غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں؟

دنیا اسی کی قدر کرتی ہے جو اس کے لیے مفید ہو

ڈاکٹر شکیل احمد خان
پرنسپال، آرٹس کالج، جالنہ
8308219804

محمود کے دربار میں ایاز کو جو مقام حاصل ہوا وہ پوری قوم کے لیے درس نصیحت
گیاریں صدی کی ایک دوپہر سلطان محمود غزنوی جنگل میں شکار کے لیے پڑاو ڈالا ہوا ہے۔دور سے ایک قافلہ جاتا ہوا نظر آتا ہے۔ سلطان ایک امیر سے کہتا ہے کہ وہ جائے اور معلوم کر کے آئے کہ قافلہ کہاں سے آرہا ہے۔امیر واپس آکر بتاتا ہے کہ وہ فلاں بستی سے آرہا ہے۔سلطان پوچھتا ہے کہ انہیں جانا کہاں ہے۔ امیر خاموش ہے کیونکہ اس نے یہ بات تو معلوم نہیں کی تھی، سلطان نے دوسرے امیر کو بلوایا اور قافلہ کی منزل دریافت کرنے بھیجا۔وہ آکر کہتا ہے کہ قافلہ فلاں بستی جا رہا ہے۔سلطان پوچھتا ہے کہ ان کے پاس حفاظت کا کیا انتظام ہے۔امیر خاموش ہے کیونکہ اس نے یہ بات تو معلوم ہی نہیں کی تھی۔اِس طرح سلطان الگ الگ اپنے سبھی امیروں کو قافلے والوں کے پاس بھجواتا ہے اور وہ سلطان نے پوچھے ہوئے صرف ایک ایک سوال کا جواب لے آتے ہیں۔اب سلطان اپنے ایک چہیتے مصاحب کی جانب اشارہ کرتا ہے جو ذرا دوری پر دیگر انتظامات میں مشغول ہے، اور اسے محبت سے دیکھتے ہوئے امیروں سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ تم سب معترض رہا کرتے تھے کہ میں نے اس معمولی غلام کو تمہارے برابر درجہ کیوں دے رکھا ہے۔میں نے تم سے پوشیدہ رکھ کر سب سے پہلے اسے قافلے والوں کے پاس بھجوایا تھا۔اور جن بیس سوالوں کے جواب تم الگ الگ بیس پھیروں میں لائے ہو وہ یہ بندہ صرف ایک پھیرے میں لے آیا۔اور اہم بات یہ ہے کہ میں نے اسے بھی صرف یہ دریافت کرنے بھجوایا تھا کہ قافلہ کہاں سے آرہا ہے۔شاید تم سمجھ چکے ہوں گے کہ اسے یہ عزت و توقیر اور اعلیٰ مقام کیسے حاصل ہو سکا۔یہ شخص میرے لیے بہت ضروری بن چکا ہے۔یہ ہو تو میرا کوئی کام بند نہیں ہوتا۔امیروں نے شرمندگی سے اپنے سر جھکا لیے۔معمولی زر خرید غلام سے سلطان کے چہیتے امیر و گورنر بننے والے اِس شخص کا پورا نام تھا ابو النجم ایاز۔ وہی ایاز جسے علامہ اقبال نے اپنے اس کلام سے امر بنا دیا ہے کہ
’’ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز‘‘
یہ ہماری تاریخ، ہمارے کل کا ایک ایسا باب ہے جو ہمارے آج کو بھی روشن کر سکتا ہے۔تاریخ ایک مدرسہ ہوتی ہے۔ تاریخ صرف فخر یا ماتم کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ سبق حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ مذکورہ واقعے میں جو سبق اور بصیرت پوشیدہ ہے،آج کے حالات میں ملت کو اُس کی اہمیت سمجھنا نہایت ضروری ہے۔اور وہ سبق یہ ہے کہ کامیابی اور ترقی کے لیے آپ کو ’’ضرورت‘‘ بننا ہوگا۔آپ جہاں بھی ہوں اپنے دائرہ کار میں سخت محنت، قابلیت اور دیانتداری سے خود کو اتنا ناگزیر اور اتنا ضروری بنانا ہوگا کہ متعلقہ افراد کو آپ کے بغیر اپنے کام نہایت دقت طلب اور وقت طلب محسوس ہوں۔ اگر آپ ایاز کی طرح سخت محنت، قابلیت اور دیانتداری سے کسی شخص، کسی دفتر، کسی کارپوریٹ ہاوس یا ملک کے لیے اپنے آپ کو مفید اور دوسروں سے زیادہ کارآمد ثابت کر سکیں تو پھر آپ کا پس منظر، نچلا یا متوسط طبقہ، مذہب، جنس، رنگ اور قد و قامت آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ کیونکہ ان بنیادوں پر کیا جانے والا تعصب اور فرق صرف سیاسی اور کھوکھلا ہوتا ہے، جبکہ اپنا مفاد، اپنی سہولت ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے۔اپنی منفعت کے لیے بیشتر اوقات اِن چیزوں کو نظر انداز کر کے مفید فرد کو اپنے ساتھ شامل کر لیا جاتا ہے، اُس کے لیے گنجائش نکالی جاتی ہے یا اُسے ترقی دی جاتی ہے۔یہ کوئی کتابی باتیں نہیں ہیں۔ عہد قدیم سے عصر حاضر تک اِس کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔قطب الدین ایبک، جس نے دہلی سلطنت کی بنیاد ڈالی، ایک غلام تھا جو محمد غوری کو فروخت کیا گیا۔ اپنی ذہانت اور حسنِ اخلاق سے سلطان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی اور کئی اعلیٰ حسب و نسب والوں کی موجودگی کے باوجود اعلی مقام حاصل کیا۔شمس الدین التمش بھی ایک غلام تھا جس کی ہونہاری اور افادیت کے باعث قطب الدین ایبک نے اُسے اپنا داماد بنالیا اور وہ دہلی سلطنت کا تیسرا بادشاہ بنا۔ غیاث الدین بلبن بھی بطور غلام ہندوستان لایا گیا تھا۔ اس کی بہادری، تدبر اور انصاف پسندی کو پہچان کر سلطان التمش نے اسے خرید لیا اور وہ خاندانِ غلامان کا آٹھواں بادشاہ بنا۔کیٹ کول امریکہ کی اہم ایکویٹی فرم ’’فوکس برانڈ‘‘ کی گروپ پریسیڈنٹ ہیں۔یہ فرم پوری دنیا میں لگ بھگ پانچ ہزار اسٹورس کی مختار ہے۔اور اُس کا سالانہ ٹرن اوور ایک بلین ہے۔26 سال کی عمر میں کیٹ ’’ہوٹرس‘‘ نامی گروپ آف ریسٹورنٹ کی صدر بنائی گئی، جس کے 33 ممالک میں 500 ریسٹورنٹس ہیں۔ کیٹ کول نے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا۔ان کے والد ایک عادی شرابی تھے۔والدہ نے تنگ آکر اس وقت طلاق حاصل کرلی تھی جب کیٹ صرف نو سال کی تھی۔جلد ہی اس نے مشہور ریسٹورنٹ ’’ہوٹرس‘‘ میں ویٹریس کے طور پر کام شروع کیا۔ ایک دن ریسٹورنٹ کا باورچی اچانک کام چھوڑ کر چلا گیا۔ مشکل وقت میں کیٹ فوراً کچن پہنچی اور ڈشیں تیار کرنے میں مینیجر کی مدد کرنے لگی۔جلد ہی وہ کچن کے عملے کی رہنمائی اور بیک آفس کاموں میں بھی مدد کرنے لگی۔پھر ایک دن بار ٹینڈر اچانک جلدی کام چھوڑ کر چلا گیا۔ کیٹ نے اس دن وہ کام بھی سنبھال لیا۔پھر ایک دن مینیجر کو اچانک کہیں جانا پڑااور کیٹ نے پوری ذمہ داری سے پوری ایک شفٹ کو چلانے کا تجربہ بھی حاصل کر لیا۔اِس طرح کیٹ نے اپنا کام کرتے ہوئے ریسٹورنٹ سے متعلق دیگر تمام کاموں کو بھی انجام دیا۔ اُس کی موجودگی میں ریسٹورنٹ کا کوئی کام بند نہیں ہوتا۔ اس کے اسی جذبہ تعاون نے اس کے لیے ترقی کا زینہ کھول دیا۔’ ہوٹرس‘ نے آسٹریلیا میں اپنی برانچ کھولنے کے لیے قابل فرد کی تلاش شروع کی تو کیٹ کے مینیجر نے اُسے بہترین ملازم قرار دیتے ہوئے اس کا نام تجویز کیا۔ پھر فوکس برانڈ نے ہوٹرس کو خرید لیا اور وہ فوکس برانڈ فرم کی ہی گروپ پریسیڈنٹ بن گئی۔انتہائی غریب اور معمولی لڑکی نے حسنِ کارکرد گی اور اضافی کام کے ذریعہ خود کو ریسٹورنٹ کے لیے ضروری اور مفید ثابت کیا اور زمین سے آسمان پر پہنچ گئی۔ دنیا میں سرخرو و سرفراز ہونا ہے تو دنیا کا مزاج سمجھنا ہوگا۔ بڑی بڑی باتوں کے باوجود اس دنیا کا مزاج سرمایہ دارانہ اور تاجرانہ ہے۔یہاں ہر مذہب، ہر قوم اور ہر ملک کی بڑی آبادی کو وہی پیارا، اہم اور قابلِ احترام محسوس ہوتا ہے جو کسی نہ کسی صورت مین اُن کے لیے منفعت بخش ہو۔یہ بات اخلاقی طور پر درست ہے یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن یہ بہرحال ایک تلخ دنیاوی حقیقت ہے۔ باغبان بھی صرف انہی پودوں کی دیکھ بھال کرتا ہے، انہی کو کھاد پانی ڈالتا ہے جو پھل اور پھول دیتے ہیں۔بے مصرف گھانس پھوس کو بے دردی سے کاٹ چھانٹ کر جلا دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کے ایک حد کے بعد ماں باپ بھی نکھٹو ،کاہل اور بے کار اولاد کو نا پسند کرنے لگتے ہیں۔ ویسے تو یہ سبق ہر کسی کے لیے ہے لیکن موجودہ بین الاقوامی و ملکی حالات میں ہمیں اسے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔اپنوں کی نادانیوں اور غیروں کی کارستانیوں کے باعث ہم ایک ایسی گلی میں پہنچ گئے ہیں جہاں ہمارے لیے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ ان دروازوں کو صرف غیر معمولی ذہانت ،اضافی کام اور حسن کارکردگی سے ہی کھولا جا سکتا ہے۔ان حالات میں بھی اگر آپ قابل اور مفید ہیں تو ملک کے صدر بن سکتے ہیں، ملک کے سورج مشن کے سربراہ ہو سکتے ہیں، ملک کے سب سے کم عمر آئی اے ایس آفیسر بن سکتے ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے لیے آپ کو چار گنا زیادہ محنت کرنی ہوگی، چار گنا زیادہ قابلیت پیدا کرنی ہوگی۔آپ یکساں قابلیت کے ساتھ سامنے آئیں گے تو ظاہر ہے کہ متعلقہ افسر یا مینیجر اپنے ہم مذہب، ہم فرقہ یا ہم ذات کو ہی منتخب کرے گا۔ اگر ایاز بھی صرف دیگر امیروں جتنا قابل ہوتا تو کبھی غلام سے وزیر نہ بن پاتا۔ آپ لاکھ دستوری حقوق کا واسطہ دیجیے، لاکھ امتیازی سلوک کا رونا رویے لیکن ’’کون سنتا ہے فغانِ درویش‘‘ لہٰذا زمینی حقیقت کو سمجھیں اور اس کے لحاظ سے خود کو تیار کریں۔ملک میں آبادی زیادہ ہے اور مواقع کم اور وہ صرف ’’بہترین‘‘ کو ہی میسر آسکتے ہیں۔ چارلس ڈاروِن کا نظریہ Servival of the Fittest بھی یہی بتاتا ہے کہ صرف قوی اور قابل کو ہی بقا حاصل ہوتی ہے۔کمزور اور نا اہل جاندار جو ماحول سے توافق پیدا نہیں کر پاتے، حالات کے لحاظ سے خود کوڈھال نہیں سکتے، وہ صفحہِ ہستی سے غائب ہو جاتے ہیں۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ There is no such thing as a free lunch یعنی یہاں مفت میں کوئی چیز نہیں ملتی۔ہر چیز کی قیمت ہے۔ملازمت، موقع، عزت، وقار، اقتدار ہر چیز کی قیمت ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ آج کے حالات میں آپ کو چار گنا زیادہ قیمت پر ہی کچھ حاصل ہوگا۔ سوامی وویکانند کا بھی ماننا تھا کہ ’’دو اور لو یہ فطرت کا قانون ہے۔ہر وقت ہاتھ پھیلا کر لیتے رہنا فطرت کا قانون نہیں ہے۔کوئی بھی فرد، قوم یا ملک جو اس قانون کی پابندی نہیں کرتا، وہ زندگی میں کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا ‘‘۔