
غزہ امدادی آپریشن ۔ فلسطینیوں کے لیے موت کا جال
غزہ امدادی آپریشن ۔ فلسطینیوں کے لیے موت کا جال
مسعود ابدالی
غرب اردن میں قبضہ گرد دہشت گردوں نے فلسطینیوں کو زندہ جلا دیا
اٹلی کی سب سے بڑی سپر مارکیٹ نے اپنی دکانوں سے اسرائیلی مصنوعات کو ہٹادیا!
انگلستان کا رقص و موسیقی میلہ اسرائیل کے خلاف مظاہرے میں تبدیل
غزہ میں امدادی کیمپوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ان وارداتوں میں تقریباً 500 افراد جاں بحق اور کئی ہزار شدید زخمی ہو گئے۔ہر فائرنگ کے بعد اسرائیلی فوج یہ دعویٰ کرتی ہے کہ متاثرین پہلے سے نشان زدہ عسکری علاقے میں داخل ہوئے تھے اور فوج نے اپنے تحفظ میں گولی چلائی۔
امدادی پروگرام کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ "ہم اہلِ غزہ کی مدد کے لیے کھانے پینے پر بڑی رقم خرچ کر رہے ہیں”۔ لیکن اسی وقت اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گتریس (António Guterres) نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ امریکہ کا غزہ آپریشن "موت کا جال” ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے گوئتریس کے بیان پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اقوام متحدہ غزہ میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ لیکن اسرائیلی اخبار الارض (Haaretz) نے جناب گوئتریس کے الزام کی تصدیق کردی۔ 27 جون کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ‘اسرائیلی فوج کے افسروں نے ان کے نمائندے کو بتایا کہ انہیں غزہ میں خوراک کی تقسیم کے مقامات کے قریب غیر مسلح ہجوم پر فائرنگ کا حکم دیا گیا ہے، چاہے وہاں کوئی خطرہ موجود نہ ہو۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد فوجی استغاثہ نے ممکنہ جنگی جرائم کے جائزے کا مطالبہ کیا ہے۔
25 جون سے امدادی ٹرکوں کی غزہ آمد جزوی طور پر معطل ہے۔ وزیر خزانہ اور "ریلیجئیس صہیونسٹ پارٹی” کے سربراہ بیزلیل اسموترچ نے الزام لگایا تھا کہ امداد مزاحمت کاروں تک پہنچ رہی ہے، لہٰذا ترسیل و تقسیم کے نظام کے شفاف ہونے تک اسے روک دیا جائے اور اگر یہ مطالبہ نہ ماناگیا تو ان کی جماعت حکومت سے الگ ہوجائے گی۔ پارلیمنٹ میں ان کی 7 نشستیں ہیں اور نیتن یاہو کی حکومت 64 ارکان پر کھڑی ہے۔ اگر اسموترچ صاحب ساتھ چھوڑ دیں تو حکومت اکثریت کھو دے گی۔ چنانچہ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شفافیت یقینی ہونے تک غزہ میں امدادی ٹرکوں کی آمد معطل رہے گی۔
فوج کی فائرنگ اور بمباری کے ساتھ ابو شہاب مافیا کی سرگرمیاں بھی شدت اختیار کر گئی ہیں، اور کچھ ہسپتالوں کا انتظام بھی مبینہ طور پر انہی کو دے دیا گیا ہے۔ شہریوں نے شکایت کی ہے کہ ابو شہاب کے دہشت گرد امدادی سامان چھین رہے ہیں اور یہ غنڈے خواتین سے بدسلوکی کے واقعات میں بھی ملوث ہیں۔
ایران-اسرائیل جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ غزہ میں امن کا عندیہ دے رہے ہیں۔ قصر مرمریں میں 27 جون کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ اگلے ہفتے تک جنگ بندی ہو جائے گی۔کہاجارہا ہے کہ بات چیت کے لیے نیتن یاہو اور وزیر تزویراتی امور ران ڈرمر اگلے دوتین دنوں میں واشنگٹن آنے والے ہیں۔مجوزہ امن معاہدے کی جو تفصیل سامنے آئی ہے اس کے مطابق تمام اسرائیلی قیدیوں کو غیر مشروط رہا کرکے مزاحمت کاروں کو غزہ خالی کرنا ہوگا جس کے بعد فلسطینی مقتدرہ (PA) غزہ کا انتظام سنبھالے گی جسے مصر، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کی افواج سہارا دیں گی۔ سادہ الفاظ میں یہ غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی تجویز ہےجسے مزاحمت کار کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم پر غیر مشروط جنگ بندی کے لیے دباو ڈال رہے ہیں۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ‘صدر ٹرمپ کی ایک ڈانٹ نیتن یاہو کو معقولیت اختیار کرنے پر مجبور کرسکتی ہے’۔ لیکن کیا امریکی صدر میں یہ ہمت ہے اور کیا ایسا کرنے کے بعد وہ اپنی صدارت برقرار رکھ سکیں گے؟ ہمارے خیال میں ایسا کرنا صدر صاحب کی سیاسی عاقبت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوگا۔ان پھرتیوں اور چلت پھرت کے عوامل پر کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ہمیں اہل غزہ کے لیے راحت کا فی الحال کوئی سامان نظر نہیں آتا۔
غزہ کے ساتھ غرب اردن میں بھی فلسطینیوں پرمظالم میں اضافہ ہوگیا ہے، 25 جون کو رام اللہ کے قریب کفر مالک گاؤں پر حملہ کیا گیا، جہاں دہشت گردوں نے کئی گھروں کو آگ لگا دی، تین افراد زندہ جل گئے اور دیگر زخمی ہوئے۔ فوج نے نہ صرف ان حملہ آوروں کو تحفظ فراہم کیا بلکہ جلتے گھروں سے باہر آنے والوں پر فائرنگ بھی کی۔بعد میں کچھ دہشت گرد گرفتار کیے گئے لیکن وزیر داخلہ بن گوئر کے حکم پر انہیں اسی دن رہا کر دیا گیا۔
کرپشن کے الزامات سے نیتن یاہو کی بریت اس وقت صدر ٹرمپ کی اولین ترجیح ہے۔ نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ پر مالی بددیانتی کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ صدر ٹرمپ نے، جن پر خود درجنوں الزامات ہیں، نیتن یاہو کے دفاع میں کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم پر الزامات "سیاسی انتقام” کی بدترین شکل ہے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ نے اسرائیل کو بچایا اور اب نیتن یاہو کو بھی بچائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے الزامات بے بنیاد ہیں، نیتن یاہو کو جانے دو، اس کے پاس ایک بڑا کام ہے۔اپنےتازہ پیغام میں امریکی صدر نے مقدمات ختم نہ کرنے کی صورت میں اسرائیل کی مدد روکنے کی مبہم سی دھمکی بھی دے دی۔
ادھر برطانوی حکومت نے "Palestine Action” تنظیم پر پابندی لگا دی ہے، جس نے غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کیے تھے۔
عوامی دباؤ کے اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اٹلی کے سب سے بڑی سوپر مارکیٹ چین "Coop Alleanza 3.0” نے اسرائیلی مصنوعات ہٹا دی ہیں اور فلسطینی معاون تنظیموں کی مصنوعات کو نمایاں جگہ دی ہے۔
اس بار یورپ کا موسیقی میلہ فلسطین سے یکجہتی اور غزہ میں اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاج میں تبدیل ہوگیا۔
انگلستان کے شہر سمرسیٹ کے گاؤں پیلٹن میں "افتادگی” (Fallow) کے خاتمے پر Glastonbury کا مشہور رقص و موسیقی میلہ منعقد ہوتا ہے۔ زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے کے لیے کھیتوں کو کچھ عرصے کے لیے افتادہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عموماً اس کا دورانیہ پانچ سال ہوتا ہے، چنانچہ گلاسٹنبری میلہ بھی اوسطاً ہر پانچ سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔اس بار یہ میلہ 25 سے 29 جون 2025 تک جاری رہا، جس میں موسیقی کے شائق 30 ہزار سے زائد افراد فلسطینی پرچموں کے ساتھ شریک ہوئے۔سب سے پہلے rap موسیقی کے فنکار Bob Vylan نے اسٹیج پر آکر شائقین سے "اسرائیلی فوج مردہ باد” کے نعرے لگوائے۔ اس کے بعد انہوں نے پرعزم انداز میں کہا: "یقیناً دریا سے سمندر تک فلسطین ہی فلسطین ہے”، جس پر مجمع نے فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے "آزاد فلسطین” کے نعرے بلند کیے۔
آئرلینڈ کے فلسطین نواز موسیقی طائفے "Kneecap” نے میلہ لوٹ لیا۔ جب گروپ کے رکن Liam Óg Ó hAnnaidh المعروف Mo Chara اسٹیج پر آئے تو مجمع نے "فری فری فلسطین” کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرے میں کالعدم تنظیموں کے پرچم لہرانے کے باعث ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اسٹیج پر آکر کہا ‘برطانوی وزیرِاعظم نہیں چاہتے تھے کہ ہم یہاں آئیں، لیکن دیکھو اسٹارمر! ہم یہاں موجود ہیں’۔ اطلاعات کے مطابق برطانوی حکام نے اس تقریب کی مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ میلے میں کوئی خلافِ قانون سرگرمی تو نہیں ہوئی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025