گجرات ہائی کورٹ کی جج گیتا گوپی نے ہتک عزت کیس میں راہل گاندھی کی عرضی پر سماعت سے خود کو الگ کیا
نئی دہلی، اپریل 27: گجرات ہائی کورٹ کی جج جسٹس گیتا گوپی نے بدھ کو کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی اس درخواست کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کے سر نیم کے بارے میں ان کے تبصروں سے متعلق ہتک عزت کے مقدمے میں ان کی سزا پر روک لگانے کی درخواست کی گئی ہے۔
گاندھی کے وکیل پی ایس چمپانیری نے کہا ’’جب معاملہ آج دوسرے نصف میں سماعت کے لیے آیا، تو جسٹس گیتا گوپی نے، جن کی عدالت میں یہ معاملہ درج تھا، کہا ’’میرے سامنے نہیں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ نئے جج کی تقرری میں دو دن لگ سکتے ہیں۔
20 اپریل کو سورت کی ایک سیشن عدالت نے گاندھی کی سزا کو چیلنج کرتے ہوئے ان کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ ایک رکن پارلیمنٹ اور ملک کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سابق صدر کے طور پر انھیں اپنے الفاظ میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے تھا۔ گاندھی نے اس حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
ہتک عزت کا مقدمہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل کرناٹک کے کولار میں ایک ریلی میں گاندھی کے تبصرے سے متعلق ہے، جس کے دوران 52 سالہ کانگریس لیڈر نے پوچھا تھا: ’’کیوں سب چور، چاہے وہ نیرو مودی، للت مودی یا نریندر مودی ہوں، ان کے ناموں میں مودی کیوں ہے؟‘‘
نیرو مودی پنجاب نیشنل بینک گھوٹالے میں ملزم ایک مفرور تاجر ہے جب کہ للت مودی انڈین پریمیئر لیگ کا سابق سربراہ ہے جس پر کرکٹ کی گورننگ باڈی نے تاحیات پابندی عائد کر دی ہے۔
اس سال 23 مارچ کو گاندھی کو اس مقدمے میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی جو بھارتیہ جنتا پارٹی لیڈر اور سورت ویسٹ کے ایم ایل اے پرنیش مودی کی شکایت پر درج کیا گیا تھا۔
کانگریس لیڈر کو تعزیرات ہند کی دفعہ 499 (ہتک عزت) اور 500 (ہتک عزت کی سزا) کے تحت سزا سنائی گئی۔ تاہم عدالت نے ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی سزا کو 30 دن کے لیے معطل کر دیا۔
ان کی سزا کے ایک دن بعد گاندھی کو عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے تحت لوک سبھا کے رکن کے طور پر نااہل قرار دے دیا گیا۔ قانون کی دفعہ 8(3) کے مطابق دو سال یا اس سے زیادہ جیل کی سزا پانے والے قانون ساز کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اگر اعلیٰ عدالت اس سزا پر روک لگا دیتی ہے تو گاندھی کی نااہلی کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