غزہ کا محل وقوع اور دنیا سے نہایت محدود روابط
کامیابی ثابت قدم رہنے والوں کی قدم بوسی کرتی ہے اور اہلِ فلسطین ثابت قدم ثابت ہوئے
محمد اکمل علیگ
غزہ پٹی فلسطین کے جنوب مغرب میں بحر ابیض متوسط کے ساحل پر واقع ہے، اس کا رقبہ تین سو ساٹھ مربع کیلو میٹر ہے، لمبائی اکتالیس کیلومیٹر اور چوڑائی شمال میں چھ اور جنوب میں بارہ کیلومیٹر ہے، اس کے شمال اور مشرق میں مقبوضہ فلسطین، مغرب میں بحر ابیض متوسط اور جنوب میں مصر واقع ہے۔
2022 کی مردم شماری کے مطابق غزہ کی آبادی تئیس لاکھ پچھتر ہزار دو سو انسٹھ افراد پر مشتمل ہے، مردوں کی تعداد بارہ لاکھ چار ہزار نو سو چھیاسی اور عورتوں کی تعداد گیارہ لاکھ ستر ہزار دو سو تہتر ہے۔ غزہ پٹی کے مشہور شہروں میں غزہ سٹی، رفح، خان یونس، دیر بلح، بیت لاہیا، بیت حانون، جبالیا اور شجاعیہ وغیرہ ہیں۔ یہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے گنجان علاقہ ہے جہاں ایک مربع کیلومیٹر میں تقریباً چھبیس ہزار افراد رہتے ہیں۔ آبادی کا بڑا حصہ مقبوضہ فلسطین کے مہاجرین پر مشتمل ہے۔
پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کی شکست کے بعد 1917 میں غزہ پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد پہلی عرب اسرائیل جنگ میں مصر نے اس پر قبضہ کر لیا پھر 1967 کی دوسری عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1993 کے اوسلو معاہدہ کے مطابق (جو کہ اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان ہوا تھا) اسرائیل غزہ سے اپنی فوجیں نکالنے کا پابند تھا، لیکن اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، یہاں تک کہ مختلف مسلح تنظیموں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے 2005 میں قابض اسرائیل نے اپنی پوری یہودی آبادی اور فوج کو غزہ خالی کرنے کا حکم دے دیا اور اس طرح غزہ اسرائیلی قبضے سے مکمل طور پر آزاد ہو گیا۔ 2006 میں یہاں انتخابات ہوئے جس میں حماس کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی اور فتح کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں، اسرائیل اور خود فتح نے اس الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، یہاں تک کہ حماس اور فتح کے درمیان جنگ شروع ہوگئی، اس جنگ میں حماس کو کامیابی ملی۔ اس طرح غزہ پٹی پر حماس کا مکمل کنٹرول ہوگیا اور اس وقت سے اب تک غزہ پر حماس کا کنٹرول ہے اور ایک مضبوط حکومت قائم ہے، لیکن دنیا حماس کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی۔
غزہ پر حماس کے قبضے کے بعد قابض اسرائیل نے غزہ کا شدید ترین محاصرہ کر لیا جو اب تک جاری ہے، چنانچہ غزہ کے لوگ ایک چھوٹے سے رقبے میں قید ہو کر رہ گئے ہیں، اسی لیے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔
غزہ کے محاصرے کے ساتھ ساتھ 2008 سے اب تک قابض اسرائیل اور غزہ کے درمیان چھ بڑی جنگیں ہو چکی ہیں، پہلی 2008 میں ہوئی جو تیئیس دنوں تک جاری رہی۔ دوسری 2012 میں ہوئی اور یہ آٹھ دنوں تک جاری رہی۔ در اصل اس وقت مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت تھی، لہٰذا اس وقت کے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی فوراً مداخلت کی وجہ سے یہ جنگ جلد ختم ہو گئی تھی۔ تیسری جنگ 2014 میں ہوئی جو اکیاون دنوں تک چلی۔ چوتھی 2021 میں ہوئی جو گیارہ دنوں تک جاری رہی۔ یہ جنگ سیف القدس کے نام سے مشہور ہے جس میں غزہ کو شان دار کامیابی ملی۔ پانچویں 2022 اور چھٹی جنگ کا سلسلہ اب تک جاری ہے جس کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو ہوا تھا۔ اس جنگ میں بھی غزہ کو شان دار کامیابی ملنے کی امید ہے۔
