غزہ میں رمضان کا پرجوش استقبال ۔ ملبے پر تراویح

امن مذاکرات کا پہلا دور مکمل، اسرائیلی جیلوں میں بند تمام فلسطینی خواتین رہا

0

مسعود ابدالی

اہل غزہ نے عارضی جنگ بندی میں توسیع کی تجویز مسترد کردی، مکمل فوجی انخلا پر اصرار
اسرائیل میں امریکی اسلحے کا انبار۔ ٹرمپ انتظامیہ نے 12 ارب ڈالر کی عسکری امداد منظور کرلی
نیتن یاہو بیان بازی کر کے ہمارے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں؛ لواحقین کی فریاد
یکم مارچ کو غزہ پر رمضان اس حال میں سایہ فگن ہوا کہ ساری پٹی ملبے کا ڈھیر ہے، آبنوشی کے ذخائر تباہ اور انکے باغات و زرعی میدان غارت ہوچکے ہیں۔ اہل غزہ نے گزشتہ رمضان بموں اور میزائیلوں کی برستی بارش میں گزارہ تھا جبکہ اس بار یہاں ایک مبہم و مشکوک سا امن قائم ہے۔ استقبالِ رمضان پورے تزک و احتشام سے ہوا۔ جگہ جگہ رنگین جھنڈیاں لگی ہیں۔ٹوٹی پھوٹی دیواروں اور ملبے پر رمضان سے متعلق قرآنی آیات اور احادیث خوبصورت خط میں درج کی گئیں۔بلدیہ غزہ نے کئی جگہ سڑکوں کو پیدل چلنے والوں کیلئے قابلِ استعمال بنالیا۔مسمار مساجدکے ملبے پرتراویح کا انتظام ہے۔ سب سے اہم بات لوگوں کاپرعزم صبر۔ گھر برباد، قبرستان آباد، جسم چھلنی لیکن زبان پر الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ (ہر حال میں اللہ کا شکر) کا ورد۔
یعنی عشق میں تیرے کوہِ غم، سر پہ لیا جو ہو سو ہو
غزہ کیساتھ تباہ حال غرب اردن میں بھی رمضان روایتی جوش وخروش سے منایا جارہا ہے۔ راستوں کی بندش، ناکوں، ناشائستہ تلاش اور پکڑ دھکڑ کے باجودمسجد اقصیٰ بھی آباد اور تراویح کے دوران نمازیوں کی صفیں گنبدصخراءتک آجاتی ہیں۔
جنگ بندی کا معاملہ یہ ہے کہ 27 فروری کو چار اسرائیلی لاشیں مصر حوالے کردینے کے بعد اسرائیلی عقوبت کدوں سے 602 فلسطینی رہا کردئے گئے، جن میں غزہ کی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ایک جان بلب قیدی کو مصر کے اسپتال منتقل کردیا گیا۔ مزاحمت کاروں نے ایک بیان میں کہا کہ ’27 فروری کا دن اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اسرائیلی جیلوں سے تمام فلسطینی خواتین رہاہوگئیں اور اب ان عقوبت کدوں میں ہماری ایک بھی بیٹی بند نہیں’۔ فلسطینی قیدیوں کو 22 فروری کو اس وقت رہا کیا جانا تھا جب اہل غزہ نے 6 اسرائیلی اقوام متحدہ کے حوالے کئے لیکن غزہ میں رہائی کی ‘ہتک آمیز’ تقریب پر مشتعل ہوکر اسرائیل نے انھیں آزاد کرنے سے انکار کردیاتھا۔
معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی حکام نے دھمکی دی کہ اگر 28 فروری تک مزید قیدی رہا نہ کئے گئے تو عبوری جنگ بندی ختم کرکے غزہ پر بمباری کا سلسلہ دوباہ شروع کردیا جائیگا۔اسی کےساتھ اسرائیلی فوج نے مزید ٹینک غزہ اسرائیل سرحد پر پہنچادئے اور ایسا محسوس ہوا کہ کسی بھی وقت غزہ پر حملہ ہوسکتا ہے۔ اہل غزہ نے خوفزدہ یا مشتعل ہونے کے بجائے اپنے مصری مصالحت کاروں کے ذریعے اسرائیل کو پیغام بھیجا کہ مزاحمت کاروں نے عبوری معاہدے کے پہلے مرحلے پر اپنی ذمہ داریاں اخلاص سے پوری کردی ہیں اور جب تک مکمل جنگ بندی کا معاہدہ نہیں ہوجاتا، مزید کسی قیدی کی رہائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
