرٹیکل میں نشاندہی کی ہے۔آرٹیکل کے مطابق برطانوی دور، شاہی ریاستوں اور دیگر حکم رانوں، یہاں تک کہ انگریزی استعمار سے قبل کی حکومتوں نے اپنی رعایا کو عوامی استعمال کے لیے زمینیں الاٹ کی تھیں جن میں اپنے مرنے والوں کی تجہیز و تدفین کی جاتی تھی۔ ان زمینوں کو "انام” کہا جاتا تھا۔ 1947 میں آزادی کے بعد ان زمینوں کی مرکزی حکومت اور متعلقہ ریاستی حکومتوں کے ذریعے "سرکاری زمین” کے طور پر درجہ بندی کی گئی۔ اس کے باوجود ان قبرستانوں کو متعلقہ کمیونٹی اپنے مردوں کی تجہیز و تدفین کے لیے استعمال کرتی رہی۔75 برسوں تک کسی بھی حکومت نے ان قبرستانوں کو خالی کرانے کی کوشش نہیں کی، لیکن اب اچانک ان زمینوں کو سرکاری جائیداد کے طور پر قرار دے کر انہدامی کارروائی کی جا رہی ہے؟
پربھاس پٹن، سومناتھ اور ویراول میں انہدامی کارروائی اور اس کا تاریخی پس منظر
1895 میں مسلمانوں کی تدفین پر تنازعات کے بعد جوناگڑھ کے نواب نے جے ایم ہنٹر کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر 1903 میں مسلم کمیونٹی کے لیے تدفین کی زمینیں مختص کی گئیں، جن کا باقاعدہ دستاویزات میں ذکر موجود ہے۔ ان زمینوں پر کئی درگاہیں اور مقبرے تعمیر ہیں، جن میں سے کم از کم تین درگاہوں کو محفوظ یادگار کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ ان مقبروں کی تاریخی اہمیت اور وہاں مدفون معزز شخصیات مختلف تاریخی دستاویزات میں درج ہیں۔آزادی سے قبل 1947 میں کیے گئے سروے میں کم از کم نو ایسے مذہبی ڈھانچوں کی نشاندہی کی گئی تھی اور ان کے قبضے کو پراپرٹی ریکارڈ اور ریونیو ریکارڈ میں درج کیا گیا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سومناتھ ٹرسٹ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ قبرستان اور مزارات ٹرسٹ کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے بنائے گئے تھے جبکہ سومناتھ مندر ٹرسٹ کا قیام 1955 میں عمل میں آیا تھا۔ ریاستی حکومت نے مسلمانوں کے علم میں لائے بغیر مسلم قبرستان کی زمین کا کچھ حصہ سومناتھ ٹرسٹ کے نام کر دیا، اس کے باوجود مسلمانوں کی تدفین کا سلسلہ جاری رہا۔اس معاملے میں حکومت کا رویہ سمجھنے کے لیے یہ حقیقت کافی ہے کہ سومناتھ ٹرسٹ کے لیے یہ زمین 1955 میں باقاعدہ الاٹ کی گئی تھی مگر حیرت انگیز طور پر اس زمین کی ملکیت کی رسید 1951 میں ہی بنا دی گئی تھی۔ انڈیا ٹومارو میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، اس کے بعد ٹرسٹ نے زمین کے ایک حصے پر تعمیرات کر لیں، اور یوں یہ تنازع شروع ہو گیا۔اس وقت یہ معاملہ ریونیو انتظامیہ، سِول کورٹ، وقف ٹریبونل اور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جاری قانونی چارہ جوئی کے دوران ریونیو اتھارٹی، خصوصاً کلکٹر نے 5 اور 12 ستمبر 2024 کو انہدامی کارروائی کا آغاز کیا۔ یہ کارروائیاں اس بنیاد پر کی گئیں کہ 1947 سے ریونیو ریکارڈ میں زمین کی ریکارڈنگ غلط کی گئی تھی اور اس کی درستگی ضروری تھی، حالانکہ یہ ریکارڈنگ 75 سال تک برقرار رہی۔یہ کارروائی 17 ستمبر 2024 کو سماعت کے لیے مقرر تھ لیکن بعد میں اسے 27 ستمبر 2024 تک ملتوی کر دیا گیا تاکہ قبرستان اور اس سے منسلک مذہبی ڈھانچوں کے منتظمین کو دستاویزات حاصل کرنے اور جمع کرانے کا وقت مل سکے۔ 75 سال بعد 27 ستمبر کی سماعت میں انہدامی کارروائی پر کوئی بات نہیں ہوئی اور التوا کی درخواست کو نہ تو مسترد کیا گیا اور نہ ہی کارروائی کی حیثیت سے متعلق کوئی حکم جاری کیا گیا لیکن 28 اگست کو پولیس فورس، انتظامی عملہ، اور بلڈوزر کی مدد سے مزارات اور قبرستان کو منہدم کر دیا گیا جس نے اس تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
