
!گجرات ڈسٹرب ایریا ایکٹ: ہندو۔ مسلم تفریق کو قانونی جواز
پندرہ سالہ ثانیہ کی خودکشی سے قانون کی اصل حقیقت پوری طرح آشکار
نوراللہ جاوید
مسلمانوں کو مخصوص علاقوں میں محصور کرنے کی سازش! مسلم علاقوں میں ترقی ندارد !
آرٹیکل 14 اور 15کی صریح خلاف ورزی۔ ’’جمہوریت کی ماں‘‘کا نعرہ کھوکھلا ثابت
گزشتہ ماہ احمد آباد میں گومتی نگر کی رہنے والی پندرہ سالہ ثانیہ کی خود کشی کا درد ناک واقعہ پیش آیا۔ خود کشی سے قبل ثانیہ نے ایک نوٹ میں محلے کے چند ہندو نوجوانوں پر ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا۔ دراصل ثانیہ کے خاندان نے دس ماہ قبل ایک مکان غیر مسلم پڑوسی سوناودے سے خرید لیا تھا مگر مکان کی حوالگی سے قبل ہی مکان کا مالک سوناودے فوت ہو گیا۔ بعد ازاں سوناودے کے بیٹے دنیش نے ’گجرات ڈسٹرب ایریاز ایکٹ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے سودے کے تحت مکان کی حوالگی سے انکار کر دیا۔ ایک سادہ سا لین دین جلد ہی تلخ تنازع میں تبدیل ہو گیا اور معاملہ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر گیا۔
خاندان کے بقول، سودا ختم کروانے کے لیے انہیں ہراساں کیا گیا اور گھر کی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دنیش اور اس کے ساتھیوں نے ثانیہ اور اس کے بھائی کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان پر حملے کیے، جس کے نتیجے میں مایوس ہو کر ثانیہ نے خود کشی کر لی۔ ثانیہ کی بڑی بہن بتاتی ہیں کہ خاندان مہینوں تک ذلیل و خوار ہوتا رہا — ثانیہ کے بال پکڑ کر گھسیٹے گئے، مارا پیٹا گیا اور میرے بھائی کو لاتیں ماری گئیں۔ ثانیہ نے یہی سوچ کر اپنی زندگی ختم کر دی کہ کوئی ہمیں بچانے نہیں آئے گا۔
خاندان کا کہنا ہے کہ جب بھی وہ پولیس کے پاس ہراساں کیے جانے اور مارپیٹ کی شکایت کے لیے گئے، انہیں سماجی مخالف سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت گرفتار کرنے کی دھمکی دی گئی اور بتایا گیا کہ ’ڈسٹرب ایریاز ایکٹ‘ کے تحت فروخت کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ ثانیہ کی موت کے بعد خاندان نے سی سی ٹی وی فوٹیج اور خود کشی نوٹ فراہم کرنے کے باوجود پولیس سے ایف آئی آر درج کرانے کے لیے ہفتوں تک جدوجہد کی۔ ایف آئی آر میں اب چھ نام شامل کیے گئے ہیں جن پر نابالغ کی خود کشی کے لیے اکسانے اور ہراساں کرنے کے الزامات عائد ہیں مگر آج تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
ثانیہ اور اس کے خاندان کو ایک ہندو سے مکان خریدنے کی وجہ سے جن مشکلات اور ذہنی اذیت سے گزرنا پڑا اس کا نتیجہ ایک بیٹی کی خود کشی کی صورت میں نکلا۔ یہ کوئی انفرادی سانحہ نہیں بلکہ گجرات کے مختلف شہروں—خصوصاً احمد آباد، سورت اور بڑودہ میں ایسے واقعات عام ہیں۔ ان سب کا تعلق "گجرات ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ” سے ہے جس کی آڑ میں مسلمانوں کو مخصوص علاقوں میں محصور کر دیا گیا ہے اور مسلم بستیاں بتدریج گھیٹو میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