غزہ سے آنے والے اس سخت بیان پر اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین میں تشویش پھیلی اور سارے اسرائیل میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ دباؤ میں آکر اسرائیلی وزیراعظم دوسرے مرحلے کے مذکرات پر آمادہ ہوگئے اور پائیدار جنگ بندی کیلئے قاہرہ میں اسرائیل اور اہل غزہ کے درمیان براہ راست بات چیت کا آغاز ہوا جس میں قطر اور امریکی حکام بھی موجود تھے۔ مصری وزارت خارجہ نے ایک بیان میں وضاحت کی کہ انکا ملک میزبانی فراہم کررہا ہے۔ واشنگٹن میں برطانوی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا ‘غزہ کے حوالے سے قاہرہ میں ’اچھی بات چیت‘ جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی اعلامیوں میں اس ملاقات کو Indirectکہا گیاکہ ‘دہشت گردوں’ کیساتھ بیٹھنے کا اعتراف کرنے سے انا کا بت مسمار ہونے کا خطرہ ہے۔ مذاکرات شروع ہوتے ہی اسوقت تعطل پیدا ہوگیا جب اسرائیل نے غزہ مصری سرحد پر واقع فلاڈلفی راہداری خالی کرنےسے انکار کردیا۔ سو میٹر چوڑی یہ راہداری جنوب میں کریم سلام پھاٹک سے شمال میں بحیرہ روم تک جاتی ہے۔ امریکہ، قطر اور مصر کی ضمانت پر ہونے والے معاہدے میں طئے پایا تھا کہ دوسرے مرحلے کے مذاکرات سے پہلے اسرائیلی فوج فلاڈلفی راہداری خالی کردیگی۔ساتھ ہی اسرائیل نے مکمل جنگ بندی کیلئے اہل غزہ کو غیر مسلح کرنے کی شرط عائد کردی۔فلاڈلفی پر قبضہ ہی مزاحمت کاروں کیلئے ناقابل قبول تھا۔ ہتھیار ڈالنے کی شرط سنتے ہی انکا وفد اٹھ کر چلاگیا اور مذاکرات معطل ہوگئے۔
ادھر امریکہ کا دورہ کرنے والے اسرائیل کے قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے کشیدگی ختم کرنے کیلئے غزہ کو 8 سال کیلئے مصر کی سرپرستی میں دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ اسرائیلی قائدحزب اختلاف کا کہنا تھا کہ اسکے عوض عالمی برادری کو مصر پر لدے قرضوں کا بوجھ اتارنا ہوگا۔ تاہم اس تجویز کو خود مصر نے مسترد کردیا۔ مصری وزارت خارجہ کے ترجمان ثمیم خلف نے ایک بیان میں کہا کہ غزہ کے بارے میں مصری اور عرب موقف کو نظر انداز کرکے وضع کیا جانیوالا کوئی بھی تصور یا تجویز ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔
مذاکرات میں تعطل پر اسرائیل اور امریکہ دونوں جانب سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے ایک بیان میں کہا کہ اگر تمام قیدی جلد رہا نہ کئے گئے تو امن معاہدہ ختم کردیا جائیگا۔ چھبیس فروری کو سماجی رابطے کیلئے امریکی صدر کے نجی پلیٹ فارم TRUTHپر مصنوعی ذہانت (AI)کی مدد سے تیار کیا گیا TRUMP GAZAکے عنوان سے ایک سمعی بصری پیغام سامنے آیا جس میں پہلے غزہ کی تباہی کے مناظر ہیں جسکے بعد ٹرمپ کے سنہری مجسمے، نیم عریاں فنکاروں کے ساتھ محو رقص امریکی صدر اور آخر میں غزہ کے ساحل پر نیتن یاہو اور موصوف مشروبات سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ دراصل غزہ پر امریکی قبضے کے ارادے کی تجدید ہے۔ اس اشتعال انگیزی کا بھی اہل غزہ نے شائشتہ مگر دوٹوک جواب دیا۔ انکے بیان میں کہا گیا ’غزہ کے عوام اس دن کے منتظر ہیں جب وہ اپنے وطن، معاشی بحالی اور اپنے بچوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر دیکھیں گے، لیکن یہ بڑی جیل کے اندر ممکن نہیں۔ ہماری جدوجہد جیل کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے نہیں، بلکہ یہ قربانیاں جیل اور جیلر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے دی جارہی ہیں۔‘ ساتھ ہی امریکی صدر کو یہ بھی گوش گزار کردیا گیا کہ بصری تراشہ جاری کرنے والوں کو اہل غزہ کے عقیدے، ثقافت اور ترجیحات کا ادراک ہی نہیں۔
