غیر مسلم کہے جانے پر قادیانیوں کو پریشانی کیوں ہے؟
جس فرقے کو بھارت اور پوری دنیا میں اسلامی مکاتب فکر نے غیر مسلم قرار دیا ہے اسے کوئی بھی کیسے مسلم برادری میں شامل کرسکتا ہے۔
سید خلیق احمد ۔ احمد علی (انڈیا ٹومارو)
ان دنوں ایک نئی بحث میڈیا میں چھائی ہوئی ہے۔ یہ بحث ہے قادیانی فرقے کا مسلمان نہ ہونا۔ یہ بحث وزیر برائے اقلیتی امور اسمرتی ایرانی کی طرف سے حکومت آندھرا پردیش کو جاری کردہ ایک خط کے بعد شروع ہوئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’وقف بورڈ کسی کو غیر مسلم قرار دینے سے باز رہے‘۔ جمعیت علماء ہند کے قومی سکریٹری نیاز احمد فاروقی کہتے ہیں کہ’’ مسز ایرانی کا رد عمل غیر ضروری اور غیر منطقی ہے، کیونکہ وقف بورڈ کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اوقاف اور مفادات کا تحفظ کرنا ہے جیسا کہ وقف ایکٹ میں اس کی تشریح کی گئی ہے۔ جہاں تک ان کے غیر مسلم ہونے کی بات ہے تو ’ورلڈ مسلم لیگ‘ نے اپریل 1974ء میں ہی قادیانیوں کو ’اسلام سے باہر ایک گروہ‘ قرار دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ 1935ء میں بہاولپور (پنجاب) کی عدالت اور مونگیر (بہار) کی عدالت نے 1912ء میں مسلمانوں کی مساجد میں قادیانیوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔ 1974ء میں متحدہ عرب امارات کی سپریم کورٹ نے قادیانیوں کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا اور 1937ء میں ماریشس کے چیف جسٹس نے اس فرقے کو غیر مسلم قرار دیا۔ یہ قانونی فیصلے قادیانی گروہ کی غیر مسلم حیثیت کے بارے میں مسلم کمیونٹی کی فکر کو تقویت دیتے ہیں۔ ہندوستان میں اسلامی ماہرین کا کہنا ہے کہ مرزا غلام احمد جس نے قادیانی فرقے کی بنیاد رکھی، ہندوستان کے برطانوی حکمرانوں کے اشارے پر مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اسلامی عقیدے کے خلاف ایک نئے عقیدے کی بنیاد رکھی۔ مرزا غلام احمد قادیانی مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف لڑنے سے روکتا تھا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہندوستان پر برطانوی حکومت قائم رہے۔ انگریزوں کا یہ داو ناکام ثابت ہوا اور مسلمان اپنے ملک کی آزادی کے لیے سامراجی طاقتوں کے خلاف جدو جہد کرتے رہے‘‘۔
دراصل حیدرآباد کی تقسیم کے بعد آندھرا پردیش وقف بورڈ کی از سر نو تشکیل کی گئی۔ تقسیم سے قبل کے وقف بورڈ نے قادیانیوں کو غیر مسلم ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا جس کی بنیاد پر ریاست بھر میں قادیانیوں کی تحویل میں تمام سنی مساجد اور وقف املاک کو ڈی رجسٹر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ وقف بورڈ نے قادیانیوں کی تحویل سے وقف املاک واپس لینے کا یہ فیصلہ کئی مسلم تنظیموں بشمول جمعیت علماء ہند کی جانب سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد کیا تھا۔ جمعیت علماء ہند نے وقف بورڈ سے کہا تھا کہ ’’چونکہ قادیانیوں کو قومی اور بین الاقوامی مسلم تنظیموں نے غیر مسلم قرار دیا ہے، اس لیے انہیں مسلمانوں کے مذہبی مقامات اور اوقاف کی تحویل کا کوئی حق نہیں ہے۔ چونکہ وقف بورڈ کو صرف مسلمانوں کی جائیدادوں اور املاک کو رجسٹر کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا اختیار ہے، لہٰذا قادیانیوں کی عبادت گاہوں اور اوقاف کو رجسٹر نہیں کرنا چاہیے اور انہیں مسلمانوں کی مذہبی جائیدادوں کو تحویل میں رکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے‘‘۔ جمعیت علماء ہند کی ان تشریحات کے بعد پرانے وقف بورڈ کے چیئرمین الیاس سیٹھ (ایک ریٹائرڈ آئی پی ایس آفیسر) نے 2009ء میں یہ فیصلہ کیا کہ قادیانی مسلمان نہیں ہے، لہٰذا وقف بورڈ میں رجسٹرڈ وقف املاک جو قادیانیوں کی تحویل میں ہیں، ان کا رجسٹریشن ختم کر کے ریاستی حکومت کے محکمہ اوقاف کے حوالے کر دیا جانا چاہیے کیونکہ وقف بورڈ کے پاس غیر مسلموں کی جائیدادوں کو اپنی تحویل میں رکھنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد پر فروری 2012ء میں وقف بورڈ نے حیدرآباد، سکندر آباد، محبوب نگر اور کچھ دیگر اضلاع میں قادیانیوں کی تحویل میں آٹھ سنی جائیدادوں کو ریاست کے محکمہ اوقاف کو منتقل کرنے کی قرارداد منظور کی۔ ان جائیدادوں میں ریلوے اسٹیشن والی فلک نما کی مسجد اور قبرستان بھی شامل تھے۔ اسی قرارداد میں غیر منقسم آندھرا پردیش بورڈ نے دیگر تمام اداروں کو اپنے قبضے میں لینے کا بھی فیصلہ کیا جو سنی، شیعہ وقف کے طور پر رجسٹرڈ ہیں لیکن وہ قادیانیوں کی تحویل میں ہیں۔ قرارداد میں یہ تشریح بھی کی گئی کہ مستقبل میں اگر کوئی سنی جائیداد یا ادارہ قادیانیوں کی تحویل میں ہونے کا پتہ چلتا ہے تو حتمی معلومات حاصل کرنے کے بعد اسے براہ راست بورڈ کے زیر انتظام لے لیا جائے گا۔ قرارداد کے بموجب تلنگانہ وقف بورڈ نے کچھ عرصہ قبل وجئے واڑہ میں ایک سنی مسجد کو قادیانی تحویل سے واپس لیا ہے۔
آندھرا پردیش وقف بورڈ کے نئے چیئرمین وی قادر پاشا نے امسال 3 فروری کو جمعیت علماء ہند کی جانب سے جاری کردہ رہنما خطوط اور سابق چیئرمین الیاس سیٹھ کے سرٹیفیکٹ کی بنیاد پر قادیانیوں کو غیر مسلم ہونے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ جمعیت علماء ہند تلنگانہ یونٹ کے نمائندہ حافظ خلیق صابر احمد نے ’’انڈیا ٹومارو‘‘ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ کے چیئر مین وی قادر پاشا نے وجئے واڑہ میں مسجد کو حاصل کرنے کے بعد قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کا نوٹ جاری کیا تھا۔ جناب صابر نے گفتگو کے دوران کہا کہ قادیانی آندھرا پردیش اور تلنگانہ کی ساحلی پٹی میں مسلمان ہونے کی آڑ میں مختلف قسم کا لالچ دے کر مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کر رہے ہیں۔ وہ اپنی شناخت اس لیے چھپاتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان کو چاہے وہ ناخواندہ اور انتہائی غریب ہی کیوں نہ ہو، اگر پتہ چل جائے کہ قادیانی، حضرت محمدؐ کے ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا ہے تو وہ مسلمان قطعی اس کی بات نہیں سنے گا، کیونکہ حضرت محمدؐ کے ختم نبوت کو ماننا ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ اس کے بغیر کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا۔ چونکہ قادیانی اس بات کو جانتے ہیں اس لیے وہ اپنی اصل شناخت چھپا کر خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
