غریب ملک کی امیر شادیاں۔ایک سماجی ناسور
امبانی کی شادی سے مرعوب نہ ہوں بلکہ عبدالرحمنؓ بن عوف کی شادی کو آئیڈیل بنائیں
محمد سلمان
چند روز قبل مکیش امبانی کے بیٹے اننت امبانی کی ویرین مرچنٹ کی بیٹی رادھیکا مرچنٹ سے شادی ہوئی۔ پوسٹ ویڈنگ تقریبات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ شادی کی ان تقریبات میں دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں چیدہ چیدہ ناموروں (celebrities) نے شرکت کی۔ ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ مطابق ان تقریبات پر تقریبا 5000 کروڑ روپیےخرچ کیے گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک لمبے عرصے سے ان تقریبات پر گفتگو جاری ہے۔ ایک فرد یا خاندان کی ذاتی خوشی، خواہشات اور معاملات سے قطع نظر اس قسم کی تقریبات اجتماعی سماجی نفسیات، سماجی توقعات و معیارات اور رویوں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ایسے میں یہ بات بے حد اہم ہوجاتی ہے کہ عوام الناس کی اس سلسلے میں مناسب و متوازن رہنمائی کی جائے اور دولت و قوت کی نمود و نمائش و اسراف پر مبنی اس قسم کی تقریبات کے اثرات بد سے سماج کو بچانے کی خصوصی کوششیں کی جائیں۔ اس تناظر میں ذیل میں چند اہم گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں:
1. شادی میں اسراف کے خاتمے کی پہل کریں:
ملک میں غربت، بے روزگاری، سماجی و معاشی نا برابری کے مسائل کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ ایسے میں جہیز، تقریبات میں بے جا اسراف، لڑکے یا لڑکی والوں کی جانب سے مختلف معاملات کو لے کر غیر عملی توقعات کے سبب معاملات مزید بگڑتے جارہے ہیں۔ پرگتی گرام ادیوگ ایوم سماج کلیان سنستھان ( PGS) کے ریسرچ کے مطابق ملک میں تقریباً 60 فیصد خاندان شادیوں کے لیے قرض لیتے ہیں۔ انڈیا لینڈس کے مطابق عام لوگوں کے ذریعے لیے جانے والے قرضوں کی فہرست میں ویڈنگ لون سب سے اوپر ہے۔ ان قرضوں پر سود کی شرح 10.5فیصد سے لے کر 37فیصد تک ہوتی ہے۔
شادی کے خرچ کے لیے لیے جانے والے سودی قرضوں کا یہ جال کس طریقے سے عام لوگوں کی زندگیوں کو برباد کر رہا ہے اس کی ایک جھلک تمل ناڈو کی ’اندومتی‘کی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دکن کرانیکل کے مطابق 2016 میں تمل ناڈو میں 58 سالہ کسان ’متھو‘ نے اپنی بیوی، بیٹے اور بیٹی کے ساتھ محض اس وجہ سے خودکشی کرلی کیونکہ وہ شادی کے لیے قرض نہیں حاصل کر پا رہے تھے۔ اس حادثے کی تفصیلات انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ تحقیقات کے مطابق سب سے پہلے بیٹی اندومتی نے یہ کہہ کر خودکشی کی کہ یہ معاشی مسئلہ میری وجہ سے پیدا ہو رہا ہے، بیٹی اور بہن کی اس دردناک موت سے متاثر ہوکر ماں باپ اور بھائی نے بھی اپنی جان دے دی۔
2۔ کوشش کریں کہ امیروں کی شادیاں سماجی دباؤ کا ذریعہ نہ بنیں:
بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی امیر و صاحب استطاعت شخص اپنی استطاعت کے مطابق بہت دھوم دھام سے شادی کی تقریبات منعقد کرے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ آخر وہ اپنی دولت ہی تو خرچ کر رہا ہے، کسی اور کو تو اسراف پر مجبور نہیں کر رہا ہے؟ یہ سادہ لوحی پر مبنی دلیل بظاہر تو معقول نظر آتی ہے لیکن سماجیات کا بہت معمولی قسم کا مطالعہ بھی یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ سماجی رویوں اور معیارات کی تشکیل میں سماج کے با اثر افراد کا رویہ کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ جب اہل ثروت ایک خاص ڈھنگ سے اپنی شادی بیاہ کے معاملات طے کرنے لگتے ہیں تو خود بخود سماج کے دیگر افراد پر بھی یہ دباؤ بننے لگتا ہے کہ وہ اپنے معاملات اسی طرح امیر افراد کے معیارات کے مطابق انجام دیں اور یہ دباؤ اکثر اوقات اتنا شدید ہوتا ہے کہ مضبوط سے مضبوط شخص بھی اپنے آپ کو اس دباؤ سے آزاد نہیں کروا پاتا۔
رپورٹوں کے مطابق بھارت میں ویڈنگ انڈسٹری کا کل تخمینہ تقریباً دس لاکھ کروڑ ہے اور ملک میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ شادیاں ہوتی ہیں۔ ان شادیوں میں اوسطًا 12.5 لاکھ روپیے خرچ ہوتے ہیں جبکہ گلاس ڈور ڈاٹا کے مطابق ہندوستانیوں کی اوسط سالانہ کمائی محض9 لاکھ 45 ہزار 4سو89 روپیے ہے۔
دا نیوز منٹ کی ایڈیٹوریل رپورٹنگ ہیڈ پوجا پرسننا کے مطابق ملک میں لوگ شادیوں پر، تعلیم کے مقابلے میں اوسطًا دوگنی دولت خرچ کرتے ہیں۔ ملک میں سب سے مہنگی شادیاں کیرالا اور دہلی میں ہوتی ہیں۔
سماجی دباؤ کس طرح سے کام کرتا ہے، اس بات کو ایک حقیقی مثال سے سمجھیے۔ مکیش امبانی نے اپنے بیٹے کی شادی میں گو کہ ہزاروں کروڑ روپیے خرچ کیے لیکن وہ ان کی کل دولت کا ایک فی صد سے بھی کم ہے اس لیے اس اسراف کا بہت زیادہ اثر ان کی معاشی صحت پر نہیں پڑے گا۔ لیکن جب اس قسم کی دولت کی نمود و نمائش والی شادیاں عام ہونے لگ جائیں تو جس کے پاس بہت کم دولت ہو وہ بھی مجبور ہو جاتا ہے کہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی شادیوں میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرے۔ فرانسس بلوک، سونالڈے دیسائی اور وجیندر راؤ نے تحقیق کی غرض سے کرناٹک کے 800 غریب گھرانوں کا سروے کیا۔ سروے کے نتائج انتہائی چونکانے والے اور تکلیف دہ ہیں۔ سروے کے مطابق کرناٹک میں ایک خاندان ایک شادی پر اپنی سالانہ آمدنی سے تقریباً چھ گنا زیادہ خرچ کرتا ہے اور یہ خرچ وہ بنیادی طور پر اپنی بہتر سماجی حیثیت (Social Status) کو ثابت کرنے یا اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے کرتا ہے۔ اب ذرا رک کر ان اعداد پر غور کیجیے کہ ایک صاحب ثروت شخص کے اسراف و نمائش کا اس کی معاشی صحت پر تو اثر نہیں پڑ رہا ہے؟ لیکن اپنی حرکتوں سے جو سماجی دباؤ وہ غریبوں اور متوسط طبقے پر شعوری یا غیر شعوری طور پر بنا رہا ہے وہ انہیں غریبی کے دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ پروفیسر پی سائی ناتھ کے مطابق محض ایک سال میں مہاراشٹر کے چھ ضلعوں میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین لاکھ سے زائد ایسے خاندانوں کی نشان دہی کی گئی ہے جہاں لڑکیوں کی شادیاں نہیں ہو پارہی ہیں، یہ معاملہ محض چھ اضلاع کا ہے اور ملک میں کل اضلاع کی تعداد 788 ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ کتنی سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ ویسے اس مسئلہ کی شدت کو سمجھنے کے لیے اس قسم کے ڈیٹا کی بھی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہے، اگر ہم اپنے اطراف لوگوں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو ہم میں سے ہر فرد کو بڑی آسانی سے ایسے دسیوں خاندان نظر آجائیں گے جو ان مسائل سے گزر رہے ہیں۔
3۔ آسان نکاح کی مثبت کہانیاں پیش کی جائیں:
آسان نکاح کے حوالے سے ہمارے درمیان بہت سی باتیں کی جاتی ہیں۔ ہمیں اسراف پر مبنی شادیوں پر تذکرے اور ان پر عوامی تنقید سے زیادہ مثبت مثالوں کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس وقت ہم آسان نکاح کے حق میں رائے عامہ کی تربیت و ہمواری کے حوالے سے چند مثبت مثالیں آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں:
حضرت عبد الرحمن بن عوف اپنے وقت کے امیر ترین لوگوں میں سے تھے۔ ایک کامیاب تاجر تھے جن کی کل دولت تحقیقات کے مطابق تقریبا 7 بلین ڈالر کے قریب تھی۔ لیکن جس وقت مدینہ میں آپ نے انصار کی ایک خاتون سے نکاح کیا اس وقت نکاح کی آسانی اور سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اس نکاح کی اطلاع قبل از نکاح خود رسول اللہ ﷺ کو بھی نہ دی اور نہ بہت سارے لوگوں کو مدعو کیا۔ اس واقعے کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ بغیر اطلاع و دعوت کے عبدالرحمان بن عوف کے نکاح کر لینے کے اس عمل پر کسی ایک بھی شخص نے حیرت یا ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ معلوم ہونے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’شادی کی ضیافت کرو، خواہ صرف ایک بکری ہو۔‘
کیا ہی خوبصورت بات ہوگی جب لوگ اننت امبانی اور اس جیسی شادیوں کو ماڈل کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اس کے تذکرے کر رہے ہیں، اس سے مرعوب ہو رہے ہیں۔ ہم ان کے سامنے اپنے قول سے بھی اور عمل سے بھی دنیا ہی میں جنت کی نوید حاصل کر لینے والے حضرت عبد الرحمان بن عوف کی شادی کا ماڈل پیش کریں، ان کے طریقہ نکاح کو موضوع گفتگو اور مرکز توجہ بنائیں۔ جب لوگ اننت امبانی کی شادی میں دنیا بھر سے آنے والے بڑے بڑے ناموں پر گفتگو کر رہے ہیں، ہم انہیں بتائیں کہ ایک صحابی کی جانب سے اپنا نکاح اپنے محبوب ترین نبی کو بلائے بغیر بھی انجام دیا گیا۔ جب لوگ شادی میں ہونے والے خرچ سے مرعوب ہو رہے ہیں ہم انہیں عالم انسانیت کی ترقی اور خیر و انصاف کی ترویج کے لیے عبدالرحمن بن عوف کے خرچ کی داستان سنائیں اور سماج کے ضمیر کو دو ارب پتیوں کی شادیوں کے مختلف ماڈلوں اور ان کے فرق کو سمجھاتے ہوئے بہتر رول ماڈل قبول کرنے کی طرف آمادہ کریں۔
بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو بالکل مختلف دور کی مثال ہے، ایک مذہبی شخص کی، صحابی رسول کی مثال ہے، آج کے دور میں لوگ خاص طور پر صاحب ثروت لوگ ایسا نہیں کرتے، اگر آپ بھی ایسا محسوس کرتے ہیں تو نیچے دی گئی فہرست اور اس کی تفصیلات پر نظر ڈالیے:
1۔ میٹا کے بانی مارک زکربرگ اور پرسکیلا چان نے 2012 میں اپنے گھر کے بیک یارڈ میں اپنی شادی کی مختصر تقریب منعقد کی، جس میں سو سے کم دوستوں اور خاندان کے افراد نے شرکت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس تقریب میں مقامی ریسٹورنٹ میں تیار کیا گیا میکسیکن کھانا، سستی اور مقامی طور پر تیار کی گئی چاکلیٹ پیسٹری (قیمت 3.5 ڈالر) پیش کی گئیں۔
2۔ دنیا کے دس امیر ترین لوگوں میں شامل وارن بفیٹ نے اپنی بیوی سوسن بفیٹ کے انتقال کے بعد 2006 میں اسٹرڈ مینک (Astrid Menks) سے شادی کی، انہوں نے اپنی بیٹی سوسی کے گھر میں گنتی کے چند افراد کی موجودگی میں شادی کی تقریب منعقد کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق شادی کے بعد ڈنر پارٹی ریجنسی کے بون فش گرل نامی ایک قریب کے سی فوڈ ریسٹورنٹ میں منعقد کی گئی۔
3۔ ایپل کے بانی اسٹیو جاب نے لارن پاویل سے 8 مارچ 1991 کو یوسمائٹ نیشنل پارک کے اہوہنی ہوٹل میں بدھ راہب کوبن چینو اوٹوگاوا کی قیادت میں ایک مختصر سی زین بدھ تقریب میں انتہائی سادگی سے شادی کی۔
4۔ عظیم پریم جی کے بیٹے رشاد پریم جی کی 2015 میں شادی ہوئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس شادی میں تقریباً 150 مہمانوں نے شرکت کی۔ یہ تقریب بنگلورو کے ایک ہوٹل میں منعقد ہوئی جہاں خاندان نے سجاوٹ اور سیلیبریشن میں سادگی کا مظاہرہ کیا۔
5۔ وپرو کے چیئرمین خود عظیم پریم جی نے 1966 میں بے حد سادگی سے شادی کی، میڈیا رپورٹوں کے مطابق عظیم پریم جی کی شادی میں صرف خاندان کے افراد اور قریبی دوست ہی شریک رہے۔
ہم نے یہاں کچھ نامور افراد کی شادیوں کی تقریبات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان تفصیلات سے استفادہ کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی کوشش کیجیے کہ ہم اپنے اطراف میں ہونے والی آسان شادیوں کو موقع بہ موقع سماج کے سامنے لاتے رہیں۔ مختلف اداروں اور تنظیموں کی جانب سے آسان اجتماعی نکاح کی تقریبات مستقل منعقد کی جاتی ہیں، ان کو زیادہ سے زیادہ عوامی توجہ اور بحث کا موضوع بنائیں۔ ہم اپنی اور اپنے گھر والوں کی شادیوں کو زیادہ سے زیادہ سادہ اور آسان بنانے کی کوشش کریں اور آسان نکاح کے حق میں عملی شہادت کا ذریعہ بنیں تاکہ اسراف سے پاک آسان شادیوں کو سوشل نورم (Social Norm) کی حیثیت حاصل ہوسکے۔
یاد رکھیں کہ صحیح ماڈل اور مضبوط قولی و عملی بیانیہ ان شاءاللہ سوشل نارموں کو تبدیل کرے گا اور جس وقت یہ ہوگا اس وقت آج جن فضول تقریبات سے مرعوبیت ہے کل ان سے بے زارگی و کراہیت پیدا ہوگی اور آسان نکاح کو لے کر پائی جانے والی اجنبیت و حقارت پسندیدگی اور سماجی معیار میں تبدیل ہوگی ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام کو اس رخ پر سوچنے اور محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024