گھروں کا انہدام ، انصاف نہیں ظالمانہ کارروائی

تعمیری امور کے لیے ایجاد شدہ مشین تخریب کاری کا آلہ!

0

ڈاکٹر شاداب منوّر موسیٰ

دنیا کے مختلف ممالک میں اقلیتوں کو زیر کرنے کے لیے بلڈوزر کا سہارا-لمحۂ فکریہ
بلڈوزر راج؛بھارت کے مسلمانوں کے دستوری حقوق سلب کرنے کا سرکاری حربہ
بھارت کی چند ریاستی حکومتوں کی جانب سے،مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ملزمین کی قانونی طور پر تعمیر شدہ رہایشی اور تجارتی عمارتوں کو بلڈوزروں کے ذریعے پوری طرح مسمارکرنے کے دل دہلا دینے والے متنازعہ طرز عمل پر سپریم کورٹ کے حالیہ ریمارکس کی وجہ سے سماج میں قانونی اور اخلاقی بحث کا ایک سلسلہ شروع ہوچلا ہے۔ بھارت کی ان ریاستوں میں عموماً یہ بلڈوزر کارروائیاں، عوام کے ایک خاص طبقے کے خلاف بطور انتقام کی جارہی ہیں۔ انہیں کارروائیوں کے پس منظر میں 2؍ستمبر 2024 کو جسٹس بی آر گوائی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی ایک بنچ کے جج کے وی وشواناتھن نے ان تمام انہدامی کارروائیوں کی قانونی حیثیت سرکاری اختیارات اور انسانی اخلاقیات پر چند نہایت معقول اور واجبی سوالات اٹھائے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کا قانون اس قسم کی کسی بھی کارروائی کی ہرگز حمایت نہیں کرتا۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ عدالتوں میں زیر دوراں مقدمات کے ملزمین کی جائز رہایشی یا تجارتی عمارتوں کو بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کردینا عدالت کے لیے ناقابل فہم کارروائی ہے۔ہاں اگر کسی خاطی یا مجرم کو سزا دی جانی ہو تو سزاصرف اسی ملزم کو دی جاتی ہے نہ کہ اس کی کسی ذاتی رہائشی عمارت کو یا اس کے گھر کومسمارکیا جاتا ہے جس میں اس کے معصوم بے قصور بچے، خواتین، بزرگ اور دیگر افراد خاندان رہائش پذیر ہوں؟
سپریم کورٹ کی تحقیقاتی کمیٹی کے پاس تمام بلڈوزر انہدامی کارروائیوں کے خلاف عوامی شکایتوں اور درخواستوں کا ایک انبار لگا ہوا ہے خصوصاً اتر پردیش کی حکومت کے خلاف ان شکایتوں کو سپریم کورٹ کی اس خصوصی بنچ نے سنجیدگی کے ساتھ نوٹ کیا ہے۔ اسی لیے آج ریاستی حکومت اترپردیش ’بلڈوزر راج‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ بنچ نے اترپردیش کی حکومت کے اس طرز حکم رانی پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے اور یقیناً ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے قانون کے دیگر راستوں کو اختیار نہ کیے جانے کا نتیجہ ہے۔
بلڈوزر انصاف کے خلاف متاثرہ درخواست گزاروں کی وکالت کرنے والے بیشتر وکلا میں سینئر وکیل دشمانت دیو اور سی وی سنگھ نے عدالت میں اس بات پر زور دیا کہ غیر متعلقہ عوام کی قانونی رجسٹرڈ رہائشی اور تجارتی املاک کے انہدام کو ریاستی حکومتوں کی جانب سے غیردستوری، غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دے کر انہیں بلڈوزروں کے ذریعے منہدم کرنے سے پہلے عدالت واضح احکامات جاری کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی غیر انسانی کارروائی کسی بھی معاشرے کے لیے نہایت خطرناک ہے اور ہمارے معاشرے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
یو پی حکومت کی وکالت کرنے والے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے حکومت کے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یہ تمام بلڈوزر کارروائیاں، بلدی قوانین کے عین مطابق انجام دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان انہدامی کارروائیوں کے تحت اب تک صرف انہیں عمارتوں کو منہدم کیا گیاہے جو بلدیہ کی باضابطہ تحریری اجازت کے بغیر تعمیر کی گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ بلڈوزر کارروائی کسی شہری کے خلاف سرکاری طور پر انتقام لینا یا کسی ملزم کو اپنے طور پر سزا دینا ہرگز نہیں ہے بلکہ حکومت تو صرف بلدی قوانین کی خلاف ورزی کرکے یا بلا اجازت تعمیر کی جانے والی عمارتوں کو منہدم کررہی ہے۔ اس پس منظر میں ان بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف سپریم کورٹ کا سخت انداز میں ناراضگی کا اظہار ریاستی حکومتوں اور سپریم کورٹ کے درمیان پیدا شدہ تناؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر عدلیہ بھی عوام کے شہری حقوق کا ہرقیمت پر تحفظ چاہتی ہے۔
