!غزہ کے بعد تہران: اسرائیلی جارحیت عالمی امن کے لیے خطرہ بن گئی

اسرائیل۔ ایران جنگ ڈونالڈ ٹرمپ کا کردار اور عالمی برادری کی عدم مداخلت

0

ندیم خان، بارہمولہ کشمیر

خون، راکھ اور ملبے : جنگوں میں صرف عام انسان مرتے ہیں، حکم راں نہیں
یوکرین‌ روس جنگ کے بعد غزہ میں اسرائیلی جنگی جنون اور جارحیت کا دور ابھی تک ختم نہیں ہوا تھا کہ انسانیت کو ایک اور خوف ناک جنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسرائیل نے جب ایران کے خلاف بے خوف اور کھلے عام جارحیت کا آغاز کیا تو شاید دنیا میں طاقت رکھنے والے اسرائیل نے اندازہ نہیں کیا تھا کہ وہ جس آگ کو ہوا دے دینے جا رہا ہے وہ صرف تہران میں ہی نہیں جلائے گی بلکہ تل ابیب، حیفہ اور اشدود تک ہر ایک کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔ اسرائیل نے رات کے وقت اور سناٹے کا فائدہ اٹھا کر ایران پر زور دار حملے کر کے اس کو جانی و مالی دونوں طرف سے نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں صرف عمارات نہیں گریں بلکہ ایران کی فوجی قیادت کے کئی سربراہ بھی شہید ہوئے۔ جن میں جنرل حسین سلامی، جنرل باقری اور جنرل غلام علی راشد جیسے زبردست سپہ سالاروں کا خون اسرائیلی میزائلوں سے بہا۔ اس کے علاوہ چھ سائنس دانوں سمیت درجنوں ایرانی اہلکار بھی مارے گئے۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ ایران خاموش بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہے۔ چناں چہ اس نے فوراً زبردست جوابی کارروائی کرکے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا‌ اور پھر دنیا نے موت کا ننگا ناچ دیکھا۔ آپ کو بتا دوں کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنا بڑا بہادری والا کام ہوتا ہے، ہر کسی ملک میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ اسرائیل جیسی طاقت سے مقابلہ کرسکے۔ ایران کے حملوں کے باوجود اسرائیل کے ڈرون اور میزائل انٹرسیپٹ کرنے کی ٹیکنالوجی نے اسے بڑا فائدہ پہنچایا ہے۔ اگرچہ اس کے باوجود بھی اسرائیل کا بہت سارا نقصان ہوا۔ اسرائیل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ایران پر حملہ ایران کے اندر سے کیا۔ اسرائیل نے ساری منصوبہ بندی بڑی چالاکی سے کی اور جو میزائل داغے وہ بھی ایران کے اندر سے داغے۔ اسرائیل یہ چالاکیاں پچھلے کئی سالوں سے کر رہا تھا، ہزاروں لوگ ایران کے اندر موجود تھے جو بنیادی طور پر اسرائیل کے ہی ایجنٹ تھے، ایرانی دفاعی ساز و سامان کی خبر بھی ان ایجنٹوں کے ذریعے اسرائیل کو پہنچتی رہی تھی۔ گویا ایران کے اندر اسرائیلی فوج تیار ہو رہی تھی، جس میں اسرائیل کافی حد تک کامیاب بھی ہوا مگر ایران ’’پراکسی وار‘‘ اور ’’مسلکی و مذہبی جنگ‘‘ میں اپنے ہم خیال گروپ تیار کرنے میں مصروف تھا۔ تادم تحریر اسرائیلی فوجی سربراہوں کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف یہ جنگ دو ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ اس کے بعد مشرقِ وسطیٰ کا حال کیا ہو گا؟ ابھی تک تو دونوں طرف سے کارروائیوں کا آغاز ہوا ہے اور اسرائیل کے لگ بھگ 250 طیاروں نے اردن اور عراق کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کے اندر 150 کے قریب ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جن میں ایران کی جوہری تنصیبات‘ ملٹری ہیڈ کوارٹرز اور بیلسٹک میزائل کی فیکٹریاں اور لانچنگ پیڈ وغیرہ شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کے متعدد چوٹی کے ملٹری کمانڈروں اور جوہری سائنس دانوں کو بھی ٹارگٹ کیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کا اس حملے کے بارے میں ایک بڑا بیان سامنے آتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام اور بیلسٹک میزائل سسٹم کے مرکزی مقامات کے علاوہ ایران کی چوٹی کی عسکری قیادت اور سائنس دانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران پر حملے کی یہ ابھی صرف شروعات ہے، اس کا دوسرا حصہ جلد ہی آپ کو دیکھنے کو ملے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ شہریوں کو راشن اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء کا ذخیرہ پہلے ہی تیار رکھنا چاہیے۔ مطلب صاف ہے کہ اسرائیل اب ایران پر خوف ناک چڑھائی کرنے والا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر دنیا کو چلانے والے امریکہ کو اگر یہ پتا تھا کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے جا رہا ہے تو اس نے اسرائیل کو ایک بار بھی روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیونکہ سب کو پتا ہے کہ اگر امریکہ روکنے کی ذرا سی بھی کوشش کرتا تو یہ ہو نہیں سکتا کہ اسرائیل امریکہ کی بات نہ مانے۔ خبروں میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو روکنے کی کوششیں کیں لیکن اسرائیل نے اس کی کوئی بات نہیں سنی اور اپنا کام کر دیا۔ آپ کو بتا دیں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دی تھی کہ وہ ابھی اور اسی وقت امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے لیے تیار ہو جائے ورنہ اس کا انجام برا ہوگا۔ اس دھمکی والے بیان کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک اور بڑا بیان دیا کہ اسرائیل اور ایران کو معاہدہ کرنا چاہیے اور وہ دونوں ممالک کا اسی طرح معاہدہ کروائیں گے جس طرح سے انہوں نے بھارت اور پاکستان کا کروایا تھا۔ امریکی صدر نے پاکستان اور بھارت کی قیادت کا حوالہ دیتے ہوئے سوشل میڈیا پوسٹ پر لکھا کہ دونوں اطراف کے رہنماؤں نے سمجھ داری اور عقل مندی دکھائی اور فوری طور پر جنگ روکنے پر آمادہ ہوگئے جبکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تیسرے دن بھی حملے ایک دوسرے پر جاری رہے اور جوہری پروگرام پر مذاکرات فی الحال معطل کر دیے گئے ہیں۔ وہیں اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ سنیچر کی رات گئے ایران کی طرف سے مزید میزائلوں کی بارش کی گئی جن میں توانائی کی صنعت اور وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹرز کو براہ راست ہدف بنایا گیا۔ خبروں کے مطابق اتوار کی صبح یروشلم اور تل ابیب دھماکوں سے گونج اٹھا جبکہ فضائی حملے کے سائرن بھی بجائے گئے۔ دارالحکومت تل ابیب میں کئی میزائل فضا میں گزرتے ہوئے دیکھے گئے جبکہ ان کو روکنے کے لیے انٹرسیپٹر راکٹ زمین سے داغے گئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے جس کا ممکنہ مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ وہاں کی حکومت کو تبدیل کیا جائے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کیا جاسکے۔ وہیں ایرانی قیادت فتح کو اپنی ’بقا‘ سے تعبیر کرے گی کیونکہ اسرائیل کو امریکہ اور یورپ کے زیادہ حصے کی حمایت حاصل ہے اور اسرائیل کو کہیں سے بھی مدد نہیں مل رہی ہے۔ ایران پر اسرائیلی حملے کا اصل مقصد ایران امریکہ مذاکرات کو ناکام بنانا تھا اور اس کے نتیجے میں فی الحال مذاکرات کا کوئی بھی امکان نہیں ہے۔ حیران کن بات ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اسرائیل کی بدنیتی اور ایران کے خلاف ان کی جارحیت کے باوجود اپنے عملی رویے سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جبکہ اس کا نتیجہ پوری دنیا میں ایک خطرناک جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں چین نے اسرائیل کو ہی غلط ٹھیرایا اور اسرائیل کو ریڈ لائن عبور کرنے کا ذمہ دار بھی قرار دیا، اس کے علاوہ روس نے اسرائیلی حملوں کو بلا جواز ٹھیرایا، تو پاکستان نے جوابی کارروائی کو ایران کا حق قرار دیا جب کہ امریکہ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا اور یہ تسلیم کیا کہ اسے قبل از وقت ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائی کا علم تھا۔ لیکن امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لیے اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکہ کا یہ رویہ انتہائی افسوس ناک اور پریشان کن ہے اور اس کا نتیجہ دنیا کو تیسری جنگ عظیم کی صورت میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔ اگر ہم اسرائیل اور ایران کی عسکری طاقت کا موازنہ کریں تو گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق اسرائیل پوری دنیا میں 15 ویں جبکہ ایران 16 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی ایران بھی اچھی طاقت رکھتا ہے۔ بظاہر اسرائیل کا سالانہ دفاعی بجٹ لگ بھگ 27 ارب ڈالر ہے جب کہ ایران صرف 10 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ ایران کے پاس 6 لاکھ 10 ہزار فعال فوجی ہیں جن میں پاسدارانِ انقلاب کے ایک لاکھ 90 ہزار گارڈز بھی شامل ہیں جبکہ اسرائیل کی حاضر سروس فوج ایک لاکھ 70 ہزار پر مشتمل ہے۔ اسرائیل اپنی فضائیہ پر زیادہ بھروسا کرتا ہے اور اسے اپنی طاقت سمجھتا ہے۔ اس کے پاس 340 فائٹر جیٹ ہیں جن میں ایف-35، ایف-16 اور ایف-15 ہیں جن میں جدید طیارے بھی شامل ہیں۔ ایران کے پاس شہاب، قدر، ذوالفقار، سومار، عماد اور ہائپر سونک الفتح جیسے بیلسٹک اور کروز میزائل موجود ہیں جن کی رینج 350 کلومیٹر سے لے کر 2500 کلومیٹر تک ہے۔ یہی نہیں ایران کے ڈرونز نے اسرائیلی دفاعی نظام میں وہ ہلچل پیدا کی ہے جسے دنیا کا کوئی آئرن ڈوم مکمل طور پر روک نہیں کر سکا۔ اس کے علاوہ شہید 129 اور شہید 136 جیسے ڈرونز اسرائیلی رڈار سسٹم کو روکنے میں کامیاب رہے جب کہ اسرائیل کے ہیرون اور ہیروپ ڈرونز صرف روایتی ردعمل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ایسی دو مضبوط قوتوں کے درمیان جنگ ہوگی تو پھر کیا بچے گا؟ کیونکہ جنگ اپنے ساتھ صرف تباہی لاتی ہے، وقتی طور پر اس سے اشرافیہ اور جنگی جنون میں مبتلا افراد کی انا کو تسکین تو ملتی ہے جب کہ عام لوگ جنگ کی زد میں سب سے پہلے آتے ہیں۔ مرتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں، ان کو ہجرت کرنا پڑتا ہے، عمارتیں، گھر کاروباری ادارے سب تباہ ہو جاتے ہیں۔ معاشی، معاشرتی اور سماجی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا 57 مسلم ملکوں سمیت پوری عالمی برادری کو جنگ کی اس آگ کو مزید بھڑکنے سے پہلے بجھانے کی نتیجہ خیز تدابیر کرنا ہوں گی جس میں سب سے اہم امریکی صدر ٹرمپ کو عالمی امن کے حوالے سے درست رویہ اپنانے پر آمادہ کرنا ہوگا۔

 

***

 جنگ اپنے ساتھ صرف تباہی لاتی ہے، وقتی طور پر اس سے اشرافیہ اور جنگی جنون میں مبتلا افراد کی انا کو تسکین تو ملتی ہے جب کہ عام لوگ جنگ کی زد میں سب سے پہلے آتے ہیں۔ مرتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں، ان کو ہجرت کرنا پڑتا ہے، عمارتیں، گھر کاروباری ادارے سب تباہ ہو جاتے ہیں۔ معاشی، معاشرتی اور سماجی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا 57 مسلم ملکوں سمیت پوری عالمی برادری کو جنگ کی اس آگ کو مزید بھڑکنے سے پہلے بجھانے کی نتیجہ خیز تدابیر کرنا ہوں گی جس میں سب سے اہم امریکی صدر ٹرمپ کو عالمی امن کے حوالے سے درست رویہ اپنانے پر آمادہ کرنا ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025