دوسری جانب اپنے انتہا پسند اتحادیوں کے دباؤ پر نیتن یاہو اہل غزہ سے ہتھیار رکھنے پر اصرار کرتے رہے۔ یکم مارچ کو مصر سے تجویز آئی کہ مزاحمت کاراپنے راکٹوں اور غزہ ساختہ میزائیلوں کا ذخیرہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ امن فوج کی نگرانی میں دے دیں۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے مزاحمت کاروں نے کہا کہ وہ اس تجویز کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھتے، ساتھ ہی انھوں نے مصالحت کاروں کو یاددلادیا کہ پہلے مرحلے کی 42 روزہ جنگ بندی آج رات بارہ ختم ہورہی ہے۔ پیغام ملتے ہی تل ابیب نے مصری مصالحت کاروں کے ذریعے اہلِ غزہ سے عارضی جنگ بندی میں چھ ہفتہ توسیع کی درخواست کردی۔ جسکے جواب میں بانکوں نے کہا کہ عارضی فائر بندی میں توسیع سے بہتر ہے کہ غزہ سے مکمل و غیر مشروط فوجی انخلا اور دونوں طرف سے قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کرلو۔
اہل غزہ کی طرف سے عارضی جنگ بندی میں توسیع کی اسرائیلی درخواست مسترد کردئے جانے کے بعد وزیراعظم نیتن یاہو نے رمضان اور یہودی تہوار عبور عظیم (Passover) کے اختتام تک جنگ بندی میں یکطرفہ توسیع کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مشیر اسٹیو وٹکاف پرامید ہیں کہ اس عرصے میں امن اور قیدیوں کے رہائی کا مسئلہ حل کرلیا جائیگا۔ عبور عظیم کا آٹھ روزہ تہوار 20 اپریل کو غروب آفتاب پر ختم ہورہا ہے۔ اس پیشکش کو اہل غزہ نے مسترد تو نہیں کیا تاہم یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اس عرصے میں قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہوگا۔ مزاحمت کاروں پر دباؤڈالنے کیلے اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ کیلئے امدادی سامان روکنےکا حکم دےدیاہے۔ دو مارچ کو وزیراعظم کے دفتر (PMO)سے جاری ہونے والے بیان میں نے کہا گیا ہے کہ اہل غزہ نے رمضان اور یہودی تہوار عبورِعظیم تک عارضی جنگ بندی میں توسیع کی وہ تجویز مسترد کردی ہے جسکی درخواست امریکی صدر کے مشیر اسٹیو وٹکاف (Steve Wikoff) نے کی تھی لہذا ب مزید کوئی امدادی ٹرک غزہ نہیں جانے دیا جائیگا۔
اس دوران اسرائیل میں امریکی اسلحے کا انبار لگ رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کیلئے تین ارب ڈالر اسلحے کی نئی کھیپ بھیجنے کی درخواست منظوری کی غرض سے کانگریس (پارلیمان) کو بھیج دی۔ مجوزہ اسلحے میں غرب اردن کی فلسطینی بستیاں مسمار کرنے کیلئے بکتر بند بلڈوزر بھی شامل ہیں۔ یکم مارچ کو وزیرخارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کیلئے 4 ارب ڈالر عسکری امداد کی فراہمی میں تیزی لانے کا حکم دیدیا۔اپنے ایک بیان میں مسٹر روبیو نے کہا کہ 20 جنوری کو حکومت سنبھالنے کے بعد سے ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کی عسکری مدد کیلئے 12 ارب ڈالر منظور کئے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ نے عزم ظاہر کیا کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ تمام دستیاب ذرائع استعمال کریگا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں وضع کی گئی اس پالیسی کو منسوخ کر دیا ہے جسکے مطابق اسرائیل کو فراہم کئے جانے والے اسلحے کے استعمال کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کی اس دستاویز کو (خفیہ) میمورنڈم 20 کا نام دیا گیاتھا۔قومی سلامتی کے لئے صدر ٹرمپ کے مشیر مائیک والٹز نے 21 فروری کو ایک حکم کے ذریعے یادداشت 20 کو منسوخ کردیا۔ بائیڈن دور کی یہ یادداشت محض نمائشی قدم تھا اور ٹرمپ انتظامہ نے اسرائیل پر سے یہ رسمی پابندی بھی ختم کردی۔