گجرات میں عبادت گاہوں کو درپیش مسائل
گجرات میں مذہبی مقامات کی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کا معاملہ 18 سال پرانا ہے۔ 2006 میں پہلی بار انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا میں ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ گجرات بھر میں سرکاری زمین یا سڑک پر 1400 سے زائد مذہبی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں جن میں سے تقریباً 1200 ہندوؤں کی اور 200 مسلمانوں کی ہیں۔ اس رپورٹ پر گجرات ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اور 2 مئی 2006 کو حکومت کو تمام غیر قانونی مذہبی عمارتوں کو منہدم کرنے کی ہدایت جاری کی۔بظاہر ایک ساتھ 1400 مذہبی عمارتوں کی انہدامی کارروائی کچھ اور غلط رخ اختیار کر سکتی تھی۔ چنانچہ اس وقت گجرات ہائی کورٹ کی ہدایت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 4 مئی 2006 کو اس پر روک لگا دی تھی۔ اس نے گجرات کے علاوہ تمام ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ وہ سڑک یا سرکاری جائیداد پر تعمیر شدہ مذہبی عمارتوں سے متعلق اپنی پالیسی واضح کریں اور یہ وضاحت کریں کہ حکومت کس طرح سرکاری جائیداد سے ان عمارتوں کو خالی کروائے گی۔ ایڈووکیٹ حکیم محمد طاہر کے مطابق سپریم کورٹ کے اس نوٹس پر گجرات حکومت سمیت مختلف ریاستی حکومتوں نے جواب داخل کیے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے ایک گائیڈ لائن جاری کی جس میں کہا گیا کہ سرکاری جائیداد پر غیر قانونی طور پر تعمیر مذہبی عمارتوں کو یک طرفہ طور پر ہٹانے کے بجائے ہر ایک عمارت کے معاملات کو الگ الگ دیکھا جائے اور اس کی ملکیت اور زمین کے دستاویزات کی جانچ کی جائے۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ہر معاملے کو کیس ٹو کیس دیکھا جائے گا جس کے لیے تین طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں: اگر کسی مذہبی عمارت سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا تو اسے ریگولائز کیا جا سکتا ہے۔ اگر ریگولائز کرنے میں دشواری ہے تو اس عمارت کو منتقل کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اگر پہلی دونوں صورتیں ممکن نہیں ہیں تو ان عمارتوں کو ہٹا دیا جانا چاہیے۔ ایڈووکیٹ حکیم محمد طاہر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس طرح کی ہدایت 2010 میں اور پھر 2019 میں بھی جاری کی تھی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کو گجرات ہائی کورٹ کے سپرد کیا تاکہ ہائی کورٹ یہ طے کرے کہ کون سی عمارت غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہے۔گجرات ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے 6 فروری 2024 کو گجرات حکومت سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کی اتنی ساری ہدایتوں کے باوجود آپ نے غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ 22 اپریل 2024 کو گجرات ہائی کورٹ نے حکومت کو 22 جولائی 2024 کا وقت دیا کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کریں۔ ایڈووکیٹ حکیم محمد طاہر کے مطابق 22 جولائی سے ایک ہفتہ یا دو ہفتے قبل تک گجرات حکومت نے مذہبی عمارتوں کو نوٹس دینا شروع کر دیا۔ 2 اکتوبر کو گجرات ہائی کورٹ میں حکومت نے عدالت کو بتایا کہ اس نے تمام 604 غیر قانونی مذہبی عمارتوں کو ختم کر دیا ہے۔
