غزہ میں اسرائیلی کارروائی دفاع نہیں جارحیت ہے :کلیسائے انگلستان

فیصلہ کن حملے کے لیے اسرائیل نے اپنی پوری پیدل اور بکتر بند فوج غزہ میں جھونک دی

مسعود ابدالی

دہشت گردی کے خاتمے کے لیے غزہ پر ایٹم بم گرانے کی ضروت ہے: امریکی رکن کانگریس
غرب اردن کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سفارت کاروں پر اسرائیل کی ہوائی فائرنگ
اسرائیل سے متعلق سوال کرنے پر مائیکروسافٹ انجینیر نوکری سے بے دخل
یہ جنازہ نہیں میرے شہزادے کی بارات ہے ، کفن پر دولہا لکھو: ایک ماں کی فریاد
آخری اور فیصلہ کن حملے کے لیے اسرائیل نے اپنی پوری پیدل اور بکتر بند فوج غزہ میں طلب کرلی ہے۔ یوم سبت (24 مئی) پر جاری ہونے والے فوجی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گولانی چھاپہ مار، گیواتی کمانڈوز اور نحل ٹینک ڈیژن کے ساتھ تمام محفوظ یا reserveدستوں نے بھی پوزیشن سنبھال لی ہے۔اسرائیلی فوج کے مطابق اس بھرپور حملے کا مقصد مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔
کیا اسرائیل اس بار اپنا ہدف حاصل کرلے گا؟اسرائیلی عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بانکے کسی قیمت پر ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور ایک ایک مزاحمت کار کو قتل کیے بغیر تحریک کو کچلنا ممکن نہیں۔ گزشتہ انیس ماہ کے دوران، بنکر بسٹر بموں سمیت اسرائیل نے اپنے ترکش کا ہر تیز آزمالیا۔ اس کے نتیجے میں غزہ کھنڈر اور اہل غزہ زندہ درگور ہوگئے لیکن اسرائیل اب تک اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہ کرسکا۔ اسی جنجھلاہٹ کا نتیجہ ہے کہ حملوں میں شدت کے ساتھ وحشت و درندگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اسرائیل کے امریکی دوستوں کے خیال میں ’اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا‘
گزشتہ ہفتے صد ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور فلوریڈا سے ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس رینڈی فائن نے غزہ پر جوہری بم گرانے کی تجویز دے دی۔راسخ العقیدہ یہودی، رینڈی فائن یکم اپریل کو سابق مشیر سلامتی مائک والز کی خالی کردہ نشست پر رکن منتخب ہوئے، صدر ٹرمپ نے موصوف کی انتخابی مہم میں بنفس نفیس حصہ لیا تھا۔ واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے دو اہلکاروں کے قتل پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے رینڈی فائن نے فاکس ٹیلی ویژن پر کہاکہ ’فلسطینیوں کا موقف (cause) بذات خود ایک شیطنیت ہے۔ غزہ میں تنازعہ کا خاتمہ مسلم دہشت گردی کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی صورت ہی میں ممکن ہے۔دوسری جنگ عظیم میں نازیوں سے ہتھیار ڈالنے کی بات کی گئی نہ جاپانیوں سے۔ہم نے جاپانیوں پر دو بار ایٹم بم گرایا اور معاملہ ختم۔ یہاں بھی اسی کی ضرورت ہے۔جیسے امریکہ نے جاپان پر جوہری بم گرایا، شاید اب اسی کی ضرورت غزہ میں ہے‘
بلاشبہ نہتے افراد کا قتل حد درجہ افسوس ناک ہے لیکن غزہ میں ہونے والے واقعات کا دکھ ساری دنیا محسوس کر رہی ہے جس کا رد عمل 21 مئی کی شام کو نظر آیا جب امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے یہودی میوزیم سے باہر آتے اسرائیلی سفارت خانے کے دو افسر یارون لچنسکی اور اس کی گرل فرینڈ سارہ ملگرم کو ایک 30 سالہ شخص الیاس راڈریگز نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔حملے کے بعد بھاگنے کے بجائے الیاس نے میوزیم کے اندر جاکر خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔پولیس کمشنر پامیلا اسمتھ کے مطابق گرفتاری کے وقت الیاس ’آزاد فلسطین‘ کے نعرے لگارہا تھا۔