
غزہ بمباری میں شدت، ہسپتال خصوصی ہدف۔تازہ دم ٹینک ڈویژن غزہ بھیج دیا گیا
ایندھن ختم۔۔ کتابیں کاپیاں جلا کر چولہے دہکائے جارہے ہیں
مسعود ابدالی
ویزے کی حامل جامعہ براون ہسپتال کی لبنانی نژاد اسسٹنٹ پروفیسر امریکہ بدر۔غزہ کے ایک سابق افسر کا ہندوستانی داماد گرفتار
امن مذاکرات اب تلواروں کے سائے میں ہونگے۔ نیتن یاہو۔دوپاکستانی صحافیوں کا دورہ اسرائیل
غزہ پر 17 مارچ سے خوفناک بمباری کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس میں ہر روز شدت آتی جا رہی ہے۔ اہلِ غزہ کو فضا سے برسنے والی آتش و آہن کی بارش کے ساتھ ٹینکوں کے گولوں اور بحیرہ روم میں تعینات جنگی جہازوں سے برستے ہوئے شعلوں کا سامنا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک ہفتے کے دوران ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے، جن میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت ہے۔ اہلِ غزہ 19 جنوری کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے بعد اپنے تباہ حال گھروں کو منتقل ہو گئے ہیں اور بمباری کا براہِ راست نشانہ نہ بننے پر بھی محض خوفناک دھماکوں سے ہی یہ بوسیدہ و مخدوش اور گری و ادھڑی عمارتیں منہدم ہو کر مکینوں کا مدفن بن رہی ہیں۔
امریکہ نے غزہ پر دوبارہ حملے کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے۔ قصرِ مرمریں کی ترجمان کیرولائن لیوٹ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ "صدر ٹرمپ غزہ میں اسرائیل کے حالیہ اقدامات کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔” قوم سے اپنے خطاب میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نے بہت دو ٹوک لہجے میں کہا کہ اب امن مذاکرات تلواروں کے سائے (Under the Fire) میں ہوں گے۔ جنگی جنون کے نتیجے میں نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ ان کے وکیل نے عدالت کو درخواست دی تھی کہ نازک ملکی صورتحال کی بنا پر وزیرِ اعظم کے اصالتاً یا وکالتاً مقدمے کی پیروی ممکن نہیں۔
حملوں کے دوبارہ آغاز پر دنیا کا ردِ عمل اظہارِ تشویش سے آگے نہ بڑھ سکا۔ جرمن وزیرِ خارجہ انالینا بئیربک نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے لڑائی کے دوبارہ آغاز نے علاقے میں امن کی امید کو خاک میں ملا دیا ہے، جبکہ یورپی یونین کی نگراں برائے خارجہ امور کاجا کلاس نے فون پر اپنے اسرائیلی ہم منصب کو باور کرایا کہ غزہ میں اسرائیل کی حالیہ عسکری مہم یورپی عوام کے لیے "ناقابلِ قبول” ہے۔ ایک عرب سفیر نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ جنگ کے دوبارہ آغاز کے محرکات نیتن یاہو کے ذاتی اور سیاسی مفادات ہیں۔ احتیاط کا یہ عالم کہ سفیر موصوف نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر یہ بیان جاری کیا۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے UNICEF کی ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی بمباری سے صرف ایک دن میں 126 بچے جاں بحق ہوئے۔ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ خان نے UNICEF کی اس رپورٹ کا خلاصہ انسٹاگرام پر دیتے ہوئے لکھا کہ غزہ پر (اسرائیلی) حملے کے بعد نظر آنے والے مناظر لرزہ خیز ہیں۔
