گورنروںکےکردارپر سوالیہ نشان

دستوری عہدہ کو پارٹی کے سیاسی مفاد کے تابع رکھنا جمہوریت کے لیے نقصان دہ

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

حزب اختلاف کی حکومت والی ریاستوں میں گورنروں اور ریاستی حکومتوں کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔لیکن پچھلے چند سالوں ان میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے یہ اختلافات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں گورنر ابھی تک اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اب بھی بی جے پی کے کارکن ہیں کیوں کہ ان کا کردار کسی بی جے پی کے نمائندے کی طرح نظر آ رہا ہے، خاص طور پر جنوبی ہند کی تین ریاستوں تلنگانہ، تمل ناڈو اور کیرالا کے گورنروں کے رویوں کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے۔ یہ صرف ان تین ریاستوں کے گورنروں کا حال نہیں ہے بلکہ جہاں بھی غیر بی جے پی حکومتیں ہیں وہاں گورنروں کا کردار بی جے پی کے نمائندوں کی طرح ظاہر ہو رہا ہے، چاہے وہ پنجاب ہو یا بنگال، راجستھان ہو یا جھارکھنڈ، وہ غیر ضروری حکومت کے کاموں میں مداخلت کرتے نظر آتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے سرپرست نہیں بلکہ حکومت کے مخالف ہوں۔
خاص طور پر تلنگانہ، کیرالا اور تمل ناڈو میں تقریباً چالیس قانونی بل جن کی ریاستی اسمبلیوں نے قانون سازی کی تھی، ان کے پاس رکھے ہوئے ہیں لیکن یہ منظوری نہیں دے رہے ہیں۔ جب ریاستی حکومتیں منظوری سے متعلق سوال کرتی ہیں تو وہ تنقیح کے نام پر ٹال مٹول کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی تنقیح کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، ہمیں اس کے اچھے اور برے اثرات کا اندازہ لگانا پڑتا ہے، وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا دستور کی رو سے گورنر کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ متعینہ مدت میں بلوں کو منظوری دے؟ تلنگانہ کی گورنر صاحبہ نے کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ دستور نے مجھے کچھ اختیارات دیے ہیں میں ان اختیارات کا استعمال کر رہی ہوں، دستور میں یہ کہیں درج نہیں ہے کہ بلوں کو اتنے دنوں میں منظور کیا جائے یا رد کیا جائے، دستور نے بلوں کو منظور کرنے کی کوئی مدت مقرر نہیں کی ہے۔ بات تو ان کی درست ہے لیکن گورنر تین کام تو کر سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ان بلوں کو منظور کر کے حکومت کو روانہ کر دیں۔ دوسرا ان بلوں کو نامنظور یا رد کر کے واپس بھیج دیں یا کچھ ترامیم کرنے کے لیے کہیں اور تیسرا یہ کہ اگر وہ یہ محسوس کریں کہ ان بلوں کے اثرات سارے ملک پر پڑ سکتے ہیں تو اسی حالت میں وہ ان بلوں کو صدر جمہوریہ کو روانہ کرسکتے ہیں لیکن وہ بلوں کو روک نہیں سکتے۔
اگر گورنر نے بلوں کو ترامیم کے لیے اسمبلی کو روانہ کیا یا اسے رد کرکے واپس کیا تو اس صورت میں اسمبلی کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس میں بغیر کسی ترمیم کے پھر سے اسی بل کو منظور کر لے۔ ایسی صورت میں کیا ہو گا؟ ایسی صورت میں گورنر کے پاس ان بلوں کو منظور کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں بچے گا۔ دستور کی دفعہ 200 میں یہی وضاحت کی گئی ہے، اس میں وقت کی کوئی قید نہیں لگائی گئی ہے بلکہ کہا گیا کہ گورنر جلد از جلد انہیں منظور کرے اور ان پر دستور کی روح کے مطابق فیصلہ کرے۔ وقت کی قید اس لیے نہیں رکھی گئی ہے تاکہ گورنر اس بل کو اچھی طرح جانچے اس کی تنقیح کرے، وہ یہ دیکھے کہ اس میں عوام کی بہبود ہے یا نہیں؟ وہ اس بات کی تنقیح کرے کہ اس بل سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں؟ اسی کام کے لیے گورنر کو وقت دیا جاتا ہے۔ گورنر ایک آزاد دستوری عہدہ ہے، وہ کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ وہ سیاسی جماعتوں سے الگ اپنی حیثیت رکھتا ہے، اسی لیے اس پر وقت کی پابندی کی قید نہیں لگائی گئی ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بعجلت ممکنہ کا لفظ کسی کے پاس ایک سال کا دورانیہ کا بھی ہوسکتا ہے اور کسی کے پاس ایک دن بھی ہو سکتا ہے۔
