غزہ: تقسیم امداد کے کیمپوں پر فائرنگ، بمباری اور حملوں کا سلسلہ جاری

اسرائیل غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب ہو رہا ہے: یورپی یونین کی رپورٹ

0

مسعود ابدالی

مسجد اقصیٰ مقفل کردی گئی۔ انتہا پسندوں کی جانب سے اس کی شہادت کا خدشہ
جامعہ کولمبیا نیویارک کے طالب علم رہنما محمود خلیل رہا۔’میں غزہ دوبارہ جاوں گا‘: فریڈم Flotilla کے ولندیزی ملاح کا عزم
ایران پر اسرائیل اور امریکی حملوں کی وجہ سے غزہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے لیکن اسرائیل نے خونریزی جاری رکھی ہوئی ہے۔ چناں چہ اس ہفتے بھی امدادی مرکز پر راشن کے نام پر موت کی تقسیم جاری رہی اور اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے درجنوں نوجوان جاں بحق ہوئے۔ ابو شہاب کے دہشت گردوں کی سرگرمیاں تو کم نہ ہوئیں لیکن مزاحمت کار ان غنڈوں کی سرکوبی میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں اور ان کے درجنوں چھاپہ مار فلسطینیوں سے تصادم میں مارے گئے۔ اس دوران پورے غزہ پر بمباری کا سلسلہ بھی ویسا ہی رہا اور دو بدو تصادم میں کئی اسرائیلی فوجی مارے گئے۔
غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی پر دنیا کا رد عمل سست ہے لیکن سوشل میڈیا کی برکت سے یورپ میں اب چوکوں اور چوراہوں پر یہ موضوعِ سخن بن چکا ہے۔ عوامی دباؤ پر یورپی یونین سفارتی سروس کی جانب سے غزہ کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ وزارت خارجہ کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ‘اسرائیلی اقدامات یورپی یونین کے ساتھ اسوسی ایشن معاہدے میں موجود انسانی حقوق کی دفعات کی خلاف ورزی کا اشارہ دیتے ہیں’۔ اس مشاہدے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘اسرائیل یورپی یونین-اسرائیل اسوسی ایشن معاہدے کے آرٹیکل 2 کے تحت انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتا نظر آرہا ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی، شہری علاقوں پر بمباری، ہسپتالوں پر حملے اور اب امدادی مراکز پر فائرنگ ان خلاف ورزیوں کی چند مثالیں ہیں۔ان اقدامات کو حادثاتی اور ان سے پہنچنے والے جانی و مالی نقصانات و نفسیاتی صدمات کو ناگزیز یا Collateral damage قرار دے کر نظر انداز کر دینا قرینِ انصاف نہیں ہے’
اسرائیلی وزیر خارجہ گدون سعر نے رپورٹ کو متعصبانہ اور یک طرفہ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ یونین کے نام ایک خط میں اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا ‘اخلاقیات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ رپورٹ کی ناکامیوں پر توجہ دی جائے اور اسے مکمل طور پر مسترد کیا جائے’۔ حوالہ: یورونیوز
ایرانی میزائیل حملوں کی وجہ سے اسرائیل میں عوامی اجتماعات پر پابندی لگادی گئی ہے اس لیے قیدیوں کی واپسی اور غزہ جنگ بندی پر مظاہرے بھی معطل ہیں لیکن لواحقین کی سوشل میڈیا مہم زوروں پر ہے۔ اتوار 22 جون کو وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنی زیر زمین پناہ گاہ سے سمعی و بصری رابطے پر پریس کانفرنس میں اس موضوع پر بھی بات کی۔ ایران کے بارے میں شیخی بگھارتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اہل غزہ کو بھی شان دار مستقبل دینا چاہتے ہیں اور اس کا فارمولا بہت سادہ سا ہے یعنی مزاحمت کار ہتھیار ڈال کر قیدیوں کو رہا کر دیں تو جنگ اسی لمحے ختم ہو جائے گی۔ یہ ایک گھسی پٹی تجویز ہے جو اسرائیلی اور امریکی رہنما ایک سال سے دہرا رہے ہیں۔ یہ بات انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مزاحمت کار کسی قیمت پر ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی پر ان کا موقف حتمی اور غیر متزلزل ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس وقت وزیر اعظم یہ لن ترانی کر رہے تھے، میزائیل حملے کے الارم گونجے اور CNN کے سینئر میزبان اینڈرسن کوپر سمیت سارے صحافی سماعت گاہ سے زیر زمین پناہ گاہ کی طرف دوڑ گئے۔ اینڈرسن کوپر امریکہ و ایران کی فتح کا جشن منانے اسی دن تل ابیب پہنچے تھے۔