2019 میں اس ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے مزید سختیاں نافذ کی گئیں۔ اگرچہ گجرات ہائی کورٹ نے اس پر روک لگائی ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اسی ترمیمی ایکٹ کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو مارکیٹ، بازار اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں مکانات خریدنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ہندو اور مسلمان کے درمیان جائیداد کی منتقلی پر تنازع گجرات میں کوئی نئی بات نہیں۔ 2018 میں بڑودہ میں ایک واقعہ سامنے آیا جہاں کلکٹر کی منظوری کے باوجود ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشیوں نے ایک ہندو کے ہاتھوں مسلمانوں کو زمین فروخت کیے جانے پر اعتراض کیا۔ مقدمہ ہائی کورٹ میں گیا جہاں عدالت نے 2023 میں فروخت کو برقرار رکھا۔ اس کے باوجود متعلقہ مسلم خاندان آج تک مکان پر قبضہ حاصل نہیں کر سکا۔
فی الحال گجرات کے بیشتر علاقے مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو چکے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ "گجرات ڈسٹرب ایریاز ایکٹ” کا استعمال صرف مسلمانوں کے خلاف کیوں ہو رہا ہے؟ ایک طرف بی جے پی قیادت دعویٰ کرتی ہے کہ گجرات میں امن و امان قائم ہے اور 2002 کے بعد کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا، تو دوسری طرف اسی ایکٹ کے تحت "ڈسٹرب ایریاز” کی تعداد میں ہر سال اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ کھلا تضاد آخر کیوں ہے؟
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ قانون بنایا گیا تھا، آج اس کا غلط استعمال ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کی اصل روح ہی مسخ کر دی گئی ہے۔ ثانیہ کی خود کشی نے اس قانون کے اخلاقی جواز پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں مذہبی بنیادوں پر خرید و فروخت کو محدود کرنا کہاں تک درست ہے؟
آج گجرات کی کئی بستیوں کے باہر تختیاں لگی ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے: ’’ہندو راشٹر میں آپ کا استقبال ہے‘‘ ان بستیوں میں مسلمانوں کا زمین خریدنا تو درکنار، داخلہ بھی ممنوع ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس ریاست میں ہو رہا ہے جہاں کے رہنے والے ملک کے وزیرِ اعظم ہیں، جنہوں نے آئین کی پاسداری اور اس کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ لیکن اپنی ہی آبائی ریاست میں جاری غیر آئینی اقدامات پر وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اسی وقت اس سلسلے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندوتوا گروپ وہاں ایک متوازی نظام چلا رہے ہیں۔ نیوز لانڈری کی ایک حالیہ رپورٹ میں وسنت نامی رپورٹر نے آن کیمرہ یہ ریکارڈ کیا کہ وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نے اعتراف کیا ہے کہ بستیوں کے باہر "ہندو راشٹر” کے بورڈ لگانے کے لیے انہوں نے باضابطہ طور پر حکومت سے اجازت لی تھی۔
گجرات ڈسٹرب ایریاز ایکٹ
آزادی کے بعد سے گجرات، بالخصوص احمد آباد میں فرقہ وارانہ فسادات کے بھیانک واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ان فسادات کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی اور اقلیت میں رہنے والے افراد اپنی جائیدادیں مجبوری میں پڑوسیوں کو کم داموں پر فروخت کر دیتے تھے۔ 1985 کے فسادات کے بعد ایسے ہی معاملات کو روکنے کے لیے ایک قانون بنایا گیا، جسے سرکاری طور پر “Gujarat Prohibition of Transfer of Immovable Property and Provision for Protection” کہا گیا۔ اردو میں اس کا ترجمہ یوں ہے:
