گوا کے بعدتریپورہ اور میگھالیہ میں ترنمول کانگریس ناکام
تریپورہ میں خود کو بی جے پی کے متبادل کے طور پر پیش کرنے والی ترنمول کانگریس محض 0.88فیصد ووٹ حاصل کرسکی
(دعوت نیوز بیورو،کولکاتا)
میگھالیہ میں کانگریس کے بارہ منتخب ممبران اسمبلی کو پارٹی میں شامل کرنے کا بھی فائدہ نہیں ملا
بنگال کے مسلم اکثریتی حلقہ ساگر دیگھی کے ضمنی انتخابمیں شکست، ممتا بنرجی کے لیے واضح پیغام
سال 2021 کے بنگال اسمبلی انتخابات میں تیسری مرتبہ شاندار طریقے سے اقتدار میں واپسی کے بعد سے ہی ممتا بنرجی کے سیاسی عزائم بلند ہیں۔ان کی پارٹی ممتا بنرجی کو وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے اپوزیشن کی طرف سے سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر پیش کررہی ہے۔ اس کے لیے ترنمول کانگریس نے ملک کی دیگر ریاستوں میں اپنے قدم مضبوط کرنے اور کانگریس کا متبادل بننے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔اس کے لیے گوا، تریپورہ اور میگھالیہ میں توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ممتا بنرجی جارحانہ مہم کے لیے جانی جاتی ہیں چنانچہ انہوں نے اسی تیور کو اپنایا، اس مرتبہ ان کے نشانے پر بی جے پی نہیں بلکہ کانگریس تھی۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ ممتا بنرجی کانگریس کے خلاف اس قدر شدید حملہ آور کیوں ہیں؟ پرشانت کشور کی مدد سے میگھالیہ جہاں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی اکیس ممبران اسمبلی میں سے بارہ ممبران اسمبلی کو ترنمول کانگریس میں شامل کر دیا گیا مگر میگھالیہ کے اسمبلی انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھانے میں ترنمول کانگریس ناکام رہی ۔
تریپورہ میں بنگال ترنمول کانگریس کی پوری فوج کو اتار دیا گیا۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تریپورہ بنگال ترنمول کانگریس کے لیڈروں کا دوسرا گھر بن گیا تھا۔تقریبا پونے دو سال تک تریپورہ میں مکمل قوت جھونکنے کے باوجود جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس کے لیے ایک سبق ہیں۔ پارٹی کے سامنے سوال ہے کہ گوا کی طرح تریپورہ میں بھی ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑا ہے۔مگر تریپورہ کی ناکامی اس لیے بڑی ہے کہ ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کو تریپورہ کے بنگالی ووٹروں سے کافی امیدیں تھیں۔وہ اپنے فلاحی اسکیموں کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کررہی تھیں مگر تریپورہ کے محض بائیس ہزار ووٹروں نے ان کے حق میں ووٹ دیا۔نوٹا سے بھی کم ووٹ انہیں حاصل ہوئے۔میگھالیہ میں پانچ سیٹوں پر کامیابی کو ممتا بنرجی اپنی کامیابی کے طور پر پیش کررہی ہیں جبکہ یہ ممتا بنرجی کی کامیابی نہیں بلکہ ان پانچ ممبروں کا اپنا ذاتی سیاسی قد ہے جبکہ بارہ ممبران میں سے صرف پانچ کا ہی منتخب ہونا اپنے آپ میں ایک ناکامی ہے۔دوسری جانب مغربی بنگال کے ساگر دیگھی اسمبلی حلقہ میں ترنمول کانگریس کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔مرشدآباد اور مالدہ جو کانگریس کا گڑھ ہوا کرتا تھا، ممتا بنرجی کے عروج کے دور میں یہ دونوں گڑھ منہدم ہوگئے اس کے بعد ضمنی انتخاب میں کانگریس نے واپسی کی ہے۔ ساگر دیگھی سیٹ 2011کے بعد سے ہی ترنمول کانگریس کے پاس تھی اس کے باوجود یہاں کانگریس نے کامیابی حاصل کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کانگریس کی واپسی ہے یا پھر ترنمول کانگریس کی ناکامی؟
