
!غزہ کو بدترین معاشی ناکہ بندی کا سامنا، اب بجلی بھی بند
کیا مزاحمت کار ہتھیار ڈالنے اور غزہ کے سیاسی مستقبل کا حصہ نہ بننے پر راضی ہو جائیں گے؟
مسعود ابدالی
اگر قیدی رہا نہ ہوئے تو یہ اہل غزہ کیلئے پیغام موت ہے:صدر ٹرمپ کی دھمکی
رہائی کا بہترین راستہ امن معاہدے پر عملدرآمد ہے: بانکوں کا جواب
غزہ سے نقل مکانی کی نگرانی کے لیے ’مائیگریشن ایڈمنسٹریشن‘ کا قیام
طلبہ کی اسرائیل مخالف سرگرمیاں، صدر ٹرمپ نے جامعہ کولمبیا کی وفاقی گرانٹ معطل کردی
غزہ کو بدترین ناکہ بندی کا سامنا ہے ۔عالمی ادارے World Food Program (WFP) کے مطابق اگر امدادی سامان پر پابندی برقرار رہی تو غزہ میں خوراک کا ذخیرہ دو ہفتے یعنی 19 مارچ تک ختم ہو جائے گا۔اس خبر پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یمن کے حوثیوں نے اعلان کیا کہ اگر اگلے چار دنوں کے اندر غزہ کی انسانی امداد بحال نہ کی گئی تو بحیرہ احمر اور خیلج عمان سے گزرنے والے جہازوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
بد ترین انسانی المیے سے قطع نظر، صدر ٹرمپ، سفاکانہ بیانات اور متضاد رویے کا مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دینے کی دھمکی دہرا رہے ہیں تو دوسری جانب ان کے خصوصی ایلچی آدم بوہلر (Adam Boehler) کی قطر میں اہل غزہ سے براہ راست ملاقات جاری ہے۔ بات چیت کے دوران مزاحمت کاروں نے بوہلر کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ مصری سرحد پر فلاڈیلفی راہداری سمیت سارے غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا کے بعد ہی قیدی رہا ہوں گے جبکہ بوہلر چاہتے ہیں کہ دہری شہریت کے حامل امریکی قیدی عیدن الیگزنڈر کو رہا اور چار امریکی اسرائیلیوں کی لاشیں حوالے کرکے اہل غزہ اعتماد سازی کا آغاز کریں۔ 9 مارچ کو آدم بوہلر نے CNN کے جیک ٹریپر سے باتیں کرتے ہوئے تصدیق کی کہ مزاحمت کاروں سے بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور امید ہے کہ ایک ہفتے تک ہم کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے۔اس سے پہلے انہوں نے غزہ نسل کشی کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’اسرائیل نے شان دار فوجی آپریشن کرکے مزاحمت کاروں کی عسکری قوت کو صفر کر دیا ہے، ساتھ ہی لبنانی ’دہشت گردوں‘ کا بھی صفایا کردیا گیا‘۔ یعنی غزہ قتل عام ان کے خیال میں ایک عام فوجی کارروائی ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد بوہلر اسرائیل کے عبرانی چینل 12 پر نمو دار ہوئے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ ’کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ مزاحمت کار ہتھیار ڈالنے اور غزہ کے سیاسی مستقبل کا حصہ نہ بننے پر راضی ہو جائیں گے تو وہ بلا توقف بولے کہ ہاں ایساہی ہوگا‘۔ ہمارے خیال میں یہ اسرائیلیوں کا نفسیاتی حربہ ہے۔
اس سے پہلے پانچ مارچ کو صبح سویرے صدر ٹرمپ نے سماجی رابطے کے اپنے نجی پلیٹ فارم پر اہل غزہ کو خط لکھا جس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے:
شالوم!! (آپ اسے ہیلو اور الوداع جو چاہے سمجھ لیں)
’’تمام یرغمالیوں کو بلا تاخیر رہا کر دو اور ان لوگوں کی تمام لاشیں واپس کر دو جن کو تم لوگوں نے قتل کیا ہے۔ صرف بیمار ذہنیت کے لوگ ہی لاشیں رکھتے ہیں، اور تم تو ہو ہی بیمار ذہنیت کے لوگ۔ میں اسرائیل کو وہ سب کچھ بھیج رہا ہوں جو اسے اپنا کام مکمل کرنے کے لیے درکار ہے۔ اگر تم میری مرضی کے مطابق کام نہیں کرو گے تو تمہارا ایک بھی رکن محفوظ نہیں رہے گا۔ میں نے ابھی تمہارے سابق یرغمالیوں سے ملاقات کی ہے جن کی زندگیاں تم نے تباہ کردی ہیں۔ یہ تمہارے لیے آخری تنبیہ ہے۔ مزاحمت کاروں کے لیے اب غزہ چھوڑنے کا وقت ہے اور ایک خوبصورت مستقبل غزہ کے لوگوں کا منتظر ہے، لیکن اگر تم لوگ یرغمالیوں کو رہا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ تم مر چکے ہو۔ لہٰذا درست فیصلہ کرو یرغمالیوں کو فوراً رہا کر دو ورنہ بعد میں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔‘‘