”گجرات میں غیر منقول جائیداد کی منتقلی کی ممانعت اور پریشان علاقوں میں کرایہ داروں کو جبری بے دخلی سے تحفظ کی فراہمی کا ایکٹ“
مختصراً اسے ”گجرات ڈسٹرب ایریاز ایکٹ“ کہا جاتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ملک میں پہلا قانون تھا جس کا مقصد ہندو اور مسلمانوں کی الگ تھلگ آبادی کو روکنا اور مخلوط بستیوں کو باقی رکھنا تھا۔
مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس قانون کے مقاصد مسخ ہو گئے اور آج یہ ایکٹ الٹا "نسلی شہری منصوبہ بندی” (Ethnic Urban Planning) کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ مذہب کی بنیاد پر الگ تھلگ اور درجہ بندی والی بستیاں قائم کی جا سکیں۔
اس ایکٹ کے تحت ضلع کلکٹر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی علاقے کو "ڈسٹرب ایریا” قرار دے۔ پہلے یہ اختیار صرف اس وقت استعمال کیا جاتا تھا جب کسی علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد یا کشیدگی ہو چکی ہو، مگر اب کسی بھی علاقے کو محض "پیشگی خطرات” یا "امکان” کی بنیاد پر ڈسٹربڈ ایریا قرار دیا جا سکتا ہے۔
جب کوئی علاقہ ڈسٹرب ایریا قرار دے دیا جائے تو اس علاقے میں ہندو اور مسلمان کے درمیان جائیداد کی خرید و فروخت کلکٹر کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں رہتی۔ بیچنے والے کو یہ حلف دینا ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جائیداد فروخت کر رہا ہے اور اسے منصفانہ مارکیٹ قیمت ملی ہے۔ یوں یہ نظام مذہبی بنیاد پر جائیداد کے خریدار اور بیچنے والے کو سرکاری بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔
اس قانون میں پینتالیس برسوں میں کئی بار ترمیم ہوئی:
1991 میں چمن بھائی پٹیل کی سربراہی والی مخلوط حکومت نے 1985 کے قانون کو منسوخ کر کے نیا قانون متعارف کرایا۔ پہلے یہ محض ڈیڑھ سال کے لیے نافذ کیا گیا تھا، مگر بعد میں اس کی مدت لامحدود کر دی گئی اور 1985 کے قانون کی روح برقرار رکھی گئی۔
2009 میں نریندر مودی کی حکومت نے بڑی ترامیم کیں، جن کے تحت:
غیر منظور شدہ لین دین کو منسوخ کرنے کے کلکٹر کے اختیارات بڑھا دیے گئے،
جرائم کو قابلِ شناخت بنایا گیا،
اور خلاف ورزی کی سزا چھ ماہ قید یا جرمانہ مقرر کیا گیا۔
2019 میں اس ایکٹ میں اہم ترین ترمیم کی گئی جس نے اس کے اصل مقصد کو ہی بدل ڈالا۔ اب ریاستی حکومت اور کلکٹر کو اختیار حاصل ہو گیا کہ کسی بھی علاقے کو فرقہ وارانہ فساد کے امکان، کسی کمیونٹی کی پولرائزیشن یا "نامناسب کلسٹرنگ” (Inappropriate Clustering) کے محض خدشے کی بنیاد پر ڈسٹرب ایریا قرار دیا جا سکتا ہے۔
1985 اور 1990 کے ایکٹ میں ڈسٹرب ایریا کی مدت محض ایک یا دو سال کے لیے رکھی جاتی تھی مگر 2019 کی ترمیم نے اسے مستقل کر دیا۔ اب یہ تجدید خود کار اور لا محدود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خلاف ورزی کی سزا کو بھی سخت کر کے چھ ماہ سے بڑھا کر چھ سال قید کر دیا گیا۔
