غزہ میں اسرائیل کی ہار ،بنیادی اسباب اور معنی خیز نتائج

اہل فلسطین کو غیر معمولی نقصان کا سامنا مگر اسرائیلی ہزیمت سب پر بھاری

پروفیسر کے ناگیشور
مترجم : بشیرالدین، کاغذ نگر

اسرائیل و فلسطین کے لیے دو مملکتی حل پرمتعدد یوروپی ممالک کی آمادگی
7اکتوبر 2023کو حماس کے اسرائیل پر حملے اوراس کے نتیجے میں 1200اسرائیلیوں کی ہلاکت اور 250شہریوں کو قید کیے جانے کے بعد اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ان اہداف کو حاصل کرنے کے عزم کے ساتھ غزہ پر حملہ کیا تاکہ حماس کا نام و نشان مٹادے،اس کی اعلیٰ قیادت کا خاتمہ کردے،حماس کے جرنلوں اور بریگیڈیرس کو شکست فاش دے۔چونکہ غزہ پر حماس کا اقتدار ہے لہٰذا غزہ کو تبا و برباد کردے، 240اسرائیلیوں کو حماس کی قید سے چھڑوائے اور حماس کے ساتھ اس کے حلیفوں ایران، لبنان وغیرہ کو بھی یہ پیغام دے کہ اسرائیل سے ٹکرانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
ان عزائم کے ساتھ اسرائیلی حملے کو ساڑھے آٹھ ماہ گزر گئے یعنی تقریباً 260دن ہوچکےمگر سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل نے ان اہداف کو حاصل کرلیا ہے؟یا اس کو کیا فائدہ حاصل ہوا ہے؟
بتادیں کہ غزہ کی جملہ آبادی 23 لاکھ ہے جس میں اب تک 37ہزار شہادتیں ہوچکی ہیں یعنی آبادی کا سترہ فیصد اور 86ہزارلوگ زخمی ہوگئے یعنی آبادی کا 3.75 فیصد جبکہ حماس نے اسرائیل میں 1200اسرائیلی ہلاک کیے جو آبادی کا 0.03فیصدہے۔ غزہ کی مکمل آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ پورا انفراسٹرکچر تباہ و برباد کردیا گیا۔
اس موقع پر ہم جائزہ لیں گے کہ کیا واقعی حماس کو ختم کردیاگیا ہے؟ اس کا جواب خود اسرائیلی دفاعی فورس کے ترجمان ڈینیل ایگارئین کی زبانی یہ ہے کہ Hamas cannot be eliminated یعنی ’ حماس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ‘کیونکہ حماس ایک نظریہ ہے، ایک سوچ ہے حماس ایک جماعت ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حماس کو ختم کردیں گے تو یہ ایک غلط سوچ ہوگی کیونکہ حماس ایک فکر ہے جو وہاں کے عوام کے دلوں میں بس چکی ہے۔ ساڑھے آٹھ ماہ کی خوں ریز جنگ کے بعد اسرائیل کے فوجی ترجمان کا یہ اعتراف غزہ کے جیالوں کے عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ آج بھی غزہ پر حماس کی حکم رانی اور اسی کی قیادت ہے نیز، فلسطینی عوام میں حماس کے تعلق سے ہمدردی بھی ہے تو پھر اس مجرمانہ کارروائی سے اسرائیل نے کیا حاصل کیا؟
پہلی بات یہ ہے کہ شمالی سرحدوں یعنی لبنان کی جانب سے حزب اللہ کی شکل میں اسرائیل کے خلاف یلغار کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں سے شیعہ ملیشیا حزب اللہ نے شمالی بارڈر پر شدید حملے کیے جو مسلسل جاری ہیں۔ نتیجتاً اس خطے میں موجود چھ ہزار اسرائیلی اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مقام کرچکے ہیں اور ابھی تک بھی اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے منتظر ہیں۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو بھی ٹارگٹ کیا لیکن اسے ختم نہیں کرسکا اوراس کے حملوں روکنے میں ناکام رہا۔ ادھر حزب اللہ نے بھی واضح کردیا کہ جب تک اسرائیل غزہ پر حملوں کو نہ روکے گا تب تک اس کے حملے اسرائیل پر جاری رہیں گے۔ اسرائیل ماضی میں لبنان پر یکبارگی حملہ کرکے حزب اللہ کو ختم کرنے کے تلخ تجربوں سے گزر چکا ہے۔ غزہ میں حماس کو نہ ختم کرنے والا اسرائیل اس سے زیادہ طاقتور لبنان کے حزب اللہ کی طاقتور ملٹری سے ٹکر لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اس کے علاوہ حزب اللہ لبنان کی سماجی زندگی میں گھلی ملی ہوئی ہے۔ اس لیے اس کو کنٹرول کرنا اسرائیل کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے حزب اللہ پر (Full Scale war) کرنے سے اسرائیل مجبور ہے۔ دونوں جانب سے حملے جاری ہیں اس لیے شمالی بارڈر سے حزب اللہ کا خطرہ برقرار ہے۔