اسرائیل میں جہاں قیدیوں کے لواحقین امن معاہدے کیلئے مظاہرے کررہے ہیں وہیں انتہا پسند بھی سرگرم ہیں۔ جمعہ 28 فروری کو تل ابیب میں انتہاپسندوں نے صدر ٹرمپ کی غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی تجویز کے حق میں زبردست مظاہرہ کیا۔جلوس کی قیادت عظمتِ یہود پارٹی کے سربراہ اتامر بن گوئر، وزیرماحولیات محترمہ عیدت سلمن اور حکمران لیکڈ جماعت کے رہنما نیسم وتوئیدی (Nissim Vaturi) کررہے تھے۔ تقریر کرتے ہوئے عیدت سلمن نے کہا صرف غزہ نہیں وادی اردن اور ٰیہوداوالسامرہ (غرب اردن) سے بھی فلسطینیوں کو بےدخل کیا جائے۔
اسرائیلی انتہا پسندوں کو امریکی قدامت پسند حکمراں جماعت کی حمائت حاصل ہے۔امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ برائن ماسٹ نے عملے کے نام ایک یادداشت میں اپنے عملے کو ہدایت کی ہے کہ تمام رسمی خط و کتابت، ٹویٹ، برقی خطوط اور دستاویزات میں دریائے اردن کے مغربی کنارے کو يہودا والسامرة لکھا اور پڑھا جائے۔ اس علاقے پراسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اس مقبوضہ علاقے کا نام غرب اردن ہے۔
غزہ اور غربِ اردن کیساتھ ، شام کےخلاف اسرائیلی کاروائیوں میں بھی شدت آگئی ہے۔ دمشق کے مضافاتی علاقے کسوٰۃ اور اردن کی سرحد کے قریب درعا پر مسلسل فضائی حملے ہورہے ہیں۔ وزیر دفاع اسرائیل کاٹز ننے ایک بیان میں کہا کہ جنوبی شام سے سرکاری فوج کی واپسی اور عسکری تنصیبات تلف ہونے تک حملے جاری رہیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ شام کی ‘نئی انتہا پسند’ حکومت سے دروزوں کو لاحق خطرات دور کرنے کیلئے جنوبی شام سے شامی فوج کا انخلا ضروری ہے۔
غزہ سے آنے والی اسرائیلی لاشوں کے بارے میں نیتن یاہو جس بیباکی سے جھوٹ بول رہے ہیں اس پر لواحقین کو سخت اعتراض ہے۔اسرائیل کی بمباری سے ایک خاتون، شری بیباس اور اسکے دوکمسن بچے ہلاک ہوگئے، اسرائیلی وزیراعظم الزام لگارہے ہیں کہ ان تینوں کو مزاحمت کاروں نے قتل کیا۔شری بیباس کی نند آفری بیباس نے 25 فروری کو فیس بک پیغام میں نیتن یاہو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ‘خاموش رہیں’ کیونکہ وہ بار بار میرے بھائی یارڈن (Jordan)کی بیوی اور بچوں کی ہلاکت کے بارے میں خاندان کی مرضی کے خلاف بیان دے رہے ہیں۔یہ ایک ایسے خاندان سے بدسلوکی ہے جسکی زندگی 16 ماہ سے جہنم بنی ہوئی ہے اور یہ بدترین صورت حال ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔
اختتام ایک نفرت انگیز نوٹ پر۔ اسرائیلی حکمران لیکڈ پارٹی کے رکن کنیسہ (پارلیمان) نیسم وتوئیدی نے ایک بیان میں کہا’ اہل غزہ منحوس ہیں، دنیا میں انھیں کوئی قبول نہیں کرنا چاہتا۔ بہتر ہوگا کہ عورتوں اور بچوں کو علیحدہ کرکے باقی کو ٹھکانے لگادیا دیاجائے’ بنو قریظہ کا بدلہ؟؟؟
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025