ایک مشہور غیر ملکی سماجی جہد کار Andy Holland Back کے مطابق، آج لفظ بلڈوزر بذات خود ’’سرکاری تشدد اور ظلم و جبر کی علامت بن گیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ امریکہ میں خانہ جنگی کے اختتام کے بعد سیاہ فام امریکی شہریوں کو جبراً ووٹ بینک بنانے کی حکمت عملی کے پیش نظر پہلی بار بلڈوزر کے ذریعے سینکڑوں رہائشی عمارتوں کو منہدم کیا گیاتھا جو بعد میں غیر انسانی اور وحشیانہ شکل اختیار کرگیا۔ درحقیقت امریکہ میں یہ بلڈوزر کارروائیاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے منظم کی گئیں جن کا مقصد اقلیتی سیاہ فام امریکیوں کو خوف زدہ کرکے ان کی حفاظت کے نام پر انہیں ان جماعتوں کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کرنا تھا۔
جن مشینوں کو آج ہم بلڈوزر کے طور پر جانتے ہیں اس کی جڑیں نسلی تشدد اور اقلیتوں پر ظلم و زیادتی سے مربوط ہیں۔ آج اسی بلڈوزر کلچر کا تجربہ بھارت میں مسلم ووٹرس کو اکثریتی فرقوں سے خوف زدہ کرکے انہیں قومی دھارے سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ عموماً بلڈوزر ظلم، محض کسی سماج کو صرف خوف زدہ کرنےکے لیے ہلکی سی کارروائی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ آج بچوں کو بلڈوزر نما کھلونے کھیلنے کے لیے دیے جارہے ہیں۔ آج یہی کھلونا بھارت میں مختلف تہواروں تقریبوں اور دیگر مواقع پر ایک دوسرے کو تحفتاً دیا جارہا ہے۔ بلڈوزر بھارت کے مسلمانوں کے خلاف غیر انسانی سخت ترین اذیت ناک اور معاشی طور پر تباہ کرنے کا آسانی سے دستیاب ہتھیار بن گیا ہے۔ ملک میں اقلیتوں پر اپنی دھاک جمانے کے لیے کچھ سیاسی قائدین کے ناموں کے ساتھ ’بلڈوزر بابا‘ اور ’بلڈوزر ماما ‘ کا لقب جوڑ ا جا رہا ہے۔ اس تشہیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کا سیاسی منظر نامہ، بلڈوزر کے ذریعے اقلیتوں پر خصوصاً مسلمانوں پر سرکاری ظلم کی حیثیت سے حاوی ہوگیا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی معیشت کو تباہ و برباد کرنا رہ گیا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ ریاستی انتظامیہ کا وحشیانہ طرز عمل حکم رانوں کی اپنی قانونی و انتظامی کم زوری کا ثبوت ہے۔ حکومت کی جانب سے طاقت کا اس طرح غلط اور ناجائز استعمال بے شمار سوالات کو جنم دیتا ہے جو حکومت اور عوام کے درمیان توازن، اعتماد اور انصاف کے درمیان بہت بڑی دراڑ بن رہا ہے۔ مجبور و بے بس عوام پر حکومت کوحاصل دستوری طاقت و اختیارات کے ناجائز استعمال سے قانون کی حکم رانی کے اصولوں پر کاری ضرب لگ رہی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں بلڈوزر کارروائی نے ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی خلیج کو تشویش ناک حد تک گہرا کردیا ہے جس سے حالات مزے خطرناک حد تک آچکے ہیں۔
بلڈوزر، ابتدائی احوال:
دنیا کے چند ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں بلڈوزر حق پسند عوام کی آواز اور ان کے جائز مطالبات کو دبانے کی سرکاری طاقت بنا ہوا ہے خصوصاً امریکہ میں جہاں برسر اقتدار ٹولے نے سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ ظالمانہ تشدد برتاؤ روا رکھا تھا ان کے لیے بلڈوزر ایک نہایت کارآمد ہتھیار ثابت ہوا۔ آج لفظ بلڈوزر بذات خود انسانوں پر ظلم اورتشدد کا ثبوت ہے جو بیسویں صدی کی ابتدا تک اور سرکاری سطح پر ظلم و زیادتی اور جسمانی ایذا کے طور پر استعمال کیا جاتا رہاہے۔ 1917 میں بلڈوزر Russel Grader نامی مینوفیکچرنگ کمپنی نے تیار کیے اور اس کی مارکٹنگ بھی کی گئی۔ ابتدائی دنوں میں تعمیراتی کاموں کے دوران بہت بڑی مقدار میں مٹی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے خچروں کا استعمال کیا جاتا تھا یا بھاپ سے چلنے والے چھوٹے ٹریکٹروں کے ذریعے مٹی منتقل کی جاتی تھی 1904 میں بنجامن ہولٹ Benjamin Holt نے Caterpillar نامی دیوہیکل مشین تیار کی جو آج ڈیزل سے چلتی ہے۔ کام کی بے پناہ صلاحیت والی اس بڑی مشین کی ایجاد کے بعد دیگر تمام چھوٹی بڑی مشینیں اس کے آگے شکست کھا گئیں۔ 1930 کی دہائی تک یہ Caterpillar زراعت اور دیگر بڑے بڑے تعمیری پروجیکٹس میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہونے لگے۔
