غزہ مزاحمت کاروں کا چوتھا قائد بھی شہید
مکمل جنگ بندی اور فوجوں کی واپسی سے پہلے اسرائیلی قیدی نہیں رہا ہوں گے
مسعود ابدالی
میت کی حوالگی کو قیدیوں کے تبادلے سے مشروط کردیا گیانیتن یاہو کی نجی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ، ایک اضافی بریگیڈ لبنان بھیج دی گئی
‘‘ دشمن شکست تسلیم کرتا نظر نہیں آتا’’امریکی ماہر
غزہ مزاحمت کاروں کے قائد اور پولیٹیکل بیورو کے سربراہ ابو ابراہیم یحییٰ حسن السنوار، رفح (جنوبی غزہ) میں شہید کر دیے گئے۔ ڈیڑھ ماہ قبل 31 جولائی کو ان کے پیشرو اسماعیل ہنیہ تہران میں شہید کر دیے گئے تھے۔ تحریک کے بانی، شیخ یاسین مارچ 2004 میں امریکی ساختہ اپاچی ہیلی کاپٹر سے داغے جانے والے ہیل فائر میزائل کا اس وقت نشانہ بنے جب وہ فجر کی نماز کے بعد اپنی وہیل چیئر پر گھر واپس جا رہے تھے۔ شیخ صاحب کے بعد 56 سالہ ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی نے حماس کی قیادت سنبھالی لیکن صرف ایک ماہ بعد 17 اپریل کو انہیں بھی ہیل فائر میزائل سے شہید کر دیا گیا۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ یحییٰ سنوار سمیت چاروں قائدین حافظ قرآن تھے اور سب کو اسرائیل کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی۔
اکسٹھ سالہ یحییٰ سنوار کے والدین 1948 میں ساحلی شہر اثقلان (Ashkelon) سے بے دخل کیے گئے اور غزہ کے علاقے خان یونس میں آ کر پناہ لی تھی جو اس وقت مصر کا حصہ تھا۔ یہیں ایک پناہ گزین خیمے میں سنوار صاحب نے آنکھ کھولی۔ انہوں نے جامعہ اسلامیہ غزہ سے علومِ عربی میں بی اے کی سند حاصل کی۔ موصوف اسرائیلی قبضے کے خلاف مظاہرے پر پہلی بار بیس برس کی عمر میں گرفتار ہوئے اور کئی ماہ فریقہ جیل میں گزارے۔ جیل میں ان کی ملاقات کئی حریت پسند رہنماؤں سے ہوئی اور انہوں نے اپنی زندگی جدوجہد آزادی کے لیے وقف کرنے کا عزم کر لیا۔ رہائی کے دو سال بعد سنوار پھر گرفتار ہوئے اور چند ماہ بعد رہائی ملی۔ فروری 1988 کو انہیں دو اسرائیلی سپاہیوں کو ہلاک کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا ہوئی۔ جیل میں سنوار نے عبرانی زبان سیکھی۔ وہ جیل سے عبرانی اخبارات کے اہم مضامین کا عربی ترجمہ کر کے اپنے قائدین کو بھجواتے تھے۔ دورانِ اسیری جناب سنوار نے اسرائیل کی اوپن یونیورسٹی سے تاریخِ بنی اسرائیل (حضرت یعقوبؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک) عبرانی زبان کی تاریخ، عبرانی قصصِ الانبیاء، صیہونیت اور ہولوکاسٹ وغیرہ پر پندرہ کورس کیے۔ اوپن یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم (میڈیم) عبرانی ہے۔ یہ سب اتفاقی یا وقت گزارے کی سرگرمی نہ تھی بلکہ سنوار صاحب نے یہ کام منظم منصوبے کے تحت کیا۔ رہائی پر انہوں نے کہا "اسرائیلی چاہتے تھے کہ جیل ہمارے لیے قبر اور ہماری مرضی، عزم اور جسموں کو پیسنے کے لیے ایک چکی ہو۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے اپنے مقصد پر یقین رکھتے ہوئے اس جیل کو عبادت گاہوں اور مطالعے کے لیے اکیڈمیوں میں تبدیل کر دیا”۔ عقوبت کدے میں انہوں نے کئی ناول بھی لکھے۔ اکثر مسودے اسرائیلی حکام نے تلف کر دیے۔ دورانِ قید ان کے دماغ میں ایک رسولی (Tumor) کا انکشاف ہوا۔ آپریشن انتہائی نازک اور خطرناک تھا۔ انہوں نے اسرائیلی سرجن جنرل سے کہا کہ مجھے تم لوگوں کی نیت پر بھروسہ نہیں لیکن زندگی کا مالک میرا رب ہے اور میں آپریشن کے لیے تیار ہوں۔