معاشی اعتبار سے غزہ کے لوگوں کو شدید ترین مسائل کا سامنا ہے کیونکہ اسرائیل نے مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے، اسرائیل کی اجازت کے بغیر غزہ سے نہ کوئی سامان باہر آسکتا ہے اور نہ باہر سے اندر کوئی سامان جا سکتا ہے۔ تعمیراتی اشیاء، ایندھن اور بہت سی بنیادی ضرورتوں کے داخلے پر پابندی ہے، مسلسل جنگ کی وجہ سے اکثر کارخانے بند ہو گئے ہیں، زراعت اور ماہی گیری کا شعبہ بھی کافی متاثر ہوا ہے، اسی وجہ سے غزہ کے ستر فیصد نوجوان بے روزگار ہو گئے ہیں۔ غزہ کی بڑی آبادی کی زندگی کا انحصار باہری امداد پر مشتمل ہے۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود غزہ کے لوگ انتہائی صابر و شاکر ثابت ہوئے ہیں، وہ اسرائیل کے آگے جھکنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔
غزہ سے باہر آنے کے لیے نہ تو ایئرپورٹ ہے اور نہ بندرگاہ ہے، صرف زمینی راستے سے ہی غزہ سے باہر آنا ممکن ہے۔ غزہ کے شہر رفح میں یاسر عرفات انٹرنیشنل ایئرپورٹ تھا لیکن 2006 کی اسرائیل حزب اللہ جنگ کے دوران اسرائیل نے اس ایئرپورٹ پر بمباری کر کے ناکارہ بنا دیا لہٰذا اب غزہ میں داخل ہونے اور غزہ سے باہر آنے کے لیے آٹھ گزرگاہیں ہیں جن میں سے چھ پر اسرائیل اور دو پر مصر کا کنٹرول ہے۔ غزہ پر حماس کے کنٹرول کے بعد اسرائیل نے چار گزرگاہوں کو مکمل طور پر بند کر رکھا ہے۔ نتیجے میں چار گذرگاہیں باقی رہ گئی ہیں جن کے ذریعے غزہ کے لوگوں کا باہر کی دنیا سے ربط قائم ہوتا ہے۔ان گزرگاہوں کا مختصر تعارف یہ ہے :
گزرگاہ رفح
یہ غزہ کے جنوب میں مصر اور غزہ کے بارڈر پر واقع ہے۔ اس پر فلسطینی اور مصری انتظامیہ کا کنٹرول ہے، یہ واحد گزرگاہ ہے جس کے ذریعے غزہ کے لوگ دنیا کے دوسرے ممالک کا سفر کر سکتے ہیں اور یہ گزرگاہ صرف لوگوں کی نقل و حرکت کے لیے خاص ہے، اس کے ذریعے تجارتی سامان کا داخلہ ممنوع ہے۔ لیکن حماس اور مصری حکومت کے درمیان تعطل کی وجہ سے اس گزرگاہ کو عام طور پر بند کر دیا جاتا ہے۔ مصری حکومت اس کو بند کر کے حماس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے ۔
گزرگاہ صلاح الدین
یہ بھی مصر اور غزہ کے بارڈر پر واقع ہے اور فلسطینی اور مصری انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے۔ مصر نے 2018 میں انسانی بنیادوں پر غزہ کے لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے اس گزرگاہ کو کھولا تھا، یہ ایک تجارتی گذزرگاہ ہے جس کے ذریعے تجارتی سامان ایک جانب سے دوسری جانب منتقل کیا جاتا ہے، یہ واحد گزرگاہ ہے جس کے ذریعے اسرائیلی اجازت کے بغیر تعمیراتی اشیاء، اشیائے خوردنی، خام مال، ایندھن اور سیمنٹ وغیرہ غزہ کو منتقل کیے جاتے ہیں، اس گزرگاہ کو مہینے میں دس سے پندرہ دنوں کے لیے کھولا جاتا ہے۔
گزرگاہ بیت حانون
یہ غزہ کے شمال میں غزہ اور مقبوضہ فلسطین بارڈر پر واقع ہے، اس پر مکمل طور پر قابض اسرائیل کا کنٹرول ہے، یہ مقبوضہ فلسطین اور ویسٹ بینک جانے کے لیے واحد راستہ ہے، اس راستے کا استعمال خاص طور سے سیاسی، صحافی، غیر ملکی وفود، اہم شخصیات، مزدور اور تاجر حضرات کے لیے کیا جاتا ہے، خاص حالات میں مقبوضہ فلسطین، ویسٹ بینک اور اردن میں مریضوں کے علاج کے لیے جانے کی اجازت دی جاتی ہے، غزہ میں مقدس اسلامی اور مسیحی مقامات کی زیارت کے لیے اسی راستے کا استعمال کیا جاتا ہے اور ویسٹ بینک کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباء بھی اسی راستے کا استعمال کرتے ہیں لیکن غزہ کے لوگوں کو سخت ذلت آمیز تفتیشی دور سے گزرنا پڑتا ہے۔