جمعیۃ علمائے ہند اور دیگر مسلم تنظیموں نے اس ترمیم کو گجرات ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ طویل سماعت کے بعد عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ ترمیم شدہ سیکشنز کے تحت کوئی نئی نوٹیفکیشن جاری نہ کرے۔ معاملہ فی الحال زیرِ التوا ہے۔
درخواست گزاروں کے مطابق بی جے پی حکومت نے ڈسٹرب ایریا کی حدود کو اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ احمد آباد کے مشرقی حصے کے چھوٹے سے حصے کو کور کرنے والا قانون اب شہر کے تقریباً ستر فیصد حصے پر نافذ ہے۔ وڈوڈرا میں اس کا اطلاق ساٹھ فیصد حصے پر ہے۔ اس کے علاوہ بھڑوچ، سورت، بھاونگر، راجکوٹ، ہمت نگر، گودھرا، کپڑوانج، دھندھوکا، بورساد اور پٹلاد جیسے بڑے علاقوں کو بھی ڈسٹرب ایریا قرار دیا جا چکا ہے۔
ریسرچ اسکالر شبہ تجانی کی تحقیق کے مطابق 2013 سے دسمبر 2019 کے درمیان احمد آباد میں ڈسٹرب ایریاز ایکٹ کے تحت نامزد علاقوں کی تعداد میں اکیاون فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران گجرات میں ڈسٹرب ایریاز کی کل تعداد 697 سے بڑھ کر سات سو سے زائد ہو گئی۔ مزید یہ کہ 2019 کی ترمیم کے بعد اب کسی بھی ڈسٹرب ایریا کے ارد گرد پانچ سو میٹر کا احاطہ بھی قانون کے دائرے میں شامل کر دیا گیا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کی سزا بھی سخت کر دی گئی ہے — پہلے چھ ماہ کی قید کا لزوم تھا اب اسے بڑھا کر چھ سال کر دیا گیا ہے۔
تجانی کہتے ہیں کہ اس قانون نے بغیر کسی واضح جواز کے پورے گاؤں اور ان کے اطراف کے کھیتوں کو ’’پریشان کن علاقہ‘‘ قرار دینے کی گنجائش پیدا کر دی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے سیاسیات کے پی ایچ ڈی اسکالر شارق احمد لالیوال جو احمد آباد کے رہنے والے ہیں اور بھارت میں مذہبی سیاست پر تحقیق کرتے ہیں، اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ اس ایکٹ کا مقصد نہ صرف جائیداد کے لین دین کو محدود کرنا ہے بلکہ عوام کے ذہنوں کو فعال طور پر پولرائز کرنا بھی ہے۔ ان کے مطابق حکومت نے غیر اعلانیہ طور پر یہ اصول اپنا لیا ہے کہ مسلم آبادی سے باہر سرکاری اسکیموں میں مسلمانوں کو مکانات الاٹ نہیں کیے جائیں گے۔
لالیوال کے مطابق چونکہ مسلم علاقوں کا رقبہ محدود ہے، اس لیے وہاں جائیداد کی قیمتیں اوسطاً تیس فیصد زیادہ ہیں۔ یوں ’’گجرات ڈسٹرب ایریاز ایکٹ‘‘ انتظامیہ میں کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا آلہ بن چکا ہے۔
اس قانون کے حامیوں کی دلیل ہے کہ ہر طبقہ اپنے ہم مذہب کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، اگر قانون سازی سے یہ ممکن بنایا جا رہا ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟ مگر اصل سوال قانون سازی کا نہیں بلکہ آئین کے بنیادی ستونوں کے تحفظ کا ہے۔ یہ قانون آرٹیکل چودہ اور پندرہ کی کھلی خلاف ورزی کرتا ہے۔ مساوات، ذاتی آزادی اور ملک میں آزادانہ رہائش کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔
بھارت کی جمہوریت اور مساوات پر بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں۔ خود وزیر اعظم مودی نے امریکہ کے دورے کے دوران بھارت کو ’’جمہوریت کی ماں‘‘ قرار دیا۔ مگر وہ یہ بھول گئے کہ جس امریکہ کی مثال وہ دے رہے تھے، اس نے 1960 کی دہائی میں نسلی امتیازات کے خاتمے کے لیے قانون بنایا جسے فیئر ہاؤسنگ ایکٹ کہا جاتا ہے۔ امریکہ اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک جن کی تاریخ میں نسلی تعصب گہرا رہا وہاں نسلی بنیاد پر تفریق کے خلاف قانون سازی کی گئی۔ لیکن بھارت، جس کی پہچان تنوع اور ہم آہنگی رہی ہے، وہاں مذہب اور نسل کی بنیاد پر آبادی کو الگ تھلگ رکھنے کے لیے قانون سازی ہو رہی ہے۔ یہ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو ہے۔
گجرات ڈسٹرب ایریاز ایکٹ کے تناظر میں حالیہ تحقیقی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ اس قانون کو بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ مسلم محلوں اور ان کے متصل ہندو علاقوں کو ’’ڈسٹرب ایریا‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے جس کے بعد ہر جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے با ضابطہ منظوری ضروری ہو جاتی ہے۔ یہ منظوری اکثر برسوں تک لٹکی رہتی ہے۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق بعض معاملات میں ہائی کورٹ سے اجازت ملنے کے باوجود ہندوتوا گروپوں کے دباؤ اور دھمکیوں کے سبب مسلم خریدار جائیداد پر قبضہ حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ قانون کی ناکامی اور حکومت کے ہندوتوا گروپوں کے سامنے سرنڈر کی کھلی مثال ہے۔
اس جبری گھیٹوائزیشن (گھیٹو سازی) کی سب سے نمایاں مثال احمد آباد کا جوہاپورہ ہے، جسے ’’منی پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں بڑی مسلم آبادی آباد ہے اور یہ محلہ محصور کمیونٹی کی شدید علیحدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ احمد آباد میں ہندو اور مسلمان آبادیوں کی جغرافیائی تقسیم کوئی نئی بات نہیں۔ 1870 کی دہائی میں سابرمتی پر پل تعمیر ہونے کے بعد خوشحال اعلیٰ ذات کے ہندو مغربی کنارے پر منتقل ہو گئے، جبکہ مسلم، دلت اور بہوجن مشرقی جانب رہ گئے۔ یوں مغربی علاقہ ترقی یافتہ اور مشرقی حصہ پسماندہ قرار پایا۔
1940 کی دہائی میں ہی احمد آباد کی کئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں مخصوص برادریوں کے لیے مختص کر دی گئیں، جیسا کہ ’’برہمن سوسائٹی‘‘، ’’پٹیل سوسائٹی‘‘، ’’جین سوسائٹی‘‘ وغیرہ۔ پرانے شہر کے گنجان محلوں (پولز) میں بھی ایک ہی کمیونٹی کی اکثریت رہی۔ فرقہ وارانہ فسادات — 1969، 1985، 1992 اور 2002 — نے ان سرحدوں کو مزید گہرا کر دیا۔ مسلمان آہستہ آہستہ ہندو غالب علاقوں سے نکل کر جوہاپورہ جیسے علاقوں میں سمٹ گئے جو آج گجرات کا سب سے بڑا مسلم گھیٹو ہے۔ لیکن اس علاقے میں ترقیاتی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں: چالیس فیصد گھروں تک پانی کی سپلائی نہیں ہے، صحت کے مراکز نہیں، اسکول نایاب لیکن ہر چند سو میٹر پر ایک پولیس چوکی ضرور ہے۔
لالیوال کے مطابق ’’گجرات ڈسٹرب ایریاز ایکٹ‘‘ نے احمد آباد کو بھارت کا سب سے زیادہ فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم شدہ شہر بنا دیا ہے۔ گجرات حکومت نے کئی دہائیوں میں ایک بھی علاقے کو ڈی نوٹیفائی نہیں کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون نے کمیونل تقسیم کو مزید بڑھایا ہے اور مخلوط محلے تقریباً ناپید ہو گئے ہیں۔
