!غزہ اور انسانی ضمیر ۔۔

فلسطینیوں کے حق میں امریکی مسلمانوں کی منظم تحریک کی بدولت رائے عامہ میں تبدیلی

مسعود ابدالی

’’میرے پاس دوا نہیں لیکن میں اپنے مریضوں کی پیشانیاں سہلا کر دلاسہ تو دے سکتا ہوں‘‘
عزم و ایثار کی تاریخ رقم کرنے والے جواں سال فلسطینی مسیحا ڈاکٹر حمام اللہ کی شہادت
غزہ پر اسرائیلی یلغار ساتویں ہفتے میں داخل ہو چکی ہے، جبکہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جنگ میں ’طویل وقفے‘ کی قرارداد کو بھی خاطر میں نہیں لایا ہے۔ گزشتہ ہفتے مالٹا نے یہ قرار داد پیش کی تھی جس میں فریقین سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور شہریوں، خاص طور پر بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ قرارداد میں تمام فریقوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ غزہ میں شہریوں کو ضروری اشیا اور خدمات کی فراہمی میں رکاوٹ نہ ڈالیں اور انسانی امداد کی تقسیم کے لیے لڑائی میں طویل وقفہ کر دیں۔ بحث کے دوران روس نے ایک ترمیم پیش کی جس میں طویل وقفے کے بجائے مکمل جنگ بندی تجویز کی گئی، لیکن امریکہ اور برطانیہ نے ترمیم کو ویٹو کر دیا اور یہ قرارداد روسی ترمیم کے بغیر صفر کے مقابلے میں بارہ سے منظور ہو گئی۔ امریکہ، برطانیہ اور روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
اصولی طور پر سلامتی کونسل کے مستقل نمائندے اور اسرائیل کے سرپرست کی حثیت سے امریکہ کو اس قرارداد پر عمل درآمد یعنی طویل وقفے کی عارضی فائر بندی کے لیے تل ابیب پر دباو ڈالنا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس جو بائیڈن نے کہا ’غزہ میں جنگ اس وقت بند ہوگی جب حماس کی اسرائیلیوں کو قتل کرنے، دھمکیاں دینے اور ہولناک سلوک کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی‘۔ ساتھ ہی وہ مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے گلوگیر لہجے میں بولے ‘غزہ سے آنے والی تصویروں اور بچوں سمیت ہزاروں شہریوں کی ہلاکت نے مجھے افسردہ کر دیا ہے‘۔ امریکی صدر کے اس اعلان کو اسرائیلی جنگووں نے خونریزی جاری رکھنے کا اشارہ بلکہ حوصلہ افزائی سمجھا اور اسی رات غزہ کے الاہلی المعروف Baptist ہسپتال کے قریب شدید بمباری کر کے وہاں کھلے آسمان تلے پناہ گزینوں کو راکھ بنا دیا۔ سوختہ اور کٹی پھٹی میتوں کی شناخت ناممکن تھی چنانچہ ہسپتال کے پارکنگ لاٹ میں ایک بڑا گڑھا کھود پر ان معصوموں کی اجتماعی قبر بنادی گئی۔ تدفین کے دوران بھی نچلی پرواز کرتے نشانچی ڈرونوں نے انسانوں کا شکار جاری رکھا۔
اس وحشت میں تین سو سے زیادہ افراد مارے گئے لیکن ایک بچی ملیسا کی کہانی نے پتھر دلوں کو بھی رلا دیا۔ اس حملے میں ملیسا کے ماں باپ بھائی بہن، خالہ، پھوپھیاں اور دادی سب مارے گئے۔ بس اس کی غم زدہ خالہ یاسمیں بچ گئی کہ وہ اس وقت اپنے سسرال میں تھی۔ یاسمین نے کہا کہ سولہ ماہ کی ملیسیا صرف ایک ہفتہ قبل پہلی بار اپنے پیروں پر چلی تھی اور ننھی پوتی کو پیروں پر چلتا دیکھ کر دادی اماں خوشی سے نہال تھیں۔ پھوپھو نے بھتیجی کا نیا جوڑا سلوایا تھا۔ امریکی ساختہ بم کا ایک نوکیلا ٹکڑا ملیسا کی کمر میں پیوست ہوگیا۔ کیا یہ ننھی سی جان اور کیا اس کے ریڑھ کی ہڈی اور کہاں بم کا بھیانک ٹکرا۔ ملیسا مکمل طور پر اپاہج ہوگئی ہے۔ اچھا ہے پیر پر چلتا دیکھ کر خوش ہونے والی اس کی ضعیف دادی اور پھوپھو اپنی گڑیا کو اپاہج دیکھنے کے لیے زندہ نہیں ہیں۔ سچ پوچھیں تو ملیسا نہیں بلکہ اس زمین پر بوجھ بنے سات ارب اندھے، گونگے اور بہرے انسان اپاہج ہوگئے ہیں۔