اس دھمکی کا بانکوں کی طرف سے مختصر، جامع اور دو ٹوک لیکن بردباری سے لبریز جواب آیا کہ
’’امریکی صدر کی دھمکی، امن معاہدے سے فرار کے لیے نیتن یاہو کی حوصلہ افزائی کی ایک کوشش ہے۔ تمام قیدیوں کی رہائی کا بہترین راستہ دوسرے مرحلے کے مذاکرات ہیں۔‘‘
لیکن اس دھمکی پر شمالی غزہ کے ایک 59 سالہ تاجر یاسر الشرافہ نے الجزیرہ پر جو کہا وہ سننے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سڑک کے کنارے چھابڑی لگانے والے ان صاحب سے جب امریکی صدر کے خط پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو یاسر نے کہا :’میں کپڑوں کا ایک مشہور تاجر تھا۔ غزہ کے تل الحوا میں میری ایک بڑی دکان، ایک چھ منزلہ عمارت، ایک کار اور گودام تھے۔ میری برسوں کی محنت ختم ہو گئی، سب کچھ مٹ گیا، برباد ہوگیا۔ اب ہمارے پاس ہے ہی کیا کہ جس کے ضایع ہونے کی ہم فکر کریں؟ ٹرمپ ہو یا کوئی اور، جو چاہے بولے اور کرے، ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
صدر ٹرمپ کے دھمکی آمیز خط کے فوراً بعد مصرعہ طرح پر غزل سرائی شروع ہوئی اور وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اہل غزہ کو انجام بد سے ڈرایا، حتیٰ کہ امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکاف بھی اپنی زبان پر قابو نہ رکھ سکے اور شعلہ افشانی کی کہ ’بہت ہوگیا، تمام قیدیوں کو رہا کرکے مزاحمت کار غزہ خالی کردیں۔ اس اندازِ گفتگو کی موصوف سے توقع نہ تھی کہ ارب پتی وٹکاف کی شناخت ہی ان کا ٹھنڈا بلکہ برفیلا لہجہ ہے۔
شہ پاکر اسرائیلی وزیر دفاع بھی غُرائے کہ ‘اگر اسرائیلی قیدی جلد رہا نہ کیے گئے تو غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے’۔ دھمکی میں زور پیدا کرنے کے لیے اسرائیلی فضائیہ کو غزہ پر ایف 35 اور B-52 بمباروں کی نچلی پروازیں کرنے کا حکم دیا۔ فلسطینیوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہونے والی 41 سالہ اسرا کو الخلیل (Hebron) میں ان کے گھر سے اسرائیلی فوج نے دوبارہ گرفتار کرلیا۔
جنگی جنون پر اہل غزہ کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی دھمکیوں اور جارحانہ طرز عمل سے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بمباری کرکے اپنے قیدی چھڑا لے گا تو وہ اپنی غلط فہمی دور کرلے۔ حملے کی تجدید اہل غزہ کے ساتھ قیدیوں کی زندگی بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
امریکی صدر کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ 5 مارچ کو جب رہا ہونے والے قیدی ان سے ملنے قصرِ مرمریں آئے یا لائے گئے تو ان لوگوں کی ’حالت زار‘ دیکھ صدر ٹرمپ مشتعل ہوگئے اور یہی اشتعال اہل غزہ کے نام کھلے خط کا محرک بنا۔ ملاقات کے بعد امریکی صدر نے کہا کہ ان معصوموں کی زندگی ’دہشت گردوں‘ نے تباہ کردیں، انہیں بھوکا رکھا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہم نے وہ سارا منظر ٹیلی ویژن پر براہِ راست دیکھا جبکہ ان سابق قیدیوں کے چہرے کی شادابی بتا رہی تھی کہ یہ لوگ بہت آرام بلکہ ناز و نِعَم سے رکھے گئے تھے۔امریکی صدر اسرائیلی عقوبت کدوں سے رہا ہونے والی خواتین اور بچوں کو بھی دیکھ لیتے تو پتہ چلتا کہ تشدد اور بدسلوکی کسے کہتے ہیں۔
