
غدر کی روح کے ساتھ غداری! فرقہ پرست فلم کو’’غدر فلم ایوارڈ‘‘ دینا تاریخی بغاوت ہے
صدر ایس آئی او تلنگانہ محمد فراز احمد کا شدید ردعمل
حیدرآباد : (دعوت نیوز ڈیسک)
تلنگانہ حکومت کی طرف سے پروپیگنڈہ فلم ’’رضاکار:دی سائلنٹ جینوسائیڈ آف حیدرآباد‘‘ کو’’غدر فلم ایوارڈ‘‘ سے نوازنے کے فیصلے نے ریاست کے امن و انصاف پسند سماجی حلقوں میں شدید اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ایوارڈ انقلابی شاعر، عوامی آواز اور سامراج دشمن جدوجہد کے علم بردار ’’غدر‘‘ کے نام پر دیا گیا ۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی فرقہ وارانہ سیاست، برہمن واد، جاگیر داری اور ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کی۔
فلم ’’رضاکار‘‘ کو ریاست کی طرف سے بہترین تاریخی فلم قرار دے کر پانچ لاکھ روپے کا انعام اور ایوارڈ دیا گیا ۔ جب کہ اس فلم پر تاریخی کو مسخ کرنے، مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے اور سامراجی بیانیے کے ساتھ ہم آہنگی کا الزام ہے۔
یہ وہی فلم ہے جسے بی جے پی لیڈر گودور نارائنا ریڈی نے پروڈیوس کیا اور جو حیدرآباد کی گنگا۔جمنی تہذیب پر کھلا حملہ ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہی "غدر” کی وراثت تھی؟ غدر آخر کون تھے؟
• غدر، جن کا اصل نام جی ویتی ریڈی تھا، ایک کمیونسٹ انقلابی، عوامی شاعر اور مظلوموں کی آواز تھے۔
• انہوں نے اپنی شاعری اور عوامی گیتوں کے ذریعے ریاستی ظلم، طبقاتی جبر، مذہبی منافرت اور سیاسی منافقت کے خلاف جدوجہد کی۔
• وہ ایسی آواز تھے جو آر ایس ایس، بی جے پی اور دیگر فرقہ پرست قوتوں کو کھلے لفظوں میں للکارتے رہے۔
• ان کا فن اور فلسفہ انسانی برابری، سیکولرازم، مزاحمت اور عوامی بیداری پر مبنی تھا۔
تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ انہی کے نام پر اس فلم کو ایوارڈ دیا جائے جو مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی پر مبنی ہے؟
ایس آئی او تلنگانہ کے صدر محمد فراز احمد نے اپنے سخت ردعمل میں کہا:
’’یہ فیصلہ نہ صرف تاریخ کے ساتھ مذاق ہے بلکہ حیدرآباد کی تہذیبی روح پر کاری ضرب بھی ہے۔ غدر کے نام پر اس فلم کو ایوارڈ دینا دراصل ان تمام شہداء کی توہین ہے جنہوں نے فرقہ پرستی کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’یہ حکومت کا فسطائیت کے سامنے جھک جانے کا ثبوت ہے اور ایک خطرناک رجحان کی بنیاد ، جہاں نفرت کے بیج ریاستی اعزازات کی کھاد سے سینچے جا رہے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ 13جون کو اس فیصلے کے خلاف تلنگانہ ہائی کورٹ میں ایک رِٹ داخل کی گئی ہے جس میں جیوری کے تقرر پر سنگین اعتراضات اٹھائے گئے۔ الزام ہے کہ ایوارڈ حاصل کرنے والے فلم پروڈیوسر سے جیوری اراکین کے ذاتی مفادات وابستہ تھے۔ اس کے باوجود وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی نہ صرف اسٹیج پر موجود تھے بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے یہ ایوارڈ پیش کیا۔ یہ وہی ریونت ریڈی ہیں جنہوں نے کچھ ماہ قبل بی جے پی پر غدر کو پدما ایوارڈ نہ دینے پر سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا ’’اگر غدر کی توہین ہوئی تو بی جے پی کے دفتر والے علاقے کا نام غدر کے نام پر رکھ دوں گا۔‘‘ مگر آج جب انہی کی حکومت نے غدر کی وراثت کو فرقہ پرست پروپیگنڈے کے قدموں میں رکھ دیا ہے۔ لہٰذا سوال صرف سیاسی نہیں رہا بلکہ یہ ایک اجتماعی اخلاقی دیوالیہ پن کا اعلان بن چکا ہے۔
یہ مطالبہ صرف کسی ایک تنظیم یا طبقے کا نہیں بلکہ ہر اس باشعور اور با ضمیر شہری کا ہے جو تاریخ کی صداقت، تہذیب کی عظمت اور انصاف کی اقدار کا امین ہے۔ عوامی ضمیر آج یہ تقاضا کر رہا ہے کہ غدر فلم ایوارڈ سے متنازعہ فلم رضاکار کا نام فوراً خارج کیا جائے؛ جیوری کے تقرر اور ایوارڈ کے فیصلے پر غیر جانب دار اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور یہ طے کیا جائے کہ ریاستی اعزازات کو کبھی نفرت، تعصب اور تاریخی مسخ کاری کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ غدر نے اپنی شاعری میں سچائی کے لیے گایا—ان کا کلام آج بھی زندہ ہے اور دلوں کو جھنجھوڑتا ہے۔ لیکن اگر ان کے نام پر جھوٹ کو انعام دیا جانے لگے تو یہ صرف ان کی نہیں، ہماری پوری تہذیب، تاریخ اور اجتماعی ضمیر کی توہین ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025