غزہ اسرائیل جنگ کے اہم اسباق

اہل غزہ کے شوق شہادت نے دنیا کو اسلام کی طرف متوجہ کیا۔فلسطینیوں کے صبروثبات نےاسرائیلی فوج کے حوصلے پست کردیے

ڈاکٹر ساجد عباسی

متعدد صیہونی فوجی میدان جنگ سے فرار اور کئی سپاہیوں کا جنگ لڑنے سے انکار
تقریباً5 لاکھ یہودیوں نے اسرائیل چھوڑدیا۔ غزہ اور لبنان سرحد سے متصل کئی قابض آبادکاربے گھر ہوگئے
حماس سے اسرائیل کی جنگیں ۲۰۰۸ ء سے چل رہی ہیں ۔ہر جنگ میں نقصان صرف اہلِ غزہ کا ہواہے اور اسرائیل کا نقصان نہ ہونے کے برابر ہے۔ہر جنگ سے حماس والوں نے نیا سبق سیکھا ہے اور ہر نئی جنگ میں انہوں نے اپنی حکمتِ عملی کو تبدیل کیا لیکن وہ جہاد و قتال کے فرض سے دستبردار نہیں ہوئے۔ چنانچہ اس مرتبہ کی جنگ ساری دنیا کے لیے بالکل غیر متوقع رہی ہےاور ۷۵سالوں میں پہلی مرتبہ اسرائیل کو بھاری جانی و مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے بلکہ اس کا وجود خود خطرہ میں پڑتا نظر آرہا ہے۔
حالیہ غزہ۔اسرائیل جنگ ،جہاد وقتال کی ایسی مثال رقم کررہی ہے جو ہمارے تصورسے ماورا ہے ۔ایک طرف بربریت و ظلم کی انتہا ہے تو دوسری جانب اہلِ غزہ کے صبر کی بھی انتہا ہے ۔ اس کے مجاہدین نے جرأت، شجاعت اور کامیاب جنگی حکمتِ عملی کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں جو ماضی قریب میں ہم نے نہ سنی ہیں نہ پڑھی ہیں ۔
جو اسباق ہم اس جنگ سے حاصل کرسکتے ہیں وہ یہ ہیں :
۱۔اس جنگ نے جہاد وقتال کے مفہوم کو اجاگر کیا۔ لفظِ جہاد کو اس حد تک بدنام کیا گیا تھا کہ اس کو دہشت گردی کا ہم معنی بنادیا گیا تھا ۔ سورہ التوبہ کی آیت ۵ کو سیا ق وسباق سے الگ کرکے یہ بیانیہ پھیلایا گیا کہ قرآن کافروں کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے۔جبکہ سورۃ الممتحنہ آیت ۸ میں اس غلط فہمی کو دور کردیا گیا ہے کہ پرامن غیرمسلموں سے حسنِ سلوک اور عدل و انصاف کے ساتھ برتاؤ کیا جائے ۔اس جنگ نے جہاد کے اصل معنی کو اجاگر کیا اور عملاً جہاد کی روح و معانی کو پیش کیا ہے۔جہاد ،ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے اورعملاً اس کے خلاف جدوجہد کرنے کا نام ہے جو غیر مسلح بھی ہو سکتا ہے اور مسلح بھی ۔اس جنگ کی وجہ سے جہاد کے اصل معنوں کی تجدید ہوئی ہے۔
۲۔دنیا کے مظلوموں کے لیے انہوں نے ایک زور دار پیغام دیا ہے کہ ظالموں کو ان کی بظاہر ناقابلِ شکست طاقت کے باوجود اللہ کی مدد سے شکست دی جاسکتی ہے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب مظلوم، ظالم کی پیدا کردہ ذہنی غلامی سے آزاد ہو۔ بھارت میں ۵ فیصد برہمنوں نے ۸۰ فیصد لوگوں کو نچلی ذات قرار دے کر صدیوں ظلم کیا لیکن ان کے اندر آزادی حاصل کرنے کا جذبہ پیدانہیں ہوا۔اس کی وجہ ذہنی غلامی ہے ۔جو قوم ذہنی غلام بن جاتی ہے وہ کبھی آزاد نہیں ہوسکتی ۔آج بھی بھارت کی اکثریت برہمنوں کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے۔یہ اسلام کی برکت ہے کہ وہ سب سے پہلے دماغوں کو ذہنی غلامی سے آزادی دلاتا ہے۔اس کے بعد جسمانی آزادی کے لیے راستے کھلنے لگتے ہیں ۔
۳۔ اللہ تعالیٰ مظلوموں کا ساتھ دیتا ہے مگر یہ اس وقت ہوگا جب مظلوم ہمت و جرأت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں۔ اللہ کا وعدہ ہے: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ۔ اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔(سورۃ الحج ۳۹)
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان کے لیے پیدا فرمایا ہے ۔اورامتحان کے لیے فکروعمل کی آزادی لازمی ہے جس کے ساتھ وسائل بھی فراہم کیے گئے۔ جب وسائل کے ساتھ آزادی دی جائے گی تو اس آزادی کا غلط استعمال عین متوقع ہےجس کے نتیجے میں دنیا میں ظلم ، خون خرابہ اور فسادبرپا ہوگا۔ظالموں کو امتحان کے لیے ظلم کی چھوٹ دی جاتی ہے لیکن اللہ کی سنت یہ ہے کہ ظالم کو لامحدود چھوٹ نہیں دی جاتی بلکہ مظلوموں کے ہاتھوں ظالموں کو شکست بھی دی جاتی ہے۔اس سنت الہی کو اگلی آیت میں بیان کیا گیا :الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔اللہ بڑا طاقتور اور زبر دست ہے۔ (سورۃ الحج ۴۰)
اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ کفارکو سزادینا اللہ کا کام ہے اور اس کام کو جب اللہ اپنے بندوں کے ذریعے کرواتا ہے تو اللہ اس کو اپنی مدد قرار دیتا ہےاور یہ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ ان کی مدد کرے گاجو اللہ کی مدد کرتے ہیں۔
اہلِ فلسطین کبھی اسرائیلی جارحیت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے بلکہ ان کے بچے بچے کے ذہنوں میں ہمیشہ یہ تصور واضح رہا کہ صیہونی ان کی آبائی زمینوں کے غاصب ہیں ۔ایک وقت تھا جب وہ صرف ہاتھوں میں پتھر لے کر مزاحمت کررہے تھے۔الحمدللہ آج وہ ایسے جنگی ہتھیاروں سے لیس ہیں جو قیمت میں تو کم ہیں لیکن ان سے دنیا کے طاقتورترین ٹینک فوجیوں سمیت تباہ کیے جارہے ہیں ۔ عرب حکم راں صیہونیوں سے مصالحت پر آمادہ ہوئے لیکن اہلِ فلسطین اور بالخصوص اہل غزہ نے ایک دن کے لیے بھی اسرائیلی حکومت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ انہوں نے تو دو ریاستی حل کو بھی مسترد کر دیا ۔ان کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب فراہم کیے کہ ایک چھوٹی سی پٹی میں محصور ہوکر بھی انہوں نے عالمی طاقتوں کے خوفناک عزائم کو چکناچور کردیا ۔
۴۔اہلِ غزہ شہادت کی موت کے نہ صرف متمنی ہیں بلکہ وہ شہادت جیسی مبارک موت کے بے چینی سے منتظر نظر آتے ہیں ۔جہاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو شہادت کے مرتبے پر فائز کرنا چاہتاہے۔إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء وَاللهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ۔اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہےتو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔ (سورۃ آل عمران ۱۴۰)
۵۔جہاد و قتال کا ایک اور مقصدیہ ہے کہ مومنین اور منافقین کا فرق کھل جائے۔ اس جنگ کا آغاز کرکے حماس نے مسلم دنیا کے منافقین کے چہروں کو بے نقاب کردیا ہے۔اس مقصد کو قرآن میں کثرت سے پیش کیا گیا ہے۔
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ۝ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اِتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہےکہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔
(سورۃ العنکبوت ۲، ۳)
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّهُ الَّذِينَ جَاهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔ (سورۃ آل عمران ۱۴۲)
جنت ایک بیش بہا ،قیمتی اوردائمی جائے قرار ہے ۔اس میں داخلہ کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہ دیکھنا ہے کہ کون اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے ہیں اور کون صبر کرنے والے ہیں ۔ اور صبر کے بقدرجنت میں ان کے درجات متعین ہوں گے ۔
مَّا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىَ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاء فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ ۔ اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو۔وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کرکے رہے گا۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کردے۔غیب کی باتیں بتانے کے لیے تووہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے، لہٰذا امورِ غیب کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو۔ اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔ (سورۃ آل عمران ۱۷۹)
أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَن لَّن يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ۔ کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا؟ (سورۃ محمد ۲۹)
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ ۔ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں (سورۃ محمد ۳۱)
۶۔حماس سے اسرائیل کی جنگیں ۲۰۰۸ء سے چل رہی ہیں ۔ہر جنگ میں نقصان صرف اہلِ غزہ کا ہواہے اور اسرائیل کا نقصان نہ ہونے کے برابر ہے۔ہر جنگ سے حماس والوں نے نیا سبق سیکھا ہے اور ہر نئی جنگ میں انہوں نے اپنی حکمتِ عملی کو تبدیل کیا لیکن وہ جہاد و قتال کے فرض سے دستبردارنہیں ہوئے ۔اس مرتبہ کی جنگ ساری دنیا کے لیے بالکل غیر متوقع رہی ہےاور ۷۵سالوں میں پہلی مرتبہ اسرائیل کو بھاری جانی و مالی نقصان سے دوچارہونا پڑرہا ہے بلکہ اس کا وجود خود خطرہ میں پڑتا نظر آرہا ہے۔
۷۔غزوۂ احزاب کے موقع پر کفارو مشرکین جب مختلف قبائل پر مشتمل ۱۰ہزارکا عظیم لشکر لے کر مدینہ پہنچے تو ان کی توقع کے بالکل خلاف وہاں پر خندق کھدی ہوئی ملی ۔بالکل اسی طرح اسرائیل کے لیے یہ بات بے حد خلافِ توقع تھی کہ حماس نے سیکڑوں سرنگوں میں اپنی کمین گاہیں ،اپنا اسلحہ اور ہر چیز جمع کر کے رکھی ہوئی تھیں جن کی مجموعی لمبائی تقریباً ۵۰۰کلومیٹر ہے۔اگر مجاہدین ان سرنگوں کا جال نہ بچھاتے تو اسرائیل کے لیے حماس کو تہس نہس کرنا آسان ہوتا۔ایک چھوٹی سے پٹی جس کی چوڑائی ۱۰یا ۱۲ کلومیٹر ہو اور لمبائی ۴۰ کلومیٹرہو اس کو تو اسرائیل جیسی طاقت اپنی ۳لاکھ فوجیوں اور ۱۰۰۰ہزار ٹینکس کے ذریعے چنددنوں کے اندر حماس کو ملیامیٹ کرسکتی تھی ۔ امریکہ خود حیران رہ گیا کہ حماس نے حیرت انگیز حکمت عملی تیار کر رکھی تھی جس سے اسرائیلی فوج پاگلوں کی طرح حماس کو ڈھونڈھتی رہی اور ادھر حماس گھات لگا کر اسرائیل کے فوجیوں کو جہنم واصل کرتے رہے۔اور تباہ شدہ عمارتیں ان کے اسنائپر حملوں کے لیے ممد ومعاون ثابت ہوتے رہے۔
۸۔ مجاہدین کا سب سے بڑا سہارا غزہ کے عوام ،ان کے بچےاورعورتیں ہیں جنہوں نے یہ عزم کرلیا تھا کہ وہ شہادت کے لیے تیار رہیں گے لیکن اسرائیل کے آگے شکست تسلیم نہیں کریں گے۔ اسرائیل کی پلاننگ یہ تھی کہ جب عوام پر بے رحمانہ بمباری کی جائے گی تو وہ رفح بارڈر سے مصر منتقل ہوجائیں گے اور صرف حماس کے مجاہدین غزہ میں باقی رہ جائیں گے جن پر نیوکلیر بم گراکر ان کو ناپید بنایا جاسکتا ہےاور مکمل طورپر ان کا نام ونشان مٹایا جاسکتاہے۔اسی لیے بائیڈن نے نیتن یاہو کو کہا کہ زمینی جنگ شروع نہ کی جائے اور محض فضائی حملوں سے کام چلایا جائے۔لیکن اسرائیل کی عوام کا تقاضا تھا کہ یرغمالیوں کو چھڑایا جائے۔اس لیے نیتن یاہونے زمینی جنگ سے ان کو چھڑانے کا ارادہ کیا لیکن آج تک ان کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یرغمالی کہاں چھپا کر رکھے گئے ہیں ۔
۹۔دوسری طرف غزہ کے عوام کی استقامت اوران کے قتل کی وجہ سے جن میں بچے اور خواتین اکثریت میں ہیں اسرائیل کی بہت بدنامی ہوئی اور عالمی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہونے لگی ۔اور اسرائیل کی ساکھ بری طرح متاثر ہونے لگی ۔۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے فوراً بعد ساری دنیا میں حماس کے حملہ کو دہشت گرد حملہ قراردیا گیا تھا لیکن جب اسرائیل کا جوابی حملہ مہینوں دراز ہوتا گیا اور مجاہدین کے بجائے معصوم بچے اور خواتین ہزاروں میں شہید ہونے لگے تو سارےعالم میں عوامی رائے عامہ تبدیل ہوئی ۔غزہ کے عوام کی ثابت قدمی نے اس میں بہت اہم رول ادا کیا ۔اب دنیا جان چکی ہے کہ دراصل اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے جو ۷۵ سال سے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
۱۰۔اس جنگ سے قبل اسرائیل کی فوج کے بارے میں عالمی رائے یہ تھی کہ وہ دنیا کی سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے مسلح فوج ہے۔اور ان کے ٹینک مرکاوا۔۴ ساری دنیا میں شہرت پاچکے تھے اور بیشتر ممالک ان کو خریدنے کا ارادہ کرچکے تھے۔ لیکن اس جنگ نے اسرائیل کے ہتھیاروں کے سارے بھرم کو ختم کردیا ۔حماس نے ایسااینٹی ٹینک گرینیڈ بنایا جومرکاوا ٹینکس کو اڑانے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کا نام شیخ یٰسین کی یاد میں یٰسین ۱۰۵رکھا گیا ۔
۱۱۔جیسے جیسے اسرائیلی فوجی مرنے لگے ان فوجیوں کی ہمت پست ہوتی گئی ۔کئی فوجی واپس لوٹے اور کئی نے لڑنے سے انکار کردیا ۔دوسری طرف تقریباً ۵ لاکھ یہودی اسرائیل ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکے ہیں ۔کئی یہودی اپنے ان گھروں سے بے گھر ہوگئے جو غزہ کے بارڈر سے متصل تھے اور جو لبنان سے متصل تھے۔اس جنگ نے ثابت کردیا کہ اسرائیل میں غاصب آبادکار کتنے محبِ وطن ہیں ۔پہلے ہی وار میں ظالم آبادکار جو فلسطینیوں کی زمینوں پر بالجبر قبضہ کرکے ان کو بے گھر کردیا تھا وہی اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگنے لگے۔
۱۲۔اہل غزہ کی ثابت قدمی کا ایک ثمر یہ ملا کہ اللہ تعالی نے یمن کے حوثیوں کے اندر ہمت و جرأت پیداکی جس سے وہ بحرِ احمرمیں اسرائیلی جہازوں کی ناکہ بندی کرنے لگےجو قابل تحسین ہے۔ حوثیوں کی باب المندب پر اسرائیل جانے والے جہازوں کی ناکہ بندی سے اسرائیل کی معیشت پر بہت برااثر پڑرہا ہے۔سمندری راستہ کو محفوظ بنانے کے لیے امریکہ کی عالمی گٹھ جوڑ کی کوششیں بھی ناکام ہوگئیں ہیں ۔حوثیوں پر حملہ ایران پر حملہ کے مترادف ہے اور ایران پر حملے کے نتیجے میں روس بھی اس جنگ کا حصہ بن سکتا ہے جس کے نتیجہ میں مشرقِ وسطی میں امریکہ کے ۲۰ فوجی اڈوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔اس لیےامریکہ محتاط رویہ اختیار کر رہا ہے۔
۱۳۔شمال میں حزب اللہ کے حملوں سے بھی اسرائیل بہت پریشان ہے۔اس بات کا بھی خطرہ ہےکہ عراق اور شام سے بھی اسرائیل پر حملے کیے جائیں گے۔۷۵سالوں میں پہلی بار حالات اب حماس کے حق میں سازگار ہونے لگے ہیں جو اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ اس جنگ میں اسرائیل بہت کچھ کھونے والا ہے۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ اسرائیل کی ساری ریاست ہی خطرہ میں پڑسکتی ہے۔ خداکرے کہ شیخ احمد یٰسینؒ کی پیشن گوئی سچی ثابت ہو ۔انہوں نے اپنی زندگی میں (۲۰۰۴ء سے قبل )پیشین گوئی کی تھی کہ اسرائیلی ریاست ۲۰۲۵ء سے پہلے ختم ہوجائے گی۔
۱۴۔ظالم اسرائیلی فوج کے ظالم و سفاک فوجیوں کے سامنے با ہمت معصوم فلسطینی بچوں نے اسرائیلی ظالم فوج پر پتھرپھینک کر اپنی مزاحمت کا آغاز کیا تھاجس کے جواب میں سفاک اسرائیلی فوج ان بچوں پر گولیاں چلاکر بعض کو شہید کردیتے تھے اور بعض کو قید کردیتے تھے ۔پھر ان کو غیر معینہ مدت تک تعذیب کے ساتھ قید میں رکھا جاتا، تاکہ ان کے والدین ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں ۔ مزید یہ کہ ان بچوں کے والدین کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا تاکہ وہ اپنے بچوں کو روکیں ۔لیکن ان بچوں کی ماؤوں کو سلام پیش کیا جائے جو اپنے بچوں کو اسرائیلی فوج سے نہیں ڈراتی تھیں ۔ان ماؤوں کا اس جنگ میں بہت بڑا رول ہے۔
۱۵۔چونکہ غزہ میں اسرائیلی حصار کی وجہ سے تعلیمی نظام ٹھپ ہوکر رہ گیا تھا اس لیے وہاں بچوں نے قرآن کو حفظ کرنا اپنے اوپر فرض کرلیا اور اکثر بچے قرآن کے مکمل حافظ ہیں اور کچھ بچے جزوی حافظ ہیں ۔چونکہ عربی ان کی مادری زبان ہے اس لیے وہ قرآن کے اثرات کو اپنی شخصیت کے اندر جذب کرتے رہے ۔بالخصوص قرآن کی وہ آیات جو جہاد سے متعلق ہیں ان کے اندر زبان زد عام و خاص ہوگئیں ہیں۔ فلسطینی بچے جہاد و قتال کے مفہوم کو اچھی طرح جانتے ہیں اسی وجہ سے بچے اور بڑے سب کے سب شہادت کے جذبہ سے نہ صرف سرشار ہیں بلکہ شہادت کی موت کے منتظر ہیں ۔اہل غزہ قرآن کے سایہ میں پل کر بڑھے ہیں ۔یہ قرآنی امت کی بہترین مثال ہیں ۔
***

 

***

 غزہ کے عوام کی استقامت اوران کے قتل کی وجہ سے جن میں بچے اور خواتین اکثریت میں ہیں اسرائیل کی بہت بدنامی ہوئی اور عالمی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہونے لگی ۔اور اسرائیل کی ساکھ بری طرح متاثر ہونے لگی ۔۷ اکتوبر ۲۰۲۳ ءکے فوراًبعد ساری دنیا میں حماس کے حملہ کو دہشت گرد حملہ قرار دیا گیا تھا لیکن جب اسرائیل کا جوابی حملہ مہینوں دراز ہوتا گیا اور مجاہدین کے بجائے معصوم بچے اور خواتین ہزاروں میں شہید ہونے لگے تو سارےعالم میں عوامی رائے عامہ تبدیل ہوئی ۔غزہ کے عوام کی ثابت قدمی نے اس میں بہت اہم رول ادا کیا ۔اب دنیا جان چکی ہے کہ دراصل اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے جو ۷۵سال سے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024