
اسرائیل کے سابق دفاعی حکام کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل
ہر قیمت پر آزادی و خود مختاری کا دفاع کیا جائے گا۔ مزاحمت کاروں کا عزم
مصر، غزہ کی گیس اسرائیل سے خریدے گا، 35 ارب ڈالر کا معاہدہ
شفا ہسپتال کے باہر صحافیوں کے خیمے پر حملہ، چار صحافی اور ڈرائیور جاں بحق
فوج کی شدید مخالفت کے باوجود اسرائیلی کابینہ نے غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ منظور کر لیا ہے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو نے یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے فوج کو پانچ ماہ کی مہلت دی ہے۔ آپریشن پلان کے مطابق پانچ ڈویژن فوج وسط شہر پر چڑھائی کرے گی۔ بھارتی نیوز چینل CNN-News 18 سے باتیں کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل غزہ پر مکمل قبضے کا ارادہ رکھتا ہے، تاہم وہ اس پر براہ راست حکومت نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری منزل غزہ کو فتح کرنا نہیں بلکہ مزاحمت کاروں کا خاتمہ اور قیدیوں کی باز یابی ہے اس کے بعد غزہ کو ایک عارضی عرب حکومت کے سپرد کر دیا جائے گا’۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے بہت صراحت سے کہا کہ قبضے کے بعد غزہ نہ مقتدرہ فلسطین (PA) کو دیا جائے گا اور نہ اسے مزاحمت کاروں کے پاس رہنے دیا جائے گا بلکہ پٹی کی سیکیورٹی مکمل طور پر اسرائیل کے ہاتھ میں رہے گی۔انٹرویو کے سرسری تجزیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپریشن کامیاب ہونے کی صورت میں غزہ نیا غربِ اردن بنے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ اس ساحلی پٹی کی حتمی صورت گری صدر ٹرمپ کے مجوزہ پرتعیش Beachfront کی شکل میں ہونی ہے۔
فوجی مخالفت اور حزبِ اختلاف کی تنقید
تاہم یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے۔ کابینہ میں اس معاملے پر بحث کے دوران فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زمیر نے کھل کر کہا کہ یہ مہم جوئی فوج کے بھاری جانی نقصان کے ساتھ غزہ میں نظر بند اسرائیلی قیدیوں کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی دوران قائدِ حزبِ اختلاف یائیر لاپیڈ نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ انہوں نے عبرانی میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‘غزہ پر قبضہ ایک بہت ہی برا خیال ہے۔ اس طرح کی مہم جوئی اس وقت تک نہیں کی جانی چاہیے جب تک قوم کی اکثریت آپ کے ساتھ نہ ہو۔ اگلے روز ایک بیان میں جناب لاپید نے دوبارہ کہا کہ ‘یہ منصوبہ ایک اور جنگ کو دعوت دے رہا ہے جس کا نتیجہ قیدیوں کی ہلاکت، مزید فوجیوں کی موت اور قوم کے اربوں شیکال (اسرائیلی کرنسی) کا ضیاع ہوگا جو چند انتہاپسند وزرا کے واہموں پر قربان کیا جا رہا ہے۔’
چند روز پہلے عبرانی میڈیا نے انکشاف کیا کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے تقریباً 80 ہزار فوجی زخمی ہوچکے ہیں، جن کی اکثریت دوبارہ محاذ پر جانے کے قابل نہیں ہے۔ اسرائیلی فوج کی کل تعداد لگ بھگ ایک لاکھ 70ہزار ہے جسے چار لاکھ 65 ہزار ریزرو سپاہیوں کی مدد حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی اعلیٰ فوجی افسر غزہ میں جاری جنگ کو کسی امن معاہدے کے ذریعے جلد از جلد ختم کرنے کے خواہش مند ہیں۔
سابق سیکیورٹی عہدیداروں کا ویڈیو پیغام
اسی ہفتے اسرائیل کے 19 سابق اعلیٰ سیکیورٹی عہدیداروں نے ایک مشترکہ ویڈیو پیغام میں غزہ میں جنگ فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اس جنگ میں فتوحات سے زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے ہیں اور یہ جنگ اب کسی فوجی ضرورت کی بجائے سیاسی مقاصد کے تحت جاری رکھی جا رہی ہے۔ اسرائیلی ISI شاباک (Shin Bet) کے سابق سربراہ نداف آراگامان کا کہنا تھا "اب ہم محض اپنے نقصانات کی تلافی میں لگے ہیں”۔ موساد کے سابق ڈائریکٹر تمیر پاردو نے بہت واشگاف لہجے میں کہا "ہم شکست کے دہانے پر کھڑے ہیں” اس ویڈیو کانفرنس میں اسرائیلی فوج، موساد اور شاباک کے کئی سابق سربراہان شامل تھے۔