قادیانیوں کے باطل عقیدے کی بنیاد پر ہندوستان اور بیرون ملک کی تمام اسلامی تنظیموں نے اس فرقے کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ چونکہ قادیانی غیر مسلم ہوتے ہیں اس لیے ان کے اپنی عبادت گاہ کا نام ’مسجد‘ رکھنے پر بھی مسلمانوں کو اعتراض ہے۔کیونکہ وہ ’مسجد‘ کے نام پر مسلمانوں کو دھوکا دیں گے۔ اس کے علاوہ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو صرف مسلم اماموں کے پیچھے ہی نماز پڑھنے کی اجازت ہے وہ کسی غیر مسلم کے پیچھے نماز ادا نہیں کرسکتے۔ اگر قادیانی اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام دیں گے تو مسلمان دھوکا کھا کر ان کی مسجد میں ان کے امام کے پیچھے اپنی نماز ادا کریں گے جو کہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ اس دھوکے سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے قادیانیوں کو اپنی عبادت گاہ کا نام ’مسجد‘ کے بجائے کچھ اور رکھنا چاہیے۔ حافظ خلیق احمد نے بورڈ کے فیصلے پر قادیانیوں کے چراغ پا ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ’’چونکہ قادیانیوں کے عقائد سے مسلمان واقف ہوچکے ہیں اور مسلم نوجوانوں میں بیداری آچکی ہے جس سے وہ بوکھلائے ہوئے ہیں۔ اسی بوکھلاہٹ میں وہ لوگ وقف بورڈ کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کو نفرت انگیز مہم سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کی شکایت ریاستی اور قومی سطح پر حکام سے کر رہے ہیں۔
احمدیہ کمیونٹی(انڈیا) کے نمائندہ احسن غوری نے ’’انڈیا ٹومارو‘ کو بتایا کہ انہیں پرائیویٹ گروپس اور تنظیموں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ وہ انہیں بدعتی قرار دیں یا غیر مسلم، اعترض اس پر ہے کہ کوئی سرکاری محکمہ قادیانیوں کو غیر مسلم کہے۔ اس سے کمیونٹی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ قادیانیوں نے 2012ء میں اے پی ہائی کورٹ میں وقف بورڈ کی قرار داد کو چیلنج کیا تھا، بعد میں غیر منقسم اے پی وقف بورڈ کی اس قرارداد کو معطل کرنے کا حکم دیا گیا تھا‘‘۔ لیکن جناب خلیق احمد صابر کہتے ہیں کہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ احسن غوری کہتے ہیں کہ وقف بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے مسٹر پاشا کے تبصرے کے بعد، ان کی تنظیم نے اقلیتی امور کی وزارت سے رجوع کیا اور مداخلت کرنے اور وقف بورڈ کو کسی گروپ کے مذہبی شناخت کو تعین کرنے کی اجازت نہ دینے کے لیے کہا کیونکہ وقف بورڈ کو اس پر فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
بہر کیف فی الحال اے پی وقف بورڈ تحلیل ہے۔ آئی پی ایس آفیسر شیخ شیرین بیگم اسپیشل آفیسر کی حیثیت سے بورڈ کی سربراہی کر رہی ہیں اور مسٹر پاشا اے پی وقف بورڈ کے ساتھ نہیں ہیں۔ محترمہ شیخ شیریں بیگم نے’انڈیا ٹومارو‘ کو بتایا کہ ’احمدیہ کمیونٹی کے بارے میں سرٹیفکیشن نئے اے پی وقف بورڈ نے جاری نہیں کیا ہے۔ ان کے بارے میں پہلا سرٹیفکیٹ 2009ء میں متحدہ آندھرا پردیش کے دوران اور دوسرا مسٹر پاشا نے فروری 2023ء میں جاری کیا تھا۔ آندھرا پردیش کی نئی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں وزارت برائے اقلیتی امور سے جو خط موصول ہوا ہے اس کا جواب وزارت کو بھیج دیا گیا ہے‘‘۔ مسلم تنظیمیں اور قائدین واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ جس فرقے کو ہندوستان اور پوری دنیا میں اسلامی مکاتب فکر نے غیر مسلم قرار دیا ہے، اسے کوئی بھی کیسے مسلم برادری میں شامل کر سکتا ہے؟