دوسرے روز کئی بار پامال کی جانی والی جبالیہ خیمہ بستی کے الفخورہ پرائمری اسکول اور تل الزعتر اسکول پر بمباری کی گئی جس سے سینکڑوں بچے اور اساتذہ جاں بحق ہوگئے۔ آگ و بارود کی بارش میں بھی فلسطینی اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف سے غافل نہیں اور پوری پٹی پر جہاں موقع میسر ہو درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ چھوٹی جماعت کے طلبہ کو اس لیے بھی اسکول بھیجا جا رہا ہے کہ ہم جماعتوں کی صحبت میں شوخی و شرارت کا موقع ملے، ان کا دھیان جنگ کی طرف سے ہٹے اور دہشت زدہ ذہنوں کو چند گھنٹے سکون نصیب ہو۔
اسی دوران الشفا ہسپتال ایک گھنٹے میں خالی کرنے کا نادر شاہی حکم جاری ہوا۔ ڈاکٹر بہت سے مریضوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر  باہر لے گئے۔ کٹے پھٹے اور لخت لخت 120 مریض اب بھی اس تاریک ہسپتال میں موجود ہیں، جن کی نگہداشت پر مامور ایک ڈاکٹر نے کہا کہ اسپرین کی گولی تو دور کی بات مجھے سارے دن کے لیے پانی کی محض ایک درجن بوتلیں ملتی ہیں جن سے میں 120 مریضوں کی پیاس بجھاتا ہوں۔ میرے بعض مریض اشاروں سے مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے مرجانے کی دعا کرو لیکن ایک مسیحا یہ کیسے کر سکتا ہے میں آج بھی اپنے مریضوں کی شفا کے لیے پرامید اور دعا گو ہوں۔
غزہ کے لوگ جس بے جگری سے ظلم و جبر کے آگے کھڑے ہیں اس میں وہاں موجود ڈاکٹروں اور طبی عملے کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس سلسلے میں جوان سال ڈاکٹر حمام اللہ نے عزم و ایثار کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ الشفا میں تعینات ڈاکٹر صاحب امریکی تعلیم یافتہ ماہر امراض گردہ (Nephrologist) تھے۔ اس ماہ کے آغاز پر اسرائیلی طیاروں نے پمفلٹ گرائے جس میں کہا گیا تھا کہ الشفا ہسپتال دہشت گردوں کا مرکز ہے۔ تمام غیر متعلقہ افراد یہاں سے نکل جائیں ورنہ اپنے نقصان کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ جب ڈاکٹر حمام سے ایک خاتون صحافی نے کہا کہ اب جبکہ دوائیں ختم ہو چکی ہیں اور کسی قسم کا علاج ممکن نہیں تو آپ ہسپتال میں رہ کر اپنی جان کیوں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یہ سن کر ڈاکٹر حمام نے بہت ہی پرسکون لہجے میں کہا کہ میں نے طب کی تعلیم پر چودہ سال خرچ کیے ہیں اور میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت حلف اٹھایا تھا کہ میں علاج کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہوں گا۔ کیا میں اپنے اس عہد کو توڑ دوں؟ میرے پاس دوا نہیں لیکن میں اپنے مریضوں کی پیشانیاں سہلا کر دلاسا تو دے سکتا ہوں۔ مرہم پٹی میں نرسوں کی مدد کر سکتا ہوں۔ معذور مریضوں کے بول و براز صاف کرسکتا ہوں۔ میں اپنے مریضوں کو تنہا نہیں چھوڑوں گا کہ یہ وعدہ خلافی ہوگی۔ یہ زندگی تو ایک دن ختم ہونی ہی ہے۔ میں گناہ گار ہوں لیکن وعدہ شکن بن کر اپنے رب سے نہیں ملوں گا کہ میں نے اسے حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھایا تھا۔ ہمارے رب نے اس نوجوان ڈاکٹر کے عہد کی لاج کچھ اس طرح رکھ لی کہ اسی رات وہ ہسپتال سے متصل اپنے گھر میں والد، سسر اور برادر نسبتی کے ساتھ اسرائیلی بمباری سے شہید ہوگئے۔ ان کے احباب کا خیال ہے ڈاکٹر حمام ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ اس لیے کہ اس سے ایک دن پہلے بھی ان کے گھر پر بمباری ہوئی تھی جس سے گھر کا آدھا حصہ تباہ ہوگیا تھا لیکن کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ اس کے بعد بعد ڈاکٹر حمام کی والدہ، اہلیہ اور بچے اسی گھر کے بچے ہوئے حصے میں سمٹ آئے جبکہ ڈاکٹر صاحب قریب ہی اپنے سسرال منتقل ہوگئے جہاں انہیں نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر حمام نے پسماندگان میں جواں سال بیوی، ضعیف ماں اور دو بچے چھوڑے ہیں۔ ان نو نہالوں کی عمر چار اور پانچ سال ہے۔