دوسرے روز عدالت کے روبرو بھی الیاس نے کہا کہ غزہ میں ہونے والے مظالم نے اسے راست اقدام پر مجبور کیا۔ الیاس ایک تعلیم یافتہ اور برسرروزگار شخص ہے۔ اس کے ریکارڈ میں کسی قسم کی مجرمامہ یا پُر تشدد سرگرمی میں ملوث ہونے کا کوئی اندراج نہیں۔ سوشلسٹ خیالات کی طرف مائل الیاس، انسانی حقوق کا سرگرم کارکن ہے۔واضح رہے کہ الیاس مسلمان نہیں۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ اور یورپ کے یہودیوں میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوگیا۔ جرمنی میں انسداد سام دشمنی (Antisemitism)کے کمشنر فیلیکس کلائن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دوسرے ممالک میں بھی اس قسم کے مزید واقعات پیش آسکتے ہیں۔اسرائیلی ماہرین کی فکرمندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ الیاس راڈریگز کسی گروپ یا گروہ سے وابستہ تھا اور نہ اس نے اس کام کے لیے کسی کی مدد لی۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزہ نسل کشی عام لوگوں کو راست قدم اٹھانے پر اکسارہی ہے اور اس قسم کے واقعات کو روکنا بہت مشکل ہے۔
پابندیوں اور بدترین سینسر کے باوجود اب غزہ نسل کشی کی خبریں اسرائیل پہنچ رہی ہیں اور وہاں بھی عوامی سطح پر بے چینی کا اظہار ہورہا ہے۔ سابق ڈپٹی چیف آف اسٹاف اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ جنرل (ر) یائر گولان نے کہا کہ اسرائیل بہت تیزی سے Apartheid دور کا جنوبی افریقہ بن رہا ہے۔ ایک معقول ملک شہریوں کے خلاف نہیں لڑتا، بچوں کو شوقیہ نہیں مارتا اور آبادیوں کو بے دخل کرنا اس کی قومی حکمت عملی نہیں ہوتی۔ جنرل صاحب کے اس بیان پر وزیردفاع اسرائیل کاٹز نے انہیں محفوظ یا ریزرو دستے سے فارغ کردیا۔ اسرائیل میں تمام فوجی ریٹائر ہونے کے بعد ریزرو شمار ہوتے ہیں جنہیں بوقت ضرورت محاذ پر بھیجا جاسکتا ہے۔
دوسرے دن بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کے سابق وزیراعظم، یہود المرٹ نے کہہ دیا کہ ’غزہ میں اسرائیلی اقدامات انسانیت کے خلاف جرائم کے ‘‘بہت قریب‘‘ ہیں‘
غزہ کے لیے امداد کی بندش سے معاملہ خراب سے سنگین اور اب مہلک ہوگیا ہے، 20 مئی کو اقوام متحدہ کے انڈرسکریڑی برائے انسانی امور ٹام فیلچر نے کہا کہ اگر بروقت امداد نہیں پہنچائی گئی تو ہر دو دن بعد غزہ کے 14000 بچے بھوک، بیماری اور زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ سکتے ہیں۔ دباؤ پڑنے پر اسرائیل نے محدود تعداد میں امدادی ٹرکوں کو غزہ آنے کی اجازت دے دی ہے۔ ایک طرف یہ امداد اشکِ بلبل سے بھی کم ہے تو دوسری جانب اسرائیلی فوج نے امداد لینے کے لیے آنے والے بھوک کے ماروں کو ہدف بنا لیا ہے۔ ہر نوجوان کو مزاحمت کار سمجھ کر اسے ڈرون سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
غرب اردن میں ہونے والے تشدد اور جبری بے دخلی پر بھی یورپی یونین نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کے لیے اسرائیل نے غیر ملکی سفارت کاروں کو غرب اردن کا دورہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ وفد کی آمد سے پہلے علاقے کی ادھیڑی ہوئی سڑکوں کی استرکاری کی گئی اور عمارتوں کو رنگ روغن کرکے چمکا دیا گیا۔ اس سارے انتظامات کے بعد 21 مئی کو فوج کی نگرانی میں فرانس، برطانیہ، کینیڈا، روس، چین، ہندوستان، جاپان سمیت 21ممالک اور یورپی یونین کے سفارت کاروں کو جنین لایا گیا۔چونا کاری کاکام اس قدر جلدبازی اور بھونڈے پن سے کیا گیا تھاکہ اس کا مصنوعی پن صاف نظر آرہا تھا، چنانچہ یورپی یونین کے سفارت کار برابر والی گلی میں چلے گئے جہاں سڑک ادھڑی اور مکانات کی دیواریں گولیوں سے چھلنی تھیں۔ اس پر اسرائیلی فوج نے زبردست ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ سفارت کار بھاگ کر وہاں سے واپس آگئے اور کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔اسرائیلی فوج نے اس پر معذرت کرتے ہوئے کہاکہ وفد نے پہلے سے طئے شدہ راستے سے انحراف کیا تھا اور فائرنگ دہشت گردوں کو متنبہ کرنے کے لیے کی گئی تھی۔
