
گجرات کے بیٹ دوارکا میں انہدامی مہم،مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا
قانونی ضابطوں کی خلاف ورزی، اے پی سی آر کی تحقیقاتی رپورٹ
( دعوت نیوز نیٹ ورک)
لوگوں سے تعلیم، روزگار اور رہائش چھین لی گئی۔ مسمار شدہ گھروں کی بحالی کا مطالبہ
گجرات حکومت کی جانب سے ساحلی سیاحتی شہر بیٹ دوارکا اور اس کے نواحی جزیروں میں بڑے پیمانے پر چلائی گئی انہدامی مہم نے شدید تنازع کو جنم دیا ہے۔ شہری سماج نے اس کارروائی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مہم خاص طور پر مسلم برادری کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ آئینی و قانونی ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ تازہ ترین انہدامی کارروائی 11 جنوری سے 18 جنوری 2025 کے درمیان تین مراحل میں انجام دی گئی۔
یہ انہدامی مہم ضلع انتظامیہ، محکمہ جنگلات اور پولیس کی نگرانی میں انجام دی گئی جس کے نتیجے میں 1.27 لاکھ مربع میٹر سے زائد اراضی پر واقع 525 عمارتیں، بشمول مکانات، مساجد اور منادر، منہدم کردیے گئے جن کی مجموعی مالیت 73 کروڑ روپے بتائی جاتی ہے اور متاثرین کے لیے متبادل انتظام کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ مقامی پرائمری اسکول میں زیر تعلیم 400 سے زائد بچوں کو بھی اس انہدامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا، اس طرح انہیں تعلیم سے محروم کردیا گیا۔
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سِول رائٹس (اے پی سی آر) کی گجرات شاخ نے بیٹ دوارکا میں ہونے والی انہدامی کارروائیوں پر ایک تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں اس کارروائی کو بنیادی طور پر مسلمانوں کے خلاف ناانصافی اور امتیازی سلوک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو نہ صرف اپنے گھروں سے بے دخل کیا گیا بلکہ ان کے معاش کے ذرائع بھی چھین لیے گئے، جس کے سبب وہ خوف اور صدمے کی حالت میں مبتلا ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم میں اے پی سی آر گجرات کے صدر شمشاد خان پٹھان، سماجی کارکن شیبا جارج، ثقافتی کارکن سوروپ دھروو، پیپلز یونین فار سِول لبرٹیز کے قومی سکریٹری پرساد چاکو، وکیل حذیفہ اجینی اور اے پی سی آر گجرات کے سکریٹری اکرام مرزا شامل تھے۔ یہ تمام افراد 27 جنوری کو احمد آباد کے سردار پٹیل میموریل ہال میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں رپورٹ کے اجراء کے موقع پر موجود تھے۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ انہدامی مہم محض ایک تضحیک آمیز کارروائی تھی جس کا مقصد قوانین کے نفاذ کے بہانے مسلمانوں کو ہراساں کرنا تھا۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ایسی کارروائیاں اور پالیسیاں نہ صرف آئینی اقدار کے خلاف ہیں بلکہ جمہوری ریاست کے بنیادی تصورات کی بھی نفی کرتی ہیں۔ قانون کی حکم رانی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک ہو اور ان کے حقوق کا احترام کیا جائے، جبکہ بلڈوزر راج یہ پیغام دے رہا ہے کہ حکم رانی صرف طاقت کی بنیاد پر ہو رہی ہے جہاں قانون و انصاف کا کوئی عمل دخل نہیں۔
رپورٹ کے مطابق بیٹ دوارکا میں مسمار کیے گئے مکانات میں سے تقریباً 90 فیصد مسلمان خاندانوں کی ملکیت تھے۔ شمشاد پٹھان نے کہا کہ یہ انہدامی مہم مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ایک اور مثال ہے جیسا کہ بیٹ دوارکا اور پورے ملک میں دیکھا جا رہا ہے۔ اے پی سی آر کی ٹیم انہدام کے آغاز کے تقریباً آٹھ دن بعد بیٹ دوارکا پہنچی تھی۔
یہاں 500 سے زائد مکانات مسمار کر دیے گئے اور ٹیم نے ایسے افراد کو خیموں میں زندگی گزارتے ہوئے دیکھا جنہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ حکومت نے یہ اقدام کیوں کیا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ یہ انہدام صرف رہائش گاہوں تک محدود نہ تھا بلکہ لوگوں کے روزگار پر بھی کاری ضرب لگی۔ تقریباً 300 ماہی گیر بے گھر ہو گئے، جبکہ ایک سرکاری اسکول جہاں 400 بچے زیرِ تعلیم تھے بند کر دیا گیا۔ اسکول انتظامیہ نے والدین کو ہدایت دی کہ وہ اپنے بچوں کے تعلیمی سرٹیفکیٹ لے کر دیگر اسکولوں میں داخلہ کرائیں کیونکہ اب وہ یہاں نہیں رہ سکتے۔