حکیم محمد طاہر کہتے ہیں کہ پربھاس پٹن میں کئی قدیم مزارات بشمول حاجی منگرولیشا درگاہ، شاہ سلار درگاہ، غریب شاہ درگاہ اور جعفر مظفر درگاہ کی مسماری غیر قانونی ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے اپنے ہدایت میں مکمل طور پر منہدم کرنے کی ہدایت نہیں دی تھی بلکہ تین طریقوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کی ہدایت دی تھی۔ حکیم محمد طاہر ایک اہم چیز کی طرف روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مساجد، مدارس اور درگاہوں کے کاغذات کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں منتقل کرنے سے متعلق کہا ہے۔ اگر حکومت ہمارے اداروں کو منتقل کرنے کے لیے کہتی ہے تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ مساجد اور دیگر مذہبی عمارتوں کو منتقل کرنے سے متعلق مسلمانوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ درگاہیں مساجد وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہیں تو انہیں تحفظ فراہم کرنے اور قانونی مدد پہنچانے کی اولین ذمہ داری وقف بورڈ کی ہے۔ ’’شری سومناتھ ٹرسٹ‘‘ کی سربراہی وزیر اعظم نریندر مودی کرتے ہیں، اس کے ٹرسٹیوں میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی شامل ہیں۔ سومناتھ کے آس پاس کے علاقے کی تزئین کاری کا کام جاری ہے۔ سومناتھ ٹرسٹ کس قدر بااثر ادارہ ہے، اس کا اندازہ اس کے ٹرسٹیوں میں شامل افراد سے کیا جا سکتا ہے، چونکہ اس ٹرسٹ سے وزارت عظمیٰ پر فائز شخص وابستہ ہے۔ وزیر داخلہ جیسا بااختیار شخص اس کے ٹرسٹی میں شامل ہے، اس لیے ایسے ادارے کے لیے دوسری مذہبی عمارتوں کی انہدامی کارروائی میں احتیاط برتنے کی ضرورت تھی۔ ملکیت کے مقدمات میں شفافیت لانا حکومت کی ذمہ داری تھی تاکہ مستقبل میں کوئی سوال نہ کھڑا کر دے کہ چونکہ اس ٹرسٹ سے وزیر اعظم وابستہ ہیں اس لیے مندر کی تزئین کے لیے ملک کی اقلیتوں کے مذہبی عمارتوں کو توڑنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی گئی۔ عہدہ اور اختیارات کے غلط استعمال کا معاملہ بھی بن سکتا ہے۔ احتیاط، شفافیت اور قانون کی حکم رانی کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر اس مندر کے لیے سب سے بڑی انہدامی کارروائی کی گئی۔ سیکڑوں پولیس والوں کی موجودگی میں ایک ساتھ نو مزارات اور مساجد سمیت سیکڑوں مکانات کو منہدم کردیا گیا۔ ضلع کلکٹر کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ جب ملکیت کا معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے تو پھر انہدامی کارروائی کے لیے اتنی جلد بازی کیوں کی گئی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس انہدامی کارروائی کے پیچھے اس ٹرسٹ میں شامل بااثر افراد کے اشارے تو شامل نہیں ہیں؟ گجرات ہائی کورٹ میں اولیاء دین کمیٹی (مسمار شدہ مزارات کے لیے عرضی گزار) کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ ثاقب انصاری کہتے ہیں کہ دستاویز کی غلط تشریح کی گئی ہے۔ عدالت کی ہدایت کا انتظار کیے بغیر انتظامیہ نے پورے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ انڈین سِول لبرٹیز یونین (آئی سی ایل یو) کے بانی اور سپریم کورٹ کے وکیل انس تنویر نے جو اس معاملے میں سپریم کورٹ میں پیروی کر رہے ہیں، سومناتھ اتھارٹی کے من مانی اقدامات اور جس طریقے سے مسمار کرنے کی مہم کو انجام دیا گیا، سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہدامی کارروائی سے قبل مناسب عمل کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مذہبی عمارتوں کے خلاف کارروائی کے لیے ایک گائیڈ لائن جاری کی تھی جس کی سراسر خلاف ورزی کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 800 سال پرانی درگاہ کو جو ایک محفوظ یادگار ہے، گجرات حکومت کس طرح منہدم کرسکتی ہے اور کس بنیاد پر دعویٰ کرسکتی ہے کہ یہ سومناتھ ٹرسٹ یا پھر سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی ہے؟ ملکیت کے فیصلے کے لیے مکمل قانونی عمل سے گزرنے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی گئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کو ملک کی عدلیہ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔گجرات میں جس طریقے سے بڑے پیمانے پر مذہبی مقامات کی مسماری کی گئی ہے وہ کئی سوالات کھڑے کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ سب بالادستی کے نظریے اور مسلمانوں کے خلاف تعزیراتی اقدامات کا حصہ ہیں۔ کیا گجرات حکومت کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ اس نے 1200 غیر قانونی مندروں میں سے کتنے مندروں کے خلاف کارروائی کی ہے؟ کیا اس کے خلاف بھی انہدامی کارروائی اسی طرح سے انجام دی گئی ہے؟ گجرات کے واقعے نے ملک بھر کی مساجد، مدارس، خانقاہیں، مزارات اور مسلم اداروں کے سربراہوں کے لیے غور و فکر سوال کھڑا کیا ہے۔ حکومتوں اور عدالتی نظام پر مسلم دشمنی میں اندھے جن سنگھ کے افراد حاوی ہوچکے ہیں، ایسے میں انصاف اور غیر جانب داری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اب مسلم اداروں کی حفاظت کسی چیلنجز سے کم نہیں ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اداروں کے کاغذات اور زمین کی ملکیت کے دستاویزات درست کر لیے جائیں تاکہ دستاویز اور کاغذات میں خامی کا عذر پیش کرکے حکومت کو انہدامی کارروائی کرنے کا بہانہ نہ مل جائے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حالیہ برسوں میں مساجد، مدارس اور درگاہوں کی ملکیت کو متنازع بنانے کی دائیں بازو میں جان بوجھ کر کوششیں شروع کی گئی ہیں۔ نچلی عدالتوں میں آسانی سے سروے کرانے اور جانچ کا آرڈر لینے میں کامیابی مل جاتی ہے اس لیے اس طرح کی مہم کے خلاف منظم طریقے سے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ بلڈوزر کارروائی پر ابھی سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کو محفوظ رکھا ہے، تاہم اس معاملے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے دونوں ججس جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن نے جو تبصرے کیے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ عدالتیں محسوس کرتی ہیں کہ ایک خاص فرقے کے ساتھ بلڈوزر کارروائی کے نام پر ناانصافی کی گئی ہے۔ جسٹس گاوائی کہتے ہیں کہ "ہم جو بھی ہدایات جاری کریں گے وہ پورے ہندوستان کے لیے ہوں گی اور سب پر یکساں طور پر لاگو ہوں گی۔ ہم ایک سیکولر ملک ہیں، غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ایک قانون ہونا چاہیے اور اسے کسی ایک کمیونٹی پر منحصر نہیں ہونا چاہیے” سوال یہی ہے کہ آخر عدالت کو اس طرح کے تبصرے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا عدالت کو احساس ہے کہ بلڈوزر کارروائی کا تعلق ایک خاص کمیونٹی اور گروپ سے ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ تبصرے مرکزی اور ریاستی حکومتیں جو بلڈوزر کارروائی، جسے وہ "بلڈوزر انصاف” کا نام دیتی ہیں، ان کے لیے کسی بھی تازیانے سے کم نہیں ہیں۔
بلڈوزر جو بھارت میں نفرت اور انتقام کی علامت بن گیا ہے
