
غزہ، حماس اور ابوعبیدہ: فلسطینی استقامت کی داستان
طوفان الاقصیٰ کا تجزیاتی مطالعہ
نام کتاب: حماس اسرائیل جنگ حقائق وشواہد
مؤلف: عبد العلیم الاعظمی
ناشر:عبد العلیم الاعظمی
سن اشاعت:۲۰۲۵ء
صفحات:۳۵۷
قیمت:۳۵۰
مبصر: ابوسعداعظمی
ز
یرِ تعارف کتاب کے مؤلف عبد العلیم الاعظمی، جواں سال اسکالر اور قدیم صالح و جدید نافع کا بہترین نمونہ ہیں۔ اعظم گڑھ اور دیوبند کے روایتی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ کانپور سے انگریزی کا ڈپلوما بھی کیا ہے، جس کی وجہ سے عربی اور انگریزی مصادر سے براہِ راست استفادے کا ملکہ حاصل ہے۔ اس کتاب کے مباحث میں ان کی اس صلاحیت کا بخوبی استعمال نظر آتا ہے۔ اس وقت دیارِ شوق اور شہرِ آرزو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ علومِ اسلامیہ میں بی اے کے طالب علم ہیں۔ ان کے نانا محترم، مفتی اشفاق احمد قاسمی، مشہور عالمِ دین ہیں۔ قومی اور ملّی مسائل سے دلچسپی انہیں ورثے میں ملی ہے، اور ان کی شخصیت میں اس کی عکاسی پوری طرح جلوہ گر ہے۔
زیرِ تعارف کتاب کے مباحث کا کئی اہلِ علم اس سے قبل بھی تعارف پیش کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کتاب دس ابواب اور کل ۳۵۷ صفحات پر مشتمل ہے۔
کتاب کے مباحث سے احساس ہوتا ہے کہ فاضل مؤلف نے اس موضوع کو اپنے اوپر طاری کر کے اس کا حق ادا کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ کتاب کے شروع میں مولانا نعمت اللہ اعظمی، ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں اور مولانا ضیاء الحق خیرآبادی کے قلمِ گہر بار سے بالترتیب تقریظ، پیش لفظ اور کتاب کا تعارف شامل ہے، جن میں اس کتاب کے مباحث کا تعارف، تجزیہ اور اس کی اہمیت و معنویت اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ "لہو لہو فلسطین” کے عنوان سے فاضل مصنف کا مقدمہ بھی خوب ہے، اور قاری ان کے اس احساس میں پوری طرح شریک ہے کہ:
’’مزاحمت، صبر، ثبات اور استقامت کی یہ مثال نہ معاصر تاریخ میں ملتی ہے اور نہ ہی ماضی میں۔۔۔ اسرائیلی سفاکیت، جرائم، اسی طرح مجاہدین کی مزاحمت، اہلِ فلسطین کے صبر و استقامت اور ہزاروں فلسطینی بچوں اور خاندانوں کی داستان کو تفصیل سے دنیا کی بیشتر زبانوں میں لکھنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔‘‘ (ص۲۵-۲۶)
بابِ اول میں سقوطِ خلافتِ عثمانیہ سے طوفان الاقصیٰ تک کی تاریخ کا اجمالی انداز میں احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس دوران عرب-اسرائیل جنگ کی روداد، انتفاضۂ اولیٰ و ثانی، اوسلو معاہدہ و غزہ سے اسرائیل کا انخلاء، حماس کی فتح، غزہ پر حماس کا کنٹرول، شالیط معاہدہ، معرکۂ عصف المأکول اور معرکۂ سیف القدس کے ذیلی عناوین سے متعلق ضروری معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے بحث و تحقیق کے جدید اصول کی رعایت کرتے ہوئے حواشی کا بھی اہتمام کیا ہے اور ہر بات کی سند پیش کر دی ہے۔
دوسرے باب میں حماس سمیت آٹھ تنظیموں کا اجمالی تعارف، ان کی سرگرمیوں کا دائرۂ کار اور بالخصوص بانیانِ حماس میں سب سے اہم نام شیخ احمد یاسین کی مخلصانہ جدوجہد کی تفصیل فراہم کی گئی ہے۔
بابِ سوم ’’حماس-اسرائیل جنگ: اجمالی جائزہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ درحقیقت فاضل مصنف کے اس موضوع سے گہری مناسبت اور راست تعلق کی غمازی کرتا ہے۔ فاضل مصنف کے الفاظ میں:
’’۷؍ اکتوبر کا حملہ کیوں کیا گیا تھا؟ اس کے پیچھے حماس کے کیا مقاصد تھے؟ کیا حماس ایک طویل جنگ کے لیے تیار تھی؟ حماس نے اسرائیلیوں کو قیدی کیوں بنایا؟ طوفان الاقصیٰ کے بعد کیا ہوا؟ غزہ میں کیسی سفاکیت اور نسل کشی کی گئی؟۔۔۔‘‘
اس باب میں ان تمام سوالات کے جوابات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے مستند مصادر سے استفادہ کر کے تحلیل و تجزیے میں بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔ اس ضمن میں حماس پر لگائے گئے اسرائیلی الزامات کی حقیقت کو بھی بے نقاب کرتے ہوئے مدلل انداز میں ان کی تردید کی گئی ہے۔ اس کے بعد جنگ کے سات مراحل کا تجزیہ کرتے ہوئے جنگ بندی کو مزاحمت کی فتح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مصنف کے اس احساس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ:
’’کمزور اور طاقتور کے درمیان جنگوں میں فتح اور شکست کا انحصار اس بات پر رہتا ہے کہ اگر جنگ کے بعد کمزور طبقہ اپنے وجود کو بچا لیتا ہے تو وہ فاتح ہوتا ہے۔‘‘ (ص۹۹)
مستقبل کے امکانات سے متعلق فاضل مصنف کا احساس ہے کہ:
’’اگر جنگ دوبارہ شروع ہوئی تو اسرائیل کو پہلے کی بہ نسبت شدید ترین مزاحمت اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مزاحمت نے اپنی پوزیشن بہت مضبوط کر لی ہے اور بہت تیزی سے غزہ میں اپنے نیٹ ورک کو بحال کر رہے ہیں۔‘‘ (ص۱۰۱)
حالانکہ جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل نے سفاکیت و بربریت کا جو مظاہرہ کیا ہے اور جس طرح سے نسل کشی کی کوشش کی ہے، اس سے مؤلف کا یہ بیانیہ کمزور نظر آتا ہے۔ اس سیاق میں طوفان الاقصیٰ کے اہم شہداء — صالح العروری، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار، ابو خالد محمد الضیف، مروان عیسیٰ — کا اجمالی تعارف پیش کرتے ہوئے چند مزید شہداء کی فہرست بھی فراہم کی گئی ہے۔ اس ضمن میں طوفان الاقصیٰ میں حزب اللہ کے کردار اور شمالی محاذ پر اسرائیل سے ان کی جنگ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
چوتھا باب طوفان الاقصیٰ: چند گوشے کے عنوان سے ہے، جو طوفان الاقصیٰ کے دوران رقم کیے گئے مصنف کے مختلف مضامین کا انتخاب ہے اور مصنف کے الفاظ میں ’’ان مضامین کا دائرہ جنگی حالات، مزاحمت کی کارروائیوں سے لے کر مشرق وسطیٰ میں ہونے والی اہم تبدیلیوں، اسرائیلی پروپیگنڈوں اور جنگ کے دوران اہم مباحث کے تجزیوں کو محیط ہے‘‘۔ (ص ۱۲۲) جگہ جگہ ان مضامین میں حالات سے ناواقف لوگوں کے رویے پر مؤلف کے کرب نے الفاظ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ہمارے یہاں کے مرعوب ذہنیت کے حاملین اور ہر چیز میں سازشوں کے تانے بانے تلاش کرنے والے عجیب و غریب پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی بات کو اس طرح وثوق اور اعتماد کے ساتھ پیش کر رہے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ حماس کو اہلِ غزہ سے زیادہ جانتے ہیں‘‘۔ (ص ۱۲۸)
مصنف کی بصیرت، حالات پر گہری نظر اور دوراندیشی اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ ’’اگرچہ غزہ میں اموات کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے خیالات آ رہے ہیں، جو فطری بھی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حماس کے ہتھیار ڈالنے اور قیدیوں کی رہائی کے بعد اس سے بھی بدتر حالات ہو جائیں گے بلکہ غزہ کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا‘‘۔ (ص ۱۳۱)
مصنف کا احساس ہے کہ حماس اس جنگ میں فاتح ہے اور اس احساس کو اس نے متعدد نکات کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اسی طرح اسے اس بات کا یقین ہے کہ اسرائیل اس جنگ میں اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں ناکام ہوا ہے۔ اس ضمن میں اس کی سات اہم ناکامیوں کو سلسلہ وار پیش کیا ہے۔ اس فہرست میں شامل ایک مضمون حماس اسرائیل جنگ: مستقبل کے امکانات کا یہ پیراگراف بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:
’’ایک سال گزر چکا ہے لیکن مزاحمت میدان میں قائم و دائم ہے۔ تمام تر جارحیت، سفاکیت، ظالمانہ کارروائی اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے کے باوجود اہلِ فلسطین کے پائے ثبات میں تزلزل پیدا نہیں ہوا۔ ان کا عزم و استقامت چٹان کی مانند آج بھی جارحیت کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ان کے ننھے ننھے بچوں کو شہید کیا جا رہا ہے، بچے یتیم ہو رہے ہیں، عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، بچوں کے سامنے والدین کو سفاکیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو والدین اپنی عزیز ترین اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ لیکن سلام ہے ان پختہ ایمان صفت لوگوں کو جو شہادت کا جام شوق سے پی رہے ہیں اور ان کے اہلِ خانہ کی زبان پر شکوہ و شکایت اور آہ و بکا کے بجائے خدا کا شکر، شہادت پر فخر اور زبان پر ’حسبنا اللہ و نعم الوکیل‘ کا ورد جاری ہے‘‘۔ (ص ۱۷۰)
اسرائیلی جنگی جرائم: تحقیقی جائزہ کے عنوان سے حالیہ جنگ میں عالمی جنگی قوانین اور انسانی حقوق کے حوالہ سے اسرائیلی سفاکیت و بربریت کا نقشہ کھینچتے ہوئے نسل کشی، طبی، تعلیمی اداروں، ریفیوجی کیمپوں پر حملے، بچوں اور خواتین نیز رضاکاروں اور صحافیوں کا قتل، فاسفورس بموں کا استعمال اور مذہبی و دیگر عمارتوں پر حملے جیسے جرائم کی تفصیل فراہم کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی پامالی اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی کی ہے۔ فاضل مؤلف کا درد ان الفاظ میں ملاحظہ ہو:
’’۔۔۔ ان عالمی طاقتوں کی غلام عدالت سے انصاف کی کوئی توقع ہے بھی نہیں، کیونکہ یہ عدالتیں اور ادارے انصاف کے نام پر پس پردہ ظالم و سفاک کو پناہ دیتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۰۹)
باب ششم میں حماس کے ملٹری وِنگ شہید عزالدین القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ کی تقریروں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے اور اہلِ فلسطین کے صبر و استقامت میں ان کی تقریروں کے کردار سے بحث کی گئی ہے۔ ابو عبیدہ کا یہ احساس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:
’’اسرائیل ایک ایسی قوم کو کیسے شکست دے سکتا ہے، مزاحمت جن کی گھٹی میں ہے۔ مزاحمت کے ساتھ وہ اپنے دکھ، درد اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں اور جو اپنی اولاد، اپنے قائدین اور سپاہیوں کو اللہ کی راہ میں مقدس ترین مقام ’مسجد اقصیٰ‘ اور سب سے اہم قضیہ ’فلسطین‘ کے دفاع میں آگے بڑھاتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۴۳)
ساتواں باب مزاحمت: نفسیاتی مطالعہ کے عنوان سے ہے۔ مصنف کے الفاظ میں حالیہ جنگ میں مزاحمت کی طرف سے ایسے اقدامات کیے گئے ہیں اور ویڈیوز جاری کی گئی ہیں جن سے نفسیاتی جنگ میں مزاحمت کی جیت ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس باب میں مزاحمت کے انہی نفسیاتی حملوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
آٹھواں باب اسرائیلی قیدیوں کے تاثرات کے عنوان سے ہے۔ قیدیوں کے تبادلہ کی جو ویڈیوز وائرل ہوئیں، ان میں اسلامی تعلیمات کی عکاسی اور قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی جو تصاویر سامنے آئیں نیز مختلف اسرائیلی قیدیوں نے اپنے انٹرویوز میں ان کے حسنِ سلوک کی جو شہادتیں پیش کیں، ان سب کو تفصیل سے پیش کرتے ہوئے اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور اہلِ فلسطین کی اخلاقی برتری کا واضح نقشہ کھینچا گیا ہے۔
نویں باب میں فلسطین کی حمایت میں دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجات کی تفصیل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کے الفاظ میں:
’’جن ممالک میں حماس کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور جہاں ہمیشہ سے اسلام اور اسلامی تہذیب کی کردار کشی کی گئی ہے، جہاں اسلامی تہذیب اور شناخت کو ایک دہشت گرد کی شناخت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہاں پر بھی عوام نے نہ صرف فلسطینی آزادی اور مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے رومال ’کوفیہ‘ اوڑھ کر اور فلسطینی علم بلند کر کے احتجاج کیا، بلکہ حماس کے لیڈروں کی تصاویر بھی ان احتجاجات میں استعمال کی گئی تھیں‘‘۔ (ص ۳۱۶)
آخری باب میں طوفان الاقصیٰ کے اثرات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور بالخصوص مشرق وسطیٰ پر اس کے جو اثرات پڑیں گے ان کی طرف بھی اشارہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
فاضل مؤلف کا ابھی عنفوانِ شباب ہے۔ قلم و قرطاس سے گہری وابستگی سے بجا طور پر امید ہے کہ مستقبل میں ان کے قلم سے کئی اہم تاریخی و علمی دستاویز قارئین کے روبرو ہوں گے۔ اس عمر میں انہوں نے جس طرح قلم کے وقار کو ملحوظ رکھا ہے اور جذباتیت سے اجتناب کرتے ہوئے حقائق کی تلاش میں ہر ممکن مصادر کو کھنگالا ہے، وہ قابلِ مبارک باد ہے اور ان کے روشن مستقبل کا غماز بھی۔ پروف کی کہیں کہیں معمولی غلطیاں ہیں اور بعض تعبیرات بھی نظر ثانی کی متقاضی، ان سب سے صرفِ نظر کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم علمی دستاویز ہے۔ امید ہے کہ علمی حلقوں میں اسے قبولِ عام حاصل ہوگا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025