نور اللہ جاوید، کولکاتا
موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے اور گرین گیس کے اخراج میں کمی لانے کے ہدف پر خاموشی
‘دہلی اعلامیہ’ میں اتفاق رائے کے باوجود رکن ممالک میں تقسیم واضح نظر آئی
عالمی مالیاتی اداروں میں اصلاحات کی وکالت مگر سودی نظام کی جگہ اسلامک بینکنگ سسٹم پر کوئی بات نہیں
اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں میں اصلاحالات، معاشی ناہمواریوں کے خاتمے اور پائیدار اقتصادی ترقی کے عزم کے ساتھ بھارت کی صدارت میں جی-20 کا دو روزہ سربراہی اجلاس اختتام پذیر ہوگیا۔ دو روزہ سربراہی اجلاس اور اس میں اتفاق رائے سے منظور ہونے والی تجاویز سے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور عالمی سیاست میں بھارت کے اثرو رسوخ میں کس قدر اضافہ ہوگا؟ اقتصادی ترقی اور تجارتی تعلقات سے دنیا کی معیشت میں کس قدر بہتری آئے گی؟ اس طرح کے درجنوں سوالات ہیں جن پر اگلے چند ہفتوں میں خوب بحث ومباحثہ ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے جی-20 ممالک کی میز بانی کو یادگار بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل کا استعمال کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کانفرنس کے انعقاد پر 42 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ جی-20 ممالک میں افریقی یونین کی شمولیت اور متفقہ ’دہلی قرارداد‘ کا پاس ہو جانا بھارت کی خارجہ پالیسی اور شاندار سفارتی مہم کی کامیابی کا نتیجہ ہے۔ اجلاس سے قبل ملک کے نام میں تبدیلی اور اختتام پر گاندھی سمادھی پر عالمی رہنماوں کو کھادی کے رومال کا تحفہ دے کر متضاد پیغام دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی اجلاس کے اختتام پر ’ایک زمین’ ایک خاندان اور ایک مستقبل‘ کے پرفریب نعرے کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ چونکہ جی-20 سربراہی اجلاس کے اعلانیہ پر عمل درآمد کرنا لازمی نہیں ہے لہذا ’’مشترکہ اعلانیہ‘‘ کی معنویت اور افادیت پر ہی نہیں بلکہ جی-20 ممالک کی تنظیم پر سوال اٹھنا فطری امر ہے۔ اس حقیقت کے باوجود مشترکہ اعلانیہ پر تمام ممالک کا اتفاق بھارتی سفارت کاری کی کامیابی کا نتیجہ ہے اور اس کا کریڈٹ لینے کا وزیر اعظم نریندر مودی کو مکمل حق بھی حاصل ہے۔ تاہم چند سچائیاں بھی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے یوکرین پر روسی جارحیت کی مذمت سے پہلو تہی کی گئی ہے۔ بالی اعلامیہ اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے الفاظ ہی کو دہرایا گیا ہے، چنانچہ مغربی میڈیا میں اس پر کھل کر بات ہو رہی ہے۔یوکرینی وزارت خارجہ نے اس قرار داد کو مسترد کر دیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور سنٹرل ایشیا میں روس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔جیوپولیٹیکل تنازع کو حل کرنے کا یقیناً یہ پلیٹ فارم نہیں ہے۔ جیسا کہ جی-20 کے اگلے میزبان اور برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا اگلاجی نے اس کو دہرایا بھی ہے مگر سوال یہ ہے کہ سرحدی تنازعات کو حل کیے بغیر خطے میں امن و امان کیسے قائم ہوسکتا ہے اور امن و امان کے بغیر اقتصادی و تجارتی تعلقات برابری کی سطح پر کیسے بحال ہوسکتے ہیں۔ آخر عالمی طاقتیں اس حقیقت کو کب سمجھیں گی اور جارحیت کا یہ لامتناہی سلسلہ کب رکے گا؟
دنیا میں 80 فیصد زہریلی گیس کے لیے جی -20 ممالک ذمہ دار ہیں۔ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج غریب اور ترقی پذیر ممالک بھگت رہے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہمارے سامنے ہیں۔ افریقی ممالک کو خشک سالی کا سامنا ہے۔ غذائی بحران نے غربت کا شکار افریقی ممالک کے عوام کو کیڑے مکوڑے کھانے پر مجبور کردیا ہے۔بھارت کے بھی کئی حصے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج بھگت رہے ہیں۔ کشمیر، اترا کھنڈ اور اب ہماچل پردیش کی تباہی و بربادی سے لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ جی-20 سربراہی اجلاس کے آغاز سے قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ امیر ممالک 2040 تک اور ترقی پذیر ممالک 2050 تک زہریلی گیس کے اخراج میں صفر تک کمی لے آئیں گے مگر دو روزہ اجلاس کے بعد موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کوئی ہدف مقرر نہیں کیا گیا ہے۔