دوسری جنگ عظیم میں بلڈوزروں کو فوجی کارروائیوں میں نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا، چنانچہ امریکی فوج (خصوصاً بحریہ کی تعمیراتی بٹالین اور فوجی تربیت کے دیگر شعبے بلڈوزر کی صلاحیت پر انحصار کرنے لگے۔ بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کا ملبہ ہٹانے میں یہ بہت مددگار ثابت ہوئے۔ دیگر مہمات میں بحرالکاہل میں اور گھنے جنگلات میں فوجی ہوائی اڈے قائم کرنے میں بھی بہت سہولت بخش ثابت ہوئے۔جنگ سے متاثرہ شہری علاقوں میں ملبہ ہٹانے کے لیے بلڈوزر وسیع پیمانے پر استعمال ہونے لگے۔ نوجوانوں کو اس سے منسلک ٹکنالوجی کی تربیت کا انتظام کیا گیا جس سے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے بلڈوزر کی صنعت اور اس کے استعمال کرنے میں مہارت حاصل کی جو آج انسانی زندگی کی بیشتر ضروریات کی تکمیل میں کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں بلڈوزروں کو فوجی کارروائیوں میں کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا اور ماضی کی دیگر جنگوں کے دوران امریکی جنگی صلاحیت اور فوجی طاقت کے اظہار کے لیے ہر سال ’’یوم بلڈوزر‘‘ یادگار دن منایا جاتا ہے۔ امریکہ میں ایک طویل مدت تک میدان جنگ میں بلڈوزر چلانے کے ماہر فوجیوں کو جنگ سے واپسی پر اعلیٰ پیمانے پر نہایت والہانہ اندا ز میں استقبال کا سلسلہ جاری رہا۔ امریکی فوج خصوصاً بحریہ کی تعمیراتی بٹالین اور فوجی انجینئرنگ کے شعبہ کو بلڈوزر کی صلاحیت پر بہت اعتماد تھا چنانچہ وہ زیادہ تر اسی پر انحصار بھی کیا کرتے تھے۔ میدان جنگ میں مشکل ترین حالات کے باوجود معجزاتی طور پر بلڈوزر کے ذریعے ناقابل تسخیر کارنامے انجام دینا فوجیوں کے لیے ایک قابل فخر کام سمجھا جاتا تھا۔ اسی کارکردگی کی بنیاد پر اندرون ملک شہری حدود کی توسیع، تجدید اور رہائشی علاقوں کی ترقی کے لیے کیے جانے والے کاموں کی انجام دہی کے نام پر سیاہ فام امریکیوں کے خلاف بلڈوزر کلچر کی ابتداء ہوئی۔ زیر توسیع بیشتر علاقوں میں زیادہ تر انہیں کی رہائشی عمارتیں بلڈوزر کے ذریعے مسمار کی گئیں جس کی وجہ سے کئی خاندان بے گھر ہوئے۔ ملک کے دیگر علاقوں میں شہری ترقی کے نام پر صرف سیاہ فام امریکیوں کی رہائشی اور تجارتی املاک کو بلڈوزر کے ذریعے ایک کے بعد ایک منہدم کرنے کا سلسلہ ایک طویل عرصے تک جاری رہا۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ بلڈوزر کے ذریعے ہمیشہ اقلیتی شہری ہی ظلم کا نشانہ بنائے گئے۔ نسلی منافرت کو مزید گہرا کرنے کے لیے ان کے دہائیوں سے آباد رہائشی علاقے برباد کیے گئے، لاکھوں شہری بے گھر ہوئے۔ چنانچہ ریاست اٹلانٹا کی 95 فیصد سیاہ فام آبادی ہائی وے کی توسیع کے نام پر بے گھر کی گئی حالاں کہ اس مقام پر ان کی آبادی صرف ایک تہائی ہی تھی۔ سیاہ فام امریکیوں کی رہائشی عمارتوں کی اس طرح تباہی کے مضر اثرات سارے ملک پر مرتب ہوئے جو آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ پہلے سیاہ فام امریکی خاندان بے گھر کیے گئے جس سے ان کی معیشت خود بخود تباہ ہوگئی۔ دنیا محسوس کرتی ہے کہ آج بھی سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ تعصب کا سلوک پایا جاتا ہے۔ ملک میں غیر متناسب طور پر امیر ترین افراد کی فہرست میں بھی صرف سفید فام امریکی ہی شامل ہیں۔
بلڈوزر اور اسرائیلی نسل پرستی:
گزشتہ کئی دہوں سے اسرائیل فلسطینی تنازعے میں فلسطینیوں کی رہائشی عمارتوں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا مستقل استعمال ’بلڈوزر پالیسی‘ کہلاتا ہے۔ یہ کثیر جہتی یہودی حکمت عملی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے نافذالعمل ہے۔ اس پالیسی کے تحت بلڈوزروں کے ذریعے نہتے فلسطینیوں کی آباد رہائشی عمارتوں کو زمین دوز کرکے مکینوں کو بے گھر اور بے آسرا کر دینا ان کی زرعی زمینوں کو ناکارہ بنادینا اسکولوں اور دواخانوں کی عمارتوں کو زمین دوز کردینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ تباہی مچانے والے اس بلڈوزر کلچر کو اسرائیلی حکم راں جائز اور معقول عمل قرار دیتے ہیں اور اس کے جواز میں کہتے ہیں کہ یہودی شہریوں کی حفاظت کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے اور فلسطینیوں کو سبق سکھانے کا ایک مجرب نسخہ بھی ہے۔ بلڈوزروں کے ذریعے رہائشی مکانات اور دیگر عمارتوں کو مسمار کرکے فلسطینی عوام کو نقل مقام کرنے پر مجبور کرنے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ نفسیاتی طور پر یہودی قوم نقل مقام کرنے والے فلسطینی خاندانوں کی پریشانی مجبوری اور مصیبت کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے ساری قوم کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے اور پھر ان کی املاک کو جن میں رہائشی و تجارتی املاک اسکول اور دواخانے شامل ہوتے ہیں، بلڈوزر کے ذریعے مسمار کرکے انہیں بے سر و ساماں منتشر کردیا جاتا ہے۔
