!غزہ پر اسرائیلی بمباری اور امت مسلمہ کی ذمہ داری
اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم کو موثر کیسے کیا جاسکتا ہے؟
ندیم خان، بارہمولہ کشمیر:
ساری دنیا فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی بم باری پر سراپا احتجاج ہے۔ جگہ جگہ سے بائیکاٹ کے نعرے اور مطالبات بھی سامنے آ رہے ہیں، اسرائیل، امریکہ اور یورپ کی سرپرستی میں بلکہ عالمِ کفر کی سرپرستی میں فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے وجود میں لایا گیا۔ اسے خوامخواہ نظریاتی ریاست کہا جانے لگا۔ اسرائیلی صیہونیوں نے 75 برسوں سے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اب ہم فلسطین میں جاری اسرائیلی تشدد کو روکنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ بجائے کڑھنے اور گالیوں کی بوچھاڑ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم عملی اقدام کے بارے میں سوچیں۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک میں سے صرف دو یا تین ممالک ہیں جنہوں نے فلسطین کو عسکری امداد فراہم کی ہے۔ بقیہ ممالک کے حکم راں محض الفاظ کی جمع پونجی خرچ کرکے خاموش ہوگئے۔ امریکہ الگ براعظم میں ہونے کے باوجود اسلحہ فراہم کرسکتا ہے تو عرب ممالک خاموش کیوں ہیں۔
مسلم ممالک کے تمام حکمرانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ فلسطین اور حماس کی حمایت کریں۔ یہ عملی امداد ہو۔ اپنے ملک میں تمام اسرائیلی کمپنیوں سے خریدو فروخت کا تعلق ختم کریں۔ اگرچہ یہ اپنے ملک کی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہے لیکن فلسطین میں جاری بربریت کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسرائیل کی معیشت کو کمزور بنایا جائے کیوں کہ کسی بھی ملک کی معیشت ہی وہاں کی فوج کو مزید استحکام بخشتی ہے۔ اس میں عام شہری بھی اپنا کراد ادا کرسکتے ہیں۔
اسرائیل پر کچھ اس قسم کا جنگی جنون سوار ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے اس کے ظالمانہ اور غیر انسانی اقدامات پر ساری دنیا حیران ہے، غزہ کے بائیس لاکھ بے قصور عوام پر قیامت ٹوٹ رہی ہے، ہر طرف انسانی نعشوں کے دل دہلانے والے مناظر ہیں۔ ہر طرف آہ و فغاں اور زخمیوں کی چیخیں گونج رہی ہیں، اسرائیل جنون کی حد تک غزہ پر آتش و آہن کی بارش کر رہا ہے۔
ظلم کا جواز ہر صورت میں بے معنی بات ہے۔ آج معاملہ حماس کا نہیں‘ ان مظلوموں کا ہے جنہیں ان کے گھروں میں مارا جا رہا ہے۔ ان بچوں کا ہے جو جنگ کے ہجے بھی نہیں جانتے۔ان ہسپتالوں کا ہے جن پر بم برسائے جا رہے ہیں۔ ان بستیوں کا ہے جنہیں تاراج کیا جا رہا ہے۔ ان بے گناہوں کا ہے جنہیں گھر سے بے گھر کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف کسی اسلامی ملک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم نہیں کیے۔ اسلامی ممالک کی طرف سے تو ثالثی کی بات ہو رہی ہے۔ کولمبیا، چلی اور بولیویا جیسے ممالک البتہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کو ختم کر رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ اسلامی نہیں ہیں۔ یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے زیادہ باعثِ اذیت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ مذہب کے لیے جذبات کا پیدا ہونا فطری ہے۔ ہمارا درد اگر سوا ہے تو یہ بات قابلِ فہم ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں اسرائیلی کمپنیاں پھیلی ہوئی ہیں جن کی آمدنی سے قوت پا کر اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتا ہے، اگر ساری دنیا کے مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیں تو اسرائیل زبردست معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی مصنوعات سے اعتراض کرنا اسرائیل کو فلسطین کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کرنے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے، موجودہ دور میں مصنوعات کا بائیکاٹ نہایت موثر طریقہ کار ہے جسے اپنا کر ہم دشمنان اسلام کو جھکنے پر مجبور کر سکتے ہیں لیکن ہم مسلمانوں کی صورت حال انتہائی افسوسناک ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت غفلت کا شکار ہے، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ روز مرہ کی اشیاء کس کمپنی کی ہیں، انہیں محض اپنی ضروریات کی تکمیل چاہیے حالانکہ بازار میں جو اسرائیلی اشیاء عام ہیں ان کے متبادل بھی دستیاب ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء و دانشوران اور مختلف تنظیموں کے کارکنان کے ذریعے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی باقاعدہ مہم چلائی جائے۔ یہ کام گھر گھر محلہ محلہ ہونے لگے تو اس کے اچھے نتائج برامد ہو سکتے ہیں ۔
کارکنوں کی جانب سے ایسے چارٹس تیار کیے جائیں جن میں اسرائیلی مصنوعات کے نام کے ساتھ ان کے متبادل اشیاء بھی درج ہوں، اور یہ چارٹ مساجد اور محلوں میں تقسیم کیے جائیں نیز جمعہ کے بیانات میں علماء کرام مسلسل اس پر زور دیتے رہیں۔ اس وقت اسرائیلی مصنوعات اور اہل فلسطین پر اس کے مظالم کے حوالے سے عام مسلمانوں کا حال کیسا ہے اس کی منظر کشی سوشل میڈیا پر کسی نے بہت خوبصورت انداز میں کی ہے وہ لکھتے ہیں: سوال یہ ہے کہ اب بائیکاٹ کیسے کیا جائے۔ گزشتہ عشروں میں صابن سے لے کر کھانے پینے کی اشیا، فاسٹ فوڈ چین، دوائیں، ہتھیار، سائنسی آلات سب پر ان لوگوں کی اجارہ داری ہے۔ اسلامی ممالک جو کچھ تیار کرتے تھے وہ بھی اب ناپید یا غیر موثر ہے۔ کیا ان حالات میں امت مسلمہ کوئی بائیکاٹ کر سکتی ہے۔ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ جس طرح
بائیکاٹ کے وقت تین ترجیحات تھیں اسی طرح اب بھی تین ترجیحات ہونی چاہئیں۔ سب سے پہلے بنیادی ضرورت کی اشیا تیار کرنے والی مسلمانوں کی کمپنیوں کی فہرست بنائی جائے۔ پھر ان کو سہولتیں دی جائیں۔ اس کے بعد مسلمان ممالک آپس میں ان اشیا کی تجارت بڑھائیں۔ فاسٹ فوڈ میں عرب، ترک، لبنانی اور ایرانی کھانے لاجواب ہیں ان کی فاسٹ فوڈ چین اسلامی ملکوں میں کھولی جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی خام مال اسرائیل یا ان ممالک سے نہیں لیا جائے گا جو اسرائیل سے تجارت کرتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے جس کے بل پر سب کچھ ہوتا ہے اور وہ ہے مسلمان کنزیومر۔ مسلمان صارفین کو کم از کم کئی سال کے لیے معیار اور قیمت کی قربانی دینی پڑے گی۔ ممکن ہے اسلامی ممالک کی مصنوعات مہنگی پڑیں۔ یہاں بھی اسلامی ممالک کے حکم راں کوئی تعاون نہیں کریں گے۔ یہ کام بھی مسلمان تاجروں اور صارفین کو انجمن بنا کر کرنا ہوگا۔ آگاہی پیدا کرنی ہوگی۔ اس وقت واشنگ پاوڈر جیسی اشیاء پر بھی ان کی اجارہ داری ہے۔ جو کمپنیاں بھارت میں بسکٹ چاکلیٹ وغیرہ بناتی ہیں ان کا حال بھی کوئی اچھا نہیں ہے۔ تھوڑا بہت معیار اچھا ہے تو قیمت بہت زیادہ ہے۔ ان مسلمان تاجروں کو قربانی دینی چاہیے۔ منافع میں کمی کریں تو ان کی مصنوعات کی فروخت بڑھ جائے گی۔ جو برآمد کنندگان یا درآمد کنندگان ہیں وہ بھی تھوڑا نقصان بردادشت کرکے ایسے ملکوں اور کمپنیوں کو آرڈر دینا بند کردیں۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے۔ کیا یہ حکم راں ایسا ہونے دیں گے۔ اس کا جواب ہے ہرگز نہیں۔ اسرائیلی صیہونیوں کے کسی بائیکاٹ سے قبل موثر آگاہی مہم کی ضرورت ہے اور بڑے بڑے تاجروں کی طرف سے خود منافع میں کمی کرکے مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر سوچا جاسکتا ہے کہ کوئی بائیکاٹ بھی ہوسکتا ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 نومبر تا 18 نومبر 2023