گروپ ۔20وزرائے خارجہ اجلاس

الزاماتاور دھمکیاں۔۔ اختلاف پر اتفاق

مسعود ابدالی

مشرکہ علامیہ جاری نہ ہوسکا۔روس۔ یوکرین جنگ کے باعث تیسری دنیا کے مسائل موضوع نہ بن سکے
دلّی میں ہونے والے گروپ۔ 20 کے وزرائے خارجہ اجلاس میں یوکرین کے معاملے پر زبردست جھڑپ ہوئی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ امریکہ اور روس سارا وقت ایک دوسرے پر الزامات کی گولہ باری کرتے رہے۔ حتیٰ کہ شرکا مشترکہ اعلامئے پر بھی متفق نہ ہوئے۔
سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان، سعودی عرب، ترکی اور بھارت سمیت 19 ممالک اور یورپی یونین اس ادارے کے رکن ہیں۔ عالمی اقتصادی پیداوار کا 85 فیصد حصہ G-20ممالک سے حاصل ہوتا ہے۔
یہ کانفرنس بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے لیے بہت اہم تھی جو اس وقت G-20 کے سربراہ ہیں۔ وہ 2014 سے برسراقتدارہیں اور 2019 کے انتخابات میں ان کی حکم راں جماعت بی جے پی نے اپنا پارلیمانی حجم 282 سے بڑھا کر 303 کرلیا۔بھارتی وزیراعظم عالمی سطح پر اثرورسوخ بڑھاکر اپنی قائدانہ صلاحیت منواناچاہتے ہیں۔ کچھ عرصے سے وہ کُرّوی جنوب (Global South) کی بات کررہے ہیں اور خیال ہے کہ بھارت آسیان کی طرز پر کرہ ارض کے جنوبی حصے کو ترقی و خوشحالی کے لیے مربوط کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ گلوبل ساوتھ اور گلوبل نارتھ کی اصطلاح 1969 میں امریکی فلاسفر، محقق اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیم’طلبہ برائے جمہوری معاشرہ‘ (SDS) کے سربراہ کارل اوگلیسبی (Carl Oglesby)نے استعمال کی تھی۔
واضح رہے یہ کرہِ ارض کی جغرافیائی تقسیم نہیں۔ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خطِ استوا کے جنوب میں واقع دنیا، گلوبل ساوتھ اور شمال کا حصہ گلوبل نارتھ ہے لیکن دراصل اس تقسیم کی بنیاد سماجی و اقتصادی درجہ بندی ہے۔ مغربی جرمنی (اب جرمنی ) کے سابق چانسلر ولی برانڈت (Willy Brandt)نے شمال اور جنوب کی تقسیم ، ترقی یافتہ شمال اور ترقی پزیرجنوب کی بنیاد پر کی۔ اس تقسیم کو برانڈت لکیر کے نام دیاگیا۔ یہ لکیر خط سرطان (Tropic of Cancer) کے ذرا اوپر شروع ہوتی ہے۔ مشرق کی جانب امریکہ اور میکسیکو کے نیچے اور چین کے اوپر سے چلتی ہوئی عمودی سمت میں یہ لکیر نیچے کی طرف جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بائیں جانب سے گزرتی ہے۔ بعد کی درجہ بندی میں اسرائیل، چلی اور یوراگوائے بھی گلوبل نارتھ میں شامل کرلئے گئے۔
اب اس تقسیم کو اجمالی طور پر اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ جاپان اور اسرائیل کے علاوہ سارا ایشیا، پورا براعظم افریقہ اورماسوائے چلی پورا لاطینی امریکہ گلوبل ساوتھ کا حصہ ہے۔ گلوبل ساوتھ کے ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے لیے جنوب جنوب تعاون (SSC) کے عنوان سے 1955 میں ایک کانفرنس بھی ہوچکی ہے۔برما، سیلون (سری لنکا)، ہندوستان، انڈونیشیا اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں سے یہ بیٹھک انڈونیشیا کے شہر بنڈونگ میں ہوئی۔ برطانیہ اور جاپان سمیت 29 ممالک SSCمیں شریک ہوئے۔ تاہم معاملہ مزید آگے نہ بڑھا۔
اقوام متحدہ نے 1978 میں ساوتھ ساوتھ تعاون یونٹ قائم کیا جسکا مقاصد گلوبل ساوتھ ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کی راہ ہموار کرنا تھا۔ خیال تھا کہ جنوب ایک بہت بڑا علاقہ ہےاور سماجی و لسانی تنوع کی وجہ سے یہ اکائی زیادہ موثر نہ ہوگی چنانچہ گزشتہ صدی کے آخر میں افریقہ، جنوبی امریکہ یا ASAکی بنیاد پڑی اور2006میں جنوبی امریکہ کے 12 اور 53افریقی ممالک کے سربراہ ابوجا، نائیجیریاپہنچے۔ تین سال بعد اے ایس اے کی دوسری سربراہ کانفرنس وینیزویلا میں ہوئی لیکن ASAبھی SSCکی طرح غیر موثر رہی۔