عالمی ناقدین کہتے ہیں کہ اس طرح کی غیر انسانی وحشیانہ کارروائی کے غیر قانونی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے جو بے قصور شہریوں کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے اور بین الاقوامی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ ان ظالم حکم رانوں کو اس طرح بے گھر ہونے والی خواتین، معصوم بچوں، بزرگوں، بیماروں اور دیگر بے قصور عوام پر رحم نہیں آتا۔ اسرائیل کے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے لیے رہائشی عمارت کا حصول انتہائی مشکل ہے چنانچہ بہت سے فلسطینی، اسرائیلی حکومت کی اجازت کے بغیر سر چھپانے کے لیے ایک معمولی سا گھر خود ہی تعمیر کر لینے پر مجبور ہیں۔ ایسے گھروں کو اسرائیلی حکام کی جانب سے بلڈوزر پالیسی کے تحت مسمار کر دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اسرائیلی حکومت ہر حال میں کسی بھی صورت میں ان علاقوں میں فلسطینی آبادی کو بڑھنے نہیں دینا چاہتی۔ اسرائیلی نقطہ نظر سے ان علاقوں کے سیاسی مستقبل پر طویل مدتی اثرات مرتب ہونے کے خطرات پیدا ہوتے ہیں خصوصاً علاقے میں یہودی فوجی کارروائیوں کے ان مراحل میں جب کہ علاقے میں امن مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیل فلسطینیوں کی آبادی کو بڑھتی ہوئی دیکھنا نہیں چاہتا۔ وہ فلسطینیوں کو غیر مستحکم، غیر محفوظ اور پریشان حال اور پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ اپنے رہائشی مکانات منہدم کئے جانے کے بعد متاثرہ خاندانوں کی خواتین اور بچوں کے لیے رہائش کا سنگین مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے اور وہ سماج سے کٹ جاتے ہیں اور بے گھر خاندان کے بعض افراد نفسیاتی صدمے کا شکار ہوجاتے ہیں کیوں کہ انہیں خاندان کی کفالت کے لیے ذریعہ معاش بھی تلاش کرنا ہوتا ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے خاندان کے افراد کو کبھی کبھی فاقے بھی کرنے پڑتے ہیں۔
واشنگٹن میں مقیم ایک مصنف حقوق انسانی کے علم بردار، سماجی جہدکار اور امریکہ میں مقیم ہندوؤں کے حقوق کی وکالت کرنے والے سومیا جولا پرنئے لکھتے ہیں کہ بھارت میں بلڈوزر کا رواج، امتیازی سلوک کرنے کا ایک خطرناک ہتھیار بن گیا ہے۔ بھارت میں بلڈوزر کلچر کے نام سے نیا ہتھیار، دراصل سماج میں ایک نیا خوف ناک ماحول پیدا کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔
ابتدا میں یہ عام سی بے ضرر اصطلاح کے طور پر نمودار ہوا لیکن آج اس کے مضر اثرات اور خطرناک نتائج، مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔ بلڈوزر کلچر کا قہر، سب سے پہلے مسلمانوں کی غیر قانونی یا بلا اجازت تعمیر شدہ رہائشی اور تجارتی املاک پر ٹوٹ پڑا، ان کے گھر، دکانیں اور بڑے بڑے بازار آن کی آن میں زمین دوز کر دیے گئے اور ریاستی حکومت کے ہاتھوں ایک خطرناک ہتھیار ہاتھ لگ گیا جن سے انصاف اور انسانی ہمدردی کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ سرکاری انتظامیہ نے وحشیانہ انداز میں قانون، دستور اور عدالتوں سے بالاتر ہو کر بلا خوف و خطر مسلم اقلیتوں کی املاک کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ بھارت میں جاری بلڈوزر کلچر کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کی بنیاد تک پہنچنا ضروری ہے۔ بلڈوزر کلچر کی بنیاد ریاست اترپردیش میں ڈالی گئی جو موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے ریاست کی مسلم اقلیت کے خلاف غیر دستوری، غیر قانونی، غیر انسانی اور من مانی کارروائیوں کے لیے ایک ناقابل تسخیر ہتھیار بنا ہوا ہے۔ ابتداء میں چند غیر قانونی رہائشی اور تجارتی املاک کے خلاف کارروائی کے نام پر ان عمارتوں کو مسمار کرنا شروع کیا گیا۔ بے شمار مکانات، دکانیں اور تجارتی عمارتیں منہدم کی گئیں۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بلڈوزر کارروائی کو شخصی طور پر بہت پسند کرتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی کئی ایسی عمارتیں بھی مسمار کردی گئیں جو قانونی اجازت کے حصول کے بعد ہی تعمیر کی گئی تھیں یعنی قانونی طور پر وہ عمارتیں جائز تھیں۔