جماعت اسلامی ہند میں شریعہ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کہتے ہیں کہ ’’ختم نبوت امت کا متفقہ عقیدہ ہے۔ اس لیے فتنہ قادیانیت کے سر ابھارتے ہی علماء کرام نے اس کا نوٹس لیا اور ابتداء ہی میں اس کی سرکوبی کی کوشش کی۔ اپریل 1918ء میں ایک استفتاء پر ہندوستان کے تمام قابل ذکر دینی مراکز اور اداروں کے علماء نے قادیانیوں کی تکفیر کا فتویٰ دیا۔جنوری 1953ء میں پاکستان کی تمام دینی جماعتوں اور تنظیموں کے 33 سربراہان نے کراچی میں جمع ہو کر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے اس وقت علماء کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا اور ان پر مظالم ڈھائے۔ اسی دوران مولانا سید ابوالاعلیٰ مودویؒ کو 1953ء میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے پر پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا جسے بعد میں چودہ سال قید بامشقت میں تبدیل کیا گیا۔ 1974ء میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے تحت منعقدہ ایک کانفرنس میں پوری دنیا کی 144 دینی تنظیموں اور جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے اور اس میں قادیانیوں کی تکفیر کی متفقہ قرار داد منظور کی۔ بالآخر ستمبر 1974ء کو پاکستان اسمبلی نے اپنے متفقہ فیصلے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ قادیانیت کے علمی رد کے سلسلے میں بھی علمائے اسلام نے اہم خدمات انجام دی ہیں، چنانچہ اس موضوع پر بہت وسیع لٹریچر اردو زبان میں موجود ہے اور ان میں سے بعض کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ یہ تمام کتابیں برابر شائع ہو رہی ہیں اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں لیکن تشویش کی بات ہے کہ قادیانیت کا فتنہ مسلسل پھل پھول رہا ہے۔ دنیا کے بیش تر ممالک میں ان کے مراکز قائم ہیں جنہیں اسلام دشمن طاقتوں اور حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ 1953ء میں جب پاکستان میں تمام دینی جماعتوں، تنظیموں اور سرکردہ علماء کے اشتراک سے بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے سے ختم نبوت کی تحریک چلی اور قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا پرزور مطالبہ کیا گیا تو اس زمانے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے عوام و خواص کو اصل مسئلے سے آگاہ کرنے کے لیے علمی اور تحقیقی انداز میں ایک کتابچہ ’قادیانی مسئلہ‘ کے نام سے تالیف کیا تھا۔ اس کی بڑے پیمانے پر اشاعت ہوئی اور وہ لاکھوں افراد تک پہنچا تھا۔ ( ترجمہ: وسیم احمد)
***
قادیانیت کے علمی رد کے سلسلے میں بھی علمائے اسلام نے اہم خدمات انجام دی ہیں، چنانچہ اس موضوع پر بہت وسیع لٹریچر اردو زبان میں موجود ہے اور ان میں سے بعض کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ یہ تمام کتابیں برابر شائع ہو رہی ہیں اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں لیکن تشویش کی بات ہے کہ قادیانیت کا فتنہ مسلسل پھل پھول رہا ہے۔ دنیا کے بیش تر ممالک میں ان کے مراکز قائم ہیں جنہیں اسلام دشمن طاقتوں اور حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023