جرمنی کے عام انتخابات :مسلم و ایمیگرنٹ مخالف جماعت دوسرے نمبر پر

چانسلر شلز کی جماعت کو شکست۔متوقع چانسلر کو صدر ٹرمپ پسند نہیں

0

(دعوت انٹر نیشنل نیوز ڈیسک)

جرمنی کے عام انتخابات میں قدامت پسندوں نے برتری حاصل کر لی ہے۔ یہ انتخابات اگلے سال ستمبر میں ہونے والے تھے لیکن اتحادیوں کی بغاوت اور سیاسی بحران کی بنا پر چانسلر اولاف شلز نے قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کیا۔
انتخابات میں چانسلر اولاف شلز کی آزاد خیال سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SDP) کو دوسری جنگ عظیم کے بعد بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہ جماعت 16.4 فیصد ووٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ قدامت پسند کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU) نے 22.55 فیصد اور اس کی اتحادی جماعت کرسچین سوشل یونین (CSU) نے 5.97 فیصد ووٹ لے کر میدان مار لیا۔ مسلمان دشمن، تارکین وطن مخالف اور صدر ٹرمپ کی حمایت یافتہ انتہا پسند جماعت "متبادل برائے جرمنی” (AfD) نے 20.8 فیصد ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔ گرین پارٹی کو 11.61 فیصد جبکہ 8.77 فیصد جرمنوں نے بائیں بازو کی جماعت "دی لیفٹ” (The Left) کے حق میں ووٹ دیے۔
جرمنی میں چانسلر کا انتخاب قومی اسمبلی، یعنی بنداشتک (Bundestag)، کرتی ہے۔ بنداشتک کی مجموعی 630 نشستوں کے لیے ہر رائے دہندہ کو دو ووٹ ڈالنے ہوتے ہیں۔ ایک ووٹ حلقے کی بنیاد پر براہ راست امیدوار کو دیا جاتا ہے، جسے Erststimme کہتے ہیں، جبکہ دوسرا ووٹ Zweitstimme کہلاتا ہے جو کسی سیاسی جماعت کے حق میں دیا جاتا ہے۔
اسے یوں سمجھیں کہ اگر آپ عام انتخابات میں حلقہ NA-1 پشاور 1 کے ووٹر ہیں تو ایک بیلٹ پیپر پر حلقے سے کھڑے ہونے والے امیدواروں کے نام درج ہوں گے جن میں پارٹیوں کے نامزد کردہ اور آزاد امیدوار دونوں شامل ہوں گے۔ جبکہ دوسرے بیلٹ پر صرف پارٹیوں کے نام ہوں گے اور آپ اسے اپنی پسندیدہ پارٹی کے حق میں استعمال کریں گے۔
اس نظام کے تحت نصف یعنی 315 نشستیں حلقوں کی بنیاد پر طے کی جاتی ہیں جبکہ باقی 315 نشستیں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر صوبے میں حاصل کردہ مجموعی ووٹوں کے تناسب سے پارٹیوں کو دی جاتی ہیں۔ تاہم، کسی بھی جماعت کو متناسب نمائندگی کے تحت نشستیں حاصل کرنے کے لیے کم از کم 5 فیصد ووٹ لینا لازمی ہے۔ دونوں بیلٹ کا استعمال غیر مشروط ہوتا ہے، یعنی ووٹر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حلقے میں آزاد امیدوار یا کسی ایک جماعت (A پارٹی) کے حق میں ووٹ ڈالے لیکن پارٹی ووٹ میں کسی دوسری جماعت (B یا C پارٹی) کے حق میں فیصلہ کرے۔
حالیہ انتخابات میں دو الگ الگ بیلٹ پیپرز کے بجائے دو کالم والا ایک ہی بیلٹ پیپر استعمال کیا گیا۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 82.5 فیصد رہی، جو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ ہے۔
اگر انتخابی نتائج کو قومی اسمبلی کی نشستوں کے حساب سے دیکھا جائے تو CDU/CSU نے مجموعی طور پر 208 نشستیں حاصل کیں، AfD نے 152 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، چانسلر شلز کی SDP کو 120 نشستیں ملیں، گرین پارٹی نے 85 اور دی لیفٹ نے 64 نشستیں حاصل کیں۔ حکومت سازی کے لیے کم از کم 316 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی بھی جماعت اس حد تک نہیں پہنچ سکی ہے۔
متوقع چانسلر اور CDU/CSU کے سربراہ فریڈرک مرز نے AfD کے ساتھ اتحاد کے امکانات کو مسترد کر دیا ہے۔ بائیں بازو سے نظریاتی اختلاف کی بنا پر بھی اتحاد ممکن نہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ 69 سالہ فریڈرک مرز SDP کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ جناب مرز کو حکومت کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ وہ خود کو سماجی قدامت پسند اور اقتصادی لبرل کہتے ہیں۔
امیگریشن کے معاملے میں وہ تعلیم یافتہ افراد کے جرمنی آنے کے حامی ہیں لیکن انہیں فلسطینیوں، شامیوں اور افغانوں کی جرمنی میں آمد پسند نہیں۔ جب اسرائیلی حملے کے آغاز پر اہلِ غزہ کو جرمنی میں پناہ دینے کی تجویز پیش کی گئی، تو انہوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارے ملک میں سامی مخالف (Antisemitic) عناصر کی پہلے ہی کوئی کمی نہیں ہے۔”
فریڈرک مرز یورپی یونین اور NATO کے ساتھ امریکہ کے پرجوش حامی ہیں، لیکن وہ صدر ٹرمپ کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ یورپی یونین کے مقابلے میں روس کے زیادہ قریب ہیں۔ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر جناب مرز نے کہا تھا کہ "اگر میں چانسلر منتخب ہوا تو اپنے ملک کو امریکہ کے غیر ضروری اثر و رسوخ سے آزاد رکھنے کی کوشش کروں گا۔”

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 مارچ تا 08 مارچ 2025