یوپی میں بلڈوزر کا استعمال قانون کے نفاذ کے نام پر غیر قانونی طور پر ہو رہا ہے کیوں کہ حکومت اس کے استعمال سے اپنے آپ کو طاقت ور محسوس کرتی ہے۔ یو پی میں بلڈوزر کی طاقت کو دیکھتے ہوئے دیگر ریاستوں نے بھی اسے فوراً اپنا لیا ہے جو اپنے سیاسی مخالفین کے دل و دماغ اور خیالات کو بھی زمین دوز کر رہا ہے۔ یہ اکثریتی فرقے کی سیاسی اور سماجی طاقت کے اظہار کی علامت بن چکا ہے یعنی دائیں بازو کے ہندتوا فلسفے کے حامی اور فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں ایک خطرناک ہتھیار آگیا ہے جس کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی اور بے رحمی کا سلوک کرنا شروع کر دیا ہے کیوں کہ وہ اپنی ان غیر دستوری، غیر قانونی اور غیر سماجی حرکتوں کے لیے اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ بلڈوزر کی ان خوبیوں کے پیش نظر طاقت، قانون اور دستور سے بالا تر کارروائیاں، ریاست اترپردیش کے علاوہ دیگر پڑوسی ریاستوں میں تیزی کے ساتھ پھیل چکی ہیں۔ مقامی اسمبلی انتخابات کی ریالیوں میں اس عنوان پر بنائے گیتوں پر سڑکوں پر رقص بھی کیا جانے لگا ہے۔ مرکزی حکومت کے زیر اثر، اندھ بھکتوں پر مشتمل گودی میڈیا کے ہاتھوں عوامی شہرت کے حصول کا ایک سستا اور کامیاب نسخہ ہاتھ لگ گیا ہے جس کا وہ بھر پور استعمال کر رہے ہیں۔ بلڈوزر کلچر سے مسلمانوں کی رہائشی اور تجارتی املاک کی انہدامی کارروائی سے پہنچنے والے نقصانات اور اس کی وجہ سے انہیں ہونے والی پریشانی سے حکام کے علاوہ مقامی عوام بھی لطف اندوز ہونے لگے ہیں۔ آج گودی میڈیا حکومت کی جانب سے بلڈوزر کارروائی کو حق بجانب قرار دینے اور اس کی ناحق تائید کرنے میں سب سے آگے ہے۔
بلڈوزر کارروائی کا نشانہ صرف مسلمان:
بلڈوزر کارروائیوں کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب تک کی جانے والی تمام انہدامی کارروائیوں کا نشانہ صرف مسلمانوں ہی کی املاک رہی ہیں۔ آج تک جتنی بھی بلڈوزر کارروائیاں عمل میں آئی ہیں ان میں مسلمانوں کے علاقوں میں رہنے والے عام شہریوں کے رہائشی مکانات، چھوٹی بڑی دکانیں، تجارتی املاک اور دیگر عمارتیں مسمار کی گئی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کارروائیوں کے بعد ان متاثرہ علاقوں میں مسلم مخالف فرقہ وارانہ ماحول پیداکیا جاتا ہے، مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگائی جاتی ہے، چاقو زنی کے ذریعے لوگوں کو زخمی کیا جاتا ہے، عورتوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور اس کے بعد پولیس، مقامی مسلمانوں کو فساد برپا کرنے کے جرم میں گرفتار کرتی ہے اور عدالت انہیں جیلوں میں قید کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر دہلی کے علاقے جہانگیر پوری میں اور مدھیہ پردیش کے علاقے کھرگون میں یہی واقعات دہرائے گئے جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد کئی دنوں تک مسلمانوں کی املاک اور ان کے تجارتی مراکز کو بغیر کسی قانونی نوٹس کے بلڈوزر کے ذریعے تباہ کر دیا گیا اور مسلمانوں کو سماج سے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ ان مقامات پر بلڈوزر کے ذریعے منہدم کی جانے والی عمارتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہ قانون کی بالادستی کے لیے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ مسلمانوں کو مجموعی طور پر سزا دینے کے لیے کیا گیا ہے۔
سماجی ہم آہنگی کے ماحول کو درہم برہم کرنا:
بلڈوزر کلچر نے عوامی املاک کی بربادی کے ساتھ ساتھ ملک کے پر امن عوام پر ظلم کا ہتھوڑا چلا کر پورے سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس طرح عام امن پسند انسانوں سے آباد پرامن بستیوں میں تعمیر کی گئیں بڑی بڑی رہائشی اور تجارتی عمارتوں کو زمین دوز کرکے پرسکون سماجی زندگیوں کو منتشر کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی معیشت کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جسمانی تکلیفیں دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سرکاری بلڈوزر کا مسلم اقلیتی آبادیوں کے قریب آنا طبعی طور پر نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں خوف پیدا کرتا ہے بلکہ انہیں اس بات کی علی الاعلان وضاحت کرتا ہے کہ مسلمان اپنے ہی ملک میں دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ بلڈوزر کلچر مسلمانوں کے دل و دماغ میں عدم تحفظ کے احساس کو بھی جگائے رکھتا ہے۔ یاد رکھیے کہ بلڈوزر کلچر کے ذریعے ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مل جل کر ساتھ ساتھ رہنے والے امن پسند پڑوسیوں کے دلوں میں نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں مختلف سماج سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے سے ملنا تو دور ان کے محلوں میں قدم رکھنا بھی پسند نہیں کریں گے۔ سماج کے مختلف فرقوں کے درمیان انصاف اور مساویان حیثیت کے اصولوں کو منصوبہ بند طریقے سے تباہ کیا جارہا ہے۔ بھارتی سماج ایک ثقافتی خزانہ ہے، جمہوریت کی نہایت مضبوط بنیاد ہے۔ بلڈوزر کی یک طرفہ تباہی مسلمانوں کو ذہن نشین کروانا چاہتی ہے کہ اب بھارت میں ان کی کوئی قانونی یا دستوری حیثیت باقی نہیں رہی۔ اب تک جو حیثیت باقی ہے اسے بھی چند دنوں میں بلڈوزرکے ذریعے مسمار کرکے رکھ دیا جائے گا۔
اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف منظم سازشیں:
بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری فرقہ وارانہ سازش کا سارا انحصار اب بلڈوزر کے استعمال پر ٹکا ہوا ہے چنانچہ اس سازش کے تحت نہ صرف مسلمانوں کی رہائشی اور تجارتی عمارتیں مسمار کی جا رہی ہیں بلکہ مذہب کے نام پر ان کی کردار کشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اسی سازش کے تحت بھارت میں جگہ جگہ مسلمانوں کو قوم دشمن، دیش دروہی، پیدائشی جرائم پیشہ، بے رحم قاتل، لٹیرے اور غدار ثابت کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ بھارت میں اسلام کے خلاف نفرت کا اظہار، اسلاموفوبیا، محض ایک نظریہ یا عام تصور نہیں ہے بلکہ اسے اکثریتی فرقوں کے سامنے ثابت کرنے کے لیے ہندتوا طاقتوں کے ذریعے با ضابطہ لائحہ عمل اور پروگرام منظم کیے جا رہے ہیں۔ بلڈوزر کلچر اس نفرتی مہم کی زندہ مثال ہے۔ اسی پالیسی کے تحت بھارت میں پس ماندہ مسلمانوں کو مزید پسماندہ کرنے اور انہیں حق رائے دہی سے مکمل طور پر محروم کرنے کی سازش میں بلڈوزر مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ ملک میں ہونے والے کسی بھی چھوٹے یا بڑے جرم کو بغیر کسی تحقیق اور بغیر کسی ثبوت کے فوراً مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دینا اسی پالیسی کا حصہ ہے جس سے فطری طور پر دیگر سماج کے عام افراد مسلمانوں سے دوری اختیار کرنے لگے ہیں اور فرقہ واری تعصب کا زہر سماج کے دیگر طبقات میں پھیلنے لگا ہے اور آپس میں نفرت کی خلیج بڑھتی جارہی ہے اور یہ طرز عمل صرف متعصب سیاست دانوں کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ بھارت کے مسلمانوں پر جاری منظم فرقہ پرست پالیسی کی جیتی جاگتی مثال ہے جس کی وجہ سے ملک کی تمام مسلم آبادی متاثر ہو رہی ہے۔
ہم اہل سیاست کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر آج بھی بلڈوزر کلچر پر پابندی عائد نہیں کی گئی تو یقیناً مستقبل میں اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ مسلمانوں کو ملک کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی دھارے سے کنارے کر دیا جائے گا۔ انہیں دیگر برادریوں سے دور رکھ کر تعلیمی، سماجی، اقتصادی اور معاشی طور پر مزید پس ماندہ کر دیا جائے گا۔ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر مسلمانوں کو دیگر سماجوں کے ساتھ برابری اختیار کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ نفرت کی خلیج اس حد تک وسیع ہو جانے کے بعد مستقبل میں دوبارہ آپسی ہم آہنگی اور برادرانہ ماحول کو بحال کرنا نا ممکن ہوجائے گا۔ بلڈوزر کارروائی کا سب سے سنگین پہلو یہ ہے کہ بہت جلد اسے مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کو قانوناً جائز قرار دیے جانے کا خدشہ ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جب کسی جواب دہی کے احساس کے بغیر خود حکومت کسی شہری کے خلاف بلاوجہ من مانی اپنی طاقت کا ظلم کی اساس پراستعمال کرکے بسی بسائی بستیاں اجاڑنے لگے تو عوام کے دلوں سے ایسی حکومت پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے جو خود حکم راں طبقے کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