ناانصافی، جانب داری اور اقلیتوں کے حقوق پر حکومتی ڈاکے کو انصاف کا نام دینے والا ہمارا میڈیا "بلڈوزر انصاف” کا نام دے کر بڑے پیمانے پر جشن منانے کا مجرم رہا ہے۔ مگر "بلڈوزر جسٹس” کے نام پر جو نفرت اور انتقام لیا گیا ہے، اس کا ادراک اب پوری دنیا کرنے لگی ہے۔ اس ہفتے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے جہاں سب سے زیادہ اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منظم انداز سے بھارت میں مذہبی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہے۔ یہ سوالات الگ ہیں کہ غزہ میں ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں برابر کے شریک امریکہ کو کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سوالات کھڑے کرنے کا کوئی اخلاقی حق نہیں ہے لیکن جب یہی امریکہ کوئی ایسی رپورٹ شائع کرتا ہے جس میں مودی حکومت کی کارکردگی کی تعریف ہوتی ہے تو بی جے پی سے لے کر میڈیا تک سب اس پر تعریفوں کے ڈونگرے برسانے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی اس رپورٹ کو خارج نہیں کیا جا سکتا ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں جن امور کی طرف نشاندہی کی گئی ہے ان میں کسی بھی قسم کا ابہام نہیں ہے۔ ہر شخص اس کو سر کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور محسوس کر رہا ہے۔ رپورٹ میں بلڈوزر کارروائی کے نام پر اقلیتوں کو نشانہ بنانے مذہبی مقامات کی مسماری اور تبدیلی مذہب مخالف قانون کے تحت اقلیتوں کے مذہبی رہنماؤں کو جیل میں ڈالنے کی طرف نشاندہی کی گئی ہے۔اس سے قبل اسی سال فروری میں مشہور حقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بھارت میں بالخصوص بی جے پی کی حکم رانی والی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں اور اداروں کی غیر منصفانہ مسماری کو فوری طور پر بند کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس سے متعلق دو رپورٹیں شائع کی تھیں۔ ایک کا عنوان تھا "اگر آپ بولیں گے تو آپ کا گھر گرا دیا جائے گا”۔”بھارت میں بلڈوزر ناانصافی اور بے نقاب احتساب” اور "بھارت میں بلڈوزر ناانصافی میں جے سی بی کا کردار اور ذمہ داری” ان دونوں رپورٹوں میں حالیہ برسوں میں ہونے والی انہدامی کارروائیوں کا تفصیل سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقلیتی برادری کے خلاف نفرت انگیز مہم میں جے سی بی (JCB) برانڈ بلڈوزر یا کھودنے والی مشین کو پسندیدہ برانڈ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہدامی کارروائیاں بڑے پیمانے پر استثنیٰ کے ساتھ کی جاتی ہیں جیسا کہ ممبئی۔ بھارت میں گزشتہ ماہ کے اوائل میں رام مندر کی ریلی کے پرتشدد ہو جانے کے بعد میرا روڈ میں مسماری کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں ایک انوکھی اور خوفناک جے سی بی برانڈ کی مشینری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ عرف اجے بششٹ خود کو "بلڈوزر بابا” کے طور پر متعارف کرانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مدھیہ پردیش، گجرات اور حال ہی میں مہاراشٹر میں بھی مسلمانوں کے علاقوں کو نشانہ بناتے ہوئے اس طرح کی مسماری دیکھی گئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی دونوں رپورٹوں میں کہا کہ JCB بلڈوزر اور دیگر مشینوں کے ذریعے مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کی وسیع پیمانے پر غیر قانونی مسماری کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت ہند اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ماورائے عدالت سزا کے طور پر لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی ڈیفیکٹو پالیسی کو فوری طور پر روکیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جبر کے نتیجے میں کسی کو بے گھر نہ کیا جائے۔ بے دخلی کا شکار ہونے والوں کو انہدام سے متاثر ہونے والے تمام لوگوں کو مناسب معاوضہ بھی فراہم کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے۔ پانچوں ریاستوں میں انہدامی کارروائی کی جانچ کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انہدامی کارروائی اکثر غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف کارروائی کی آڑ میں کی جاتی ہے۔ ملکی قانون یا بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون میں بیان کردہ کسی بھی ضروری حفاظتی ضوابط پر عمل کیے بغیر انہدامی کارروائی کی جاتی ہے۔ریاستی انتظامیہ کسی پیشگی مشاورت، مناسب نوٹس یا دوبارہ آبادکاری کے متبادل مواقع پیش کیے بغیر مسماری اور بے دخلی کی کارروائی انجام دیتی ہے۔ عمارتوں کی تباہی بعض اوقات رات کے وقت ہوتی ہے، مکینوں کو اپنے گھر اور دکانیں چھوڑنے، اپنا سامان بچانے، یا مسماری کے احکامات کے خلاف اپیل کرنے اور قانونی ازالے کے لیے بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ کہتے ہیں کہ "حکومتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی املاک کی غیر قانونی مسماری جسے سیاسی رہنما اور میڈیا ‘بلڈوزر جسٹس’ کا نام دیتے ہیں، انتہائی ظالمانہ اور خوفناک ہے۔ اس طرح کی نقل مکانی اور بے دخلی انتہائی غیر منصفانہ، غیر قانونی اور امتیازی رویے پر مبنی ہے۔ یہ کارروائیاں خاندانوں کو تباہ کر رہی ہیں، انہیں فوری طور پر روکنا چاہیے” نفرت، ایذا رسانی، تشدد اور ٹارگیٹڈ مہموں کے لیے جے سی بی بلڈوزر کو ہتھیار بنا کر گھروں، دکانوں یا عبادت گاہوں کو تباہ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قانون کی حکم رانی کو بار بار کمزور کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس معاملے میں اقوام متحدہ کے ماہر کی مداخلت پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ "بیرونی لوگوں” کی مدد ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ ڈویژن بنچ نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اور کچھ دیگر افراد کی طرف سے دائر مداخلت کی درخواست کو سننے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نے براہ راست متاثرہ فریقوں کے دلائل کو سننے کو ترجیح دی ہے۔ بنچ نے اقوام متحدہ کے ماہر کے وکیل ایڈووکیٹ ورندا گروور سے کہا کہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں اپنی تجاویز دے سکتی ہیں۔ اسی طرح ڈویژن بنچ نے ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن اور ایڈووکیٹ نظام پاشا کی طرف سے داخل کی گئی مداخلت کی درخواستوں کو سننے سے انکار کر دیا۔بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ، زمینی حالات و حقائق کے بعد اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاتا ہے کہ بھارت میں بلڈوزر جسٹس کے خوفناک اور ظالمانہ اصطلاح کے ذریعے صرف مسلمانوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود آسام اور گجرات حکومت نے انہدامی کارروائی کے سلسلے کو بند نہیں کیا ہے، تو ایسے میں یہ سوال بنیادی ہے کہ جب سپریم کورٹ اس معاملے میں اپنا فیصلہ سنائے گی تو کیا ریاستی حکومتیں اس پر ایماندارانہ طریقے سے عمل کریں گی یا میڈیا جانب دارانہ کارروائی پر رپورٹ کرے گا اور ماورائے عدالت انہدامی کارروائی کے لیے”بلڈوزر جسٹس” کی اصطلاح کے استعمال سے باز آجائے گا؟سپریم کورٹ میں بحث کے دوران بار بار سالیسٹر جنرل تشار مہتا یہ دعویٰ کرتے ہوئے نظر آئے کہ انہدامی کارروائی کے ذریعہ تعزیر اقدامات کے واقعات دو فیصد سے زائد نہیں ہوئے ہیں۔ بیشتر انہدامی کارروائیاں قانون کے مطابق ہوئی ہیں، تاہم یہ ایک طرح سے اعتراف جرم بھی ہے کہ حکومتوں نے بالخصوص بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں دو فیصد ہی سہی، تعزیری اقدامات کے تحت مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ گیارہ برسوں میں مسلمانوں کے گھروں کی مسماری کی ایک طویل فہرست ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا ڈاکومینٹ کیا جائے تاکہ عدالت اور قوم کے سامنے حکومتوں کے اصل چہرے کو پیش کیا جا سکے اور اس کی طرف مسلم تنظیموں اور اداروں کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ متاثرہ افراد کے حقوق کی حفاظت کے لیے قانونی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ایسی غیر قانونی اور غیر انسانی کارروائیوں کو دہرایا نہ جائے۔ مسلم کمیونٹی کی بہبود اور تحفظ کے لیے مضبوط آواز اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے منظم ہو سکیں۔اسی کے ساتھ حکومت اور مقامی انتظامیہ سے یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ عدلیہ کے فیصلوں کی پاسداری کریں گے اور کسی بھی قسم کی امتیازی کارروائی سے گریز کریں گے۔ یہ وقت ہے کہ انسانیت نواز انصاف کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ہر شخص کے جینے کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ ہر شہری کو اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے، اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے حقوق کا مساویانہ تحفظ کرے، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس مسئلے کو اٹھایا جائے تاکہ بھارت کی حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور انہیں عدل و انصاف فراہم کرے۔ ایک مستحکم اور جمہوری معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص کو مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ حاصل ہو۔
***
سپریم کورٹ نے 17 ستمبر کو "بلڈوزر کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف تعزیری اقدامات” پر سخت سوالات اٹھاتے ہوئے یکم اکتوبر تک عدالت کی اجازت کے بغیر انہدامی کارروائی پر روک لگا دی تھی، تاہم غیر قانونی تجاوزات، بالخصوص سرکاری جائیداد پر غیر قانونی تعمیرات کے انہدام کی اجازت برقرار رکھی گئی۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات اور سخت تبصروں کا بیشتر حلقوں نے خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ "سپریم کورٹ کے سخت تبصرے حکم رانوں کے لیے تنبیہ ثابت ہوں گے۔”مگر ضد، انا اور طاقت کے نشے میں اندھے حکم رانوں نے سپریم کورٹ کی ہدایات کا احترام اور اس کی پاسداری کرنے کے بجائے کھلے عام خلاف ورزی کی، جس کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ان کا جذبہ انتقام اتنی آسانی سے سرد ہونے والا نہیں ہے۔آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے جو مسلم مخالف بیانات اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے، سپریم کورٹ کی ہدایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے گوہاٹی سے متصل ضلع میں مسلمانوں کے مکانات گرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ آسام کے مسلمانوں نے عدالت سے رجوع کیا جس پر سپریم کورٹ نے انہدامی کارروائی پر روک لگا دی اور توہینِ عدالت کے نوٹس پر تین ہفتے کے اندر جواب طلب کیا ہے۔اسی دوران گجرات حکومت نے عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باوجود درجنوں مکانات اور آٹھ سے زائد مزارات کو جن میں کئی تاریخی مزار بھی شامل ہیں، منہدم کر دیا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024