گئو رکشکوں کے حملے ،ہندتو ایجنڈے کے پھیلاؤ کی ایک کڑی

نفرت و ڈر کا ماحول پیدا کر کے بھارتی حکم راں سیاسی زوال روکنے کے فراق میں

فضیل احمد، لکھنؤ

مسلمانوں کو چیلنج بھرے حالات میں صبر و سکون کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت
قیام امن اور ملک کی بھلائی کے لیے برادران وطن کو ’بانٹو اور راج کرو‘ کی نفرتی سیاست سے ہوشیار رہنا ہوگا
ایک بہتر سال کے بزرگ حاجی اشرف علی سید حسین کے ساتھ اٹھائیس اگست کو مہاراشٹر کی ٹرین میں سفر کے دوران جو ہوا اس کا ڈر آج ہر بھارتی مسلمان کو ستاتا ہے۔ سید حسین کلیان میں اپنی بیٹی سے ملنے جا رہے تھے جب ٹرین میں نوجوانوں کے ایک ہجوم نے انہیں گالیوں سے نوازا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ بہتر سال کے بزرگ ہی کیا، اب اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی محفوظ نہیں رہ گئے ہیں۔ اتر پردیش کے ضلع امروہہ میں سات سال کے ایک مسلم بچے کو ٹفن میں مبینہ طور پر نان ویج کھانا لانے پر پرنسپل نے اسکول سے نکال دیا۔ بچے کو صبح سے دوپہر تک ایک کمرے میں یرغمال بناکر رکھا گیا اور دوپہر میں اس کی ماں کو اس کی اطلاع دی گئی۔ بچے کی ماں نے جب پرنسپل سے احتجاج کیا تو پرنسپل وائرل ویڈیو میں دیدہ دلیری کے ساتھ یہ کہتا ہوا سنائی دیتا ہے کہ ہمیں ایسے بچوں کو نہیں پڑھانا ہے جو ہمارے مندروں کو توڑیں گے۔ پرنسپل نے یہ بھی الزام لگایا کہ بچہ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ سب کو نان ویج کھلاکر مسلمان بنائے گا۔ سات سال کے مسلم بچہ کو ایک اسکول میں یہ سننے کو مل رہا ہے، جس کی ویڈیو وائرل ہے۔ امروہہ کے ایس ڈی ایم نے بیسک شکشا ادھیکاری (بی ایس اے) اور انسپکٹر آف اسکول کو معاملہ کی انکوائری کا حکم دیا ہے ۔
نیویارک ٹائمز نے سات ستمبر کو اپنی ایک رپورٹ میں بھارت میں مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے حملوں اور خاص طور سے گئو رکھشکوں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’’گئو رکھشکوں نے بھارت کے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنا رکھا ہے‘‘ اخبار کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے انتخابات میں امید کے برعکس کم کامیابی کے باوجود ان کے ہندو فرسٹ ایجنڈے میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں کمی نہیں آئی ہے جیسا کہ کچھ لوگوں نے امید لگائی تھی۔
لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات 2024 میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور موجودہ مخلوط حکومت میں کئی غیر بی جے پی پارٹیاں شامل ہیں، اس کے باوجود فرقہ وارانہ منافرت کا کھیل اسی شدو مد کے ساتھ جاری ہے، اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟
لاقانونیت اور بھگوا سیاست کا گٹھ جوڑ
کہیں ایسا تو نہیں کہ گئو رکھشک یا اس طرح کی دیگر تنظیمیں جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں وہ اس کی عادی ہوتی جارہی ہیں اور امن وقانون کے لیے ایک چیلنج بن گئی ہیں؟ جب کسی فرد یا تنظیم کو لا قانونیت کی عادت پڑ جائے گی تو پھر جگہ جگہ ایسے چیلنجز ابھریں گے۔ یا پھر ایسا ہے کہ بھگوا سیاست کے پیروکار در پردہ اور کھلے عام دونوں طریقوں سے ان کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں تاکہ نفرت و ڈر کا ماحول بناکر عوام کو ٹھگا جاسکے اور ملک کے اقتدار پر ان کا قبضہ باقی رہے؟
یہ واضح ہے کہ ملک میں قانون کے نفاذ اور مذہبی جنون و منافرت کے درمیان ایک خطرناک گٹھ جوڑ چل رہا ہے، جس پر امن پسند شہریوں اور جمہوریت و آئین کے خیرخواہوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ہریانہ میں یکے بعد دیگرے دو واقعات ہوئے۔ پہلے چرخی دادری میں بس اڈے پر چھبیس سالہ مزدور صابر ملک کو مار ڈالا گیا، پھر فرید آباد میں بارہویں جماعت کے ایک طالب علم آرین مشرا کو جانوروں کی اسمگلنگ کے شبہ میں گئو رکھشکوں کے گروہ نے مسلمان سمجھ کر گولی مار کر قتل کردیا۔ گئو رکھشک کتنے بے خوف اور خون کے پیاسے ہیں کہ انہوں نے تقریباً تیس کلومیٹر تک آرین کی کار کا پیچھا کیا اور پلول کے گدھپوری ٹول کے قریب اسے گولی مار دی۔