آج من حیث القوم ہماری بے وقعتی کی ایک وجہ ہمارا بے فیض ہونا بھی ہے۔ سوچیے کہ گزشتہ کئی صدیوں میں ہم انسانیت کے لیے کتنے فائدہ مند ثابت ہوئے؟ ہم نے دنیا کو کیا دیا؟ بقول زیب النساء ’’۔۔۔ ہماری بنیادی ذمہ داری تھی کہ ہم تلاش و جستجو کے جذبہ کے ساتھ مسلسل آگے بڑھتے، نئے نئے تجربات کرتے اور نئی چیزوں کو دریافت کر کے دنیا کے سامنے لاتے۔۔۔ہم صرف چیزوں کو استعمال کرنے والے بن گئے۔ چیزوں کو بنانے والے نہ بن سکے۔۔۔ اسلام نے انسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے مختلف میدانوں میں کوشش کرنے کی جو تعلیم دی تھی اُسے ہم نے یکسر بھلا دیا‘‘۔ غزہ کے المیہ نے پھر سے واضح کر دیا ہے کہ دنیا سے
آنسو پونچھنے اور مدد کی توقع نادانی ہے۔دنیا تاجر ہے۔ بغیر مفاد کے اور کچھ لیے بغیر کچھ نہیں دے گی۔ لیکن اسے دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہو تو سہی۔ ہمارے مخالفین کے پاس دنیا کو دینے کے لیے موبائل فون ہے، کمپیوٹر ہے، کیمرا ہے، ایٹمی ہتھیار ہیں، ادویات ہیں، گوگل ہے، فیس بک ہے، واٹس ایپ ہے۔ان چیزوں کے بغیر دنیا کا کام ٹھپ ہے۔ لیکن ہمارے بغیر کسی کا کونسا کام رکا ہوا ہے؟ کس کا کونسا کام بند ہے؟ اسی لیے اُن کا کھلا ظلم و ستم و سفید جھوٹ بھی دنیا بڑی آسانی سے ہضم کر لیتی ہے۔ حال ہی میں مشہور امریکی اداکارہ انجلینا جولی نے انسانی حقوق اور دنیا کے حوالے سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’میں نے سیکھا کہ دنیا اس طریقے سے نہیں چلتی ہے، بلکہ ایک اور طریقے سے چلتی ہے۔ہم کچھ لوگوں کو یہ حقوق اور انصاف دیں گے اور شاید ہم کچھ دوسرے لوگوں کو اس سے محروم رکھیں گے‘‘۔ اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ہمیں انفرادی اور قومی سطح پر غیر معمولی قابل اور بے حد مفید بننا ہوگا۔ حدیث نبوی ہے کہ لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ قابلیت، افادیت اور ’ضرورت‘ بن جانے سے انفرادی سطح پر ہمیں روزگار، سہولتیں اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں گے اور قومی سطح پر احترام، استحکام اور قوت میسر ہوگی ورنہ بصورتِ دیگر ہماری خستہ حالی، ہمارے استحصال اور قتل و غارت گری پر دنیا نہ توجہ دے گی نہ ہائے ہائے کرے گی اور نہ زار زار روئے گی۔ بلکہ وہ تو صرف یہ شعر گنگناتے ہوئے گزر جائے گی کہ
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
رویئے زار زار کیا ، کیجیے ہائے ہائے کیوں
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 آپ جہاں بھی ہوں اپنے دائرہ کار میں سخت محنت، قابلیت اور دیانتداری سے خود کو اتنا ناگزیر اور اتنا ضروری بنانا ہوگا کہ متعلقہ افراد کو آپ کے بغیر اپنے کام نہایت دقت طلب اور وقت طلب محسوس ہوں۔ اگر آپ ایاز کی طرح سخت محنت، قابلیت اور دیانتداری سے کسی شخص، کسی دفتر، کسی کارپوریٹ ہاوس یا ملک کے لیے اپنے آپ کو مفید اور دوسروں سے زیادہ کارآمد ثابت کر سکیں تو پھر آپ کا پس منظر، نچلا یا متوسط طبقہ، مذہب، جنس، رنگ اور قد و قامت آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024