دوسری جانب ایران ہے، اس کے پاس نیوکلیئر طاقت ہے جو اسرائیل کے لیے چیلنج ہے۔ اسرائیل کسی سے خوف زدہ نہیں ہے۔ مگر ایرانی نیوکلیئر طاقت سے خوف زدہ ہے۔ اس کے لیے ایران سب سے بڑا سر کا درد ہے۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران یہ خبر آئی کہ ایران ایٹم بم بنانے کے لیے ضروری ساز و سامان جمع کررہا ہے۔ ادھر امریکہ نے اسرائیل کو ایران کے خلاف اقدام کرنے سے روک رکھا ہے۔ ابھی تک ایران اسرائیل پر راست حملہ آور نہیں ہوا لیکن موجودہ صورتحال میں اس کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
یعنی حماس کو تہس نہس کرنے کے لیے شروع کی گئی جنگ ایک طرف حماس کو ختم کرنے سے عاجز ہے تو دوسری طرف حزب اللہ کا منڈلاتا ہوا خطرہ اور تیسری طرف ایران کی للکار سے پریشان اسرائیل کا موقف کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
اس دوران ایران، چین اور روس کے قریب ہوگیا اور یہ مثلث امریکہ اور اسرائیل کے عزائم کی راہ میں بڑا چیلنج بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ ایران کی جنگی حکمت عملی کے حساب سےاس کا موقف مضبوط اور اسرائیل کا کمزور نظر آرہاہے۔ ادھر کافی عرصے سے عرب اسرائیل تعلقات کو مضبوط سے مضبوط کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ماضی میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے 2020میں ابرہام ایکارڈ کے ذریعہ چار عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے رشتوں کو مضبوط بنانے کی کوششیں ہورہی تھیں کہ حماس کے ذریعہ اسرائیل پر حملہ ہوا جو دراصل ان کوششوں کو نقصان پہنچانا اور ان تعلقات کو تعطل کا شکار بنادینا ہے۔ اس کے علاوہ مسئلۂ فلسطین جس کو بڑی سازش سے پس پشت ڈالنے کی کوششیں ہورہی تھیں ان پر کاری ضرب لگانا ہے اور مسئلہ فلسطین کو دوبارہ بڑی قوت کے ساتھ اٹھانا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ حماس نے اپنایہ ہدف حاصل کرلیا ہے اور اب حال یہ ہے کہ خود سعودی فرماں روا نے یہ واضح کردیا ہے کہ فلسطین کی آزادی کے بغیر یہ تعلقات مضبوط نہیں ہوں گے۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں سوائے امریکہ کے کوئی دوسرا ملک اسرائیل کی حمایت کرتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے اور عالمی سطح پر اسرائیل یکا و تنہا ہوتا جارہا ہے۔ ساتھ ہی یو این او کی طرف سےبھی اسرائیل پر دباو ڈالا جارہا ہے کہ فوری جنگ بند کی جائے، اسرائیل کی جانب سے جو نسل کشی ہورہی ہے اسے فوری روکا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم پر بین الاقوامی عدالت میں جنگی جرائم کے مقدمات۔ دائر کیے گئے ہیں اور (Arrest Warrant) بھی جاری ہوئے ہیں یعنی عالمی سطح پر اسرائیل کے جرائم کی نشان دہی کی گئی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یوروپین نیشن آئرلینڈ ، ناروے اور اسپین وغیرہ نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان کے علاوہ مزید یورپی ممالک کے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں کم از کم پچاس یونیورسٹیوں میں اسٹوڈنٹس فیکلٹیز نے بڑے پیمانے پر احتجاجات منظم کیے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ جو اسرئیل کا مددگار ملک ہے وہاں بھی اسرائیل کی مخالفت شروع ہوگئی ہے۔