گزرگاہ کرم ابو سالم
یہ غزہ کے جنوب مشرق میں مصر غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے بارڈر پر واقع ہے، یہ ایک تجارتی گزرگاہ ہے جس کے ذریعے قابض اسرائیل کی اجازت سے سامان درآمد اور برآمد کیا جاتا ہے، اس گزرگاہ کو غزہ کے لوگوں کی زندگی کی شہ رگ کہا جاتا ہے۔
تعلیمی اعتبار سے غزہ عالم عرب میں سب سے آگے ہے، غزہ کے 96 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں جبکہ معاشی اعتبار سے غزہ سب سے کمزور ہے، غزہ کی پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، صرف دو سے تین ہزار کے قریب عرب مسیحی رہتے ہیں، فکری اعتبار سے غزہ کے اکثر لوگ اسلام پسند ہیں۔ غزہ کے دفاع اور فلسطین کو آزاد کروانے کے لیے دسیوں مسلح تنظیمیں غزہ میں سرگرم عمل ہیں، جب بھی اسرائیل سے جنگ ہوتی ہے، یہ سب متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف لڑتے ہیں، اگرچہ فکری اعتبار سے یہ ساری تنظیمیں الگ ہیں لیکن اس معاملے میں مکمل اتحاد ہے کہ فلسطین کو مسلح جدو جہد کے ذریعے ہی آزاد کروایا جا سکتا ہے، اسمیں سب سے بڑی تنظیم ” القسام” ہے جو کہ حماس کا عسکری ونگ ہے، اس کے بعد "سرایا قدس” ہے جو کہ تحریک جہاد اسلامی کا عسکری ونگ ہے، ان دونوں کے علاوہ شہداء اقصیٰ، ناصر صلاح الدین گروپ، فلسطینی قومی گروپ، شہید ابو علی مصطفیٰ گروپ، شہید جہاد جبریل گروپ، انصار گروپ اور مجاہدین گروپ کے نام سے سرگرم عمل ہیں۔
حالیہ جنگ اب تک کی سب سے طویل جنگ ہے جو کہ مسلسل جاری ہے۔ پینتیس ہزار سے زیادہ لوگ شہید اور اسی ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہو چکے ہیں اور تقریباً پچھتر فیصد عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود غزہ کی ساری مسلح تنظیمیں اور مقامی عوام مکمل ثابت قدم ہیں اور جو قوم ثابت قدم رہتی ہے اللہ تعالٰی اسے ضرور فتح سے ہم کنار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جنگ میں بھی غزہ کے لوگوں کو فتح سے ہم کنار فرمائے۔ آمین
***
تعلیمی اعتبار سے غزہ عالم عرب میں سب سے آگے ہے، غزہ کے 96 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں جبکہ معاشی اعتبار سے غزہ سب سے کمزور ہے، غزہ کی پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، صرف دو سے تین ہزار کے قریب عرب مسیحی رہتے ہیں، فکری اعتبار سے غزہ کے اکثر لوگ اسلام پسند ہیں۔ غزہ کے دفاع اور فلسطین کو آزاد کروانے کے لیے دسیوں مسلح تنظیمیں غزہ میں سرگرم عمل ہیں، جب بھی اسرائیل سے جنگ ہوتی ہے، یہ سب متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف لڑتے ہیں، اگرچہ فکری اعتبار سے یہ ساری تنظیمیں الگ ہیں لیکن اس معاملے میں مکمل اتحاد ہے کہ فلسطین کو مسلح جدو جہد کے ذریعے ہی آزاد کروایا جا سکتا ہے، اسمیں سب سے بڑی تنظیم ” القسام” ہے جو کہ حماس کا عسکری ونگ ہے، اس کے بعد "سرایا قدس” ہے جو کہ تحریک جہاد اسلامی کا عسکری ونگ ہے، ان دونوں کے علاوہ شہداء اقصیٰ، ناصر صلاح الدین گروپ، فلسطینی قومی گروپ، شہید ابو علی مصطفیٰ گروپ، شہید جہاد جبریل گروپ، انصار گروپ اور مجاہدین گروپ کے نام سے سرگرم عمل ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024