غزہ نسل کشی کے450 دن
جلداز جلد فتح حاصل کرکے جنگ بند کردو۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی اسرائیلی وزیراعظم کوتلقین
مسعود ابدالی
مجرم نیتن یاہو پر زمین تنگ۔ گرفتاری کے ڈر سے پولینڈ کا دورہ منسوخ
یمن سے تل ابیب پر حملہ۔ ہائپر سانک میزائیل روکنے میں اسرائیل ناکام
غزہ نسل کشی کے ساڑھے چار سو دن مکمل ہونے کو ہیں لیکن اب تک ’امن‘ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہم نے لفظ امن کو قوسین کا ہالہ اس لیے پہنایا کہ اب تک اس سمت میں اٹھائے جانے والے تمام اقدامات اور ان سے پھوٹنے والے امکانات قیدیوں کی رہائی کے لیے وقتی جنگ بندی یا وحشیانہ بمباری میں عارضی وقفے کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ علاقے میں حقیقی امن کے لیے کوئی سنجیدہ ہے اور نہ ’مہذب دنیا‘ اس کی ضرورت محسوس کر رہی ہے۔
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران مشی گن میں امریکی عربوں سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ غزہ کی جنگ بند کروا دیں گے لیکن جناب ٹرمپ غزہ کی مکمل پامالی تک جنگ جاری رکھنے کے لیے صدر بائیڈن سے زیادہ پر عزم نظر آرہے ہیں۔ موصوف کی ساری دل چسپی قیدیوں کی رہائی سے ہے اور وہ یہ ہدف ہر قیمت پر 20 جنوری کو اپنی حلف برداری سے پہلے حاصل کرلینا چاہتے ہیں۔جہاں تک غزہ جنگ بندی کا تعلق ہے تو وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کی فتح مبین کے بعد ہی جنگ بند ہونی چاہیے اور وہ نیتن یاہو پر برابر زور دے رہے ہیں کہ جلد از جلد فتح حاصل کرکے جنگ بند کر دیں۔
امریکہ کے موجودہ امن منصوبے کے مطابق اسرائیل عارضی طور پر حملے بند کر دے گا تاکہ قیدی رہا ہوسکیں اور اس کے بعد اسرائیل اپنا نیا لائحہ عمل خود طے کرے گا۔مصر کے جنرل السیسی اور امریکہ کے خلیجی دوست اہل غزہ کو سمجھا رہے ہیں کہ اگر قیدی رہا ہو گئے تو اسرائیل کے لیے جنگ دوبارہ شروع کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہوگا۔یہ بہلاوہ ہے یا خود فریبی؟ تاریخِ انسانی شاہد ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ اخلاق باختگی میں بھی مغربی دنیا کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی، ولندیزیوں کی مشرق بعید، فرانسیسیوں کی شمالی افریقہ میں بربریت، امریکہ میں غلاموں کی تجارت اور دور حاضر میں ویتنام، افغانستان وعراق اس کی چند مثالیں ہیں۔
قیدیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ جنگ شروع ہونے کے امکانات کے بارے میں اہل غزہ بے حد فکر مند ہیں۔ حالیہ امن مذاکرات کے دوران مستضعفین نے قطری اور مصری ثالثیوں کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ‘انہیں یقین ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اسرائیل کو جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد لڑائی دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دیں گے’ ۔ اہل غزہ کے اس خدشے کی تقویت ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کے بیان سے ملتی ہے جنہوں نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا ‘وزیر اعظم نتن یاہو کو یقین ہے کہ پہلے مرحلے کے بعد جنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ، بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ لچک درا ہوگی’۔ گزشتہ ہفتے نتن یاہو نے بہت ہی غیر مبہم لہجے میں کہا تھا کہ ‘اگر ہم ابھی جنگ ختم کر دیتے ہیں تو حماس واپس آ جائے گی، خود کو بحال کرے گی اور تعمیر نو کے بعد اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرے گی، ہم اس صورت حال میں واپس نہیں جانا چاہتے’۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل
فلسطینی وزارت صحت نے دو ہفتہ پہلے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں اس کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں شہداء کی تعداد 45,028 اور زخمیوں کی تعداد 106,962 تک پہنچ گئی ہے۔ واضح رہے کہ ان میں وہ ہزاروں لاپتہ افراد شامل نہیں جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں یا جو تشدد کی تاب نہ لاکر دم توڑ گئے اور لاشوں کو اسرائیلی فوج نے ٹھکانے لگا دیا۔
