گردابِ دل

0

سمیہ بنت عامر خان

ابتسام ان چہروں میں سے تھا جنہیں دیکھ کر دل کو اطمینان نصیب ہو۔ نرم لہجہ، عاجز طبیعت اور چہرے پر سجدوں کا نور۔ وہ والدین کا فرماں بردار بیٹا، دین کا خدمت گزار نوجوان اور ہر کسی کے دکھ درد میں شریک ایک ایسا انسان تھا جو اپنے عمل سے دین کی سچائی کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ اس کی زندگی کا ہر دن محنت، دعا اور خدمت سے جڑا تھا۔ صبح مدرسے میں طلبہ کو قرآن پڑھانا، شام کو فلاحی ادارے کے تحت غریب بچوں کی کفالت اور رات کو والدین کے قدموں میں بیٹھ کر ان کی خدمت کرنا یہ ابتسام کا معمول تھا۔ وہ کہتا تھا، ’’اگر ماں باپ راضی ہیں تو خدا بھی راضی ہے‘‘
مگر ابتسام کے دل میں ایک برسوں پرانا خواب پل رہا تھا، خانہ کعبہ کی زیارت، اور وہ بھی والدین کے ساتھ۔ جب وہ چھوٹا تھا تو اکثر اپنی ماں سے پوچھا کرتا ’’امی، ہم حج کب کریں گے؟‘‘ اور ماں ہمیشہ مسکرا کر کہتی ’’جب اللہ بلائے گا، تب جائیں گے بیٹا‘‘
ابتسام نے خواب کو صرف خواب نہیں رہنے دیا۔ وہ خاموشی سے ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم بچاتا، فضول خرچی سے پرہیز کرتا اور دل سے دعا کرتا ’’یا اللہ، مجھے اتنا وسیلہ دے کہ ماں باپ کو تیرے گھر لے آؤں‘‘ آخرکار وہ لمحہ آ گیا جب ابتسام نے ایک صبح والدین کے سامنے حج کے تین ٹکٹ رکھ دیے۔ ماں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہنے لگے، باپ نے خاموشی سے نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں اور صرف اتنا کہا ’الحمدللہ۔‘
سفرِ حج کے دوران ابتسام ایک ایک لمحے کو اپنی روح میں جذب کرتا رہا۔ مدینہ منورہ کی خاموشی، روضۂ رسول کی خوشبو اور پھر مکہ مکرمہ کی طرف بڑھتے قدم، ہر مرحلہ جیسے جنت کی سیڑھی ہو۔ اور پھر وہ لمحہ آیا جب ابتسام پہلی بار خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوا تو اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا، دل کی دھڑکن رک سی گئی۔ ’’کیا واقعی میں یہاں ہوں؟ کیا میں نے یہ منظر صرف خوابوں میں دیکھا تھا یا حقیقت بن چکا ہے؟‘‘ اس نے بے اختیار ہاتھ اٹھائے اور لبوں سے نکلا،
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ
اس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ماں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، باپ نے آہستہ سے کہا، ’’بیٹا، مجھے امید ہے کہ ضرور پروردگار عالم تیرا حج قبول فرما لے گا۔‘‘ عرفات کے دن ابتسام ایک ٹیلے پر تنہا بیٹھا تھا۔ ہزاروں لوگ دعا میں مصروف تھے مگر وہ اندر سے عجیب بے چینی میں تھا۔ ہاتھ اٹھائے، دل کانپ رہا تھا اور آنکھیں مسلسل آسمان کی طرف ’’یا اللہ! تو نے مجھے اتنا کچھ عطا کیا، میں شکر گزار ہوں۔ اگر تو نے یہ آخری حج بنایا تو بس اتنی دعا ہے کہ میرے والدین ہمیشہ خوش رہیں‘‘ اس لمحے اسے محسوس ہوا جیسے اس کا دل کسی گرداب میں پھنس گیا ہو۔ محبت، شکر، خوف اور فنا، سب ایک ساتھ اس کے وجود میں گونجنے لگے۔ وہ حج کے ظاہری پہلو سے نکل کر باطنی دنیا میں جا چکا تھا۔