تریپورہ میں بی جے پی کی واپسی ہوگئی ہے جس پر جشن منایا جارہا ہے لیکن یہ واپسی کس طرح سے ہوئی ہے، یہ بھی ایک سوال ہے۔ اگر اپوزیشن کا مضبوط اتحاد ہوتا تو شاید نتیجہ کچھ اور ہوتا۔گوا اسمبلی انتخابات میں سب سے زیادہ فنڈ خرچ کرنے کے باوجود ایک بھی سیٹ جیتنے میں ناکام ہونے والی ترنمول کانگریس نے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔تریپورہ میں بھی اس نے وہی غلطی دہرائی۔دونوں مقامات پر وہ بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کرنے کے بجائے کانگریس پر سوال اٹھاتی رہی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپوزیشن میں بھرم تو پھیل گیا مگر فائدہ دونوں ہی جگہوں پر جے پی کو ہوا۔
یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ ترنمول کانگریس کے پاس تریپورہ کی تمام سیٹوں پر امیدوار کھڑا کرنے کی صلاحیت تک نہیں تھی اور کانگریس اور بی جے پی کا متبادل بننے کی بات کررہی تھی اور کانگریس اوربائیں محاذ کو بی جے پی کی بی ٹیم قرار دے رہی تھی؟ ممتا بنرجی کی پارٹی نے تریپورہ اسمبلی کی کل ساٹھ میں سے اٹھائیس سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔2018 کے اسمبلی انتخابات میں ترنمول نے چوبیس حلقوں میں 6,989 یعنی0.3 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اس بار انہیں اٹھائیس سیٹوں پر اکیس ہزار سے کچھ زائد یعنی0.88فیصد ووٹ ملے جو اس انتخابات کے NOTA سے بھی کم ووٹ ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2021 کے ضمنی انتخابات میں اگرتلہ میں ترنمول کانگریس تقریباً بیس فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی۔ اگرتلہ کارپوریشن کے اکیاون وارڈوں میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی لیکن شہر کے چھبیس وارڈوں میں ترنمول کانگریس دوسرے نمبر پر رہی۔ لیفٹ پچیس میں دوسرے نمبر پر تھی مگر اس کے چند مہینوں کے بعد ہی ضمنی انتخاب میں ممتا بنرجی کی پارٹی کے امیدوار کی ضمانت تک ضبط ہوگئی۔جون 2022 میں چار اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں ترنمول کانگریس کے ووٹوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ چاروں حلقوں میں ترنمول کانگریس کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ ان میں اگرتلہ میونسپلٹی کے تحت دو حلقے اور شامل ہیں۔ ٹاؤن باردووالی اور اگرتلہ-ٹاؤن باردووالی میں ترنمول کو 986 ووٹ ملے۔ اور اگرتلہ میں 842۔ دراصل ترنمول کانگریس کو امید تھی کہ تریپورہ کے بنگالی ووٹرس ان کے ساتھ آئیں گے مگر 2021میں تریپورہ میں ریاست کے دس فیصد مسلم آبادی کے مکانات اور مسجدوں پر حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تو ترنمول کانگریس نے مکمل طور پر اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرلی تھی جب کہ تریپورہ کے دس فیصد بنگالی مسلم ووٹرس ایک بڑا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں تھے اور اس الیکشن میں انہوں نے اپنا کردار ادا بھی کیا۔
میگھالیہ میں ترنمول کانگریس نے محض پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے مگر یہ پانچ سیٹیں اس کے لیے کسی صورت میں فائدہ مند نہیں ہیں کیونکہ کانگریس کے بارہ منتخب ممبران اسمبلی کو توڑ کر سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بننے والی ترنمول کانگریس اپنی سابقہ پوزیشن بھی برقرار نہیں رکھ سکی ہے۔انتخابات کے بعد یہ ممبران کتنے دنوں تک ان کے ساتھ رہیں گے یہ بھی دیکھنے کے قابل ہوگا۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر ترنمول کانگریس کو کامیابی کیوں نہیں مل رہی ہے؟ ممتا بنرجی کی کرشماتی سیاست بنگال کے باہر کام کیوں نہیں کررہی ہے۔اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ممتا بنرجی جس بنگال ماڈل کی بات کرتی ہیں آخر وہ کیا ہے اور کہاں ہے؟ اس سوال کا ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے؟ وہ صرف ریوڑی تقسیم کرنے کی بات کرتی ہیں مگر فلاحی اسکیموں پر گھوٹالوں کی سیریز ان کی شبیہ کو داغدار کرتی جارہی ہے۔اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری گھوٹالہ بی جے پی کے ذریعہ بے نقاب نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت نے جانچ شروع کی ہے بلکہ یہ گھوٹالہ عدالت نے بے نقاب کیا ہے اس لیے ممتا بنرجی اس کی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ممتا بنرجی کا ویژن غیر واضح ہے ۔ایک طرف وہ بی جے پی کا متبادل بننے کی بات کرتی ہیں مگر دوسری طرف اہم ایشوز پر وہ خاموش ہو جاتی ہیں۔ 2021کے اسمبلی انتخابات کے بعد سے ہی انہوں نے نرم ہندوتوا کی راہ اختیار کرلی ہے جبکہ نہیں لگتا کہ وہ اسی راہ پر چل کر بی جے پی کے ووٹ میں سیندھ لگا سکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندوتوا کے حامی ووٹرس نرم ہندوتوا کے پاس کیوں جائیں گے اور یہ بھی سوال ہے کہ ممتا بنرجی نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مسلمانوں کے لیے کیا کیا ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں کے مسلم ووٹرس ان پر اعتماد کا اظہار کریں؟
بنگال کے ساگر دیگھی اسمبلی حلقے کے ضمنی انتخاب میں ترنمول کانگریس کی شکست
بنگال میں ضمنی انتخابات کو حکمراں جماعت کی یقینی کامیابی تصور کیا جا رہا تھا چنانچہ ساگر دیگھی میں ترنمول کانگریس کی کامیابی تقریباً طے تھی مگر نتیجے نے ترنمول کانگریس کو دن میں ہی تارے دکھا دیے۔لہذا نتائج کے بعد ممتا بنرجی کا بیان ان کی جھنجھلاہٹ اور ناراضگی کی عکاسی کرتا ہے۔اگرچہ ایک سیٹ پر شکست کو عوام کے موڈ اور ان کی بدلتی سوچ کا میمورنڈم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بنگال کے عوام کا اعتماد ممتا بنرجی سے ختم ہونے لگا ہے لیکن ممتا بنرجی کے ماتھے پر شکن ڈالنے والا ضرور ہے۔
دراصل ساگر دیگھی حلقے میں مسلم ووٹر ستر فیصد کے قریب ہیں اس کے باوجود ممتا بنرجی 2011 سے ہی اس علاقے سے ایک غیر مسلم امیدوار کو کامیاب بنارہی تھیں۔ مسلم ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ترنمول کانگریس یہاں سے کامیاب ہوتی رہی ہے مگر اس مرتبہ یہ ایشو کافی چھایا رہا اور ترنمول کانگریس کے مسلم لیڈروں نے بھی پارٹی قیادت کے سامنے یہ بات رکھی مگر مسلم لیڈروں کی بات کون سنتا ہے، چنانچہ اس مرتبہ بی جے پی نے بھی غیر مسلم امیدوار کو کھڑا کرکے ترنمول کانگریس کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ کانگریس نے نوجوان صنعت کار مسلم لیڈر کو بحیثیت امیدوار کھڑا کرکے مقابلہ سخت کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ساگر دیگھی میں ممتا بنرجی کی شکست کی وجہ سے کانگریس، بایاں محاذ اور بی جے پی کا گٹھ جوڑ کا کیا نتیجہ نکلا؟ ممتا بنرجی کا دعوی ہے کہ بی جے پی کے ووٹرس نے اس مرتبہ کانگریس کو ووٹ دیے ہیں۔ اگر اعداد وشمار کا تجزیہ کیا جائے تو صاف واضح ہے کہ جہاں بی جے پی کے ووٹ کم ہوئے ہیں وہیں ممتا بنرجی کے ووٹ بھی کم ہوئے ہیں جو کانگریس کے پاس چلے گئے ہیں۔چونکہ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے یہاں سے مفوضہ خاتون کو امیدوار بنایا تھا اس لیے انہیں دس فیصد مسلم ووٹ بھی ملے تھے۔ اس مرتبہ بی جے پی نے کسی اور کو ٹکٹ دیا تھا اس لیے مسلم ووٹرس کانگریس کے مسلم امیدوار کی طرف چلے گئے۔
تاہم ساگر دیگھی میں ترنمول کانگریس کی شکست کی وجوہات تلاش کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اساتذہ کی تقرری میں گھوٹالے نے ممتا بنرجی کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے جبکہ نوجوانوں کا بڑا حلقہ بھی ناراض ہے۔ممتا بنرجی اس گھوٹالے کی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتیں کیونکہ یہ گھوٹالہ کئی سالوں پر محیط ہے اور اس میں ان کے سب سے قریبی لیڈر ملوث ہیں۔ اگر بھارت کی سیاست میں اخلاقیات کا دخل ہوتا تو صرف پارتھو چٹرجی کو نہیں خود ممتا بنرجی کو بھی اخلاقی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔
دوسری وجہ مسلم آبادی کو نظر انداز کرنا بھی ہے، کیونکہ بنگال کی سیاست میں مسلمان نہایت تیزی سے سیاست میں غیر اہم ہوتے جارہے ہیں، اور اچھی بات یہ ہے کہ اس کا احساس مسلمانوں میں گہرا ہوتا جا رہا ہے جبکہ ممتا بنرجی شدت کے ساتھ ہندوتوا کی سیاست پر گامزن ہیں۔درگا پوجا، گنگاآرتی اور مندروں کی تعمیر میں سرکاری خزانے لٹارہی ہیں اور اس کے ذریعہ وہ اکثریتی طبقے کو پیغام دینا چاہتی ہیں کہ وہ ہندوتوا کے معاملے میں بی جے پی سے کم نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ آر ایس ایس کی بھی تعریف کرتی ہیں۔ گزشتہ ضمنی انتخابات میں کولکاتا میں واقع بالی گنج اسمبلی حلقہ سے ترنمول کانگریس نے سابق مرکزی وزیر بابل سپریو کو امیدوار بنایا۔بابل سپریو پر 2018 میں ہونے والے آسنسول فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دینے کا الزام ہے۔اس وقت بابل سپریو مرکزی وزیر تھے اور بی جے پی کے سینئر لیڈروں میں ان کا شمار ہوتا تھا مگر مرکزی وزارت سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔بالی گنج اسمبلی حلقہ جہاں مسلم ووٹرس کی تعداد چالیس فیصد کے قریب ہے مسلمانوں نے شدید مخالفت کی مگر ترنمول کانگریس نے اس کی کوئی پروا نہیں کی۔اس حلقے سے 2021 میں ترنمول کانگریس کے امیدوار سبرتو مکھرجی کو اکہتر فیصد ووٹ ملے مگر ضمنی انتخاب میں انچاس فیصد ووٹ ملے۔ظاہر ہے کہ مسلم ووٹروں نے یہاں بھی ناراضگی کا اظہار کیا مگر اس وقت بھی اس پر توجہ نہیں دی گئی۔اس مرتبہ ساگر دیگھی کے عوام نے واضح کر دیا ہے کہ بی جے پی سے خوفزدہ کرنے کی سیاست زیادہ دنوں تک کارگر نہیں ہوگی۔
ترنمول کانگریس کی شکست کی ایک بڑی وجہ آئی ایس ایف کے ممبر اسمبلی نوشاد صدیقی کو بغیر کسی وجہ کے چالیس دنوں تک جیل میں رکھنا بھی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن ساگر دیگھی میں ضمنی انتخابات کے نتائج آئے اسی دن کلکتہ ہائی کورٹ نے نوشاد صدیقی کو بغیر کسی شرط کے رہا کر دیا ہے۔ نوشاد صدیقی کا تعلق مغربی بنگال کے مشہور خانوادے فرفرہ شریف سے ہے۔ نوشاد صدیقی کی گرفتاری سے مسلمانوں میں واضح پیغام گیا کہ مخالفت میں اٹھنے والی آواز ممتا بنرجی کو برداشت نہیں ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ اقلیتی ووٹروں کا لگاتار کھسکنا ممتا بنرجی کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اگر 2021 کے اسمبلی انتخابات میں ممتا بنرجی تیسری مرتبہ اقتدار میں پہنچی ہیں تو وہ بنگال کے تیس فیصد مسلم ووٹوں کا پولرائزیشن ہی ہے۔اگر مسلم ووٹ اسی طرح سے کھسکتے رہے تو 2024میں ممتا بنرجی کے لیے راہیں اتنی آسان نہیں ہوں گی جتنی وہ سمجھ رہی ہیں۔انہیں طے کرنا ہوگا کہ آیا وہ نرم ہندوتوا کی راہ اختیار کریں گی یا پھر سیکولرزم کی راہ پر چل کر ملک کو مضبوط بنائیں گی؟
***
***
ممتا بنرجی کی کرشماتی سیاست بنگال کے باہر کام کیوں نہیں کررہی ہے۔اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ممتا بنرجی جس بنگال ماڈل کی بات کرتی ہیں آخر وہ کیا ہے اور کہاں ہے؟ اس سوال کا ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے؟ وہ صرف ریوڑی تقسیم کرنے کی بات کرتی ہیں مگر فلاحی اسکیموں پر گھوٹالوں کی سیریز ان کی شبیہ کو داغدار کرتی جارہی ہے۔اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری گھوٹالہ بی جے پی کے ذریعہ بے نقاب نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت نے جانچ شروع کی ہے بلکہ یہ گھوٹالہ عدالت نے بے نقاب کیا ہے اس لیے ممتا بنرجی اس کی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023