فلسطینی مزاحمت کاروں کاعزم
نیتن یاہو کے اس منصوبے پر فلسطینی مزاحمت کاروں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی مدد سے دشمن کا یہ خواب کسی قیمت پر پورا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں۔ اس بیان میں کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ عرب یا غیر عرب جو قوت بھی غزہ کا انتظام سنبھالنے کی کوشش کرے گی اسے قبضہ گرد سمجھا جائے گا اور قبضہ گردوں سے ہمارے سلوک کے بارے دنیا کسی ابہام میں نہ رہے۔
عالمی رد عمل
جنگ میں توسیع کے اس منصوبے کی برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ہالینڈ، سعودی عرب، اردن اور پاکستان سمیت تقریباً تمام دنیا نے شدید مخالفت کی ہے۔ اسرائیلی منصوبے کی خبر جاری ہوتے ہی جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے اعلان کیا کہ غزہ میں استعمال ہونے والے فوجی ساز و سامان کی اسرائیل کو ترسیل فوری طور پر روک دی گئی ہے۔ دوسری طرف وسطی یورپ کے ملک سلووانیہ (Slovenia) نے غرب اردن کے قبضہ گرد علاقوں میں بننے والی مصنوعات کی اپنے ملک میں درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ ایک سرکاری بیان میں حکومت نے کہا کہ ہمارا ملک ایسی کسی لین دین یا تجارت کا حصہ نہیں بن سکتا جن سے غیر قانونی بستیوں کی تعمیر، زمینوں پر قبضے اور فلسطینی آبادی کی جبری بے دخلی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ سلوانیہ اس پہلے نیتن کابینہ کے دو انتہا پسند وزراء اتامر بن گوئر اور بیزلیل اسموترچ کو نا پسندیدہ شخصیت قرار دے کر ان کا اپنے ملک میں داخلہ ممنوع قرار دے چکا ہے۔
چچا سام کا مبہم موقف اور انسانیت سوز تاریخی حوالہ
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس (JD Vance) کا تبصرہ بہت گول مول تھا۔برطانیہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے امریکہ و اسرائیل کے اہداف تو مشترکہ ہیں مگر انہیں حاصل کرنے کے طریقے پر اختلاف ہے۔ تاہم امریکہ میں اسرائیل کے سفیر مائک ہکابی برطانوی وزیر اعظم کی مخالفت پر سخت مشتعل ہیں۔ انہوں نے شعلہ فشاں ٹویٹ میں وزیر اعظم کیئر اسٹارمر سے سوال کیا کہ برطانیہ نے ڈریسڈن میں کیا کیا تھا؟ فروری 1945 میں برطانیہ اور امریکہ نے جرمن شہر ڈریسڈن (Dresden) پر 3,900 ٹن بم برسائے جس سے 25,000 سے زائد شہری ہلاک ہوئے اور دریائے ایبے (Elbe) کے کنارے واقع یہ پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا۔ یہ حملہ آج بھی جنگی جرائم کے مباحث میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ہکابی صاحب کا طنز کہ "اگر اسٹارمر اس وقت وزیر اعظم ہوتے تو آج برطانیہ جرمنی زبان بول رہا ہوتا” صرف تاریخی لا علمی نہیں بلکہ انسانیت کی توہین ہے۔
اسرائیلی فضائیہ کا اعترافِ جرم
منظم و مربوط عالمی تعاقب سے خوفزدہ اسرائیلی جرنیل، صفائیاں پیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک اعلیٰ فوجی اجلاس میں فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل تومر بار (Tomer Bar) نے غزہ میں شہری ہلاکتوں کے سنگین اضافے کا ذمہ دار جنوبی کمان کو قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی کمان نے جنگ کے مقاصد کے حصول میں زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ناقص حکمتِ عملی اپنائی جس کے باعث شہری جانوں کا بھاری نقصان ہوا۔ حوالہ Haaretz۔ قانون کے باب میں ہمارا علم صفر سے بھی کم ہے لیکن کیا جنرل تومر کا یہ بیان اعترافِ جرم نہیں ہے جسے بنیاد بنا کر مہذب دنیا، اسرائیل اور اس کے سہولت کاروں کو قتل عام کی سزا دے اور انہیں تاوان کی ادائیگی پر مجبور کرے؟