ہندوستان بنڈونگ کانفرنس کے ایجنڈے پر ایس ایس سی کی تجدید کا خواہشمند ہے۔ جی 20 وزراےخارجہ کے حالیہ اجلاس میں ذاتی دلچسپی،الفاظ کے محتاط چناو اور جوش و خروش سے اندازہ ہوا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی گلوبل ساوتھ کے تنِ مردہ میں جان ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ وزرائے خارجہ کانفرنس میں یوکرین کے بجائے تیسری دنیا کی ’حالت زار‘ موضوع سخن رہے۔ اپنے افتتاحی خطاب میں مودی جی نے وزرائےخارجہ سے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اپنی توجہ انسانیت کو درپیش مسائل پر مبذول رکھنے کی درخواست کی۔
نریندر مودی عالمی بیٹھکوں میں عام طور سے ہندی میں تقریر کرتے ہیں لیکن یہاں انھوں نے انگریزی میں خطاب کیا۔ اپنی گفتگو میں انھوں نے خوراک اور توانائی کی فراہمی و تحفظ کو یقینی بنانے، ترقی پزیر ممالک پر لدے ناقابل برداشت قرضوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں (گلوبل وارمنگ) پر تفصیل سے روشنی ٖڈالی۔ انھوں نے کہا کہ ماحول کے حوالے سے امیر و ترقی یافتہ ممالک کا غیرذمہ دارانہ طرز عمل غریب ممالک کے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے۔ میزبان وزیراعظم نے یوکرین کانام لئے بغیر ابتدا ہی میں یہ خدشہ ظاہر کردیا کہ عالمی کشیدگی اجلاس کو متاثر کرسکتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیاں گہری تقسیم پائی جاتی ہے ۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ برسوں کی محنت سے جو کچھ حاصل کیا گیا وہ کہیں اختلافات کی خلیج میں غرق نہ ہوجائے۔
وزیراعظم مودی نے اجلاس کے لیے ’ ایک دنیا، ایک خاندان، ایک مستقبل‘کا نعرہ تجویز کرتے ہوئےکہا کہ اس نعرے کو دل سے قبول کرکے ’اپنے خاندان‘ کو حائل مشکلات کا حل تلاش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔اسی کے ساتھ غذائی تحفظ، تعاون برائے ترقی، انسانی امداد اور دورِ جدید کا مقبول ترین موضوع یعنی انسداد دہشت گردی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ یہ نکات جی 20 کی صدارت کے دوران ہندوستان کی ترجیحات میں شامل ہیں ۔
وزیراعظم مودی کی جانب سے یکجہتی اور مشتر کہ اقدار پر زور دینے کے باوجود امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی برقرار رہی۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر کشور کشائی، دوسرے ممالک میں دراندازی، انسانی حقوق کی پامالی اور جارحیت کے سنگین الزامات عائد کئے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ روس کی بلااشتعال اور بلاجواز جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی تشویش و بیچینی نے حالیہ اجلاس کو بھی متاثر کیا ہے۔ جسکا جواب دیتے ہوائے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف بولے ’مغرب کی بلیک میلنگ اور دھمکیوں نے عالمی ماحول کو تلخ کردیا ہے جسکی جھلک یہاں بھی نظر آرہی ہے‘۔
ان دونوں کی نونک جھونک میں ترقی پذیر ممالک کو متاثر کرنے والے مسائل پر سنجیدہ گفتگو نہ ہوسکی اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اعتراف کیا کہ ’ کوشش کے باوجود مفاہمت نہ ہوسکی کہ فاصلے بہت زیادہ تھے‘۔ روس اور چین دونوں نے مشترکہ بیان کے ان حصوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جن میں روسی جارحیت کی مذمت کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہےکہ 3 مارچ کو اس دوروزہ اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ پیش کرنے کے بجائے شری جے شنکر نےاس اجلاس کا خلاصہ جاری کیا۔