گرفتاری کے 22 سال بعد 2011 میں ایک گرفتار اسرائیلی فوجی کے عوض جو 1026 فلسطینی قیدی رہا ہوئے ان میں سنوار بھی شامل تھے۔ ان کا خان یونس پہنچنے پر شاندار استقبال ہوا اور وہ ایک قومی ہیرو بن گئے۔ رہائی کے بعد انہوں نے ایک عالمہ سے شادی کی۔ ان کی اہلیہ دینیات میں ایم اے ہیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کی منصوبہ بندی یحییٰ سنوار اور محمد الضیف نے کی تھی۔ اکتیس جولائی کو اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل پر سنوار مزاحمت کاروں کے پولٹ بیورو کے سربراہ مقرر ہو گئے۔ موصوف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہونے والے غزہ مزاحمت کاروں کے پہلے سربراہ ہیں۔
یحییٰ سنوار کے قتل کی جو تفصیلات اسرائیلی فوج نے جاری کی ہیں، اس کے مطابق 15 اور 16 اکتوبر کی درمیانی رات رفح کے تل السلطان محلے پر اسرائیلیوں نے شدید بمباری کی جس سے کئی عمارتیں کھنڈر بن گئیں۔ سورج طلوع ہوتے ہی اسرائیلی ٹینکوں نے گولہ باری شروع کردی جس کے جواب میں مزاحمت کاروں نے اسرائیلی فوج کی طرف گولیاں برسائیں۔ کئی گھنٹوں بعد جب مزاحمت کاروں کی جانب سے جواب نہ آیا تو مشین گنوں سے فائرنگ کرتے ہوئے اسرائیل کا پیدل دستہ آگے بڑھا۔ عمارت کے کھنڈر سے دو لاشیں ملیں، قریب ہی ایک شخص جاں بلب نظر آیا۔ کرسی پر بیٹھے خون میں لت پت اس آدمی کا دایاں بازو اڑ چکا تھا، لیکن اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں ایک لاٹھی مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔ ایک نشانچی ڈرون اس کے سر پر منڈلا رہا تھا۔ اس شخص نے اپنی لاٹھی موت کے اس پرندے پر مارنے کی کوشش کی لیکن ڈرون سے نکلنے والی درجنوں گولیاں اس کے سر میں پیوست ہوگئیں۔ گویا چوبیس گھنٹوں سے صرف تین مزاحمت کار اسرائیلی بمباروں، ڈرون اور توپ خانے کا مقابلہ کر رہے تھے۔
زخمی مزاحمت کار کے بے ہوش ہوکر زمین پر گرتے ہی اسرائیلی فوجی آگے بڑھے، کمانڈر صاحب نے لاش پہچان کر فاتحانہ نعرہ بلند کیا اور چھرے سے لاش کے بائیں ہاتھ کی انگشت شہادت کاٹ کر اسے بوسہ دیا اور نشان بہادری کے طور پر جیب میں ڈال لیا۔ ایک اور سپاہی نے یحییٰ سنوار کی کلائی پر بندھی گھڑی اتار کر بطور مال غنیمت جیب میں رکھ لی۔ یعنی جناب السنوار نے حضرت حمزہؓ کی طرح مصلے کی آزمائش بھی سہی۔ چھ گھنٹے تک علاقے پر ٹینکوں سے شدید ترین گولہ باری کی گئی اور اس بات کا یقین کر لینے کے بعد کہ اب یہاں کوئی متنفس باقی نہیں بچا، ایک ہیلی کاپٹر پر یحییٰ سنوار کی لاش اسرائیل پہنچا دی گئی۔ لاش ہتھیانے کی بہادرانہ کارروائی پر کمپنی کمانڈر صاحب کے لیے تمغہ تجویز کیا جا رہا ہے۔
کچھ ہی دیر بعد اسرائیلی ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قومی ترانوں کی دھنیں بجنا شروع ہوئیں اور وزیر اعظم نیتن یاہو نے قوم سے خطاب میں اعلان کیا کہ یحییٰ سنوار کے ساتھ حماس کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اپنے فاتحانہ خطاب میں انہوں نے ‘فراخ دلانہ’ پیشکش کی کہ اگر اسرائیلی قیدی رہا کردیے جائیں تو وہ باقی رہ جانے والے مزاحمت کار کمانڈروں کی جان بخشی پر غور کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کی تقریر سنتے ہی انتہا پسند سڑکوں پر نکل آئے۔ سب سے بڑا مظاہرہ یروشلم میں ہوا جہاں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت یحییٰ سنوار کی لاش کو قیدیوں کے تبادلے کی شرط کے طور پر استعمال کر رہی ہے، یعنی قیدی واپس کرو تو لاش ملے گی۔
اسرائیل کے ساتھ اس کے اتحادیوں اور سرپرستوں کی خوشی دیکھنے کے قابل ہے۔ امریکی صدارت کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا دیوی ہیریس نے سنوار کے جاں بحق ہونے پر دلی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دور ہونے کے بعد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور علاقے میں دیرپا امن کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا کہ وہ سنوار کی موت پر غمگین نہیں ہیں۔ سب سے حیرت انگیز یو ٹرن یورپی یونین کے سربراہ برائے خارجہ امور جوزف بورل کا ہے، جو اسرائیلی وزیر اعظم کے انتہا پسند رویے پر اپنی جھنجھلاہٹ کا مسلسل اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ اس خبر پر نہال ہو کر جناب بورل نے فرمایا ‘اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور غزہ امن کے راہ میں کی سب سے بڑی رکاوٹ یحییٰ سنوار تھے۔’ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا موقف اپنی حریف کے عین مطابق ہے کہ اب غزہ میں امن کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ طنز کے تیر عرب میڈیا نے بھی برسائے۔ سعودی ہفت روزہ عکاظ نے سرخی جمائی کہ اسرائیل نے سنوار کو ہنیہ کے پاس پہنچا دیا اور طنز سے جلی حرفوں میں لکھا کہ ‘حماس بلا راس’ یعنی مزاحمت کار بے سر کے ہو گئے۔ اس قتل پر سب سے اچھا تبصرہ ہمیں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا محسوس ہوا۔ اپنے ٹویٹ پیغام میں حافظ صاحب نے کہا ‘اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شہادتوں کا سفر اہل غزہ کو منزل سے قریب تر کر رہا ہے۔ ان شاء اللہ القدس آزاد ہوگا۔’
یحییٰ سنوار کے جاں بحق ہونے پر اسرائیل، اس کے سرپرست اتحادی اور سہولت کار تو جشن منائیں گے ہی لیکن قتل کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے اسرائیلی وزیر اعظم کا جھوٹ بے نقاب ہوگیا ہے۔ دو دن پہلے اسرائیلی خفیہ ادارے شاباک نے کہا تھا کہ یحییٰ سنوار ایک گہری سرنگ کے اندر اسرائیلی قیدیوں کے حصار میں چھپے بیٹھے ہیں۔ اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نیتن یاہو نے شیخی بگھاری کہ "غزہ کی کوئی بھی سرنگ اتنی گہری نہیں جہاں ہم نہیں پہنچ سکیں”۔ ان کے قتل کے بعد قوم سے “فاتحانہ” خطاب میں نتن یاہو نے کہا کہ "وہ ڈالروں کی گڈی لے کر فرار ہونے کی کوشش میں رفح کی ایک سرنگ سے نکلا اور ہم نے اسے جالیا”۔ تاہم مقتول کی جو تصویر خود اسرائیل نے جاری کی ہے، اس میں وہ سرنگ سے باہر لڑائی میں مصروف تھا اور جب اس سے ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا تو وہ لڑنے کے لیے لاٹھی لے کر کھڑا ہوگیا۔ رہی بات ڈالروں کی گڈی کی تو خود اسرائیلی فوج کی جاری کردہ تصویر میں صرف چند شیکل (اسرائیلی کرنسی) نظر آرہے ہیں۔
یحییٰ سنوار کے جانشین کے طور پر تین نام لیے جا رہے ہیں۔ ایک امکان تو یہ ہے کہ قائم مقام قائد خالد مشعل کو یہ ذمہ داری مستقل بنیادوں پر سونپ دی جائے۔ اس کے علاوہ ان کے چھوٹے بھائی 49 سالہ محمد السنوار اور پولٹ بیورو کے ڈپٹی چیف خالد الحیۃ کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔
سنوار کے بعد مزاحمت کاری کیا رنگ اختیار کرے گی، اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اپنے قائد کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے غزہ سے جاری ہونے والے اعلان میں دو ٹوک کہا گیا ہے کہ "جنگ کے خاتمے کا اعلان، اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے پہلے اسرائیلی قیدی رہا نہیں ہوں گے”۔ لبنانی مزاحمت کاروں نے بھی غزہ کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا اور جشن مناتے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل اور راکٹ داغ دیے، جس کی وجہ سے اکثر مقامات پر لوگوں نے رقص چھوڑ کر زیر زمین خندقوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ اسی دوران 19 اکتوبر کو صبح سویرے قیصریہ (Caesarea) کے ساحلی علاقے میں وزیر اعظم نتن یاہو کے گھر پر ڈرون حملہ ہوا۔ مزاحمت کاروں کا خیال تھا کہ وزیر اعظم عظم سبت گزارنے گھر آئے ہوں گے لیکن نتن یاہو اور ان کی اہلیہ اس وقت رہائش گاہ پر موجود نہیں تھے۔