مقامی رہائشیوں کا دعویٰ تھا کہ وہ گزشتہ 30 سے 40 برسوں سے یہاں آباد ہیں اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں۔ تاہم، مسماری سے محض ایک سے بارہ گھنٹے قبل نوٹس جاری کیے گئے، حالانکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق 15 دن کا نوٹس دینا لازم ہے۔ پی یو سی ایل کے نمائندے ایڈووکیٹ حذیفہ اجینی نے اس کارروائی میں شفافیت کی کمی پر تنقید کرتے ہوئے کہا:ہم نے مختلف شہری تنظیموں سے بات کی، خبروں کا تجزیہ کیا اور متاثرہ خاندانوں کے انٹرویوز لیے۔ حکومت نے اس انہدام کے جواز پر کوئی وضاحت نہیں کی اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے بیانیے گھڑے۔ یہ ہندو-مسلم تقسیم بے روزگاری، ملازمتوں اور مہنگائی جیسے اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔”
سرکاری طور پر اس انہدامی کارروائی کو سرکاری زمین پر غیر مجاز تعمیرات کے خاتمے اور بحری سلامتی کے تحفظ کی مہم قرار دیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پریم سکھ دیلو نے سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کے نقطۂ نظر سے یہ جزیرہ انتہائی حساس ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی پانیوں کے قریب واقع ہے۔ پولیس کے مطابق یہاں منشیات کی اسمگلنگ کا خطرہ موجود تھا۔
تاہم، رپورٹ میں اس دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس علاقے میں صرف دو منشیات سے متعلق مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ گجرات مائناریٹی کوآرڈینیشن کمیٹی نے بھی وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل کو ایک خط میں حکومت کے اقدامات پر تنقید کی۔ اس خط پر کنوینر مجاہد نفیس کے دستخط تھے جس میں کہا گیا کہ تجاوزات کے خاتمے کے معاملے میں ہندو اور مسلمان کے درمیان کوئی تفریق نہیں برتی جانی چاہیے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر ہندوؤں کی ملکیت والے مکانات کی مسماری کو نظر انداز کیا اور مسلمانوں کے مکانات کو نشانہ بنا کر فرقہ واریت کو ہوا دی۔ حقائق جانچنے والی رپورٹ میں اس معاشی بحران کو بھی اجاگر کیا گیا جو کشتی مالکین اور ماہی گیروں کو سدرشن سیتو برج کی تعمیر کے باعث درپیش آیا جو بیت دوارکا کو جوڑتا ہے۔
ای پی سی آر کے مطابق کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) نے اس پل کو ماحولیاتی کلیئرنس کے بغیر تعمیر کیے جانے پر اعتراض کیا تھا۔ اس پل کے باعث صنعتکاروں اور کاروباری افراد کو ان زمینوں پر قبضہ جمانے میں فائدہ نظر آ رہا ہے جبکہ حکومت غریبوں کے روزگار سے چشم پوشی کر رہی ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ تمام قانونی نوٹسیں دی گئی ہیں اور انہدام قانون کے مطابق کیا گیا۔ جنوری 8 اور 9 کو عوامی سماعتیں ہوئیں اور 10 جنوری کو انہدام شروع کر دیا گیا۔
تاہم، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ وقت انتہائی کم تھا جس کے باعث وہ نہ تو اپنے دستاویزات پیش کر سکے اور نہ ہی انہدام کے لیے تیار ہو سکے۔ رپورٹ میں میڈیا کے کردار کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا جس نے اس حساس مسئلے کو ہلکا لے کر "بابا کا بلڈوزر” اور "دادا کا بلڈوزر” جیسی سرخیاں شائع کیں، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ خاندان کے خاندان بے گھر ہو چکے تھے۔ رپورٹ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ شفاف پالیسی اپنائے، قانونی نوٹس جاری کرے اور متاثرہ خاندانوں کو متبادل رہائش اور بازآبادکاری کرے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ حکومت ایک طرف پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت غریبوں کو گھر دینے کی بات کرتی ہے لیکن دوسری جانب ان کے بسے بسائے گھروں کو مسمار کر رہی ہے۔ رپورٹ میں اس بڑے رجحان کی نشاندہی کی گئی کہ گجرات میں مسلمانوں کے مکانات کا خاص طور پر انہدام کیا جا رہا ہے، جس میں کچھ پوربندر اور جوناگڑھ شامل ہیں۔ کچھ معاملات میں درگاہوں اور مندروں کو بھی سرکاری زمین سے تجاوزات ہٹانے کے نام پر مسمار کیا گیا۔