اسی عزم کا نتیجہ ہے کہ غزہ پر حملہ علاقے کی طویل ترین دورانیے کی جنگ بن چکا ہے۔جون 1967 کی جنگ میں کیل کانٹوں سے لیس مصر، اردن، شام، عراق اور اردن کی  ایک ہزار ٹینکوں سے مسلح ڈھائی لاکھ سپاہ  اسرائیلی فوج کے مقابلے میں صرف چھ دن کھڑی رہ سکی اور بڑا رقبہ گنوا کر تقریباً گھٹنے ٹیک دیے۔ اس کے چھ سال بعد 1973 کی جنگِ رمضان میں مصر و شام کی افواج  جنہیں، اردن، عراق، لیبیا، کویت، تیونس، مراقش، کیوبا اور شمالی کوریا کی عسکری مدد حاصل تھی، 19 دن بعد ہمت ہار گئیں، جبکہ فاقہ زد بے سروسامان اہل غزہ 43ویں دن بھی اس شان سے ڈٹے ہیں کہ ‘ہم نہ باز آئیں گے محبت سے ۔۔ جان جائے گی اور کیا ہوگا؟’
اسی کے ساتھ رائے عامہ کے محاذ پر بھی اسرائیل انتہائی سرگرم ہے۔ ڈاکٹر حمام اللہ کی جرأت پر ان کی سرکشیدگی بلکہ بدن دریدگی کی روداد آپ نے سن لی۔ اب جبر کی ایک اور کہانی پیش خدمت ہے۔ ایڈمنٹن (کینیڈا) کی جامعہ البرٹاUniversity of) Alberta) نے شعبہ جنسی تشددSexual) Assault Center) کی سربراہ ڈاکٹر سمینتھا پیئرسن (Samatha Pearson) کو برطرف کر دیا۔ ڈاکٹر صاحبہ پر الزام ہے کہ انہوں نے کینیڈین سیاست دانوں کے نام ایک کھلے خط پر دستخط کیے تھے۔ مذکورہ خط میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جگمیت سنگھ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ ’فلسطینیوں پر جنسی تشدد کے مجرم ہونے کے غیر مصدقہ الزامات‘ کو دہرا رہے ہیں۔ اس خط میں 7؍ اکتوبر کے حماس حملے کے دوران اسرائیلی خواتین پر مجرمانہ حملوں اور عصمت دری کے الزام کو جھوٹا اور من گھڑت قرارد یا گیا ہے۔
اس سے پہلے نیویارک کی تین سینئر صحافیات قلم کی عصمت وآبرو پر اپنا ذریعہ معاش قربان کرچکی پیں۔ امریکہ کے موقر اخبار کی میگزین مدیرات محترمہ جیزمین ہیوز (Jazmine Hughes) اور جیمی لارن کائلز (Jamie Lauren Keiles) نے انتظامیہ کے نام ایک کھلے خط میں اسرائیل کو ’’نسلی امتیاز اور نسل کشی‘‘ کا مجرم قرار دیا۔ خط کی اشاعتِ عام پر ان خواتین کو نیویارک ٹائمز کی جانب سے انتباہی مراسلے لکھے گئے۔ اس وارننگ کو دونوں خواتین نے اظہارِ رائے پر دباو گردانتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ گزشتہ ہفتے اسی اخبار کی مدیرِ شاعری محترمہ این بوئیر (Ann Boyer) نے بھی اخبار کی انتظامیہ کو ایک خط بھیج دیا جس میں بوئیر صاحبہ نے لکھا کہ ’اہلِ غزہ کے خلاف امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی جنگ کسی کی جنگ نہیں ہے، نہ اس سے کسی کو کوئی تحفظ ملے گا۔ یہ نہ اسرائیل کے مفاد میں ہے نہ امریکہ و یورپ یا یہودیوں کے۔ اس سے یہودیوں کو محض بدنامی حاصل ہوگی جن کے نام پر یہ کچھ ہو رہا ہے۔ جنگ کا واحد مقصد تیل کمپنیوں اور اسلحہ ساز اداروں کے مہلک نفع میں اضافہ ہے۔
بوئر صاحبہ نے کہا کہ فلسطینیوں نے دہائیوں کے قبضے، جبری نقل مکانی، محرومی، تحقیر آمیز نگرانی، محاصرے، قید اور تشدد کی مزاحمت کی ہے‘  انہوں نے اپنی دونوں ساتھیوں کی طرح انتباہی خط کا انتظار کیے بغیر  تین سطری استعفیٰ بھیج کر اخبار سے تعلق توڑ لیا۔
