غذائی سلامتی کا اعلان مودی حکومت کا تحفہ نہیں مجبوری ہے

روزگار فراہم کیا ہوتا راشن فراہم کرنا نہیں پڑتا۔ سرکاری خزانہ پر دو لاکھ کروڑ روپے کا بوجھ!

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ٹیکس دہندگان کا پیسہ ووٹ بٹورنے کا ذریعہ۔ ذات پات کے شکنجے میں جکڑا ہوا معاشرہ سماجی انصاف و معاشی سلامتی سے محروم
ملک کو یوکرین۔ روس جنگ اور عالمی مندی کے اثرات سے کئی چیلنجز کا سامنا
وزیراعظم نریندر مودی نے ایک تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے قومی غذائی سلامتی ایکٹ کے تحت 81.35 کروڑ لوگوں کو ایک سال کے لیے مفت راشن فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے جس کے باعث خزانہ پر تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا جبکہ اقوام متحدہ نے بھی دنیا بھر سے 2030 تک بھکمری کے خاتمہ کا ہدف دیا ہے۔ مرکزی وزیر خوراک پیوش گوئل نے اسے مودی حکومت کی طرف سے عوام کے لیے تحفہ قرار دیا ہے۔ اس وزیر سے کوئی پوچھے کہ دو لاکھ کروڑ روپے کی رقم کیا مودی اپنی جیب سے ادا کریں گے؟ یہ تو دراصل ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہے لہذا غذائی سلامتی کے اعلان کو ٹیکس دہندگان کی طرف سے اپنے بے کس غریب بھائیوں کے لیے تحفہ کہا جانا چاہیے۔ درحقیقت یہ تحفہ بی جے پی کے لیے ووٹ کے حصول کا محض ہتھیار ہے کیونکہ حکومت حسب وعدہ سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے سے قاصر رہی۔ اس طرح خط افلاس کے نیچے رہنے والے اور نان شبینہ کو ترسنے والے لوگوں کو بھوک سے بچانے کا ذریعہ ہے اور ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کو مفت راشن دیا جا رہا ہے۔ یہ حکومت کا اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے جملہ بازی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ صحت مند ترقی پذیر جمہوریت کے لیے ضروری تھا کہ ہر ہاتھ کو کام ملتا اور اسے ایسی کسی راحتی اسکیم کا محتاج رہنا نہ پڑتا۔ ہمارے ملک میں معاشی عدم مساوات بہت ہی زیادہ ہے۔ امیر، امیر تر ہو رہے ہیں اور غریب، غریب سے بدتر ہو رہے ہیں۔ ذات پات کے شکنجے میں جکڑا ہوا سماج، سماجی انصاف اور معاشی سلامتی سے محروم ہو رہا ہے۔ ایسے ہی حالات میں کمزور اور حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں کو راحت کی طلب اور ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں مذہبی منافرت، آپسی تفریق، مہاجرت، قدرتی آفات، حادثات اور کورونا وبا جیسے آفات و مصائب کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سالہا سال سے مسلسل آنے والے قدرتی آفات، سیلاب، قحط و دیگر مصائب غربا کی مشکلات میں اضافہ کا سبب ہوتے ہیں۔ اس لیے حکومتوں پر دستوری ذمہ داری ہے کہ ایسے مصیبت زدگان کو راحت ضرور دے اس لیے تو قومی غذائی سلامتی قانون (این ایف ایس اے) کو نافذ العمل بنانا ہے تاکہ کوئی شہری بھوکا نہ سوئے۔ ہر غریب اور مفلس کو پانچ کلو اناج ہر ماہ مفت مہیا کرانے کا نظم کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی مفلس لوگوں کے لیے فی کنبہ پینتیس کلو مفت اناج فراہم کرانے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ ملک میں کورونا وبا کی سختی کی وجہ سے پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کے ذریعے بھوک سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کی گئی جس کی مدت کو ایک سال مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ ملک میں روزگار ناپید ہے اس لیے مفلس ترین اور خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی مدد کرنا ضروری تھا۔ وہ بھی تب عالمی بھکمری اشاریے (جی ایچ آئی) میں بھارت کا مقام کھسک کر 141 ممالک میں 107ویں پر پہنچ گیا ہے۔ یوکرین روس کی جنگ اور عالمی مندی کے اثرات سے ہمارے ملک کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں نصف آبادی کو مفت اناج طویل مدت تک فراہم کرنا مشکل ہوگا۔ ہماری معیشت کی حالت اچھی نہیں ہے۔ درآمدات بڑھے ہوئے اور برآمدات میں تشویش کی حد تک کمی ہے۔ تجارتی خسارہ آسمان پر ہے۔ کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسیٹ معیشت پر ضربیں لگا رہا ہے۔ ایسے حالات میں قومی غذائی سلامتی ایکٹ کے تحت ملک کی 50فیصد شہری آبادی اور 75فیصد دیہی آبادی کو اناج کی فراہمی یہ ثابت کرتی ہے کہ یکطرفہ ترقی سے سماج کے آخری انسان کی زندگی میں بہتری لانے میں حکومت قطعی ناکام رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر ہاتھ کو کام دیا جائے نہ کہ مفت راشن۔ اس کے لیے صحت مند اور مستقل لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے تبھی ہم ترقی کی اونچائی پر پہنچ پائیں گے۔ جس اعلان کو فلاحی اور غربا کا نجات دہندہ کہا جارہا ہے اس سے لوگوں کو بہت زیادہ فائدہ نہیں مل پا رہا ہے۔ اگر ہم اسے عوام کی نظروں سے دیکھیں تو ماقبل کورونا وبا کے مقابلے ان کو محض دس روپے کی بچت ہوگی لیکن کورونا کے مقابلے میں انہیں نوے روپیوں کا نقصان ہے، مگر حکومت کی نظر سے دیکھیں تو یہ اسے محض اپنے انتخابی مفاد کی فکر ہے۔ اب ایک طرف دو سے تین روپے خرچ بڑھے گا دوسری طرف پانچ کلو اناج کی بچت ہے۔ اس طرح سرکاری خرچ میں بچت تقریباً ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے ہوگی اور اس پر تو غربا کا ہی حق ہونا چاہیے لیکن اس طرح کے اعلان سے حکومت کی بچت ہوگی۔ اس سے ممکنہ طور پر چار متبادل ہوسکتے ہیں۔ دس کروڑ نئے لوگوں کو شامل کرنے میں بیس ہزار کروڑپے خرچ ہوں گے۔ آنگن واڑی کو پروٹین بھری غذاکھلانے میں چھ ہزار پانچ سو کروڑ اور اسکول میں مڈ ڈے میل پر چھ ہزار کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ مادری مفاد قانون کو دستوری طور سے نافذ کرنے کے لیے چھ ہزار کروڑ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہر ماہ دال اور تیل کے لیے ایک لاکھ کروڑ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ بجٹ میں تخفیف کردی گئی ہے۔ اچھے نشو ونما کے لیے بچپن میں متوازی غذائیں ملنا انتہائی ضروری ہے اس کے علاوہ غذائی سلامتی قانون میں بچہ پر مادری مفاد کی شکل میں چھ ہزار روپے دینے کا نظم ہے مگر پردھان منتری وندنا یوجنا کے تحت اسے کم کرکے پانچ ہزار روپے کر دیا ہے جو محض ایک بچہ تک ہی محدود ہے جو مناسب نہیں ہے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کا دائرہ بڑھایا جائے۔ غذائی سلامتی قانون کے تحت شہری علاقے کے پچاس فیصد لوگوں کو اور دیہی علاقے کے پچھتر فیصد لوگوں کے ساتھ 2013 (جب سے اس قانون کا اطلاق ہوا ہے) سے آج تک دس سالوں میں جن دس کروڑ لوگوں کا اضافہ ہوا ہے اسے بھی پی ڈی ایس سے منسلک کرلیا جائے کیونکہ مرکزی حکومت 2011 کی مردم شماری کے حساب سے آبادی کا تخمینہ لگاتی ہے جو کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