یہ نام نہاد ترقی لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کو تباہ کر رہی ہے۔
حقائق جانچنے والی ٹیم نے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا جس میں پالیسی میں اصلاحات، متاثرہ خاندانوں کی بازآبادکاری اور حکومت سے جوابدہی شامل ہے۔ پٹھان نے کہا کہ ای پی سی آر اس ناانصافی کے خلاف احتجاج جاری رکھے گا کیونکہ ترقی انسانی حقوق اور روزگار کی قیمت پر نہیں کی جا سکتی۔
یہ انسداد تجاوزات مہم اکتوبر 2022 میں شروع ہونے والی ایسی ہی کارروائیوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے جو ریاستی اسمبلی انتخابات سے محض دو ماہ قبل شروع ہوئی تھی۔ ستمبر 2024 میں ضلع گِر سومناتھ میں ہنگامے پھوٹ پڑے جب انتظامیہ نے ساحلی علاقوں میں غیر قانونی رہائش گاہوں کو مسمار کر دیا، جن میں نو مساجد اور درگاہیں شامل تھیں۔ یہ زمینیں سرکاری اداروں اور سومناتھ مندر ٹرسٹ کی ملکیت تھیں جس کے چیئرمین وزیر اعظم نریندر مودی ہیں، جبکہ سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اس کے ٹرسٹیوں میں شامل ہیں۔
مارچ 2024 میں جوناگڑھ میں ایک درگاہ اور مندر کو سرکاری زمین پر تجاوزات کے الزام میں مسمار کر دیا گیا۔ اسی طرح کی مہمات کچھ اور انہدامی کارروائیاں پوربندر میں بھی جاری رہیں تاکہ ساحلی اضلاع کو مبینہ غیر قانونی ڈھانچوں سے پاک کیا جا سکے اور قومی سلامتی کے حوالے سے حساس اس علاقے میں غیر مجاز افراد کی نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جا سکے، خصوصاً حالیہ منشیات اسمگلنگ کے اضافے کے پیش نظر۔
حقائق جانچنے والی رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ ماہی گیروں (مسلمان) اور واگھیر برادری (ہندو) کے مسمار شدہ مکانات کی اسی علاقے میں بازآبادکاری کی جائے۔ جب تک بحالی کا عمل مکمل نہ ہو، انہیں ہر ماہ مالی مدد فراہم کی جائے۔ مزید برآں، تمام متاثرہ خاندانوں کے لیے امدادی کیمپوں کے ذریعے رہائش، خوراک اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
بچوں کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے، فوری طور پر ان کی تعلیم کے مناسب انتظامات کیے جائیں تاکہ ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔ علاوہ ازیں، ماہی گیروں کے کاروبار اور واگھیر برادری کی مزدوری پر گھروں کی مسماری کے مضر اثرات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ان کے روزگار کے نقصان کا مناسب معاوضہ فراہم کرنا چاہیے اور انہیں بیت دوارکا میں مستقل رہائش فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ دوبارہ اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔
رپورٹ میں مذہبی مقامات، خصوصاً وقف املاک کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا گیا۔ اگر یہ مقامات غیر قانونی ثابت نہ ہوں تو انہیں دوبارہ تعمیر کر کے ان کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔
اندرَا آواس یوجنا کے تحت تعمیر شدہ 52 خاندانوں کے مسمار شدہ مکانات کو فوری طور پر دوبارہ تعمیر کیا جائے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ سماجی کارکن اور قائدین جو متاثرین کے لیے انصاف کی جدوجہد کر رہے ہیں انہیں کسی بھی صورت میں جھوٹے مقدمات میں نہ پھنسایا جائے۔ پولیس کے اقدامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں اور غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث افسروں کے خلاف قانونی اور محکمانہ کارروائی کی جائے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025