اس سے پہلے گذشتہ ہفتے جب ان ممالک کے وزرائے خزانہ اور اسٹیٹ بینکوں کے سربراہ بنگلور (کرناٹکا) میں جمع ہوئے تھے تب بھی یہ زعما اتفاق رائے پیدا کرنےمیں ناکام رہے ۔بنگلورو اجلاس کے اختتام پر جب مشترکہ اعلامیہ منظوری کے لیے پیش ہوا تو یوکرین جنگ کے حوالے سے اس پیراگراف کو اعلامیے کا حصہ بنانے تجویز پیش کی گئی جو گزشتہ برس بالی، انڈونیشا میں ہونے والی G-20سربراہ کانفرنس میں منظور ہوا تھا۔ لیکن روس اور چین نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔
حالیہ اجلاس میں اختلافات کی وجہ سے جہاں نریندر مودی کو عالمی تناظر میں بھارت کا ایجنڈا آگے بڑھانے میں وہ کامیابی نہ مل سکی جسکی وہ توقع کررہے تھی وہیں یوکرین جنگ کے بارے میں ہندوستان کی غیر وابستہ پالیسی امریکی اور یورپی اتحادیوں کی ناراضگی کا سبب بن رہی ہے۔ کئی مغربی سفارت کاروں نے یوکرین کے حوالے سے دلی کے موقف پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ماسکو پر براہ راست تنقید سے گریز کے ساتھ بھارت نے روس سے تیل کی درآمد میں اضافہ کردیا ہے جو نیٹو کو پسند نہیں ہے۔ یورپی سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یوکرین کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر ، بین الاقوامی قوانین اور ممالک کی خود مختاری و علاقائی سالمیت کے احترام کی اہمیت تسلیم کرتا ہے۔ وزیراعظم مودی نے گزشتہ سال شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں روسی صدر کی موجودگی میں یہ بھی کہا کہ آج کا دور جنگ کا نہیں ہے، لیکن ہندوستان نے یوکرین جنگ کی مذمت میں پیش ہونے والی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کبھی حمایت نہیں کی ۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے اعلیٰ نمائندے جوزف بوریل نے مشترکہ اعلامیے سے روس کی مذمت کا پیراگراف نکالنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’انصاف کا تقاضہ تھا کہ یوکرین جنگ کی مذمت کی جاتی جس سے روس پر جنگ ختم کرنے کے لیے دباو پڑتا‘۔ جناب بوریل کا کہنا ہے کہ اس بے مقصد جنگ کے خاتمے کے لیے بھارت کی سفارتی صلاحیت کو استعمال کرنے کی ضروت ہے۔ امریکہ کی روس اور چین سے کشیدگی بھارتی سفارتکاری کا امتحان ہے کہ دلی روس اور امریکہ سے اپنے تعلقات کو مزید پرجوش اور چین سے کشیدگی کم سے کم کرنا چاہتا ہے۔ نام نہ بتانے کی شرط پر ایک بھارتی سفاتکار نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یوکرین جنگ میں غیرجانبداری سے مغرب میں جو بدمزگی پیدا ہوئی ہے اسے زائل کرنے کے لیے بھارت کو کچھ خاص اسطرح کرنا پڑے گا کہ روس اور چین بھی ناراض نہ ہوں‘۔ ۔۔
[email protected]
***

 

***

 حالیہ اجلاس میں اختلافات کی وجہ سے جہاں نریندر مودی کو عالمی تناظر میں بھارت کا ایجنڈا آگے بڑھانے میں وہ کامیابی نہ مل سکی جسکی وہ توقع کررہے تھی وہیں یوکرین جنگ کے بارے میں ہندوستان کی غیر وابستہ پالیسی امریکی اور یورپی اتحادیوں کی ناراضگی کا سبب بن رہی ہے۔ کئی مغربی سفارت کاروں نے یوکرین کے حوالے سے دلی کے موقف پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ماسکو پر براہ راست تنقید سے گریز کے ساتھ بھارت نے روس سے تیل کی درآمد میں اضافہ کردیا ہے جو نیٹو کو پسند نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023