معاملہ یہ ہے کہ عدالتوں کی مداخلت کے باوجود قانون کے کمزور نفاذ اور گئو ر کھشکوں کو حاصل سیاسی سرپرستی کے باعث قانونی کارروائی خانہ پری کی طرح کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان گروہوں کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ وہ نشانہ بنا کر مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں اور بعض اوقات اس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعات ایک وسیع منظرنامہ کا حصہ ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے شدت پسند اور کٹر ہندتو نواز طاقتوں کے ابھار نے گئو رکھشکوں کے اندر ماورائے عدالت سزا دینے کا حوصلہ پیدا کیا ہے۔ جب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھا ہوا ایک شخص یہ کہے کہ ’’بٹوگے تو کٹوگے‘‘ اور مسلمانوں سے نفرت پر لوگوں کو ابھارے تو پھر کیا باقی رہ جاتا ہے!
گئو رکھشک گروہ قانون و عدالت کے شکنجے سے آزاد و بے پروا ہوکر اپنی کارروائی کرتے ہیں اور اس کے کچھ ممبر گزشتہ چند برسوں میں اپنی پسند کی سیاسی پارٹیوں میں بھی مقام بنا چکے ہیں۔ انہیں عدالت و قانونی ایجنسیوں سے بچنا آتا ہے اور انہیں بچانے والے لیڈر بھی موجود ہیں۔ اس کی وجہ سے جمہوری اصولوں اور قانون کی حکم رانی پر سوالیہ نشان لگنا اور سماجی تانے بانے کا بکھرنا لازمی ہے ۔
نفرت کے ایجنڈے کی حوصلہ افزائی
نامور قانون داں اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے ہریانہ میں گئو رکھشکوں کے ہاتھوں آرین مشرا کے قتل پر کہا کہ یہ نفرت کے ایجنڈے کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ اور وزیر اعظم نریندر مودی کا تذکرہ کرتے ہوئے ایکس پر اپنے پوسٹ میں لکھا کہ ’ہمارے لیے شرم کی بات ہے۔ بارہویں جماعت کے طالب علم آرین کو ہریانہ میں گئو رکھشکوں نے ’گائے ٹرانسپورٹر‘ سمجھ کر گولی مار کر ہلاک کر دیا! وجہ؟ نفرت کے ایجنڈے کی حوصلہ افزائی۔ کیا ہمارے وزیر اعظم، نائب صدر اور وزیر داخلہ زبان کھولیں گے‘‘
نوجوانوں میں بے روزگاری اور بے مقصدیت
ہریانہ میں ایک طرف گئو رکھشک بے گناہوں کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف ریاست کی ایک دوسری تصویر بھی حال ہی میں سامنے آئی ہے۔ یہاں ایک سرکاری محکمہ میں ٹھیکے پر صفائی ملازمین کی بھرتی کا اشتہار نکلا، جس کے لیے چھیالیس ہزار سے زائد گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ حالانکہ اس طرح کا واقعہ صرف ہریانہ میں ہی پیش نہیں آیا بلکہ ملک کی کئی ریاستوں سے اس طرح کی خبریں وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شمالی اور مغربی ہند کی زیادہ تر ریاستوں میں بے روزگاری اور غیرمعیاری تعلیم عام ہوچکی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انہیں ریاستوں میں مذہبی منافرت اور نفرت انگیز نعروں کا بھی بول بالا ہے اور بھگوا سیاست کے علم بردار عام لوگوں کو ورغلانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
ہریانہ میں زیادہ تر لوگوں کا رجحان کھیتی باڑی کی طرف یا پھر سرکاری ملازمت کی طرف ہوتا ہے۔چونکہ اب کھیتی باڑی بہت سے لوگوں کے لیے منفعت بخش نہیں رہ گئے ہیں اس لیے سرکاری ملازمت ایک بہتر متبادل ہے۔ سرکاری ملازمتیں نکل نہیں رہی ہیں، ایسی حالت میں خاص طور سے بے روزگار نوجوانوں کو ورغلانا آسان ہے، جس کے لیے آن لائن اور آف لائن مختلف حربوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ نفرت کے کاروبار کے پنپنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔
قانون و سزا کا ڈر نہیں کے برابر