عبوری جنگ بندی تحلیل کرنے کا بنیادی محرک غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانا معلوم ہوتا ہے۔ کرپشن کے مقدمات سے نیتن یاہو کی گلو خلاصی، شاباک کی برطرفی سے پیدا ہونے والے عوامی رد عمل کو ٹھنڈا کرنا، اٹارنی جنرل کی معزولی اور مقامی و جماعتی سیاست گری کے اضافی فوائد کا حصول اس وحشت کے ثانوی مقاصد ہیں۔ حملے کے دوبارہ آغاز پر وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے عسکری کارروائی کا ہدف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے قیدی رہا نہ کیے گئے تو رہائشی علاقوں سے شہریوں کو جنوب کی طرف دھکیل کر غزہ کے بڑے علاقے کا اسرائیل سے الحاق کر لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل، صدر ٹرمپ کے "غزہ خالی کرو” منصوبے پر عمل درآمد کے لیے تمام عسکری، شہری اور سفارتی وسائل استعمال کرے گا۔ اہلِ غزہ کی جبری جلا وطنی کے لیے بریگیڈیئر جنرل عفر ونٹر کی سربراہی میں Depopulation Directorate قائم کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی لبنانی جریدے "الاخبار” نے انکشاف کیا کہ مصر کے جنرل السیسی پانچ لاکھ اہلِ غزہ کو صحرائے سینا میں بسانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اور تو اور مقتدرہ فلسطین (PA) اور الفتح (PLO) مزاحمت کاروں سے غزہ چھوڑنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ الفتح کے ترجمان منصور الحق نے کہا کہ حماس غزہ کا اقتدار چھوڑ کر اہلِ غزہ کی نسل کشی رکوا سکتی ہے۔
مزاحمت کار ہتھیار رکھنے یا غزہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں "صفحہ ہستی سے مٹا دینے” کے موقف میں نرمی پیدا کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکاف نے بیان جاری کیا کہ "اگر غزہ کے مزاحمت کار سیاسی طاقت کے طور پر باقی رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اسلحہ رکھ کر عسکریت سے اجتناب کرنا ہوگا۔” مزاحمت کاروں نے فاضل ایلچی کے بیان کو مہمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یہ عسکریت نہیں مزاحمت ہے، فلسطینی عوام یہ ہتھیار غاصبوں کی مزاحمت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے بنیادی حق کے لیے ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کے عین مطابق ہے۔”
غزہ خالی کرانے کے لیے بھرپور نفسیاتی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ اسرائیلی طیاروں سے غزہ میں پمفلٹ گرائے جا رہے ہیں، جن میں لکھا ہے: "دنیا کو تمہاری کوئی پروا نہیں ہے۔ تم سب مٹا بھی دیے جاؤ تو دنیا کے نقشے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لہٰذا خود ہی اپنے بارے میں سوچو۔ امریکہ کو نہ یورپ کو تمہاری کوئی پروا ہے۔ حتیٰ کہ تمہارے عرب ملکوں کی بھی ساری ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہیں، وہ ہمیں مال اور اسلحہ بھیجتے ہیں اور تمہیں کفن۔ جلدی نکلو، کھیل ختم ہونے والا ہے۔” ایک اور پمفلٹ میں عوامی جائزے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ نصف سے زیادہ اہلِ غزہ نقل مکانی پر رضامند ہیں۔
غزہ کو شمال و جنوب میں تقسیم کرنے کے لیے اسرائیلی فوج نے نظارم راہداری (Netzarim Corridor) بنائی تھی۔ جنگ بندی کی ایک شرط کے طور پر اسرائیل نے یہ راہداری خالی کر دی تھی لیکن اب اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف مصر کی سرحد پر قائم فلاڈیلفیا راہداری کو بھی وسعت دی جا رہی ہے۔ عسکری کارروائی میں شدت لانے کے لیے ایک تازہ دم ٹینک ڈویژن غزہ بھیج دیا گیا ہے۔ شدید ناکہ بندی کی وجہ سے سارے غزہ میں قحط کا عالم ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی AFP کے مطابق ایندھن ختم ہونے کی بنا پر پرانی کتابیں جلا کر چولہے جلائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دس دنوں میں مزاحمت کار قیادت کے بہت سے سینئر رہنما جاں بحق ہو گئے۔