عوامی احتجاج
غزہ جنگی جرائم پر اسرائیلی فوج کے خلاف مختلف ممالک میں مقدمات اور ان کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج جاری ہے۔ گرشتہ ہفتے امریکی ریاست مسوری کے شہر سینٹ لوئس (St Louis) میں ایک امریکی شہری جب اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے کر اپنے گھر پہنچا تو محلے کی دیواروں پر "Death to the IDF” لکھ کر اس کا استقبال کیا گیا اور مشتعل افراد نے تین گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی۔ پیرس میں اسرائیل کی سرکاری ایرلائن El-Al کے دفتر پر لوگوں نے سرخ رنگ چھڑک کر Genocide Airline لکھ دیا۔ غزہ نسل کشی کے خلاف نیویارک میں امریکی یہودیوں نے شہر کے محاسب مالیات (Comptroller) بریڈ لینڈر کی قیادت میں مظاہرہ کیا جس میں غزہ کی نسلی تطہیر بند کرو، قحط ختم کرو اور ہولوکاسٹ کے حوالے سے Never again کے نعرے لگائے گئے۔
غزہ کی دولت پر اسرائیل اور مصر کا مشترکہ ڈاکہ
ایک طرف آسٹریلیا، یورپ اور خود امریکہ میں اہل غزہ سے یکجہتی کے مظاہرے ہو رہے ہیں تو دوسری جانب مصر بحیرہ روم میں غزہ کے پانیوں سے نکالی جانے والی قدرتی گیس اسرائیل سے خریدنے جا رہا ہے۔ لیویاتھن (Leviathan) کے نام سے مشہور یہ گیس فیلڈ جغرافیائی طور پر "Offshore Gaza” ہے۔ معاہدے کے تحت مصر 2040 تک 130 ارب مکعب میٹر (130 bcm) گیس خریدے گا جس کی کل مالیت تقریباً 35 ارب ڈالر ہوگی۔ فلسطینی وسائل کی چوری کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ دو سال پہلے متحدہ عرب امارات کی سرکاری کمپنی مبادلہ پٹرولیم نے ثمر (Tamar) گیس فیلڈ میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی۔ ثمر کو بھی اہل غزہ اپنا ثمر قرار دیتے ہیں۔ ثمر کا کچھ حصہ لبنانی پانیوں میں ہونے کی وجہ سے لبنان نے اس کی ملکیت کے لیے اقوام متحدہ میں استغاثہ دائر کر رکھا ہے۔
ہر چند کہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اتوار 10 اگست کو غزہ میں اسرائیلی حملے نے ایک میڈیا خیمہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا، جس میں الجزیرہ کے انس الشریف، محمد قریقع، ابراہیم زاہر، محمد نفّال اور ایک ڈرائیور جان سے گئے۔ یہ حملہ شفا اسپتال کے قریب اس وقت ہوا جب وہاں ایمرجنسی کی خبریں رپورٹ کی جا رہی تھیں۔ صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنانا غزہ اور غربِ اردن میں اسرائیل کی ایک واضح جنگی حکمت عملی ہے تاکہ اس کے مظالم دنیا تک نہ پہنچ سکیں۔ سات اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک 232 سے زیادہ صحافی اپنا مقدس فرض ادا کرتے ہوئے جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں ایک اسرائیلی نامہ نگار بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے مغربی دنیا کے بیشتر میڈیا ادارے سیاسی و معاشی مفادات کے باعث اسرائیلی درندگی پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ غزہ کے صحافی محض واقعات کے گواہ نہیں رہے بلکہ خود اس وحشیانہ مہم کا براہِ راست ہدف بن چکے ہیں۔
***
اسرائیلی کابینہ نے فوج کی شدید مخالفت کے باوجود غزہ پر مکمل قبضے کا متنازعہ منصوبہ منظور کر لیا ہے، جس کے لیے وزیراعظم نیتن یاہو نے فوج کو پانچ ماہ کی مہلت دی ہے۔ اس منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج کی پانچ ڈویژن وسطی غزہ پر چڑھائی کریں گی، تاہم اسرائیل براہ راست حکومت نہیں کرے گا، بلکہ قبضے کے بعد غزہ کو ایک عارضی عرب حکومت کے سپرد کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ غزہ فلسطینی اتھارٹی کو نہیں دیا جائے گا، نہ ہی اسے مزاحمت کاروں کے پاس رہنے دیا جائے گا، بلکہ سکیوریٹی مکمل طور پر اسرائیل کے ہاتھ میں رہے گی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025