اس کے دوسرے دن شمالی غزہ میں مزاحمت کاروں نے مقامی طور پر تیار کردہ یاسین راکٹ سے دو بکتر بند گاڑیاں اڑا دیں، جس میں بکتر بند بریگیڈ 401 کا کمانڈر احسان دقصیٰ مارا گیا۔ 41 سالہ احسان غزہ میں مارے جانے والا سب سے سینئر فوجی افسر ہے۔ اسرائیلی فوج میں فل کرنل کا عہدہ ہند و پاک کے بریگیڈیر کے مساوی ہے۔ مزاحمت کاروں کے ہاتھوں اب تک اسرائیلی فوج کے چھ کرنل مارے جا چکے ہیں، جن میں سے چار، 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کے آغاز پر اپنی چھاونیوں میں ہلاک کیے گئے۔
جہاں تک لبنان کی زمینی صورتحال کا تعلق ہے تو وہاں اسرائیلی فوج کے مطابق بیس سے پچیس ہزار "دہشت گرد” مورچے سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہیں کچلنے کے لیے جدید ترین اسلحے سے لیس 4 ڈویژن اسرائیلی فوج جنوبی لبنان میں موجود ہے اور اب اضافی بریگیڈ کو لبنان کوچ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ اسرائیلی فوج کے اعلامیے میں کہا گیا ہے:
"زمینی صورتحال کے جائزے کے بعد شمالی سیکٹر میں آپریشنل کاموں کے لیے اضافی ریزرو بریگیڈ بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے متحرک ہونے سے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کی کوششوں کو جاری رکھنے اور جنگ کے مقاصد کے حصول میں مدد ملے گی، جس میں شمال کے رہائشیوں کی محفوظ واپسی بھی شامل ہے”
حوالہ: نیوز ویک
آج کی نشست کا اختتام یحییٰ سنوار کے قتل پر ایک ماہر امریکی سفارتکار کے تجزیے سے:
ریان کروکر (Ryan Crocker) امریکہ کے منجھے ہوئے سفارتکار اور عرب امور کے ماہر ہیں۔ عرب قائدین سے گہرے تعلقات کی بنا پر انہیں امریکی لارنس آف عربیہ بھی کہا جاتا ہے۔ پچھتر سالہ کروکر لبنان، شام، عراق، کویت، افغانستان اور پاکستان میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں۔ سنوار کے قتل کے فوراً بعد انہوں نے امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی POLITICO سے غزہ اور لبنان کی تازہ ترین صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی، جس کا لب لباب کچھ یوں تھا:
"ایک چیز جو میں نے برسوں میں سیکھی، خاص طور پر عراق اور افغانستان میں رہ کر، وہ یہ ہے کہ دشمن کی شکست کا تصور صرف اس دشمن کے ذہن میں معنی رکھتا ہے۔ اگر ہزیمت پر دشمن خود کو شکست خوردہ محسوس کرے تو وہ ہار جاتا ہے۔ لیکن اگر ذہن شکست قبول کرنے کو تیار نہیں تو مزاحمت جاری رہتی ہے، بلکہ اہانت و نفرت کا تڑکا اس کو دو آتشہ کردیتا ہے۔ کیا حسن نصراللہ اور یحییٰ سنوار کے قتل دشمن کو شکست کا احساس دلائیں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن میں شرطیہ کہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا”
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
ریان کروکر (Ryan Crocker) امریکہ کے منجھے ہوئے سفارتکار اور عرب امور کے ماہر ہیں۔ عرب قائدین سے گہرے تعلقات کی بنا پر انہیں امریکی لارنس آف عربیہ بھی کہا جاتا ہے۔ پچھتر سالہ کروکر لبنان، شام، عراق، کویت، افغانستان اور پاکستان میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں۔ سنوار کے قتل کے فوراً بعد انہوں نے امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی POLITICO سے غزہ اور لبنان کی تازہ ترین صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی، جس کا لب لباب کچھ یوں تھا:
"ایک چیز جو میں نے برسوں میں سیکھی، خاص طور پر عراق اور افغانستان میں رہ کر، وہ یہ ہے کہ دشمن کی شکست کا تصور صرف اس دشمن کے ذہن میں معنی رکھتا ہے۔ اگر ہزیمت پر دشمن خود کو شکست خوردہ محسوس کرے تو وہ ہار جاتا ہے۔ لیکن اگر ذہن شکست قبول کرنے کو تیار نہیں تو مزاحمت جاری رہتی ہے، بلکہ اہانت و نفرت کا تڑکا اس کو دو آتشہ کردیتا ہے۔ کیا حسن نصراللہ اور یحییٰ سنوار کے قتل دشمن کو شکست کا احساس دلائیں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن میں شرطیہ کہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا”
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024