لاطینی امریکہ میں اسرائیلی جبر کے خلاف رد عمل شدید ہوتا جا رہا ہے۔ چلی اور ہونڈراس اسرائیل سے اپنے سفیروں کو بلا چکے ہیں۔ بولیویا نے اسرائیل سے تعلقات ہی ختم کرلیے اور اب ساڑٖھے چار لاکھ نفوس پر مشتمل وسطی امریکہ کے ننھے سے ملک بلیز (Belize) نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں۔
فرانسیسی حکومت اسرائیل کی پشتیانی جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن فرانس بار کونسل کے سینئر رکن Gilles Devers نے غزہ میں اسرائیلی اقدامات کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے عالمی فوج داری عدالت ICC میں مقدمہ دائر کر دیا۔ فاضل وکیل نے اپنی درخواست میں عزت مآب بنچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ان اقدامات کو نسل کشی قرار دینا محض میری رائے نہیں بلکہ یہ ایک قانونی حقیقت ہے‘
شدید ترین سینسر، ابلاغ عامہ پر مغربی دنیا کا ریاستی دباو اور ضمیر کی بات کہنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دینے کے باوجود، اسرائیلی فوج کی غیر انسانی بربریت دھیرے دھیرے بے نقاب ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ٹیلی ویژن NBC نے رائے عامہ کا ایک جائزہ شائع کیا ہے جس کے مطابق صرف چالیس فیصد امریکی صدر بائیڈن کے حامی ہیں۔ اس غیر مقبولیت کی بنیادی وجہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ہے۔ ستر فیصد امریکی اس جنگ میں بائیڈن کے کردار کو امریکی اقدار کا آئینہ دار اور امنگوں کا ترجمان نہیں سمجھتے۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکی حماس کے حامی ہیں۔ عوام کی اکثریت اب بھی اسرائیل کی پشت پر ہے لیکن انہیں اس معاملے میں جو بائیڈن سے جس قائدانہ کردار کی توقع تھی امریکی صدر اس پر پورا نہیں اتر سکے۔ نوجوانوں یعنی اٹھارہ سے چونتیس سال کے لوگوں میں جو بائیڈن کی مقبولیت اکتیس فیصد رہ گئی ہے۔ ایک حیرت انگیز بات کہ اٹھارہ سے انتیس سال کے پچاس فیصد امریکی حماس کو دہشت گرد نہیں سمجھتے۔ حوالہ: یروشلم پوسٹ
رائے عامہ میں تبدیلی کی بڑی وجہ فسلطینیوں کے حق میں امریکی مسلمانوں کی منظم تحریک ہے۔ یہاں بائیکاٹ کے اثرات بھی محسوس ہو رہے ہیں۔ سان فرانسسکو میں ایک میکڈونلڈ بند ہوگیا اور سارے امریکہ میں Starbucks کافی کی بِکری میں واضح کمی آگئی ہے۔ تاہم انسانی ضمیر کی یہ سست انگڑائی اہل غزہ کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہی ہے کہ انگریزی اصطلاح میں معاملہtoo little too late کی حدود کو چھو رہا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 میں نے طب کی تعلیم پر چودہ سال خرچ کیے ہیں اور میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت حلف اٹھایا تھا کہ میں علاج کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہوں گا۔ کیا میں اپنے اس عہد کو توڑ دوں؟ میرے پاس دوا نہیں لیکن میں اپنے مریضوں کی پیشانیاں سہلا کر دلاسا تو دے سکتا ہوں۔ مرہم پٹی میں نرسوں کی مدد کر سکتا ہوں۔ معذور مریضوں کے بول و براز صاف کرسکتا ہوں۔ میں اپنے مریضوں کو تنہا نہیں چھوڑوں گا کہ یہ وعدہ خلافی ہوگی۔ یہ زندگی تو ایک دن ختم ہونی ہی ہے۔ میں گناہ گار ہوں لیکن وعدہ شکن بن کر اپنے رب سے نہیں ملوں گا کہ میں نے اسے حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھایا تھا‘‘ ۔
ڈاکٹر حمام


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023