غزہ کے ساتھ غرب اردن، مشرقی یروشلم اور مرتفع جولان سے متصل جبل حرمون کی وادی اور شام کے پر فضا مقام قنیطرہ میں بھی نسلی تطہیر جاری ہے۔ جمعہ 20 دسمبر کو غربِ اردن میں نابلوس کے مضافاتی علاقے مردہ کی جامعہ مسجد کو قبضہ گردوں نے اس وقت آگ لگادی جب وہاں فجر کی نماز ہو رہی تھی۔ حملہ آور دیوار پر عبرانی میں یہ بھی لکھ گئے کہ ’ (بد کاروں سے) انتقام راست بازوں کے لیے خوشی کا سبب ہے۔‘ صد شکر کہ آتش زدگی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا حالانکہ مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ اسی دن طولکرم پر ڈرون حملے میں 6 فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ مشرقی یروشلم میں بیت المقدس کے قریب فلسطینیوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیے گئے۔ اسرائیل نے یہاں نئی قبضہ بستی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اقوام عالم کی جانب سے خود مختار فلسطینی ریاست پر اصرار کے بعد اسرائیل نے غرب اردن کے ساتھ مشرقی یروشلم سے فلسطینیوں کو نکال کر وہاں قبضہ بستیاں تعمیر کرنے کا کام تیز کر دیا ہے تاکہ اسے اسرائیلی اکثریتی علاقہ بنا دیا جائے۔
مقبوضہ عرب علاقوں پر فوج کشی، قتل عام اور پکڑ دھکڑ کے باجود فلسطینیوں کی پر امن مزاحمت بھی جاری ہے۔ مشرقی یروشلم، رملہ، جنین، نابلوس، الخلیل (Hebron) اریحہ (Hebron) قلقیلیہ میں روزانہ مظاہرے ہو ریے ہیں۔ گزشتہ ہفتے مسیحی اکثریتی علاقے بیت اللحم میں آزادی فلسطین کے لیے بڑا جلوس نکالا گیا۔ شام میں بھی اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی مزاحمت کا آغاز ہو گیا ہے۔ صوبہ درعا کے گاوں معریہ میں مظاہرین نے ’شام ہمارا ہے‘، ’صہیونی قبضہ نا منظور‘ اور ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کے نعرے لگائے۔ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کئی نوجوان زخمی ہوگئے جن میں سے ایک مجروح ماہر الحسینی کی حالت نازک ہے۔
خفیف ہی سہی لیکن عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ جبالیہ کے موسےٰ بن نصیر ہائی اسکول پر بمباری اور معصوم بچوں کی شہادت سے پاپائے روم پوپ فرانسس بے حد غمگین ہیں۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’بچوں پر بمباری جنگ نہیں ظلم و بربریت ہے۔ یہ سن کر میرا دل ڈوبا جا رہا ہے جس کی مذمت کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میلاد مسیحؑ کی تقریبات کے آغاز پر ویٹیکن کے معروف سینٹ پیٹرز اسکوائر میں پاپائے روم کے سامنے پیش کیے جانے والا نومولود، فلسطینی کفیہ میں لپٹا دکھایا گیا۔ اس موقع پر پوپ فرانسس نے کہا ان بھائیوں اور بہنوں کو یاد کرو، جو بیت اللحم (یروشلم میں مسیحؑ کی جائے پیدائش) غرب اردن، غزہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں جنگ کے المیے کا شکار ہیں۔ مزید ارشاد ہوا کہ جنگ، تشدد، اور ہتھیاروں کی تجارت افسوس ناک ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پوپ فرانسس کا بیان و رد عمل غلط فہمی اور زمینی حقائق سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔
سفارتی سطح پر اسرائیل اور آئرلینڈ کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگئی ہے۔ سترہ دسمبر کو آئرلینڈ میں فلسطین کی سفیر ڈاکٹر جیلان وہبہ عبدالمجید کی اسناد سفارت وصول کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئرلینڈ کے صدر مائیکل ہگنز نے کہا کہ اسرائیل تمام عرب علاقوں میں قبضہ بستیاں تعمیر کرنا چاہتا ہے اور اگر اس کا بس چلے تو وہ صحرائے سینائی (مصر) میں بھی اسرائیلی بستیاں قائم کر دے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیدون سعر نے اس پر شدید رد عمل بلکہ اشتعال کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئرش صدر کو سام دشمن جھوٹا Anti Semitic Lier قرار دے دیا۔