تازہ اسرائیلی کارروائی کا مرکزی ہدف دواخانے اور طبی سہولیات کے بچے کچے مراکز ہیں۔ نصر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کو اسرائیلی ٹینکوں نے گولہ باری سے تباہ کر دیا۔ اس کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ نے ڈھٹائی سے کہا کہ وہاں دہشت گرد چھپے ہوئے تھے۔ غزہ کے واحد انسدادِ کینسر مرکز Turkish-Palestinian Friendship Hospital کو بمباری کر کے ریت کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے ہسپتال کی تباہی سے پہلے اور بعد کی تصاویر فخریہ انداز میں جاری کیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی کیمپوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے رفح کے قریب زخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینس پر بمباری کی گئی۔
امریکہ نے بھی علاقے میں عسکری موجودگی کو مزید تقویت دینے کا اعلان کیا ہے۔ بحرِ جاپان میں تعینات جوہری ایندھن سے لیس طیارہ بردار جہاز USS Carl Vinson کو بحیرہ احمر کی طرف روانہ کیا جا رہا ہے۔ طیارہ بردار جہاز "ہیری ٹرومین” پہلے ہی وہاں موجود ہے۔ کچھ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ حوثیوں کو کچلنے کے لیے صدر ٹرمپ وہاں زمینی فوج اتارنا چاہتے ہیں جبکہ اسرائیلی عسکری ماہرین کی دانست میں اضافی بحری اثاثے "غزہ خالی کرو مہم” میں معاونت کے لیے استعمال ہوں گے۔
سخت بے سروسامانی اور مشکل حالات میں بھی غزہ کی جانب سے مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی حملہ شروع ہونے کے دوسرے ہی دن غزہ سے راکٹ داغ دیے گئے۔ امریکی ساختہ آئرن ڈوم نے ان راکٹوں کو فضا ہی میں غیر مؤثر کر دیا۔ ایک راکٹ کا ملبہ تل ابیب کے فیشن ایبل مضافاتی علاقے ریشون لیتزیون (Rishon Lezion) میں گرا۔ کوئی جانی اور مالی نقصان تو نہ ہوا لیکن علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ امریکہ کی شدید بمباری کے باوجود حوثیوں کے میزائل حملے بھی جاری ہیں۔ بحیرہ مردار کے آس پاس اور یروشلم میں ہوائی حملے کے سائرن نے عوام کا سکون غارت کر دیا ہے۔ 19 مارچ کو بین گوریان ایئرپورٹ پر میزائل حملے کا سائرن اس وقت بجا جب لوگ حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ مظاہرین نے جان بچانے کے لیے زیر زمین پناہ گاہوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس بھگدڑ میں کئی لوگ زخمی ہو گئے۔
اسرائیل نے لبنانی مزاحمت کاروں کی عسکری صلاحیت مکمل طور پر کچل دینے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن 22 مارچ کو لبنان سے اسرائیلی شہر المطلۃ پر 5 راکٹ برسائے گئے۔ آئرن ڈوم نے پانچوں راکٹ فضا ہی میں ناکارہ کر دیے لیکن علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
دوبارہ جنگ شروع کرنے پر اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین سخت پریشان ہیں۔ غزہ سے رہا ہونے والے 40 قیدیوں نے حکومت کے نام ایک کھلے خط میں لکھا کہ نیتن یاہو نے ایک بے مقصد اور کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کا راستہ منتخب کر لیا ہے۔ یہ راستہ قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔
نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے مشرقی یروشلم میں فلسطینی صحافی محترمہ لطیفہ عبداللطیف کو گرفتار کر لیا گیا۔ چند روز قبل انہیں گھر آتے ہوئے عسکریت پسندوں سے ہمدردی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا، لیکن مجسٹریٹ کے حکم کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا۔
گزشتہ ہفتے مشہور درسگاہ جامعہ براون (Brown University, RI) کی اسسٹنٹ پروفیسر، ماہرِ امراضِ گردہ، لبنانی نژاد ڈاکٹر ارشہ الواح کو امریکہ واپس آتے ہوئے بوسٹن ایئرپورٹ سے گرفتار کرکے ملک بدر کر دیا گیا، حالانکہ ان کے پاسپورٹ پر H1B ویزا 2028 تک مؤثر تھا۔ ڈاکٹر ارشہ الواح پر الزام ہے کہ انھوں نے حسن نصراللہ کے جنازے میں شرکت کی تھی جو امریکہ کے نزدیک دہشت گردوں کی معاونت کی ایک شکل ہے۔
اسی طرح، جامعہ جارج ٹاؤن میں سفارت کاری کے ہندوستانی طالب علم بدر خان سوری کو بھی گرفتار کرکے جلاوطنی کا پروانہ تھما دیا گیا۔ ان کا واحد قصور یہ ہے کہ ان کی فلسطینی نژاد امریکی اہلیہ کے والد غزہ حکومت کے ایک سابق افسر ہیں۔ تاہم، بدرخان کی ملک بدری کے خلاف وفاقی جج پیٹریشیا گائلس نے حکمِ امتناعی جاری کر دیا، لیکن اس کے باوجود وہ تاحال جیل میں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ چاہے عزیزِ مصر ہوں یا دورِ حاضر کے فرعون، بے گناہ لوگوں کو قید کرنا بے ایمان حکم رانوں کا پرانا ہتھکنڈہ ہے۔
ادھر، جامعہ کولمبیا کے طالب علم محمود خلیل کے مقدمے کی سماعت اگلے ماہ متوقع ہے۔ غزہ میں نسل کشی کے خلاف مظاہروں کی قیادت کرنے والے محمود پر سام دشمنی (Antisemitism) کا الزام عائد کیا گیا ہے، جس کی پاداش میں ان کا گرین کارڈ (مستقل رہائشی ویزا) منسوخ کر کے جلاوطنی کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ انہیں 8 مارچ کو گرفتار کیا گیا، تاہم عدالت نے حکمِ امتناعی جاری کرکے ان کی جلاوطنی معطل کر دی ہے۔ اس کے باوجود وہ تاحال جیل میں بند ہیں۔
پکڑ دھکڑ کے باوجود اسرائیل مخالف مزاحمت جاری
گزشتہ ہفتے ہالی ووڈ میں اسرائیلی اداکارہ غال گدوت (Gal Gadot) کی "واک آف فیم” (Walk of Fame) ایوارڈ تقریب کے دوران غزہ نسل کشی کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا، جس کی وجہ سے تقریب بار بار تعطل کا شکار رہی۔
گزشتہ نشست میں ہم نے ایک باضمیر پاکستانی آرکیٹیکٹ، محترمہ یاسمین لاری کا ذکر کیا تھا جنہوں نے اسرائیلی ادارے "وولف فاؤنڈیشن” کا ایوارڈ اور ایک لاکھ ڈالر یہ کہہ کر ٹھکرا دیے کہ "میں اسرائیلیوں سے اعزاز وصول کرکے اہلِ غزہ کے زخموں پر نمک نہیں چھڑکوں گی۔”
لیکن اسی پاکستان کے دو صحافی، قیصر عباس اور شبیر خان نے اسرائیل کا دورہ کیا جس کا مقصد دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان روابط قائم کرنا بتایا گیا۔ اسرائیل میں قیام کے دوران وہ تل ابیب میں "ہاسٹیج اسکوائر” (Hostage Square) گئے اور غزہ کے قریبی علاقوں کی "زیارت” کی جہاں 7 اکتوبر 2023 کو مزاحمت کاروں نے کارروائی کی تھی۔ ان دونوں صحافیوں کو "معصوم اسرائیلیوں” کے خلاف مبینہ "دہشت گرد کارروائیوں” کے آثار دیکھ کر شدید صدمہ پہنچا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 مارچ تا 05 اپریل 2025