غلبۂ دین کی بشارتیںجو اہل ایمان کا حوصلہ بڑھاتی ہیں

آپ دنیا میں ایک تبدیلی دیکھ رہے ہیں کہ ساری دنیا ایک گاؤں بن گئی ہے تو یہ اسی نورِ توحید کے اتمام کی تیاری ہے جو مشیت خداوندی کے ذریعے کی جارہی ہے۔

ڈاکٹر تنویر احمد خاں

اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو مبعوث کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ لوگوں کو بشارت و خوش خبری دینے والے اور بُرے انجام سے ڈرانے والے ہوتے تھے۔
رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ۔ ( سورۃالنسآء:۱۶۵)’’یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بناکر بھیجے گئے‘‘۔
پھر اُن کے نزدیک بشارت کا واضح تصور یہ ہوتا تھا کہ انسان آخرت میں جہنم کی آگ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیاجائے ۔اِسی خوش خبری کو ہی قرآن حکیم نے بڑی کامیابی کہا ہے۔مگر اسلام محض آخرت ہی کی کامرانی کی بشارت نہیں دیتا بلکہ اس دنیا میں بھی کامیابی کا مژدہ سناتا ہے، اُس نے اپنے فرماں برداروں کو یہ دعا سکھائی ہے :
رَبَّنَآ اٰ تِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
(البقرہ: ۲۰۱)’’اے ہمارے پروردگار ہم کو دنیا میں بھی بھلائی دے آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا‘‘۔
اس سے ظاہر ہوا کہ انبیاء ورسل جس مقصد کے لیے بھیجے گئے، اس کا دوسرا حصہ دنیا میں غلبۂ دین کی بشارت ہے ،جس کا وعدہ اُن سے اور اُن پر ایمان لانے والوں سے کیاگیا ہے۔
وَأُخْرَیٰ تُحِبُّونَہَا نَصْرٌ مِّنَ اللَّہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔
(سورہ الصف:۱۳)’’اوردوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمھیں دے گا اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی حاصل ہوجانے والی فتح ۔ ائے نبی اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو‘‘۔ یوں تو تمام انبیاء علیہم السلام غلبۂ دین ہی کے لیے سعی وجہد کرتے رہے مگر نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فضیلت میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ قرآن کریم میں تین مرتبہ یہ آیت نازل فرمائی گئی ہے:
ھُوَ الَّذِیٓ أَرْسَلَ رَسُولَہ‘بِالْہُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۔ (سورۃ الصف،الفتح)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ تمام وہ جنس دین پر اللہ کے دین کو غالب کردے‘‘۔
بقول حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ یہی قرآن حکیم کی مرکزی آیت ہے جس کے گرد قرآن کریم کی تمام آیات گردش کرتی ہیں۔
بعثت رسولﷺ کے دو پہلو ہیں : ایک بعثت خاص جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی عربی یا نبی اُمی کہہ کر پکارا گیا ہے جس میں غلبۂ دین کی سعی وجہد براہ راست آپ کو کرنی تھی، دوسری آپﷺ کی بعثتِ عام جس میں آپﷺ کو خاتم النبیین اور رحمتہ للعالمینﷺ کہہ کر مخاطب کیاگیا ہے اور اس حیثیت سے غلبۂ دین کی بشارت آپﷺ کی تیار کردہ امت مسلمہ کے ذریعے پوری ہوگی۔
جہاں تک آپ ﷺ کی بعثتِ خاص کا تعلق ہے تو آپﷺ نے اللہ کی تائید اور نصرت سے اپنی زندگی میں ہی دین کو ایسا غالب کرکے دکھا دیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی اور وہ منظر پیشین گوئی جو نَصْرُ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیب کے الفاظ میں وارد ہوئی تھی بہ درجہ کمال و تمام عرب میں اُنھیں الفاظ میں پوری ہوئی جس کی تصویر قرآن حکیم نے سورۃ النصر میں کھینچی ہے۔مگر آپ ﷺ کی بعثتِ عام جس کا تعلق عالمی غلبے سے ہے اور جس کا ذریعہ امتِ مسلمہ بنے گی، وہ بھی اسی طرح پایۂ تکمیل تک پہنچے گی جس طرح بعثت ِ خاص کی بشارت پایۂ تکمیل کوپہنچی ہے۔ مگر وہ غلبۂ دین کی بشارت کی تکمیل ابھی باقی ہے بہ قول اقبال:
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
مگر اب جو آپ دنیا میں ایک تبدیلی دیکھ رہے ہیں کہ ساری دنیا ایک گاؤں بن گئی ہے تو یہ اسی نورِ توحید کے اتمام کی تیاری ہے جو مشیت خداوندی کے ذریعے کی جارہی ہے اور یہ جو New World Order (نیا عالمی نظام) کانعرہ ہے یہ اصلاً Jeue world order (یہودی عالمی نظام) کا نعرہ ہے جس نے پوری دنیا کو بالعموم اور امت مسلمہ کو بالخصوص اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ مگر حقیقت میں اسلام کا منصفانہ نظام آنے والا ہے ۔ ان شاء اللہ امت مسلمہ کے ہاتھوں غلبۂ دین کی بشارت کی تکمیل ہوگی اور قرائن بتا رہے ہیں کہ وہ وقت قریب ہی آلگا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان اوّل دینکم نبوۃٌ ورحمۃٌ وتکون فیکم ماشاء اللٰہ ان تکون ثم یرفعہااللہ جل جلالہ‘ ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ ماشاء اللٰہ ان تکون ثم یرفعہااللّٰہ جل جلالہ‘ ۔
’’تمھارے دین کی ابتدائی نبوت اور رحمت سے ہے اور وہ تمہارے درمیان رہے گی جب تک اللہ چاہے گا ۔ پھر اللہ جل جلالہ اس کو اٹھا لے گا۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہوگی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا‘‘۔
ثم تکون ملکاً عاضاً فیکون ماشاء اللّٰہ ان یکون ثم یرفعہ اللّٰہ جل جلالہ‘۔
’’پھر بداطوار بادشاہی ہوگی اور جب تک اللہ چاہے گا رہے گی۔ پھر اللہ اسے بھی اٹھالے گا‘‘۔
ثم تکون ملکاً جبریۃً فتکون ماشاء اللّٰہ ان تکون ثم یرفعہااللّٰہ جل جلالہ‘۔
’’پھر جبر کی فرماں روائی ہوگی اور وہ بھی جب تک اللہ چاہے گا رہے گی ۔ پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا‘‘۔
ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ تعمل فی الناس بسنۃ النبی ویلقی السلام بجرانہ فی الارض یرضیٰ عنہا مساکن السماء، ومساکن الارض لاتدع السماء من قطرالاصبۃ مدراراً ولا تدع الارض من نباتہا وبرکاتہا شیئاً الا أخرجتہ‘۔
’’پھر وہی خلافت بطریق نبوت ہوگی جو لوگوں کے درمیان نبی کی سنت کے مطابق عمل کرے گی اور اسلام زمین میں پاؤں جمائے گا ۔ اس حکومت سے آسمان والے بھی خوش ہوں گے اور زمین والے بھی۔ آسمان دل کھول کر اپنی برکتوں کی بارش کرے گا اور زمین اپنے پیٹ کے سارے خزانے اگل دے گی‘‘۔
اس ارشاد نبویﷺ میں پوری انسانی تاریخ کو پانچ ادوار میں منقسم کیا گیا ہے ،جس کی ابتدا نبوت و رحمت اور جس کی انتہا خلافت بہ طریق نبوت ہے۔ درمیان میں دو ادوار ہیں بد اطوار بادشاہت اور جبر کی فرماں روائی۔ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بداطوار بادشاہت ماضی کا حصہ بن چکی ہے اور جبر کی فرماں روائی وہ لعنت ہے جس سے آج پوری دنیا پریشان ہے۔ جس طرح بدترین دشمنی وہ ہوتی ہے جو دوستی کے لباس میں کی جائے، اسی طرح بدترین جبر و استبداد وہ ہے جو آزادی ومساوات کے پردے میں کیاجائے ۔
حدیث کے الفاظ ملکاً جبریۃُ ’جبر کی فرماں روائی‘ کو سمجھنے کے لئے فراست مومن درکار ہے۔
غلبۂ دین کی بشارت کے سلسلے میں دو احادیث بڑی واضح ہیں ایک تو وہ حدیث ہے جو مسند احمد میں حضرت مقداد بن اسودؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’دنیا میں نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا مکان باقی رہے گا نہ کمبلوں کا بنا ہوا خیمہ‘‘ جس میں اللہ اسلام کو داخل نہیں کرے گا‘‘