لیکن گورنروں کو دستور کی روح سمجھنا چاہیے، وہ یہ کہ بعجلت ممکنہ کا مطلب برسوں جانچ کے نام پر اپنے پاس بلوں کو دبائے رکھنا نہیں ہے، یہ دستور کی روح کے خلاف ہے، ان کو وقت کی قید میں نہ رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی من مانی کریں۔ یہ عہدہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کے لیے نہیں دیا گیا ہے یا تو وہ اسے نامنظور کر کے واپس کر دیں یا پھر ترامیم کی سفارش کر کے بھیج دیں، لیکن یہ کام نہ کر کے بلوں کو اپنے پاس دبائے رکھنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ معماران دستور نے اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے دستور کی تدوین کی تھی کہ گورنر چوں کہ ایک دستوری عہدہ ہے اور وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اسمبلیوں سے منظور ہونے والے بلوں کو اپنے پاس زیادہ عرصے تک روکے رکھنا نہ صرف دستور کی روح کے خلاف ہو گا بلکہ یہ غیر منصفانہ بات بھی ہو گی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ گورنر کسی سیاسی جماعت کے نمائندے کی طرح برتاؤ کرے گا، اس کا رویہ دستور کی روح کے خلاف ہو گا۔ اگر ان کو یہ محسوس ہوتا تو وہ اسی وقت یہ طے کر دیتے کہ گورنر ایک مقررہ وقت میں بلوں پر اپنا فیصلہ کردے اور وقت کی قید لگا دیتے۔ گورنر چوں کہ کوئی سیاسی نمائندگی نہیں کرتا اسی لیے اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ دستور کی روح کے مطابق کام کرے گا۔ اگر وہ اس روح کے خلاف کام کرے گا تو حکومت کا کام کیسے چلے گا؟ بلوں کی منظوری کا اختیار گورنر کی مرضی پر ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی چلائے بلکہ اس کو اختیار تمیزی اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ دستور کی روح کے مطابق فیصلہ کرے، گورنر کو اپنی صوابدید پر اس لیے نہیں چھوڑا دیا گیا ہے کہ وہ اپنی من مانی کرے، گورنر چوں کہ دستوری عہدہ ہے لہٰذا وہ بحیثیت گورنر کام کرے نہ کہ اپنی مرضی کے مطابق؟ اس کا ذاتی اختیار اس کے کھانوں میں، اس کے ذاتی کاموں میں ہو سکتا ہے لیکن جہاں تک دستوری عہدہ پر فائز ہونے کے بعد اس کا ذاتی اختیار باقی نہیں رہ جاتا وہ دستوری اختیار ہوتا ہے۔ ذاتی اختیارات میں اسے کسی سے مخاصمت ہو سکتی ہے، وہ کسی کو پسند یا ناپسند کرسکتا ہے لیکن دستوری اختیار میں اسے ان سب چیزوں کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا۔
کئی ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ کسی کو مکمل اختیارات سونپ دینا انتہائی خطر ناک بات ہے۔ یہ دستور کے ساتھ دغا بازی کے مترادف ہے۔ اختیار کا مطلب اچھے اور برے میں تمیز کرنا اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے کا اختیار ہی اصل چیز ہے۔ لیکن گورنروں کے موجودہ رویوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صلاحیت ان کے پاس نہیں ہے، اور وہ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں ہمیں سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کرنا نہیں آتا، ہمیں اختیار کا یہ مطلب نہیں معلوم ہے۔ اختیار کا مطلب ہم اپنا ذاتی اختیار ہی سمجھتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں کون کیا کر سکتا ہے؟ دستوری عہدہ پر فائز ہر کوئی دستوری روح اختیار کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو نقصان عوام کو ہو گا۔ ان کا کردار ایک طرح سے عوام مخالف نظر آرہا ہے، وہ بلوں کی منظوری میں تاخیر کر کے بالواسطہ طور پر عوام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

 

***

 غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں گورنر ابھی تک اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اب بھی بی جے پی کے کارکن ہیں کیوں کہ ان کا کردار کسی بی جے پی کے نمائندے کی طرح نظر آ رہا ہے، خاص طور پر جنوبی ہند کی تین ریاستوں تلنگانہ، تمل ناڈو اور کیرالا کے گورنروں کے رویوں کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022