اسرائیل میں قیدیوں اور ان کے لواحقین کا رد عمل بالکل مختلف ہے۔ گزشتہ ہفتہ غزہ میں اسرائیل بمباری سے اپنے دو معصوم بچوں کے ساتھ ہلاک ہونے والی ایک خاتون، شری بیباس کی نند آفری بیباس نے نیتن یاہو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’خاموش رہیں‘ کیونکہ وہ بار بار میری بھابھی اور بھتیجوں کی ہلاکت کے بارے میں خاندان کی مرضی کے خلاف بیان دے رہے ہیں۔اس ہفتے غزہ میں اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے اسحاق القرات کے سوگوار بھائی دانی القرات نے تدفین کے موقع پر کہا کہ ’میرے بھائی کی موت کے ذمہ دار اسرائیلی وزیر اعظم ہیں۔ اسحاق کی موت کے ذمہ دار وہ نہیں جنہوں نے اسے گرفتار کیا بلکہ وہ ہیں جنہوں نے اسے دشمن کی تحویل میں رہنے دیا اور بمباری کرکے اسے مار ڈالا۔‘ دانی القرات کی درخواست پر نیتن یاہو نے اسحاق کی تدفین میں شرکت نہیں کی۔
غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دینے کا عزم رکھنے والے وزیر دفاع کو ایک دوسری پریشانی کا سامنا ہے۔ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق لازمی فوجی تربیت کے لیے حریدی فرقے کے نوجوانوں کو جو دس ہزار سمن بھیجے گئے اس کے جواب میں صرف 177 افراد حاضر ہوئے۔حریدی فرقہ خود کو پاسبانِ توریت کہتا ہے اور ان کا موقف ہے کہ فوجی تربیت کی وجہ سے ان کی توریت کی تعلیم متاثر ہوگی۔دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والے یہ کہہ کر بھرتی سے پیچھا چھڑا رہے ہیں کہ حریدیوں کی طرح وہ بھی بھرتی سے استثنیٰ کے مستحق ہیں۔فوجی جرنیلوں کے استعفوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ڈائریکٹر آپریشنز میجر جنرل عدد بشیوک (Oded Basiuk) نے استعفی دے دیا۔ موصوف 33 سال سے وردی میں تھے۔ استعفیٰ میں تو کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی لیکن ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اپنے قریبی احباب کو جنرل صاحب نے بتایا کہ 7 اکتوبر 2023 کو اہل غزہ کے حملے کے وقت سے ان کی کارکردگی سخت تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ سخت ذہنی دباو میں ہیں۔ اسی بنا پر فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل حرزی حلوی اور اور جنوبی کمان کے سربراہ میجر جنرل ہارون فنکلمین پہلے ہی مستعفی ہوچکے ہیں۔
غزہ کے مستقبل کے بارے میں عرب لیگ نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے 53 ارب ڈالر کا ٹرسٹ فنڈ منظور کرلیا ہے۔ چار مارچ کو قاہرہ سربراہ اجلاس نے غزہ سے فلسطینیوں کی جبری اور رضاکارانہ جلا وطنی کو سختی سے مسترد کر دیا۔اہم بات یہ ہے کہ غزہ سے مزاحمت کاروں کی حکم رانی ختم کرنے کا قاہرہ اعلامیہ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ نے عرب لیگ منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ آٹھ فروری کو ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ عرب لیگ کا غزہ کی تعمیرِ نو منصوبہ حقیقت پسندانہ ہے اور اس پر عمل درآمد سے غزہ کے تباہ حال فلسطینیوں کی زندگیوں میں تیزی سے اور پائیدار بہتری آئے گی۔ تاہم یورپی ممالک نے غزہ پر ’دہشت گرد ٹولے‘ کی حکمرانی کی مخالفت کی ہے۔