اسرائیلی مظالم پر دنیا میں بیداری تو ہے لیکن ردعمل سست ہونے کے ساتھ گروہ بندی، اسلاموفوبیا اور تعصب بہت واضح ہے۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے حالیہ اجلاس میں اسرائیل سے تجارت اور تعاون کے معاہدوں پر نظر ثانی کی قرارداد27میں سے 17ممالک نے منظور کرلی۔ گویا دوتہائی سے بھی کم یورپی ممالک غزہ کے معاملے کو سنگین سمجھ رہے ہیں۔یہ تحریک ہالینڈ نے پیش کی تھی جس کی بلغاریہ، کروشیا، یونانی قبرص، چیک ریپبلک، جرمنی، یونان، ہنگری، اٹلی اور لٹھوانیہ نے مخالفت کی جبکہ لٹویا غیر جانبدار رہا۔ دوسری طرف برطانیہ نے اسرائیل سے آزادانہ تجارت کے معاہدے (FTA)پر مذاکرات منجمد کر دیے ہیں۔ پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیرخارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ غزہ اور غرب اردن میں اسرائیل کا رویہ انتہائی برا اور انسانیت کے خلاف جرائم شمار ہو سکتا ہے
موسیقی کے عالمی مقابلے یوروویژن (Eurovision) کا ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔سوئزرلینڈ کے شہر باہزل (Basel)میں ہونے والے اس مقابلے کے اختتام پر فاتح، آسٹریائی گلوکار، Johannes Pietsch المعروف JJ نے ایوارڈ لیتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا ’اسرائیل کو مقابلے میں شامل ہوتے دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی۔ میں چاہتا ہوں کہ اگلا یورووژن ویانا میں ہو اور اسرائیل کے بغیر ہو‘
کچھ ایسی ہی صورتحال Ivor Novello ایوارڈ کی تقسیم کے وقت پیش آئی۔ مشہور یورپین فن کار آیور نویلو کی یاد میں ہر سال عمدہ گیت کے تخلیق کار اور دھنیں تیار کرنے والوں کو انعامات دیے جاتے ہیں۔ اس بار یہ تقریب 22 مئی کو لندن کے Grosvenor ہوٹل میں منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی آئرلینڈ کے مشہور گلوکار پال ڈیوس ہیوسن المعروف بونوح (Bono) نے غزہ امن فارمولا پیش کرتے ہوئے کہا ’غزہ میں خونریزی ختم ہو، مزاحمت کار قیدی آزاد کردیں اور اسرائیل نیتن یاہو اوراس کے انتہا پسند ساتھیوں کے چنگل سے آزاد ہوجائے‘
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا لیو چہاردہم نے پوپ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سینٹ پیٹرر برگ چوک پر اپنے پہلے ہفتہ وار خطبے میں کہا کہ ’غزہ کی صورتحال تشویش ناک اور تکلیف دہ ہے۔ میں دلی التجا کرتا ہوں کہ وہاں خاطر خواہ امداد کی اجازت دی جائے۔ اس دشمنی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جس کی دل دہلا دینے والی قیمت بچے، بزرگ اور بیمار ادا کر رہے ہیں ہیں۔ کلیسائے انگلستان (Church of England) کے اسقف ہائے اعظم یا Bishops کے 22مئی کو یارک (York) میں ہونے والے سالانہ اجتماع میں بھی ایک قرارداد منظور ہوئی جس میں کہا گیا کہ ’غزہ میں اسرائیل کے عسکری اقدامات، دفاعی جنگ نہیں بلکہ قابل مذمت جارحیت ہے۔ ہم غزہ کے لیے انسانی امداد کی پابندی کو نسل کشی کی ایک شکل سمجھتے ہیں‘۔
اسی کے ساتھ نسل کشی کے سہولت کاروں کی جارحیت بھی عروج پر ہے۔امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں مائیکروسافٹ کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والی ٹیکنالوجی کانفرنس میں اسرائیلی فوج سے مائیکروسافٹ کے تعاون کے خلاف زبردست مظاہرہ ہوا۔جب 19 مئی کو مائیکروسافٹ کے بھارت نژاد سربراہ (CEO) ستیا ناڈیلا تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو ایک سافٹ ویئر انجنیئر جو لوپیز نے بہت شائستگی سے پوچھا ’سر! ہماری کمپنی مصنوعی ذہانت(AI)کی حساس ٹیکنالوجی یہ جانتے ہوئے اور خاص اسی مقصد سے اسرائیل کو فراہم کر رہی ہے کہ اس کی مدد سے فوج ہسپتالوں اور غلے کے گوداموں کو نشانہ بناسکے۔ کیا یہ رویہ اخلاقی اعتبار سے غلط نہیں ہے؟‘ اس کا جواب دینے کے بجائے CEO کے حکم پر مسلح گارڈ نے جو لوپیز کو دھکے دے کر ہال سے باہر نکلوا دیا اور دو دن بعد اس کو ملازمت سے برطرف بھی کردیا گیا۔
امریکی جامعات میں تشدد و گرفتاری کے باوجود اہل غزہ کی حمایت بڑھتی جارہی ہے۔ آج کل جامعات اور دوسرے تعلیمی اداروں میں تقسیم اسناد کی تقریبات ہورہی ہیں اور بلا استثنیٰ ہر جگہ سند لینے والے طلبہ کی معقول تعداد فلسطینی کفیہ گلے میں ڈال کر ڈگری وصول کررہی ہے۔ ایک بہت دلچسپ صورتحال جامعہ شمالی ٹیکسس (UNT)کے شعبہ طب کے جلسہ تقسیم اسناد میں اس وقت پیش آئی جب ایک پاکستانی نژاد ڈاکٹر کو رئیس کلیہ نے اعزازی مفلر پہنایا تو اس نے فلسطین کا پرچم لہرادیا۔ اس لڑکے کی جرأت رندانہ سے زیادہ غیر متوقع سامعین کا ردعمل تھا۔ اس علاقے اور جامعہ پر قدامت پسندوں کے اثرات بہت گہرے ہیں لیکن فلسطینی پرچم دیکھ کر سارا مجمع کھڑا ہوگیا اور دیر تک تالی بجتی رہی۔ شدید پابندیوں، اسناد کی منسوخی اور ویزوں کی معطلی کے باوجود، جامعہ کولمبیا کے جلسہ تقسیم اسناد میں بھی ہال کے اندر اور باہر زبردست مظاہرہ ہوا، حتیٰ کہ اپنے خطبہ صدارت میں جامعہ کی صدر ڈاکٹر کلیئر شپمین یہ کہنے پر مجبور ہوگئیں کہ غیر ملکی طلبہ کو بھی آزادی اظہار رائے کا ایسا ہی حق حاصل ہے جیسا امریکی شہریوں کو۔ انہوں نے طالب علم رہنما محمود خلیل کی نظربندی پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ محمود خلیل کی سند لینے جب اس کی بیوی اپنے ایک ماہ کے بچے کو لے کر آئی تو اساتذہ سمیت سارے مجمع نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔
اور آخر میں دو واقعات کا ذکر کہ جن کا بصری تراشہ بھی ہم سے نہ دیکھا گیا۔
شہید ہونے والے ایک بچے کی ماں بلک بلک کر کہہ رہی تھی۔ ’تم سب کو تمہارے رب کا واسطہ، اسے جنازہ نہ کہو یہ میرے شہزادے کی بارات ہے‘۔امدادی کارکنوں سے اس نے رو رو کر فریاد کی کہ کفن پر دولہا لکھ دو۔ جب ایک کارکن نے کالے مارکر سے کفن پر ’العریس‘ یعنی دولہا تحریر کیا تب اس نے تدفین کے لیے میت اٹھانے کی اجازت دی۔ دوسرا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ناصر ہسپتال سے وابستہ مشہور ماہر اطفال ڈاکٹر آلاء النجار 21 مئی کی شام بدترین بمباری کے بعد زخمیوں اور لاشوں کو دیکھ رہی تھیں۔ سب کے جسم اس بری طرح جھلسے ہوئے تھے کہ شناخت مشکل تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک لاش کی شناخت کررہی تھیں تو انہیں پتہ چلا کہ کوئلہ بنا یہ لاشہ ان کے بڑے صاحبزادے یحییٰ کا ہے۔ اس کے بعد تو جس لاش کو بھی ہاتھ لگاتیں وہ ان کے کس بچے کی تھی۔ بمباری میں ان کے دس میں سے نو بچے شہید ہوگئے اور بری طرح جھلسا ہوا دسواں لخت جگر موت و حیات کی کشکمش میں ہے۔ لیکن آفرین ہے احساسِ ذمہ داری پر کہ اپنے مہ پاروں کی لاشوں کو ایک طرف کرکے وہ معمول کے مطابق زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگئیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جون تا 06 جون 2025