بلڈوزر کلچر کے خلاف رد عمل اور ایک صحت مند تبدیلی کی ابتداء:
انگریزی جریدے FRONTLINE میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے بلڈوزر راج نے گزشتہ دو سال کے عرصے میں مسلمانوں کی ایک لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ رہائشی عمارتیں زمین دوز کیے ہیں جس سے سات لاکھ سے زیادہ مسلم خاندان بے گھر ہوئے ہیں۔ یاد رکھیے! اتنی مختصر مدت میں مسلمانوں کے اس قدر گھروں کو تباہ کرنا بے قصور افراد کو، خواتین، معصوم بچے، بزرگ اور نوجوانوں کو، راتوں رات بے سروساماں کر دینا ایک دن حکومت کے لیے بہت مہنگا پڑے گا۔ اس تباہی کے ذمہ داروں کو ان کے جرم، ظلم اور نا انصافی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ان حالات کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ آگے چل کر بلڈوزر راج، مزید مضبوط ہوتا جائے گا جس پر قابو پانا خود حکومت کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوگا۔ وہ یہ سننا ہی نہیں چاہتے ہیں کہ ایسے ہتھکنڈوں سے وقتی طور پر کچھ سیاسی فوائد ضرور حاصل ہوجاتے ہیں لیکن آگے چل کر مجموعی طور پر ساری قوم کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی جب قومی اتحاد داؤ پر لگ جائے گا۔ جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے مستعدی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی قائدین کو خود سوچنا چاہیے کہ بلڈوزر راج کے ذریعے بلا وجہ کیوں مسلمانوں کے بے قصور اور بے بس عوام کو گھر سے بے گھر کیا جا رہا ہے؟ کیوں ان کی معیشت، تعلیم اور تجارت تباہ کی جا رہی ہے؟ حکم راں طبقے کو چاہیے کہ وہ بلڈوزر کلچر کے بجائے ایسی پالیسیاں بنائے جو عوام کے درمیان انصاف اور مساوات کو فروغ دیں۔ ریاست میں عوام کے ساتھ عدل و انصاف قائم کرنے کی جستجو کرے، تمام شہریوں کا بلا لحاظ مذہب و ملت یکساں احترام کرے۔ ان سیاست دانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت کی طاقت اور اس کی مضبوطی دراصل اس کے جمہوری نظریات پر عمل آوری اور اس سے وابستگی میں مضمر ہے۔ اس کے برعکس بلڈوزر کلچر نہایت سفاک، ظالمانہ، غیر منصفانہ، یکطرفہ اور سو فی صد مسلمانوں کے خلاف ہے۔
بلڈوزر راج کے خلاف سپریم کورٹ کا حالیہ ردعمل، سو فی صد حقائق پر مبنی، درست اور مستقبل میں اقلیتوں کے ساتھ انصاف روا رکھے جانے کی سمت مثبت اور خوش آئند قدم ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو متحد اور محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں عوام کے درمیان آپسی نفرت کی وجہ سے پھیلا ہوا خوف دور کریں اور ملک کی عوام کے تمام طبقات بشمول مسلمان سب کی بہبودی کے متعلق منصوبہ بندی کریں۔ ایسی منصوبہ بندی جہاں ہر کمیونٹی، ہر سماج اور ہر فرقہ کی عزت و آبرو کی حفاظت یقینی ہو۔
ناانصافی اور ظلم کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیجیے
مسلمانوں کو بھارت میں درپیش مشکل ترین حالات کا استقلال اور صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔ مضبوط ایمان کے ساتھ اللہ سے رجوع کرنا ہوگا۔ آج ہمارے ہی ملک میں ہماری شناخت کو خطرہ لاحق ہے، ہم سے ہماری روزی چھینی جارہی ہے، ہماری تجارت ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمیں سرکاری بلکہ خانگی ملازمتوں سے بھی دور رکھا گیا ہے۔ بڑے بڑے تعمیری کاموں کے لیے بنائے گئے بلڈوزر آج مسلمانوں کے گھروں کو اجاڑنے کا آلہ بناد یے گئے ہیں۔ یاد رکھیے! روئے زمین کی کوئی طاقت ایک سچے مسلمان کے مضبوط عزم اور اس کے وقار کو ڈھا نہیں سکتی، بشرطیکہ ہم انصاف کے حصول کے لیے اپنے عزم و ارادوں میں ثابت قدم رہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ ’’ہمت نہ ہارو اور نہ مایوس ہو‘ تم ہی کامیاب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ یقیناً آج بھارت کے مسلمانوں کے سامنے وہ وقت آچکا ہے جب ہمیں ان مظالم کے خلاف متحدہ جدوجہد کرنی ہوگی۔ بلالحاظ فرقہ و جماعت ایک دوسرے کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان فرقہ پرستوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ نتائج کے لیے صبر و تحمل اور استقامت کے ساتھ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا۔ یاد رکھیے کہ اس کے بعد کوئی بلڈوزر راج ہمارے ساتھ ناانصافی کرنے کی جرأت نہیں کر پائے گا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایمانی حرارت، استقامت اور راست بازی میں بہت طاقت ہے۔ ہمیں سوئی ہوئی امت کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہوگا۔ آج ملک میں خطرناک حد تک پہنچے ہوئے نازک حالات سے نمٹنے کے لیے ہمیں انبیائے کرام کو پیش آنے والی آزمائشوں کو یاد رکھنا چاہیے جن کا انبیائے کرام نے ہمت و استقلال اور صبر کے ساتھ مقابلہ کیا تھا۔ مشکل ترین حالات اور ناقابل برداشت تکالیف کو برداشت کیا تھا۔ ہمیں اچھی معلوم ہے کہ ہمارے رسول حضرت محمد ﷺ نے صبر اور اللہ پر کامل یقین کے ساتھ کفار کے مظالم، زیادتیوں اور دشمنی کا سامنا کیا تھا‘ بعد میں ہجرت بھی کرنی پڑی۔ کفار کی تمام تر مخالفتوں اور مظالم کا جواب آپ نے صبر، حکمت عملی اور دانائی سے دیا اور اللہ کی مشیت پر غیر متزلزل ایمانی طاقت کے ساتھ قائم رہے۔ آج ہم بھی سنت رسول پر عمل کرکے یقیناً وطن میں انصاف، ہمدردی اور اخوت کا ماحول پیدا کر سکتے ہیں۔
اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اس دنیا میں مومنوں کے ساتھ پیش آنے والی مشکلات اور مسائل دراصل آزمائش ہوتے ہیں جس کا صبر و تحمل کے ساتھ، اللہ پر مکمل یقین رکھتے ہوئے مقابلہ کرنے سے اللہ کی نصرت اور خوشنودی حاصل ہوگی۔ بے پناہ انعامات کے مستحق ہوں گے۔ قرآن مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یقیناً ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ ہمیں اللہ سے ہمیشہ اچھی امید رکھنی چاہیے۔ موجودہ خطرناک حالات میں ہماری مشترکہ جدوجہد ان شاء اللہ ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی راہیں ہموار کرے گی۔ وطن میں امن و امان، عدل و انصاف، بھائی چارہ، اخوت اور ہم آہنگی غالب ہوگی۔
آج کے ان دشوار گزار حالات میں امت مسلمہ کو قانونی اور دستوری دائرے میں رہتے ہوئے متحدہ طور پر ہر آن، ہرگھڑی ایک دوسرے کا تعاون کرنے کا وعدہ کرنا ہوگا، بلڈوزر ظلم کے خلاف مسلسل آواز اٹھانی ہوگی۔ بلڈوزر ناانصافی کے خلاف متحدہ طور پر مزاحمت کرنی ہوگی۔ اللہ تعالی کا انصاف حقیقی انصاف ہوتا ہے، ان شاء اللہ بھارت کے مسلم مظلوموں کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل ہوگی۔ قدرت کا انصاف ظالموں پر بجلی بن کر گرے گا، ظالموں کے قدم اکھڑ جائیں گے۔ ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے افراد خاندان، خواتین، معصوم بچوں، بزرگوں، بیماروں، نوجوانوں اور تمام مظلوم برادریوں کو ان ظالموں کے ظلم سے محفوظ رکھے، ہم میں عزم و استقامت اور حوصلہ پیدا کرے، قوت برداشت عطا کرے، ظالم کے خلاف مزاحمت کرنے کی جرأت پیدا کرے اور حالات معمول پر آنے تک صبر کرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین
(انگریزی سے ترجمہ: سلیم الہندی ،حیدرآباد)

 

***

 آج کے ان دشوار گزار حالات میں امت مسلمہ کو قانونی اور دستوری دائرے میں رہتے ہوئے متحدہ طور پر ہر آن، ہرگھڑی ایک دوسرے کا تعاون کرنے کا وعدہ کرنا ہوگا، بلڈوزر ظلم کے خلاف مسلسل آواز اٹھانی ہوگی۔ بلڈوزر ناانصافی کے خلاف متحدہ طور پر مزاحمت کرنی ہوگی۔ اللہ تعالی کا انصاف حقیقی انصاف ہوتا ہے، ان شاء اللہ بھارت کے مسلم مظلوموں کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل ہوگی۔ قدرت کا انصاف ظالموں پر بجلی بن کر گرے گا، ظالموں کے قدم اکھڑ جائیں گے۔ ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے افراد خاندان، خواتین، معصوم بچوں، بزرگوں، بیماروں، نوجوانوں اور تمام مظلوم برادریوں کو ان ظالموں کے ظلم سے محفوظ رکھے، ہم میں عزم و استقامت اور حوصلہ پیدا کرے، قوت برداشت عطا کرے، ظالم کے خلاف مزاحمت کرنے کی جرأت پیدا کرے اور حالات معمول پر آنے تک صبر کرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 ستمبر تا 28 ستمبر 2024