’’زرعی اصلاحت کو ایک موقع دیں اور اپنا احتجاج ختم کریں، وزیر اعظم مودی نے راجیہ سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کسانوں سے کی اپیل
نئی دہلی، 8 فروری: وزیر اعظم نریندر مودی نے آج راجیہ سبھا میں تقریر کرتے ہوئے مظاہرین سے نئے زرعی قوانین کے خلاف اپنا احتجاج ختم کرنے کی پرزور اپیل کی اور زرعی اصلاحات پر اچانک ’’یو ٹرن‘‘ کے لیے اپوزیشن جماعتوں پر انگلی اٹھائی۔
وزیر اعظم نے احتجاج کی حمایت کرنے والوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ملک میں مشتعل افراد کی ایک نئی ’’نسل‘‘ ابھری ہے جو بغیر کسی احتجاج کے زندہ نہیں رہ سکتی ہے اور ملک کو ان سے محتاط رہنا چاہیے۔
مودی نے یہ بھی کہا کہ نیا ایف ڈی آئی ملک میں ابھرا ہے اور ’’ملک کو ایسے نظریے سے بچانے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔‘‘
مودی نے اس پر بھی زور دیا کہ ہندوستان کو سکھوں کی شراکت پر بہت فخر ہے اور ان کے لیے کچھ لوگوں کے ذریعہ جو زبان استعمال کی گئی ہے اس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ کچھ لوگ سکھوں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مودی نے راجیہ سبھا میں کہا ’’یہ (سکھ) ایک ایسی جماعت ہے جس نے قوم کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ ملک سکھوں کی شراکت پر فخر محسوس کرتا ہے، لیکن کچھ لوگ ان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گرو صاحبوں کے الفاظ اور آشیرواد قیمتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے ذریعہ ان کے لیے استعمال کی گئی زبان سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
زرعی قوانین پر جاری احتجاج کو لے کر مودی نے کہا ’’ایم ایس پی موجود تھی اور ایم ایس پی موجود ہے۔ ایم ایس پی آئندہ بھی رہے گی۔ غریبوں کے لیے سستا راشن جاری رہے گا۔ منڈیوں کو جدید بنایا جائے گا۔‘‘
انھوں نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ذریعے زراعت کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت کے مشوروں کا حوالہ دیا اور کہا کہ کانگریس کو فخر ہونا چاہیے کہ مودی نے وہ کام کیا جو سابق وزیر اعظم چاہتے تھے۔
مودی نے کہا کہ 2014 سے ہی ان کی حکومت نے زراعت کے شعبے میں تبدیلی کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد کسانوں کو بااختیار بنانا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ فصلوں کی انشورنس اسکیم کو کسانوں کے لیے زیادہ مفید بنانے کے مقصد سے تبدیل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کی بہتری کے لیے پی ایم-کسان اسکیم بھی لائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ مودی کے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب دہلی کی مختلف سرحدوں پر زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج لگاتار دو مہینے سے جاری ہے اور لگاتار تیز ہوتا جارہا ہے۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ ان تینوں قوانین کو منسوخ کیا جائے کیوں کہ انھیں خدشہ ہے کہ یہ ایم ایس پی کو ختم کرنے کی راہ ہموار کریں گے اور کسانوں کو کارپوریٹ اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔
مرکزی حکومت اور کسانوں کے درمیان متعدد دور کے مذاکرات اس تعطل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اب کسانوں نے احتجاج نے عالمی توجہ بھی حاصل کرلی ہے اور اس کی حمایت میں عالمی سطح پر مشہور کئی شخصیات نے ٹویٹ کیا ہے اور حکومت سے کسانوں کے مطالبات سننے کی اپیل کی ہے۔