اسرائیل نے قاہرہ منصوبہ یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کو دہشت گردی و عسکریت سے پاک اور پٹی سے دہشت گرد حکومت کے خاتمے سے کم کوئی تجویز اسرائیل کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔وزارت خارجہ کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل، اہل غزہ کی وہاں سے منتقلی کے ٹرمپ پلان کو اس مسئلے کا فطری و حقیقی حل سمجھتا ہے۔ نو مارچ کو کنیسہ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں اتحادی جماعت کے اجلاس کے بعد وزیر خزانہ بیزلیل اسموترچ کے نے بتایا کہ غزہ کے باشندوں کی نقل مکانی کی نگرانی کے لیے ’مائیگریشن ایڈمنسٹریشن‘ قائم کر دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہل غزہ کی جلا وطنی اب سرائیل کی سرکاری پالیسی کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔
ماہ رمضان میں مساجد کی بے حرمتی اور نمازیوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے نابلوس میں غربِ اردن کی قدیم جامع مسجد النصر کو اسرائیلی فوج نے آگ لگا دی۔ مسجد اقصیٰ میں 55 سال سے کم عمر مردوں اور 50 سال سے کم کی خواتین کا داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔ بارہ برس سے زیادہ عمر کے بچے بھی مسجد نہیں جا سکتے۔ مسجد کا مرکزی دروازہ ‘بابِ دمشق’ بند کر دیا گیا ہے۔
الخلیل (Hebron) کی تاریخی ابراہیمی مسجد میں بھی مسلمانوں کا داخلہ محدود کر دیا گیا ہے۔ عبرانی روایات کے مطابق یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں کئی غاروں پر مشتمل یہ علاقہ حضرت ابراہیمؑ نے آبائی قبرستان کے لیے خریدا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت اسحاقؑ اور ان کی والدہ حضرت سارہ یہیں مدفون ہیں۔ عبرانی میں اسے غارِ مقبرہ یا Məʿārat hamMaḵpēla کہتے ہیں۔بارہویں صدی میں یہاں ایک مسجد قائم کی گئی تھی اس کے بعد سے اس پورے کمپاونڈ کا نام حرمِ ابراہیمی ہے۔نیتن یاہو کے اقتدار سنبھالنے کے بعد انتہا پسند اسرائیلیوں نے اس پر قبضے کی مہم شروع کر دی اور دو سال پہلے عدالت نے ‘انصاف’ کے ساتھ کچھ اس طرح تقسیم کیا کہ 67 فیصد حصہ یہودیوں کے لیے وقف کردیا گیا جبکہ بقیہ حصے میں مسلمان اور مسیحی عبادت کرسکتے ہیں۔ فیصلے پر عمل درآمد کچھ اس شان سے ہوا کہ مسجد انتہا پسندوں کو دے دی گئی اور دالان مسلمانوں کے حصے میں آیا۔ گزشتہ سال دو تہائی دالان بھی غارِ مقبرہ کا حصہ بنا دیا گیا۔ مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے حکم جاری ہوا کہ جمعہ، رمضان اور عیدین پر مسلمان مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی مسجد مسلمانوں کے لیے بند کر دی گئی ہے۔
امریکہ بھر میں غزہ نسل کشی کی مخالفت میں آواز اٹھانے والوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔ آن لائن خبر رساں ایجنسی Axios کے مطابق امریکی وزارت خارجہ نے مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے طلبہ کے میلان کی تحقیق کرکے اسرائیل مخالف غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ وزارت خارجہ، وزارت انصاف اور وزارت اندرونی سلامتی کا مشترکہ Catch and Revoke آپریشن جلد شروع ہو گا۔
اسرائیل مخالف سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے صدر ٹرمپ جامعات پر بھر پور دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ایک حکم کے ذریعے جامعہ کولمبیا کی وفاقی گرانٹ میں 40 کروڑ ڈالر کی کٹوتی کردی گئی ہے۔ یہ جامعہ غزہ نسل کشی کے خلاف طلبہ تحریک کا مرکز ہے۔ لیکن نوجوان کہاں باز آنے والے ہیں۔ ملک بدری، جرمانوں اور گرفتاریوں کی دھمکی کے باوجود چار مارچ کو سابق اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ (Naftali Bennett) کی جامعہ کولمبیا آمد پر زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ جس میں سلیم الفطرت یہودی بھی شامل تھے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025