حج سے واپسی پر ہر کوئی ابتسام کو ’حاجی صاحب‘ کہہ کر بلانے لگا۔ مگر وہ ہمیشہ کہتا کہ ’’حج تو ایک عبادت ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے والدین کو ساتھ لے جانے کی توفیق عطا کی۔ آپ لوگ بس یہی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس عبادت کو قبول فرمالے‘‘
چند مہینے بعد ایک بین الاقوامی اسلامی ادارے نے ابتسام کو دعوت دی، باہر کے ملک میں دین کی خدمت کے بڑے منصوبے پر کام کرنے کے لیے۔ تنخواہ کئی گنا زیادہ، رہائش اور شہرت۔ بظاہر ہر چیز بہترین تھی، مگر ابتسام کا دل پھر سے اسی گرداب میں آ گیا۔
ماں نے کہا ’بیٹا، یہ موقع بہت بڑا ہے، اللہ کا انعام ہے‘ باپ خاموش رہا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک انجان اداسی تھی۔
ابتسام کئی راتیں جاگتا رہا۔ کبھی والدین کے چہرے دیکھتا، کبھی مدرسے کے معصوم بچوں کی آنکھوں کو یاد کرتا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا فیصلہ کرے۔
وہ مسلسل استخارہ کرتا رہا اور تہجد کے وقت سجدے میں گر کر روتا رہتا اور اللہ سے کہتاکہ ’یا رب، جو تیری رضا ہو، وہی راستہ دکھا۔‘
ایک صبح اس نے اپنے کمرے میں بیٹھ کر وہ ای میل کھولی، جس کے جواب نے سب کچھ طے کرنا تھا۔ مگر اس نے صرف ایک سطر لکھی ’’میں نے حج سے سیکھا ہے کہ اصل قربانی اپنی خواہشات کی ہے۔ میں وہیں رہنا چاہتا ہوں جہاں میری اصل ذمہ داریاں ہیں، میرے والدین، میرے طالب علم اور میرا وطن‘‘
ماں نے جب خط پڑھا تو آنکھوں میں چمک آ گئی۔ باپ نے ابتسام کے سر پر ہاتھ رکھا اور آہستہ سے کہا ’’بیٹا، تو نے دنیا نہیں، اللہ کا راستہ چنا ہے‘‘
ابتسام نے مدرسے کی توسیع شروع کی۔ ایک چھوٹے سے حجرے سے نکل کر اب وہ ادارہ شہر کے غریب بچوں کے لیے امید کی کرن بن چکا تھا۔ وہ اب بھی روزانہ طلبہ کو پڑھاتا، خود وضو کروا کر ماں کے پاؤں دباتا اور باپ کے ساتھ مغرب کی نماز جماعت سے ادا کرتا۔ ایک دن ایک طالبعلم نے اس سے پوچھا ’’استاد جی، آپ کو کبھی افسوس نہیں ہوتا کہ آپ باہر نہیں گئے؟‘‘
ابتسام مسکرایا اور جواب دیا:
’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور اُس لمحے کو بیچ کر کیا پاؤں گا؟ وہاں جو روح ملی وہ یہاں خدمت کر کے محفوظ رکھی ہے۔‘‘
آج ابتسام کے مدرسے کے باہر ایک بورڈ لگا ہے:
’’گردابِ دل سے نکلنے کا راستہ: دعا، خدمت اور والدین کی رضا ہے۔‘‘
اللہ کا بندہ ابتسام
اور ابتسام آج بھی جب رات کو تنہا ہوتا ہے، خانہ کعبہ کی تصویر کو دیکھ کر وہی لمحہ یاد کرتا ہے جب وہ پہلی بار کعبے کے سامنے کھڑا تھا اور دل کی دنیا بدل گئی تھی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025