امریکہ میں اگر ٹرمپ دوبارہ برسر اقتدار آجائے تو موجودہ جو بائیڈن کی پالیسیوں کو برقرار رکھنا ناممکن محسوس ہوتا ہے۔ کیوں کہ ٹرمپ کی جانب سے مقرر کردہ نائب صدر جے ڈی ویان نے بھی ان حالات میں اسرائیل کی مدد کرنے کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے یوکرین کی طرح اسرائیل کی مدد کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس طرح امریکہ میں بھی اسرائیل کی حمایت میں کمی واقع ہورہی ہے۔ بہرحال غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں امریکہ اور یورپ میں اسرائیل کی مخالفت شروع ہوگئی ہے،عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات میں تعطل پیدا ہوا ہے،عالمی سطح پر اسرائیل کو جنگی مجرم ٹھیرایا گیا ہے،اسرائیل عالمی سطح پر یکا و تنہا پڑگیا ہے،فلسطین کی خود مختاری کا دیرینہ مسئلہ پھر سے موضوع گفتگو بن گیا ہے جس کو دبا دیا گیا تھا، اورحماس کے پیش نظرجو تین اہداف تھے انہیں بھی حاصل کرلیا گیا۔ ۱- عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات یعنی (Normalization Process) میں کمزوری پیدا کرنا تاکہ وہ تعطل کا شکار ہوجائیں۔ ۲۔ مسئلہ فسلطین جس کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا اسے پھر سے نمایاں کیا جائے۔ ۳۔ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے کے وہم سے دنیا کو نکالا جائے۔
بے تحاشا جانی و مالی نقصانات کے باوجود حماس کی جنگی حکمت عملی (war strategy) کامیاب رہی اور وہ اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب رہا جبکہ اسرائیل کی اسٹریٹجی مکمل ناکام ثابت ہورہی ہے۔ اوراب مسئلہ فلسطین دوبارہ ابھر کر نمایاں ہوگیا بلکہ بھارت نے بھی دو اسٹیٹس کے قیام کی وکالت کر ڈالی ہے۔
امریکہ نے بھی اسرائیل پر واضح کردیا ہے کہ دو ممالک بننے چاہئیں ایک یہودی اور دوسری عرب مسلم مملکت۔ جس کے لیے یو این او میں پہلے سے ہی قراردادیں موجود ہیں۔ یورپی ممالک ناروے اسپین آئرلینڈ اور دوسرے ممالک بھی فلسطین کے قیام کے حق میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب نے بھی اعلان کردیا کہ فلسطین کی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات آگے نہیں بڑھیں گے۔ یعنی مسئلہ فلسطین پھر سے عالمی موضوع بحث بن گیا ہے۔
جنگی اعتبار سے حماس کو شکست ہوئی غزہ میں جانی و مالی نقصان ہوا، پورا خطہ تہس نہس کردیا گیا، مکمل انفراسٹرکچر تباہ و برباد کردیا، گیا لیکن جنگوں میں اصل چیز جو دیکھی جاتی ہے وہ اس کے نتائج ہیں اور ان نتائج کے اعتبار سے اسرائیل کو سوائے نقصان اور ہزیمت کے کچھ حاصل نہیں ہوا اور اس کے خواب چکنا چور ہوگئے اور یہ اسرائیل جیسے سفاک ظالم و جابر ریاست کی ہار نہیں تو اور کیا ہے؟
***

 

***

 جنگی اعتبار سے حماس کو شکست ہوئی غزہ میں جانی و مالی نقصان ہوا، پورا خطہ تہس نہس کردیا گیا، مکمل انفراسٹرکچر تباہ و برباد کردیا، گیا لیکن جنگوں میں اصل چیز جو دیکھی جاتی ہے وہ اس کے نتائج ہیں اور ان نتائج کے اعتبار سے اسرائیل کو سوائے نقصان اور ہزیمت کے کچھ حاصل نہیں ہوا اور اس کے خواب چکنا چور ہوگئے اور یہ اسرائیل جیسے سفاک ظالم و جابر ریاست کی ہار نہیں تو اور کیا ہے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024