
!گاؤ رکشا کے نام پر قریش برادری کا معاشی قتل
حکومت کے متعصبانہ اقدامات کے سبب قصابوں سے لے کر کسانوں تک سب پریشان
ضمیر احمد
مہاراشٹر میں قریش برادری کی گونج: روزی روٹی ، عزت اور آئینی حق کی جنگ جاری
گزشتہ ایک ماہ سے مہاراشٹر میں قریش برادری کی جانب سے جاری ہڑتال نے نہ صرف ریاست کی معاشرتی فضا کو متاثر کیا ہے بلکہ اس کے معاشی و زرعی شعبوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس ہڑتال نے گاؤ کشی پر سخت قوانین، گاؤ رکھشا کے نام پر ہونی والی زیادتیوں اور گوشت کے کاروبار سے وابستہ لاکھوں افراد کی روزی روٹی کے بحران کو ایک بار پھر بحث کے مرکز میں لا دیا ہے۔ قریش برادری جو صدیوں سے قصاب کے پیشے سے وابستہ رہی ہے، اب اپنے وجود اور روزگار کے تحفظ کے لیے میدان میں ہے۔
قریش برادری کی ہڑتال کے پس پردہ اسباب:
قریش برادری کی اس ریاست گیر ہڑتال کے پیچھے کئی بنیادی اسباب کارفرما ہیں جو ان کے روزگار، عزتِ نفس اور آئینی حقوق سے جڑے ہوئے ہیں۔سب سے پہلا اور اہم سبب گاؤ کشی مخالف قانون کا غلط استعمال ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی حکومت نے گاؤ کشی پر سخت پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اگرچہ گایوں کے ذبح پر پہلے سے ہی پابندی تھی، لیکن 2015 میں گاؤ ہتیہ بندی قانون میں ترمیم کرتے ہوئے "گوونش ہتیہ بندی قانون” کے نام سے ایک نیا قانون متعارف کیا گیا۔ اس قانون کے تحت بیل، سانڈ اور بچھڑے جیسے جانوروں کو بھی ذبح کے لیے ممنوع قرار دیا گیا، جس سے قریش برادری کے روایتی پیشے پر کاری ضرب پڑی اور ان کا کاروبار مفلوج ہو کر رہ گیا۔
دوسرا اہم سبب خود ساختہ گاؤ رکھشکوں کی دہشت گردی ہے۔ ریاست کے مختلف علاقوں میں بجرنگ دل، وی ایچ پی اور دیگر انتہاپسند تنظیموں سے وابستہ خود ساختہ گاؤ رکھشک قریش برادری کے افراد کو ہراساں کر رہے ہیں۔ ان کی گاڑیاں روکی جاتی ہیں، جانور لے جانے پر حملے کیے جاتے ہیں اور ان کے کاروبار میں بلاوجہ رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ کئی جگہوں پر پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور بروقت کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
تیسرا سبب انتظامیہ کی جانب سے جانوروں کی نقل و حمل پر غیر اعلانیہ پابندیاں ہیں۔ اگرچہ قانونی طور پر کچھ مخصوص جانوروں کی خرید و فروخت اور ذبح کی اجازت ہے لیکن عملی طور پر پولیس اور مقامی افسران جانوروں کی نقل و حمل کی اجازت نہیں دے رہے۔ اس کے نتیجے میں مویشی منڈیاں ویران پڑی ہیں اور کسان بھی مالی بحران سے دوچار ہو چکے ہیں۔ اگر گوونش ہتیہ بندی قانون کے تحت کارروائی ممکن نہ ہو تو بعض اوقات "انیمل پروٹیکشن ایکٹ” کی آڑ میں کارروائی کی جاتی ہے۔
چوتھا مسئلہ پولیس کی زیادتیوں اور بے جا ایف آئی آروں کا ہے۔ گوشت کے کاروبار سے وابستہ افراد پر اکثر اوقات غلط دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جاتے ہیں، جس سے قریش برادری میں خوف اور بے یقینی کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ صورت حال اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب مہاراشٹر حکومت نے اسمبلی میں ایک اہم تجویز منظور کرتے ہوئے گوونش ہتیہ بندی قانون کی خلاف ورزی میں ملوث افراد پر منظم جرائم کے لیے مخصوص "مکوکا” جیسے سخت قانون کے تحت کارروائی کرنے کا عندیہ دیا۔گوونش ہتیہ بندی قانون کے تحت اگر کسی پر مقدمہ درج ہوتا ہے تو وہ قانونی کارروائی کے بعد جلد ضمانت حاصل کر سکتا ہے اور اس کی سزا بھی نسبتاً کم ہوتی ہے۔ لیکن اگر کسی شخص پر "مکوکا” کے تحت مقدمہ قائم ہو جائے تو اس کے لیے ضمانت حاصل کرنا نہایت دشوار ہو جاتا ہے اور مہینوں تک ضمانت نہیں ملتی۔ ایسے میں قریش برادری کو یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ اتنا خطرہ مول لے کر کاروبار کیسے جاری رکھا جائے؟انہی وجوہات کی بنیاد پر قریش برادری کی نمائندہ تنظیم "جماعت القریش” کے ذمہ داروں نے اپنی برادری کے لوگوں کو جمع کیا اور سب کی رائے و مشورے سے اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ریاست گیر سطح پر کاروبار بند رکھنے اور پرامن احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں یہی ایک راستہ نظر آیا جو ان کے مطالبات کو حکومت تک پہنچا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہڑتال گزشتہ ایک مہینے سے مسلسل جاری ہے۔ابتدا میں چند اضلاع سے اس ہڑتال کا آغاز ہوا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک مہاراشٹر کے تقریباً تمام اضلاع میں پھیل گئی۔ ممبئی، پونے، اورنگ آباد، ناندیڑ، اکولا، امراوتی، لاتور، ناگپور، دھولیہ اور بیڑ جیسے اضلاع میں قریش برادری نے مکمل کاروبار بند کر رکھا ہے۔ نہ صرف سلاٹر ہاؤسز بند ہیں بلکہ گوشت کی دکانیں، فریزنگ یونٹس اور ٹرانسپورٹ سروسز بھی معطل ہیں۔
کاشت کاروں پر اثرات:
جو کسان ضعیف اور ناکارہ ہو چکے گائے بیل یا بھینسیں بیچ کر کچھ مالی سہارا حاصل کرتے تھے، وہ اب شدید پریشانی میں مبتلا ہیں، کیونکہ ایسے جانوروں کو خریدنے والا کوئی نہیں ہے۔ نتیجتاً کئی جانور کھیتوں میں ہی مر رہے ہیں یا بیماری کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ کسان ان کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ متعدد اضلاع میں ہفتہ واری مویشی منڈیاں تقریباً بند ہو چکی ہیں۔کئی کسان اپنے ناکارہ مویشی بیچنے سے قاصر ہیں، جس کی وجہ سے انہیں شدید مالی نقصان کا سامنا ہے۔ مویشی پالنا کسانوں کے لیے ایک اضافی آمدنی کا ذریعہ تھا۔ کھیتی کے ساتھ ساتھ وہ مویشی پالتے تھے اور وقتِ ضرورت انہیں فروخت کر کے مالی ضروریات پوری کرتے تھے۔ مگر موجودہ ہڑتال نے ان کے لیے یہ راستہ بھی بند کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے متاثرہ کسان حکومت سے پرزور مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ قریش برادری کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے اس ہڑتال کو جلد ختم کروائے تاکہ منڈیوں میں مویشیوں کی خرید و فروخت دوبارہ بحال ہو اور کسان اپنے جانور فروخت کر کے آمدنی حاصل کر سکیں۔
اگر حکومت قریش برادری کے مطالبات تسلیم کرنے سے قاصر ہے تو پھر کسانوں کے ناکارہ جانوروں کو خود خرید کر انہیں گاؤ شالاؤں میں منتقل کرے اور ان کے بدلے کسانوں کو مناسب معاوضہ دے تاکہ ان کے مالی نقصان کی تلافی ہو سکے۔کیونکہ حالات دن بہ دن سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ مویشیوں کی فروخت بند ہونے کی وجہ سے کئی کسانوں نے خودکشی جیسے انتہائی اقدامات بھی شروع کر دیے ہیں۔ پہلے ہی کسان کھیتی کے حوالے سے شدید مشکلات کا شکار ہیں اور اب مویشی فروشی کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کا آخری ذریعہ بھی ختم ہو چکا ہے۔جانوروں کی خرید و فروخت نہ ہونے کے باعث صرف کسان ہی نہیں بلکہ تاجر بھی پریشان ہیں۔ اس ہڑتال کے اثرات دیگر شعبوں پر بھی واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔ مثلاً ہوٹل انڈسٹری میں گوشت کی قلت کی وجہ سے کاروبار متاثر ہو رہا ہے، چمڑے کی صنعت کو خام مال کی شدید کمی کا سامنا ہے اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور جو قریش برادری سے جڑے تھے اب بے روزگار ہو چکے ہیں۔مہاراشٹر کے مختلف شہروں میں قائم بیف ایکسپورٹ کمپنیاں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ ان اداروں میں روزانہ سیکڑوں جانور ذبح کیے جاتے تھے، اور ان کا گوشت دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا تھا لیکن اب ایکسپورٹ کا یہ کاروبار تقریباً بند ہو چکا ہے۔