واضح رہے کہ یکم جنوری 2023 سے نافذ ہونے والا قومی غذائی سلامتی ایکٹ کارڈ والوں کے حقوق میں تبدیلیوں کے ضمن میں کافی غلط فہمیاں ہیں۔ اول یہ کہ معمولی قیمت کے عوض این ایف ایس کا اناج مفت تقسیم کرنے کی ہدایت ہے، دوم پی ایم جی کے اے وائی کو ختم کرنا ہے۔ یاد رہے کہ این ایف ایس اے کارڈ والوں کو عام طور پر قومی غذائی سلامتی ایکٹ کے تحت فی کس فی ماہ پانچ کلو اناج دیا جاتا ہے۔ ابھی تک دو روپے کلو گیہوں اور تین روپے کلو چاول دیا جارہا تھا اب مرکزی حکومت نے 23 دسمبر کی کابینی میٹنگ میں ملک کے اکیاسی کروڑ لوگوں کو مفت اناج دینے کا اعلان کیا ہے لہٰذا 2023 سے انہیں یہ اناج مفت ملا کرے گا اور فی کس ہر ماہ دس سے پندرہ روپے کی بچت ہوگی اس سے بہت زیادہ امید فضول ہے اور نہ ہی اس سے مرکزی حکومت کا کوئی اضافی رقم خرچ کرنے کا ارادہ ہے۔ شاید پندرہ ہزار کروڑ روپے ایک سیاسی اور اسمارٹ قدم ہے جو وزیر اعظم کو غذائی سلامتی سبسیڈی کے لیے مکمل کریڈٹ کا دعویٰ کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ لوگ مفت راشن پاکر اس کا کریڈٹ مودی کو دیں جب کہ حقیقتاً وہ این ایف ایس اے کو نافذ کر رہے ہیں اور اس میں معمولی سبسیڈی ملا رہے ہیں۔ معاشی نقطہ نظر سے اپریل 2020 میں شروع کی گئی پی ایم جی کے اے وائی کے تحت سبھی این ایف ایس اے کارڈ والوں کو فی کس پانچ کلو گرام مفت اناج دیا جاتا تھا جو مفلس کنبوں کے لیے بڑی راحت اور حکومت پر بوجھ بھی کیونکہ این ایف ایس اے کے لیے چھ سو لاکھ ٹن اناج کی ضرورت ہے جس میں پی ڈی ایس کے لیے چار سو اسی لاکھ ٹن دیگر راحتی اسکیموں کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو سال قبل تک غذائی ذخیرہ میں زبردست اضافہ ہو رہا تھا۔ اب پی ایم جے کے اے وائی نے اسے تلپٹ کرکے پی ڈی ایس سسٹم کو دوگنا کر دیا ہے۔ اس طرح تقسیم، خرید سے زیادہ ہوگئی ہے، دوسری طرف ذخیرہ میں تیزی سے کمی۔ لیکن دیگر مناسب متبادل کے بغیر پی ایم جی کے وائی کو ختم کرنا کس طرح مناسب نہیں ہے۔ پانچ کلو گرام فی کس فی ماہ این ایف ایس اے کے حساب سے دس کروڑ لوگوں کو شامل کرنے پر ہر سال محض ساٹھ لاکھ ٹن مزید اناج دینا ہوگا جو ناممکن نہیں ہے۔ پی ایم جی کے وائی دینے کے بعد اناج کے ذخیرہ میں پھر اضافہ ہوگا۔ ملک کے درجنوں ماہرین اقتصادیات نے حال ہی میں خط لکھ کر وزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ مڈ ڈے میل اور بچوں کی ترقیاتی منصوبے کے لیے گزشتہ آٹھ سالوں میں زبردست کمی کردی گئی ہے اسے بحال کیا جائے۔ اسی کے ساتھ مادری ترقیاتی منصوبہ کو این ایف ایس چار کے تحت بحال کرنا ضروری ہے اور چھ ہزار روپے فی بچے کے پرانے حساب سے نفع میں اضافہ کو بڑھانا بھی ضروری ہے۔ بہت ہی کم ترقی پذیر ممالک نے غدائی سبسیڈی، بزرگوں کے پنشن، مڈ ڈے میل اور دیہی علاقوں میں روزگار ضمانت کو اختیار کیا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں کیے جانے والے اخراجات ہر معاملے میں کم ہیں جنہیں بڑھایا جاسکتا ہے۔ آج کل شہریوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہوجائیں اور صرف اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ اس لیے زرعی معاشیات کے ماہرین حکومت کے اس قدم کو ایک خطرناک قدم قرار دے رہے ہیں جو مستقبل میں زرعی تحفظ کے گمبھیر مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
***

 

***

 اچھے نشو ونما کے لیے بچپن میں متوازی غذائیں ملنا انتہائی ضروری ہے اس کے علاوہ غذائی سلامتی قانون میں بچہ پر مادری مفاد کی شکل میں چھ ہزار روپے دینے کا نظم ہے مگر پردھان منتری وندنا یوجنا کے تحت اسے کم کرکے پانچ ہزار روپے کر دیا گیا ہے جو محض ایک بچہ تک ہی محدود ہے ،مناسب نہیں ہے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کا دائرہ بڑھایا جاتا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جنوری تا 28 جنوری 2023