ایران پر حملے کے بعد اسرائیل نے مسجد اقصٰی کو تالہ لگا دیا ہے۔ جمعہ 13 جون کو نماز فجر کے فوراً بعد نمازیوں کو مسجد سے نکال دیا گیا۔ فوج اب دروازوں پر پہرہ دے رہی ہے اور کسی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق میزائیل حملوں کی وجہ سے ملک بھر میں اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور مسجد کی بندش انہیں حفاظتی اقدامات کا ایک حصہ ہے۔ مسجد کا انتظام کرنے والے وقف بورڈ نے ان پابندیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بورڈ کے ڈائریکٹر عون بن باز نے کہا کہ بظاہر یہ پابندی عوامی حفاظت کے لیے لگائی گئی ہے لیکن بورڈ کو اس کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی اور خدشہ ہے کہ اس بہانے اسرائیلی حکومت مسجد اپنے کنٹرول میں لے لے گی۔ جناب بن باز نے کہا فوج کے سربراہ کہہ چکے ہیں کہ ایران اسرائیل جنگ جلد ختم ہونے والی نہیں ہے تو کیا مسجد اقصیٰ غیر معینہ مدت تک بند رہے گی؟ مغربی یروشلم میں دیوار گریہ پر ایسی کوئی پابندی نہیں بلکہ 22 جون کو وزیر اعظم نے وہاں جا کر عبادت کی جس کی تصویر تمام اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ ایک تشویش ناک افواہ یہ بھی ہے کہ انتہا پسند اس کوشش میں ہیں کہ مسجد اقصیٰ کو مسمار کرکے اسے ایرانی میزائیل حملے کا شاخسانہ قرار دیا جائے۔
گزشتہ ہفتہ امریکہ کے وفاقی جج Michael Farbiarz نے جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محمود خلیل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے کے الزام میں وزیر خارجہ کے حکم پر ایمگریشن حکام نے تیس سالہ شامی نژاد محمود خلیل کی مستقل سکونت کا اجازت نامہ (گرین کارڈ) منسوخ کرکے انہیں ملک بدر کرنے کے لیے 8 مارچ کو گرفتار کیا تھا۔ محمود خلیل کو گھر سے دور لوزیانہ کے حراستی مرکز میں رکھا گیا جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ فاضل جج نے فیصلے میں لکھا کہ محمود خلیل کے فرار ہونے کا کوئی امکان ہے اور نہ اس کے آزاد رہنے سے امن عامہ کو کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے لہٰذا محمود کو رہا کر دیا جائے۔
رہا ہوتے ہی جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محمود خلیل انسانی حقوق کے لیے دوبارہ سرگرم ہوگئے۔ اتوار 22مارچ کو نیویارک کے سینٹ جان کلیسائے کبریٰ (Cathedral) کے دروازے پر بڑے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایران پر امریکہ کے حملے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ قدم امریکی عوام کی مرضی کے خلاف اٹھایا گیا ہے جس کی ہر امریکی مذمت کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتہ ہم نے غزہ کی پہلی خاتون ماہی گیر میڈلین کا ذکر کیا تھا جن کے نام پر غزہ جانے والے قافلہ آزادی یا Flotilla کی کشتی موسوم تھی۔ آج چند الفاظ اس کشتی کے دلیر ملاح Van Rennes کے بارے میں۔ جواں سال ملاح نے اسرائیلی قید سے رہا ہوکر اپنے وطن نیدرلینڈ پہنچنے پر استقبالی ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں غزہ دوبارہ جانے کے لیے پُر عزم ہوں اور جب تک فلسطینیوں پر ظلم و ستم اور غزہ کی ناکہ بندی جاری ہے، فلوٹیلا کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔
ایران کے میزائیل حملوں سے جہاں اسرائیلی بے حد پریشاں ہیں وہیں، غرب اردن میں زبردست جوش و خروش ہے۔ ایرانی حملے میں 14 جون کو میزائیل کا ایک حصہ الخلیل میں گرا۔ اس ٹکڑے کو ایک پک اپ پر لاد کر نوجوانوں نے سارے علاقے میں فاتحانہ گشت کیا اور ایران و فلسطین کے حق میں نعرے لگائے۔ برباد و تباہ حال لیکن زندہ دل بانکے ہر معاملے میں جشن اور خوشی کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال ہی لیتے ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محمود خلیل رہا ہوتے ہی انسانی حقوق کے لیے دوبارہ سرگرم ہوگئے۔ اتوار 22مارچ کو نیویارک کے سینٹ جان کلیسائے کبریٰ (Cathedral) کے دروازے پر بڑے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایران پر امریکہ کے حملے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ قدم امریکی عوام کی مرضی کے خلاف اٹھایا گیا ہے جس کی ہر امریکی مذمت کر رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025