قریش برادری کی عدالتی کوششیں:
قریش برادری نے اس مسئلے کو صرف احتجاج تک محدود نہیں رکھا بلکہ قانونی چارہ جوئی بھی شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں قریش برادری کے ذمہ داران نے ممبئی ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی ہے، جس میں ریاستی حکومت، پولیس، اور گاؤ رکھشک تنظیموں کے خلاف کارروائی کی اپیل کی گئی ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ میں بھی ایک پٹیشن داخل کرکے مہاراشٹر حکومت کی جانب سے نافذ کردہ "گوونش ہتیہ بندی قانون” کو چیلنج کیا گیا ہے اور یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ناکارہ بیل و بچھڑے کو ذبح کرنے کی اجازت دی جائے۔ریاست کے مختلف اضلاع میں وکیلوں کی ایک ٹیم قریش برادری کو قانونی معاونت فراہم کر رہی ہے تاکہ بے گناہوں کے خلاف درج جھوٹے مقدمات کو چیلنج کیا جا سکے۔ پٹیشن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ روزگار کا حق، آزادی سے کاروبار کرنے کا حق اور مذہبی آزادی آئینی حقوق ہیں، جن کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
حکومتی اقدامات اور ممکنہ حل:
ہڑتال کے سبب جو سنگین صورتحال پیدا ہو گئی ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ توقع تھی کہ مہاراشٹر حکومت فوری حرکت میں آئے گی اور قریش برادری کے مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرے گی، مگر تا دم تحریر حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ البتہ میڈیا کے دباؤ کے بعد چند وزراء نے قریش برادری سے مذاکرات کی بات ضرور کی ہے۔
حکومتی سطح پر درج ذیل اقدامات نہایت ضروری ہیں:
جانوروں کی نقل و حمل پر پولیس کی غیر ضروری کارروائیوں پر روک لگائی جائے۔گاؤ رکھشک تنظیموں کے غیر قانونی اقدامات پر سخت کارروائی کی جائے۔قریش برادری سے تعلق رکھنے والے قصابوں کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے باقاعدہ لائسنس اور شناختی کارڈ جاری کیے جائیں تاکہ وہ غیر ضروری ہراسانی سے بچ سکیں۔شہروں اور دیہی علاقوں میں تمام جدید سہولیات سے آراستہ سلاٹر ہاؤس قائم کیے جائیں اور ان میں ویٹرنری ڈاکٹروں کی تعیناتی کی جائے۔ضلعی سطح پر ایک شکایتی کمیٹی قائم کی جائے جس میں قریش برادری کے نمائندے بھی شامل ہوں تاکہ جہاں کہیں ان کے خلاف ظلم یا ناانصافی ہو، فوری کارروائی کی جا سکے اور انہیں تحفظ فراہم کیا جا سکے۔گوشت سے وابستہ صنعتوں کے لیے واضح گائیڈ لائنز جاری کی جائیں تاکہ قانونی ابہام نہ رہے۔قریش برادری کی ہڑتال صرف ایک برادری کا احتجاج نہیں بلکہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کس طرح مذہبی جذبات کے نام پر ایک برادری کو اس کے بنیادی معاشی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ہڑتال کو مختلف مذہبی، سماجی اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور ان کے قائدین قریش برادری کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔یہ مسئلہ صرف قریش برادری تک محدود نہیں بلکہ کسانوں، چھوٹے تاجروں، ہوٹل مالکین اور چمڑے کے کاروبار سے وابستہ لاکھوں افراد سے جڑا ہوا ہے۔ اگر حکومت نے بروقت اور منصفانہ اقدامات نہ کیے تو اس کا خمیازہ ریاست کی معیشت اور سماجی ہم آہنگی کو بھگتنا پڑے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے میں مہاراشٹر حکومت کیا فیصلہ لیتی ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025