غزہ: قحط، نسل کشی اور مزاحمت کے بیچ انسانیت کی آخری سانسیں

اسرائیل و امریکہ کی حمایت یافتہ GHF امداد یا نسل کشی کا پردہ؟

مسعود ابدالی

صدر ٹرمپ کا تضاد اور امریکی ایلچی کا دورہ۔نیتن یاہو کی نیت پر سوالات۔ امریکی عوام کی بدلتی رائے
غزہ میں نسل کشی ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ اقوام متحدہ کے مطابق قحط بدترین مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور ہولناکی کے اعتبار ہے اس نوعیت کے قحط کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تازہ ترین جائزے کے مطابق غزہ کے 17 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور مجموعی طور سے پٹی میں آباد ہر تیسرے فرد کو کئی دنوں سے خوراک نہیں ملی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ ہوئے تو وسیع پیمانے پر اموات یقینی ہیں۔ غزہ کے تین لاکھ 20 ہزار بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ خوراک کی کمی اسرائیلی قیدیوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ مزاحمت کاروں نے 25 جولائی کو ایک قیدی ایویتر ڈیوڈ Evyatar David کی تصویر شائع کی جس میں کم خوراکی کے اثرات نظر آرہے ہیں۔اس تصویر کی اشاعت پر اسرائیل اور اس کے امریکی و مغربی اتحادیوں نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔ مزاحمت کاروں کا موقف ہے کہ ناکہ بندی کی بنا پر غذئی اجناس میسر ہی نہیں تو قیدیوں کو کہاں سے کھلائیں؟
اقوامِ متحدہ نے اسرائیل و امریکہ کے حمایت یافتہ Humanitarian Foundation (GHF) کے ذریعے امداد کو دھوکہ قرار دیتے ہوئے اس سے تعاون ختم کر دیا ہے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ، راشن کے لیے قطار بنائے ایک ہزار سے زیادہ بھوکے فلسطینیوں کی جان لے چکی ہے۔ عینی شاہدین نے خوراک لینے والوں کو براہ راست نشانہ بنانے کی گواہی دی ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے بیان میں کہا کہ GHF امداد کے نام پر فلسطینیوں کی توہین اور قتل کر رہی ہے اور یہ ماڈل بنیادی انسانی اصولوں سے متصادم ہے۔
صدر ٹرمپ کا تضاد اور امریکی ایلچی کا دورہ:
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو غزہ میں قحط سے انکار کرتے ہوئے وہاں سے جاری تصاویر کو AI کا کمال قرار دے رہے ہیں۔ مگر اب سنگ دل سمجھے جانے والے صدر ٹرمپ بھی کہہ اٹھے کہ "بھوک کی تصاویر اصلی ہیں، یہ جھٹلائی نہیں جا سکتیں۔” امریکی صدر نے اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف کو غزہ جانے کا حکم دیا لیکن ساتھ ہی اپنے پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر یہ بھی کہا کہ "غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کا تیز ترین طریقہ یہ ہے کہ مزاحمت کار ہتھیار ڈال کر یرغمالیوں کو رہا کر دیں۔” جس دن اسٹیو وٹکاف، اسرائیل میں امریکی سفیر مائک ہکابی کے ہمراہ فوجی پہرے میں غزہ پہنچے، راشن مراکز پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے مزید 90 افراد جاں بحق ہوگئے۔
مزاحمت کاروں کا مؤقف: یروشلم کے بغیر امن ممکن نہیں:
غزہ سے واپسی پر تل ابیب میں وٹکاف نے قیدیوں کے لواحقین کو یقین دلایا کہ امریکہ اور اسرائیل وسعت دینے کے بجائے جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اور قیدیوں کی واپسی ہی اصل فتح ہے۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ مزاحمت کار امن معاہدے کے لیے خود کو غیر مسلح کرنے پر تیار ہیں۔ مگر اہلِ غزہ نے فوری طور پر اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو، اس کے قیام سے پہلے مزاحمت کار مسلح جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔
نیتن یاہو کی نیت پر سوالات:
بظاہر ٹرمپ، وٹکاف اور نیتن یاہو تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ مذاکراتی عمل میں رکاوٹ اہلِ غزہ کی مزاحمت ہے۔ لیکن معروف امریکی جریدے The Atlantic کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کے دو سابق اہلکاروں نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر کے خیال میں "نیتن یاہو اپنی سیاسی طاقت کو بچانے کے لیے غزہ جنگ کو طول دے رہے ہیں۔” کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار صدر کی نظریاتی حلیف اور دائیں بازو کی سخت گیر شخصیت مارجری ٹیلر گرین (MTG) نے بھی کیا۔ ان کا کہنا ہے: "غزہ میں اسرائیل جو کر رہا ہے، وہ نسل کشی ہے” یہ بیان ریپبلکن صفوں میں ابھرتی نئی فکری لہر کا اشارہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے نہ تو The Atlantic میں شائع ہونے والے انکشافات کی تردید کی اور نہ ہی MTG کے نسل کشی والے بیان کی مذمت۔ گویا وہ ایک طرف مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب نیتن یاہو کی نیت پر بھی شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ صدر ٹرمپ، نیتن یاہو سے واقعی بدظن ہو چکے ہیں یا ان کے بیانات کی متضاد سمتیں امریکی صدر کی سیاسی تلون مزاجی کا شاخسانہ ہیں؟
امریکی عوام کی بدلتی رائے:
گیلپ کے ایک جائزے میں بھی غزہ نسل کشی کے بارے میں امریکی رائے عامہ کے نئے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ سروے کے مطابق 60 فیصد امریکی شہری اسرائیل کی غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں کے مخالف ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں اسرائیل کی مخالفت عروج پر ہے اور صرف 8 فیصد ڈیموکریٹس اور 25 فیصد آزاد خیال افراد ان کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ نوجوانوں یعنی 35 سال سے کم عمر امریکیوں میں اسرائیل مخالفت کی شرح 90 فیصد کے قریب ہے۔
ابلاغ عامہ پر بھی اب غزہ کے بارے میں صحیح خبریں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ بچوں کے مارے جانے کے اعداد و شمار میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے۔ لیکن 30 جولائی کو واشنگٹن پوسٹ نے نام اور عمر کے ساتھ مسلے جانے والے پھولوں کی مکمل فہرست شائع کر دی۔ اس کے مطابق اب تک 18,500 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں 953 نونہالوں کی عمر ایک سال سے بھی کم تھی۔
اسرائیل میں بے چینی:
ان خبروں کی اشاعت کے بعد اسرائیل میں بھی گفتگو شروع ہو گئی ہے۔ 31 اگست کی رات تل ابیب کے حبیمہ (Habima) چوک پر انسانی حقوق کی عرب اور اسرائیلی تنظیموں نے مشترکہ مظاہرہ کیا۔ ہزاروں افراد "بس کرو! قتل بند کرو، بھوک بند کرو، ترکِ انسانیت بند کرو” کے نعرے لگا رہے تھے۔ اداکار یوسی زاباری نے کہا: "ہمیں نسل کشی کے لفظ سے زیادہ اس فعل سے ڈرنا چاہیے جو ہم کر رہے ہیں۔” ان کا اشارہ ممتاز اسرائیلی دانشور و ادیب ڈیوڈ گروسمین کی طرف تھا، جنہوں نے گزشتہ ہفتے اطالوی جریدے La Republicana سے گفتگو کرتے ہوئے غزہ خونریزی کو نسل کشی کہہ دیا جس پر موصوف کے خلاف قوم پرستوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔
نیتن یاہو کی جانب سے فتح کے بلند بانگ دعووں کے باوجود غزہ میں اسرائیل کا جانی نقصان بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم ملک کے اندر شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں تل ابیب کی ایک 74 سالہ خاتون تمر گرشونی (Tamer Gershuni)کو گرفتار کیا گیا ہے جو مبینہ طور پر نیتن یاہو کو قتل کرنے کی منصوبہ بنا رہی تھیں۔ تمر گرشونی نیتن یاہو کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش رہی ہیں۔ غزہ قحط کی ہولناک تصاویر کی اشاعت سے اسرائیلی خود بھی خوف محسوس کر رہے ہیں۔ چینل 12 کے مطابق نصف سے زیادہ یعنی 56 فیصد اسرائیلیوں کو خدشہ ہے کہ عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کی بنا پر ان کے لیے بیرونِ ملک سفر کرنا مناسب نہیں۔
اسرائیلی فوج میں ‘انکار’ کی مہم بھی شروع ہو چکی ہے، گزشتہ ہفتے نحل بریگیڈ کے تین سپاہیوں نے غزہ میں لڑنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کی ہلاکتوں کے بعد شدید ذہنی بحران کا شکار ہیں۔ پہلے انہیں نا فرمانی پر جیل بھیجا جا رہا تھا مگر عوامی احتجاج نے فوج کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ اب ان کی سزا معطل کر دی گئی ہے اور انہیں میدانِ جنگ سے ہٹا کر غیر جنگی کاموں پر لگا دیا گیا ہے۔اسرائیلی آئین کے تحت ہر شہری کے لیے فوجی خدمت انجام دینا ضروری ہے۔ گویا ہر شخص یا اس کے خاندان کا کوئی فرد اس وقت محاذ پر سرگرم ہے۔ اس وجہ سے جنگ کے بارے میں عوامی جذبات میں افراط و تفریط نظر آتی ہے۔ کچھ لوگ جانی نقصان کے خوف سے فوری جنگ بندی چاہتے ہیں تو جن کے عزیز طوفان لاقصٰیٰ آپریشن یا غزہ جنگ میں مارے گئے وہ مزاحمت کاروں سے انتقام کے خواہش مند ہیں۔
آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست، خواب یا فر یب؟
عالمی سطح پر فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا رجحان مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ فرانس، برطانیہ، مالٹا اور کینیڈا نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مگر اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کے لیے سلامتی کونسل کی توثیق درکار ہے اور امریکہ اس کی سخت مخالفت کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس ‘جسارت’ پر کینیڈا کو اضافی محصولات (Tariffs) کی دھمکی دی ہے۔فلسطینی ریاست کے خدوخال کا معاملہ بھی گنجلک ہے۔ مجوزہ متن میں مقتدرہ فلسطین (PA) کو فلسطین کا نمائندہ تسلیم کیا گیا ہے، جبکہ محمود عباس کی قیادت میں مقتدرہ کی حیثیت یہ ہے کہ رملہ میں بھی ان کی بات نہیں سنی جاتی۔ فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے غزہ کے مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ جب 600 دن کی مسلسل بمباری اور بھوک انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہ کر سکی تو کاغذ کے اس ٹکڑے کی کیا حیثیت؟
قبضہ گردوں کی سہولت کاری:
غزہ کے ساتھ ساتھ غربِ اردن کی صورتِ حال بھی روز بروز سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیلی فوجی تحفظ میں انتہا پسند آبادکار فلسطینی بستیوں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ ان حملوں میں قتل و غارت کے ساتھ کھیتوں، باغات اور مویشیوں کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے۔ ان کارروائیوں کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 29 عدد بلڈوزر نما آل ٹیرین گاڑیاں (ATVs) فراہم کی گئی ہیں، جن پر جدید ترین ڈرون، کمیونیکیشن سسٹم، نائٹ ویژن ونڈ شیلڈ، پانی کے ٹینک اور بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز نصب ہیں۔یہ گاڑیاں اسرائیلی وزرا عورت اسٹروک (Settlement Minister) اور بیزلیل اسموترچ (وزیر خزانہ) نے 29 جولائی کو آبادکاروں کے حوالے کیں، جن کی مجموعی لاگت 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زائد ہے۔
القدس شریف میں در اندزی:
اتوار 3 اگست کو وزیرِ داخلہ اتامار بن گوئر نے مشرقی بیت المقدس (القدس شریف) میں داخل ہو کر عبادت کی، حالانکہ 1967 کے بعد اسرائیلی حکومت نے اقوام متحدہ اور القدس اوقاف کو تحریری ضمانت دی تھی کہ غیر مسلم زائرین کو کمپاؤنڈ میں عبادت کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس معاہدے کو "Status Quo” کہا جاتا ہے۔ بن گوئر نے عبادت کے بعد فخر سے کہا: "میں نے مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں موسیٰؑ کے رب کو یاد کیا۔”
ایک فلسطینی دانشور کا قتل:
اسرائیلی قبضہ گردوں نے غربِ اردن کے الخلیل (ہیبرون) کے قریب ایک گاؤں میں معروف فلسطینی صحافی اور استاد عودہ ہثلین کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ وہ "No Other Land” نامی آسکر یافتہ دستاویزی فلم کی تیاری میں شریک تھے، جو فلسطینی برادری کے خلاف اسرائیلی مظالم کو اجاگر کرتی ہے۔ عودہ ہثلین کی شہادت اور القدس شریف میں در اندازی جیسے واقعات تشدد کے اسباب کو نہ صرف معقول بلکہ ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ جب ریاستی سطح پر ظلم کو تحفظ حاصل ہو تو پتھر ہی مظلوم کی زبان بن جاتے ہیں۔
[email protected]
***

 

***

 عالمی سطح پر فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا رجحان مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ فرانس، برطانیہ، مالٹا اور کینیڈا نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مگر اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کے لیے سلامتی کونسل کی توثیق درکار ہے اور امریکہ اس کی سخت مخالفت کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس ’جسارت‘ پر کینیڈا کو اضافی محصولات (Tariffs) کی دھمکی دی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025