گجرات ہائی کورٹ کے سینئر وکیل محمد طاہر حکیم کہتے ہیں کہ اصل ایکٹ اپنی روح میں درست تھا، اس کا مقصد کمزور طبقات کو دباؤ میں جائیداد بیچنے سے بچانا اور جائز قیمت دلوانا تھا مگر بد قسمتی سے اب اسے گھیٹو سازی اور امتیاز کا آلہ بنا دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ مقدمات دائر کرنے سے ڈرتے ہیں، اسی لیے ناانصافی جاری ہے۔
اسی نا انصافی کی مثال شیعہ بوہری تاجر امیر پٹی والا ہیں، جنہوں نے دسمبر 2020 میں راجکوٹ میں زمین خریدنے کا معاہدہ کیا۔ مگر جنوری 2021 میں ریاستی حکومت نے 28 اپر مڈل کلاس ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ڈسٹرب ایریا قرار دے دیا، جن میں پٹی والا کی زمین بھی شامل تھی۔ نتیجہ یہ کہ آج تک وہ اپنی جائیداد پر قبضہ نہیں لے سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ ’’گجرات ڈسٹرب ایریاز ایکٹ‘‘ آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف جا چکا ہے۔ اس کا دائرہ کار اب صرف گجرات تک محدود نہیں رہا۔ بھارت کے بڑے شہروں میں غیر اعلانیہ طور پر مسلمانوں کو مکانات بیچنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ بلڈرز صاف کہتے ہیں کہ مسلم خریدار آنے سے ہاؤسنگ سوسائٹی کی قیمت گر جاتی ہے۔ یوں ملک کے ہر بڑے شہر میں مسلم گھیٹو تشکیل پا چکے ہیں۔
آج ہندوتوا گروپ اور حکومتی میڈیا ’’لینڈ جہاد‘‘ کا شوشہ چھوڑ کر اس رجحان کو مزید وسعت دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے وزراء اور رہنماؤں نے اتر اکھنڈ اور آسام میں مسلمانوں کی جائیداد خریداری پر کھلے عام اعتراضات شروع کر دیے ہیں۔ آسام میں مسلمانوں کے ہاتھوں زمین کی فروخت پر پابندی لگائی گئی ہے۔ 2021 میں دہلی کے قریب گروگرام میں مسلمانوں کو کھلی جگہوں پر نماز پڑھنے سے روک دیا گیا، جہاں پہلے ایک سو پچاس مقامات تھے وہاں اب صرف چھ مقامات باقی رہ گئے ہیں۔
گجرات کی کہانی اب صرف ایک ریاست کی کہانی نہیں بلکہ پورے بھارت میں ایک بڑے اور مایوس کن رجحان کی نشاندہی کر رہی ہے۔
***
***
سیاسیات کے محقق شارق لالیوال کے مطابق، ’’ڈسٹرب ایریا ایکٹ‘‘ صرف پراپرٹی کی خرید و فروخت کو محدود کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف ذہنوں کو پولرائز کرنے اور سماجی تفریق پیدا کرنے کا آلہ بھی بن چکا ہے۔ مسلم علاقوں میں زمین کی قیمتیں تقریباً تیس فیصد زیادہ ہیں کیونکہ جگہ محدود ہے اور سرکاری اسکیموں میں مسلمانوں کو گھر نہیں دیے جاتے جس سے یہ قانون بدعنوانی اور امتیازی سلوک کا جواز فراہم کرتا ہے۔ احمد آباد کا جوہاپورہ اس جبری گھیٹو سازی کی سب سے واضح مثال ہے، جہاں مسلم آبادی محصور کر کے ’’منی پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور ترقیاتی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ شارق لالیوال کے الفاظ میں، ’’ڈسٹرب ایریا ایکٹ نے احمد آباد کو بھارت کا سب سے زیادہ ہندو-مسلم بنیادوں پر منقسم شہر بنا دیا ہے۔‘‘
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 ستمبر تا 04 اکتوبر 2025