مسلمانوں پر حملوں کے پے در پے واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ملک میں کس طرح عدم تحفظ کا ماحول پنپ رہا ہے، حالانکہ بھارت عالمی سطح پر خود کو ایک مضبوط جمہوریت کے طور پر منوانا کرنا چاہتا ہے جہاں سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ وطن عزیز کے خیرخواہوں کو اس پہلو سے فکر کرنی چاہیے کہ کہیں ہم ایک اکثریت نواز جمہوریت تو نہیں بنتے جارہے ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ہر سال مذہبی تشدد کے سیکڑوں واقعات بشمول لنچنگ، مار پیٹ اور تشدد کی وارداتیں پیش آتی ہیں۔ اس سلسلہ میں حقوق انسانی اور امن کے کارکن مسٹر ہرش مندر نے کہا کہ حملے اتنے عام ہیں کہ وہ صدمہ پہنچانے کی اپنی صلاحیت تقریباً کھو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو پہلے نارمل کیا جاتا ہے، پھر اسے درست اور جائز بنایا جاتا ہے اور پھر اس پر سینہ چوڑا کیا جاتا ہے یعنی ان کے نزدیک یہ سب کرنا نہ صرف نارمل بات ہے بلکہ یہ بہت اچھا کام ہے۔
تشدد اور حملے کی ویڈیو بنانا اور سوشل میڈیا پر شیئر کرنا یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ خود حملہ آوروں کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان کے خلاف ہوگی بھی تو ہلکی قانونی کارروائی ہوگی اور وہ سخت سزا سے تو بہرحال بچ ہی جائیں گے۔
مسلمانوں کا ڈر دکھاکر فرقہ پرستانہ ایجنڈے کی تکمیل
سینئر صحافی گریجیش وشسٹھ نے اپنے یوٹیوب چینل ’ناکنگ نیوز‘ پر ایک ایپی سوڈ میں کہا کہ بی جے پی فرقہ پرستی کو زیادہ ہوا دے رہی ہے کیونکہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں رام مندر نے اسے وہ فائدہ نہیں پہنچایا جس کی امید اسے تھی۔ ان کے بقول ’بلڈوزر‘ بھی اسی فرقہ پرستانہ ایجنڈے اور سازش کا حصہ ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے روایتی لہجے میں ایک جگہ کہا کہ بٹوگے تو کٹوگے، یعنی لوگ آپ کو مارنے اور کاٹنے کی تیاری میں بیٹھے ہوئے ہیں، ایک رہو اور ہمارے ساتھ آؤ، ہم تمہارے رکھشک یعنی محافظ ہیں اور ہم ان کو ’’ٹھیک‘‘ کرسکتے ہیں۔ ان کا اشارہ مسلمانوں کی طرف تھا۔ گریجیش وشسٹھ نے کہاکہ یہ اکثریتی طبقہ کے لوگوں میں ایک خوف اور فوبیا پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ ایک ڈر پیدا کرکے پولرائزیشن کی کوشش ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا ایک ایسا طوطا ہے جس میں ایک خاص طرح کی سیاست بستی ہے۔
گریجیش وشسٹھ کے بقول ڈراؤ، دباؤ، حملے کرو اور وہاٹس ایپ کے ذریعہ افواہیں پھیلاؤ، ہو رہا ہے۔ اس طرح دوسری طرف سے ایک ری ایکشن ہوگا ۔جیسے ہی کوئی ایک پتھر پھینکے گا یعنی رد عمل ظاہر کرے گا تو اس نیریٹیو یا بیانیہ کو تقویت ملے گی کہ دیکھو مارنے اور کاٹنے کی تیاری میں لوگ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی آگاہ کیا کہ فرقہ پرست سازشی عناصر یہی چاہتے ہیں کہ آپ بھڑکو اور ری ایکشن دو۔ مسلمانوں کو اشتعال سے بچنا ہوگا اور قانون کا راستہ اپناتے ہوئے پر امن رہ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔
انہوں نے ہندوؤں کو بھی آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ لوگ جتنا زیادہ اس فرقہ وارانہ نفرت اور تقسیم کی سیاست کے خلاف رہیں گے وہ اتنے ہی زیادہ فائدے میں رہیں گے اور اگر آپس میں بٹوگے تو ٹھگے جاؤ گے۔ لہٰذا بانٹو اور راج کرو کی سیاست کی جال میں نہ پھنسو اور ان سے خبردار رہو۔

 

***

 نیویارک ٹائمز نے سات ستمبر کو اپنی ایک رپورٹ میںبھارت میں مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے حملوں اور خاص طور سے گئو رکھشکوں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’’گئو رکھشکوں نے بھارت کے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنا رکھا ہے


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024