جی-20 ممالک کی سربراہی سنبھالنے کے بعد سے ہی وزیر اعظم مودی معاشی ناہمواری، عالمی اداروں میں اصلاحات اور عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل نو، ترقی پذیر ممالک بالخصوص غریب ملکوں کو آسان قسطوں میں قرض دینے کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ ’’دہلی اعلامیہ‘‘ میں بھی معاشی ناہموار ی کے خاتمے، اقوم متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں کے اصلاحات کی بات کہی گئی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے اختتامی خطاب میں بھی عالمی برادری کو وقت اور ضروریات کے تقاضے کو پورے کرتے ہوئے عالمی اداروں کی تشکیل نو کی پرزور وکالت کی۔ وزیر اعظم موی نے کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی تشکیل ہوئی تھی اور سلامتی کونسل کے ممبران کا انتخاب ہوا تھا۔ آج اقوام متحدہ کے ممالک کے رکن ممالک کی تعداد 200 تک پہنچ چکی ہے مگر سلامتی کونسل کے ممبران میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ کم وبیش ترکی کے صدر طیب ایردوان نے بھی اسی طرح کے الفاظ دہرائے ہیں کہ 5 ممالک کے علاوہ بھی دنیا ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچ اراکین دنیا کے دیگر ممالک کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ’’دہلی اعلامیہ‘‘ میں عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل نو، غربت کے خاتمے، معاشی ناہمواری کے خاتمے اور ترقی پذیر اور غربت کے شکار ممالک کے قرضوں میں نرمی لانے کی بات کہی گئی ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے ترقی پذیر ممالک سسک رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرض کے شکنجے میں ایک مرتبہ جو ممالک ایک مرتبہ آجاتے ہیں وہ قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ سود در سود میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف جن ممالک کو قرض دیتا ہے ان کا کس بل نکال دیتا ہے۔سبسیڈی میں کٹوتی، ٹیکس میں بے تحاشا اضافہ کی وجہ سے مہنگائی کے بوجھ تلے ملک کے عوام پس جاتے ہیں۔ سری لنکا کی تباہی و بربادی ہمارے سامنے ہے۔ اس وقت پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ سود کی رقم چکانے کے لیے اشیائے خوردنی سے لے کر ضروری اشیا، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات پر 30 سے 40 فیصد ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سفاکانہ نظام ہے۔ اس نظام نے غربت کے شکار ممالک کو مزید غربت کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اس کی کوکھ سے دنیا بھر میں سماجی ناہمواری اور اقتصادی نابراری پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا کی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا ایک اور بڑے بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ چنانچہ سربراہی اجلاس کے اختتام کے فوری بعد بین الاقوامی ایجنسی ’’آکسفیم‘‘ نے غربت، عدم مساوات اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کوئی کارروائی کرنے سے گریز اور ہدف متعین نہیں جانے پر اس سربراہی اجلاس کو ’’غیر متاثر کن اور ناگوار‘‘ قرار دیا ہے۔
جی-20 اصل میں 1999 میں وزرائے خزانہ کے ایک اقتصادی ادارے کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ اس کا کوئی مستقل سیکرٹریٹ نہیں ہے اور نہ ہی اعلانیہ پر عمل درآمد اور کا جائزہ لینے والا کوئی ادارہ موجود ہے۔ کثیر جہتی گروہ بندی کے باوجود بہت سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ جی-20 ممالک سے انسانیت کو درپیش بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے درکار پیش رفت ہوگی۔ جی-20 ممالک کا تھیم تھا کہ ’’ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل‘‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایک خاندان اور ایک مستقبل پر مبنی دنیا کی تعمیر ہوسکے گی؟ متفقہ قرارداد سے دنیا کو متحد کرنے کی باتیں خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم آہستہ آہستہ ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہمارے ایک طرف امریکہ اور اس کے G-7 اتحادی ہیں اور دوسری طرف برکس بلاک (برازیل، روس، ہندوستان، چین، جنوبی افریقہ) ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ سماجی ناہمواری، اقتصادی برتری اور قرضوں سے دنیا کو آزاد کیسے کرایا جائے گا۔ اگرچہ وزیر اعظم مودی نے اختتامی خطاب میں نومبر میں جی-20 ممالک کی ورچوئل میٹنگ بلانے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ اعلامیہ اور قراردار کے نفاذ کا جائزہ لیا جاسکے۔ جب اعلامیہ رسمی ہو، قرار دادا پر ظاہری اتفاق کے باوجود کھلے عام اختلاف رائے ہو جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی پر فرانس کے صدر نے جس طرح سے سوال کھڑے کیے وہ حیرت انگیز تھے۔ سوال یہ بھی ہے کہ موجودہ اقتصادی نظام کی موجودگی میں دنیا کو سماجی ناہمواری اور ارتکاز دولت، معیاری صحت اور تعلیم، غربت کے شکار عام ممالک کے عوام تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟
متبادل معاشی نظام کو اختیارکرنے کا وقت آگیا ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے انہی کالموں میں تین ہفتے قبل معاشی ناہمواری میں سفاکانہ اضافے اور اس کے نتائج پر ’’عدم مساوات کی طرف بڑھ رہی ہے‘‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی رپورٹ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں۔ عدم مساوات میں اضافے کا ہم نے مختلف آزاد اداروں کی رپورٹ کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کیے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مذکورہ مضمون میں اسلامی اقتصادی نظام کے فوائد اور اس کے طریقہ کار پر اختصار سے بات چیت کی تھی۔ اس لیے اعداد و شمار کو یہاں دہرانے کے بجائے ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا دنیا متبادل اقتصادی نظام جس میں روپے سے روپے کمانے اور غیر حقیقی اثاثہ کے لین کی سخت ممانعت ہے اور جہاں سود کی تباہ کاریوں اور عالمی مالیاتی ادارے جو زمانہ قدیم کے ساہوکاروں سے بھی بدترین رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ تازہ ترین آئی ایم ایف ورلڈ اکنامک آؤٹ لک کی رپورٹ کے مطابق عالمی معیشت کوویڈ-19 کے دیرپا اثرات سے دوچار ہے اور ’وسیع پیمانے پر اور توقع سے زیادہ تیز رفتار سست روی کا شکار ہے۔ عالمی شرح نمو 2022 میں 3.2 فیصد سے کم ہوکر 2023 میں 2.7 فیصد رہنے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ عالمی مالیاتی بحران کے دور کے علاوہ گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے کمزور نمو ہے۔ وبائی مرض کے بعد دنیا نے گزشتہ دہائی کے دوران حاصل کیے گئے ترقیاتی اہداف میں بڑے پیمانے پر تبدیلی دیکھی ہے۔ تازہ ترین کثیر جہتی غربت انڈیکس (MPI) کے مطابق 1.2 بلین افراد کو کثیر جہتی غربت کا سامنا ہے۔ تازہ ترین MPI رپورٹ بتاتی ہے کہ 593 ملین افراد بجلی اور کھانا پکانے کے ایندھن سے محروم ہیں۔ 437 ملین افراد پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی سے محروم ہیں، اور 374 ملین افراد بیک وقت غذائیت، کھانا پکانے کے ایندھن، صفائی اور رہائش سے محروم ہیں۔ وبائی مرض کی آمد کے ساتھ ہی تمام امکانات میں صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے، درست مقداری تخمینوں کا ابھی بھی انتظار ہے۔ 2021 کے آخر تک اضافی 150 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے آگئے ہیں۔ جنوری 2021 میں ورلڈ بینک نے اندازہ لگایا تھاکہ کم آمدنی والے ممالک میں فی کس آمدنی کی سطح 2020 میں 3.6 فیصد تک گر گئی ہے۔ پیداوار میں 0.9 فیصد کمی آئی ہے جو کہ 30 سالوں میں سب سے بڑا سکڑاؤ ہے۔
کساد بازاری اور اپنی معیشت کے استحکام کے لیے جب یہ ممالک عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف، عالمی بینک جیسیے عالمی مالیاتی ادارں سے قرض حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اس کی انہیں مہنگی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات جوزف اسٹگلٹز نے اپنی کتاب کتاب ’’گلوبلائزیشن اینڈ اسٹس کنٹینٹس‘‘ میں لکھا ہے کہ آئی ایم ایف قرض لینے والے ممالک پر معاشی اصلاحات، مالی کفایت شعاری، اعلیٰ شرح سود، تجارتی لبرلائزیشن، نجکاری اور کھلی سرمایہ مارکیٹ جیسے شرائط نافذ کرتا ہے جو ہدف والی معیشتوں کے لیے نقصان دہ اور مقامی آبادیوں کے لیے تباہ کن ہیں۔ ناقدین آئی ایم ایف کے قرض وصول کرنے والے ممالک میں گہری کساد بازاری اور برسوں کی بلند بے روزگاری کی طرف اشارہ کرتے ہیں، خاص طور پر یونان اور اسپین، جن میں یوروپی یونین (EU) میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ یونان کی معیشت بحران سے پہلے کی بہ نسبت اب بھی 25 فیصد چھوٹی ہے، اور اس پر قرضوں کا بوجھ مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 180 فیصد ہے۔
سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی اصلاحات کے خد و خال کیا ہوں گے جبکہ صرف معاشی پالیسیوں میں تبدیلیوں کی وجہ سے آپ اپنے معاشی مسائل حل نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے پورے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی روس نے کئی سالوں کے جائزہ کے بعد اپنے تین مسلم اکثریتی علاقے تاتارستان، داغستان اور چیچنیا میں اسلامک بینکنگ نظام کی شروعات کرکے سب کو چونکا دیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب روس کو تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بینکنگ سسٹم سے الگ کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، روس نے اسلامک بیکنگ سسٹم کی شروعات کر کے جہاں خلیج تعاون کونسل کے ممالک کی طرف مستحکم تعلقات اور پائیدار امن کے لیے پیش قدمی کی ہے وہیں ملائشیا، متحدہ عراب امارات، کویت اور سعودی عرب کی کوششوں کو سراہا جا رہا ہے۔ اسلامی بینکاری کو 2008 کے عالمی مالیاتی بحران سے کافی حد تک محفوظ بنایا گیا۔ آئی ایم ایف کی 2010 کی رپورