
غزہ، غربِ اردن اور ’اسرائیلِ کبریٰ‘ ۔ قبضے کی نئی لغت بے نقاب
غزہ کی پامالی پر صدر ٹرمپ کی کھلی حمایت۔’گریٹر اسرائیل‘ منصوبہ: فلسطینی وجود کے خلاف اعلانِ جنگ؟
مسعود ابدالی
جمعہ 15 اگست کو اسرائیلی فوج نے شہر غزہ کے مضافاتی علاقے پر شدید گولہ باری کے ذریعے بڑے حملے کا آغاز کیا۔ پہلے ہی ہلے میں الاہلی ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا جہاں درجنوں مریض جاں بحق ہوئے۔ اسرائیلی حزبِ اختلاف، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی یونین نے اس کارروائی کو ایک نئے قتلِ عام کا نقطۂ آغاز قرار دیا، لیکن وزیر اعظم نیتن یاہو کے خیال میں غزہ میں نظر بند اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں کسی ڈیل سے پہلے اسرائیل کو مزید فوجی دباؤ ڈالنا ہوگا، کیونکہ اب تک جو قیدی رہا ہوئے ہیں ان کی پشت پر بھی فوجی دباؤ ہی کار فرما تھا۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ اس نئی فوجی مہم جوئی کا ہدف پورے غزہ پر قبضہ کرکے فلسطینیوں کی بے دخلی ہے تاکہ صدر ٹرمپ کے مجوزہ پُرتعیش بیچ فرنٹ منصوبے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
غزہ پر مکمل قبضے کے لیے بھرپور فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ غربِ اردن کے اسرائیل سے الحاق کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ فوجی پہرے میں قبضہ گروں نے فلسطینی آبادیوں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہزاروں فلسطینی اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل ہوکر اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیے گئے ہیں۔
نئی اسرائیلی بستی کا منصوبہ یا فلسطینی ریاست کی تدفین؟
اسی ہفتے اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس کے قریب ای ون (E1) سیٹلمنٹ منصوبے کو دوبارہ فعال کرنے کے اشارے دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوا تو فلسطینی ریاست کا جغرافیائی تسلسل ٹوٹ جائے گا۔ یروشلم اور غیر قانونی اسرائیلی بستی ’’معالیہ ادومیم‘‘ کے درمیان واقع ای ون میں تعمیرات کا منصوبہ تین دہائیوں سے عالمی دباؤ کے تحت رکا ہوا تھا۔
بدھ 13اگست کو معالیہ ادومیم کی پہاڑیوں پر ایک خصوصی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ای ون منصوبے کے پہلے مرحلے میں 3,401 نئے گھروں اور متعلقہ سہولتوں کی تعمیر کے لیے رقم مختص کر دی گئی ہے۔ انہوں نے تکبر سے چور لہجے میں کہا کہ ای ون منصوبے سے فلسطینی ریاست کا تصور ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گا۔
یہ دعویٰ کچھ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ اس منصوبے کے تحت قائم ہونے والی قبضہ گرد بستی مشرقی یروشلم، بیت اللحم اور راملہ کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کر دے گی۔ مغربی کنارے کے شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد فلسطینی ریاست کا قیام عملاً ناممکن ہو جائے گا۔
اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے اس منصوبے پر "گہری تشویش” کا اظہار کیا ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے زمینی حقائق اور نقشہ تبدیل کرنے کے ٹھوس عملی اقدامات کو محض قراردادوں اور بیانات سے غیر مؤثر نہیں بنایا جا سکتا۔ ای ون منصوبہ محض زمین پر قبضہ نہیں بلکہ تاریخ، امید اور انصاف پر حملہ ہے۔
گریٹر اسرائیل: تعویذ، توسیع اور عرب ردِ عمل
دنیا غزہ اور غربِ اردن پر تشویش کا اظہار کر ہی رہی تھی کہ 14 اگست کو وزیر اعظم نیتن یاہو نے ’’اسرائیلِ کبریٰ‘‘ یا Greater Israel منصوبے کی رونمائی کر دی۔ مقامی i24News کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے تصور سے گہرا تعلق محسوس کرتے ہیں۔ یہ تصور 1967کی جنگ کے بعد زیادہ مقبول ہوا جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، صحرائے سینا اور گولان کی پہاڑیاں ہتھیالیں۔
انٹرویو کے دوران میزبان شیرون گال (Sharon Gal) نے نیتن یاہو کو ’’ارضِ موعود‘‘ کا ایک نقشہ نما تعویذ دیا، جس میں گریٹر اسرائیل کا ایک توسیع شدہ نقشہ دکھایا گیا تھا۔ عبرانی انجیل کی عام تعبیرات میں اسرائیل کی سرحدیں دریائے نیل سے دریائے فرات تک سمجھی جاتی ہیں؛ یعنی موجودہ اسرائیل کے ساتھ اردن، لبنان، شام، عراق، مصر کے کچھ حصے اور شمالی سعودی عرب بھی اس میں شامل ہیں۔ البتہ مکہ اور مدینہ ان علاقوں سے کافی دور ہیں جو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے بیشتر نقشوں میں دکھائے جاتے ہیں۔
سادہ الفاظ میں، گریٹر اسرائیل کا تصور صرف آزاد فلسطین کے لیے موت کا پیغام نہیں بلکہ پوری عرب دنیا پر قبضے کی شیطانی خواہش ہے۔ اس انٹرویو پر عرب لیگ، اردن، مصر، قطر، سعودی عرب اور مقتدرہ فلسطین نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
مغربی دنیا: مذمت، مگر عمل ندارد
جرمنی کی جانب سے اسرائیل پر اسلحے کی پابندی کے سوا مغرب کی طرف سے کوئی عملی قدم اٹھتا نظر نہیں آتا۔ زبانی مذمت، تشویش اور آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عزم تو ظاہر کیا جا رہا ہے، لیکن عمل ندارد۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن (Christopher Luxon) نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’نیتن یاہو نے ہوش کھو دیے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ جبری بے دخلی، فوجی قبضہ اور پناہ گزینوں پر حملے ناقابلِ قبول اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ جناب لکسن نے یہ بھی کہا کہ ان کا ملک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے۔
اطالوی وزیر خارجہ گوڈو کروسیٹو نے غزہ اور یوکرین کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے نیتن یاہو کو ’’اسرائیل کا پوتن‘‘ قرار دیا۔ روزنامہ La Stampa کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے سوال کیا: ’’کیا یورپ اب بھی اسرائیل کو روکنے کے لیے عملی اقدام نہیں کرے گا؟‘‘
دہرا معیار: یوکرین ہیرو، غزہ ناگزیر نقصان؟
اطالوی وزیر خارجہ کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے مغرب پر دوہرے معیار کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی دنیا غزہ میں مرنے والوں کو ’’ناگزیر نقصان‘‘ (Collateral Damage) اور یوکرین میں مرنے والوں کو ’’ہیرو‘‘ قرار دیتی ہے۔ شاید تعریف کے یہ معیار بھی نیٹو کے نقشے کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے، لاکھوں بے گناہ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں جبکہ عالمی برادری تماشائی بنی ہوئی ہے۔
مذہبی حوالوں کی سیاست: خدا کی استعانت یا سیاسی ڈھال؟
امریکہ میں اسرائیل کے حامی سیاست داں تنقید سے بچنے کے لیے خود ساختہ مذہبی حوالے استعمال کر رہے ہیں۔ ٹیکساس (Texas) سے ریپبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ:
’’انجیل مقدس کے مطابق اسرائیل پر لعنت کرنے والے پر خدا کی لعنت ہوگی اور اس کی مدد کرنے والے پر برکت نازل ہوگی۔‘‘
جب میزبان ٹکر کارلسن (Tucker Carlson) نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا: ’’کیا واقعی آپ انجیل کا اقتباس بیان کر رہے ہیں؟‘‘ تو سینیٹر صاحب نے اس کی تصدیق کی۔ تاہم کینیڈا کے مسیحی اخبار Christian Courier نے حالیہ اشاعت میں ٹیڈ کروز کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ انجیل میں ایسی کوئی بات درج نہیں۔
اسی انداز میں امریکی سینیٹ کی بجٹ کمیٹی کے سربراہ لنزی گراہم (Lindsey Graham) نے 13 اگست کو ایک تقریر میں ریپبلکن پارٹی کے ارکان کو خبردار کیا کہ اگر امریکی حکومت نے اسرائیل کی مدد بند کی تو’’خدا ہم پر سے ہاتھ کھینچ لے گا‘‘۔ یہ بیان بظاہر پارٹی کی رکن مارجری ٹیلر گرین کے اس الزام کا جواب تھا جس میں انہوں نے اسرائیل پر فلسطینی عوام کی نسل کشی کا الزام عائد کیا تھا۔
فنکاروں کی بغاوت: میڈونا اور جورا کی صدائیں
جہاں سیاست داں اسرائیلی مظالم سے چشم پوشی میں مصروف ہیں، وہیں فنکار و اداکار اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ دنیا کی مشہور پاپ گلوکارہ میڈونا (Madonna) نے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ لیو چہار دہم سے براہِ راست اپیل کی کہ وہ غزہ کا دورہ کریں اور وہاں کے معصوم بچوں کے لیے انسانیت کے دروازے کھولیں۔
سوشل میڈیا پر میڈونا نے لکھا:
’’اے محترم باپ، براہِ کرم غزہ جائیں اور اپنی روشنی ان بچوں تک پہنچائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ یہ سب کے بچے ہیں، مجھ سے ان کی اذیت دیکھی نہیں جاتی۔ آپ واحد شخصیت ہیں جنہیں غزہ میں داخلے سے نہیں روکا جا سکتا۔ بابا! پلیز کہہ دیجیے کہ آپ (غزہ) جا رہے ہیں۔‘‘
یہ اپیل اس لیے بھی غیر معمولی تھی کہ میڈونا کا تل ابیب میں گھر ہے اور وہ اسرائیل کی پرجوش حامی سمجھی جاتی ہیں۔ راسخ العقیدہ مسیحی ہونے کے باوجود میڈونا سبت کے احترام میں ہفتے کے روز موسیقی کی محفلوں میں شریک نہیں ہوتیں اور یہودی تہوار بھی مناتی ہیں۔ دوسری طرف سر پر Kippah (یہودی ٹوپی) جمائے دیوارِ گریہ سے لپٹ کر رونے والے نیتن یاہو سبت کے دن بھی غزہ کے بچوں پر آگ برساتے ہیں۔
اسی ہفتے کوپن ہیگن فیشن ویک کے دوران Marimekko کے بہار/گرمی 2026 شو میں ماڈل اور موسیقار Jura نے کیٹ واک پر فلسطینی پرچم کی نمائش کی، جس پر انگریزی میں لکھا تھا: ’’Act now against genocide‘‘۔
انسٹاگرام پر محترمہ نے پیغام دیا:
’’فلسطین کے بغیر ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ اگر ہم نے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی بھوک سے ہلاکت آج برداشت کر لی تو پھر دنیا کے امیر ترین لوگ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آئندہ کس اقلیت کو نشانہ بنایا جائے۔‘‘
فوجی ضمیر کی بیداری: پائلٹوں کا احتجاج
غزہ پر مکمل قبضے کے بارے میں اسرائیلی فوج کے اندر سے بھی ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ فضائیہ کے ایک سو سے زیادہ ریٹائرڈ ہوا بازوں اور سابق اعلیٰ افسران نے فوجی ہیڈ کوارٹر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ پریس کو جاری کردہ کھلے خط میں ان افسران نے لکھا کہ قیدیوں کی واپسی کو سیاسی مفادات کے تحت مؤخر کیا جا رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جنگ بند کی جائے اور قیدیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
خط کے اختتام پر ان پائلٹوں نے جذباتی انداز میں لکھا:
’’ہم نے اپنی زندگیوں میں کئی بار خطرات مول لیے ہیں لیکن آج ہم خاموش رہ کر سب سے بڑا خطرہ مول لیں گے ۔ اپنی انسانیت کھو دینے کا۔‘‘
ملک گیر ہڑتال: قیدیوں کی واپسی یا سیاسی قربانی؟
اتوار 17 اگست کو قیدیوں کی بازیابی اور غزہ جنگ بندی کے لیے ملک گیر ہڑتال ہوئی جس سے پورا اسرائیل مفلوج ہو کر رہ گیا۔ دس لاکھ سے زیادہ افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا۔ اس دوران نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے صدر دفتر، وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز، وزیرِ تزویراتی امور ران ڈرمر اور دیگر وزرا کے گھروں کے سامنے دھرنے دیے گئے۔ پولیس سے تصادم میں کئی مظاہرین زخمی ہوئے اور 38 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
اسرائیل کے انتہا پسند اور نسل پرست حکم راں اتحاد نے ہڑتال کی مذمت کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مزاحمت کاروں کے خاتمے اور غزہ پر قبضے سے پہلے قیدیوں کی واپسی کی کوئی ضمانت نہیں۔ وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے دشمنوں کو فنا کیے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا، جبکہ وزیرِ داخلہ اتامر بن گوئر نے دعویٰ کیا کہ ہڑتال ناکام ہو گئی۔
دوسری جانب قائدِ حزبِ اختلاف یائیر لیپڈ نے کہا کہ حکومت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے قیدیوں کی قربانی دینے کا کوئی حق نہیں ہے اور احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک قیدیوں کی واپسی کے لیے ایک جامع معاہدہ نہیں ہو جاتا۔
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
گیارہ اگست کو غزہ کے حق پرست صحافی انس الشریف کی تدفین ہوئی اور دوسرے ہی دن ان کے جواں سال بھتیجے مصعب الشریف نے قلم سنبھال لیا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
روس نے مغرب پر دوہرے معیار کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یوکرین میں مرنے والے "ہیرو” جبکہ غزہ میں مارے جانے والے لوگ صرف "Collateral Damage” کہلائے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں بھی غزہ کی صورتحال کو انسانی المیہ قرار دیا گیا ہے مگر عالمی برادری تماشائی بنی ہوئی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025