گژشتہ ماہ جب ہالینڈ نے اعلان کیا کہ ان کا ملک اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف عالمی فوج داری عدالت (ICC) کے پروانہ گرفتاری کی تعمیل میں مکمل تعاون کرے گا تو بطور احتجاج گدون سعر نے اپنا پہلے سے طے شدہ شدہ دورہ ہالینڈ منسوخ کر دیا۔ اب وزیر اعظم نتن یاہو نے Auschwitz بیگار کیمپ کی آزادی کی تقریب میں شرکت کے لیے پولینڈ نہ جانے کا عندیہ دیا ہے۔ کیمپ کو نازیوں سے آزاد کرانے کی 80 سالہ تقریب 27 جنوری کو ہو رہی ہے جس میں شاہ برطانیہ سمیت مغربی دنیا کے اہم رہنما شرکت کریں گے۔ نتن یاہو کو ڈر ہے کہ کہیں عالمی فوج داری عدالت (ICC) کے وارنٹ پر پولستانی حکومت انہیں گرفتار نہ کر لے۔
بد ترین پابندیوں اور قحط کے باوجود اہل غزہ کی مزاحمت جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے مزاحمت کاروں نے کئی اسرائیلی سپاہیوں کو چھرے مار کر ہلاک کر دیا۔دوسری طرف یمن سے پھینکے جانے والے ڈرونوں اور میزائیلوں نے تل ابیب میں سراسیمگی پھیلا دی ہے۔ جمعرات 19 دسمبر کو یمن سے داغے جانے والے میزئیل نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے رعمت گن کو نشانہ بنایا۔حملے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن پرائمری اسکول بالکل تباہ ہوگیا۔ رئیس شہر کے مطابق، اسکول کی تعمیر نو پر ایک کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔ اسی رات کو اسرائیلی فضائیہ نے یمن کے دارالحکومت صنعا پر زبر دست بمباری کی۔ اسرائیلی عوام کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے یمن کی طرف بھیجے جانے والے امریکی ساختہ F16 کی روانگی براہ راست دکھائی گئی جسے خواتین ہوا باز اڑا رہی تھیں۔ مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ دشمن کی تل ابیب تک پہنچ سے اسرائیل خوف زدہ نہیں ہے اور مردانِ جری کے ساتھ خواتین بھی آہنی عزم رکھتی ہیں۔ بمباروں کے واپس آنے پر وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ حوثی میزائیل داغنا تو کیا اب وہ میزائیل سازی کے قابل بھی نہیں رہے۔ لیکن ابھی اس دعوے کی گھن گرج تھمی بھی نہ تھی کہ دوسرے دن یمنیوں نے تل ابیب کا نشانہ لے کر ایک Hypersonic میزائل داغ دیا۔ہائپر سانک کا مطلب ہے آواز سے کم از کم چار گنا تیز رفتار۔ میزائیل شام کے وقت ایک پارک میں گرا۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن دھماکے سے خوف زدہ ہوکر وہاں موجود ہزاروں افراد پناہ گاہوں کی طرف بھاگے اور اس بھگدڑ میں 16 افراد کو چوٹیں آئیں۔ چند روز پہلے بھی میزائیل حملے کا سائرن بجنے پر دوڑتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکرا کر طبی عملے سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اور قلم کے ایک مزدور کی شہادت پر گفتگو کا اختتام۔ الجزیرہ کے جواں سال فوٹوگرافر احمد الالواح 15 دسمبر کو اسرائیلی ڈرون کا نشانہ بن گئے۔ عالمی کمیٹی برائے تحفظ صحافیان (CPJ) کے مطابق 20 دسمبر تک غزہ میں 141 صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنی جان سے گئے۔ غزہ، جنوبی لبنان اور غرب اردن میں ہلاک و زخمی ہونے والوں صحافیوں کی غالب اکثریت الجزیرہ اور دوسرے عرب خبر رساں اداروں سے وابستہ افراد کی ہے لیکن ظلم و جبر کی حکایت قلم بند کرنے کی کوشش میں امریکی خبر رساں ادارے، ایسوسی ایٹیڈ پریس اور رائٹرز، روسی Sputnik، فرانیسی AFP کے ساتھ اسرائیلی ٹیلی ویژن Ynet چینل 12 اور الارض Haaretz کے صحافیوں نے بھی قلم کی حرمت کو باقی رکھنے کے لیے اپنے سینہ و سر پیش کیے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
’بچوں پر بمباری جنگ نہیں ظلم و بربریت ہے۔ یہ سن کر میرا دل ڈوبا جا رہا ہے جس کی مذمت کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ میلاد مسیحؑ کی تقریبات کے آغاز پر ویٹیکن کے معروف سینٹ پیٹرز اسکوائر میں پاپائے روم کے سامنے پیش کیے جانے والا نومولود، فلسطینی کفیہ میں لپٹا دکھایا گیا۔ اس موقع پر پوپ فرانسس نے کہا ان بھائیوں اور بہنوں کو یاد کرو، جو بیت اللحم (یروشلم میں مسیحؑ کی جائے پیدائش) غرب اردن، غزہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں جنگ کے المیے کا شکار ہیں۔ مزید ارشاد ہوا کہ جنگ، تشدد اور ہتھیاروں کی تجارت افسوس ناک ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پوپ فرانسس کا بیان و ردعمل غلط فہمی اور زمینی حقائق سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024