دوسری حدیث صحیح مسلم میں حضرت ثوبان ؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ نے مجھے پوری زمین کو لپیٹ کر دکھادیا۔ چنانچہ میں نے اس کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے اور مغرب بھی! اور یقین رکھو کہ میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر ہوکر رہے گی جو مجھے لپیٹ کر دکھائے گئے ہیں‘‘۔
دورِ حاضر کے اس مرحلے پر غلبۂ دین کی بشارتوں کی تکمیل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے خوش نصیب افراد کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی خوش خبریاں منقول ہیں۔ مثلاً آپﷺ نے فرمایا:
’’میری امت میں میرے ساتھ سب سے زیادہ محبت رکھنے والے لوگ میرے بعد ہوں گے، ان میں سے کوئی تمنا کرے گا کہ کاش اپنے اہل وعیال کے بدلے مجھے دیکھے‘‘۔)بہ روایت حضرت ابوہریرہؓ ، مسلم(ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا:’’کاش! میں اپنے بھائیوں کو دیکھ پاتا! صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ہم آپ ﷺ کے بھائی نہیں، آپﷺ نے فرمایا: ’’ َانتم اصحابی‘‘ تم تو میرے دوست ہو، میرے بھائی تو وہ ہیں جو بعدکے زمانے میں آئیں گے‘‘۔
عمروبن شعیب،اپنے والد ماجد، اپنے جدامجد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایمان کے لحاظ سے کون سی مخلوق تمھیں زیادہ پسند ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے فرشتے۔ فرمایا اُنھیں ایمان لانے میں کیا رکاوٹ ہے جب کہ وہ اپنے رب کے پاس ہیں؟ عرض گزار ہوئے انبیا ئے کرامؑ ۔ فرمایا انھیں ایمان لانے میں کیا رکاوٹ ہے جب کہ اُن پر وحی نازل ہوتی ہے۔ عرض گزار ہوئے کہ ہم۔ فرمایا تمھیں ایمان لانے میں کیا رکاوٹ ہے جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں‘‘۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہ لحاظ ایمان میرے نزدیک وہ لوگ زیادہ پسندیدہ ہیں جو میرے بعد ہوں گے اور قرآن مجید میں لکھے ہوئے کے مطابق ایمان لائیں گے‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف بابُ ثواب ھٰذِہ الامۃ)
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ہم سے بہتر ہوسکتا ہے جب کہ ہم مسلمان ہوئے اور آپﷺ کی معیت میں جہاد کیا؟ فرمایا : ’’ہاں وہ لوگ جو میرے بعد میں ہوں گے اور مجھ پر ایمان لائیں گے حالاں کہ انھوں نے مجھے دیکھانہیں ہوگا‘‘۔ (رواہ احمد) بشارتوں کی تاریخ میں یہ پہلو بڑاعبرتناک ہے کہ بعض گروہ صرف بشارتوں پر آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور اپنے اندر وہ صفات پیدا کرنے کی سعی وجہد نہیں کرتے جو غلبۂ دین کے لئے مطلوب ہیں ۔ پھر اللہ کسی دوسری جماعت کو اپنی رحمت سے نواز دیتا ہے اور یہ گروہ دونوں جہاں کی ناکامی پر کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے ۔یہی بات ہے جس کو سورۃ مائدہ میں اس طرح فرمایا گیا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے )تو پھر جائے( اللہ دوسرے بہت سے ایسے لوگوں کو پیدا کردے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے،یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے‘‘۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمیں اپنے فکر وعمل کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم ان صفات سے کتنے قریب ہیں؟
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اگست تا 26 اگست 2023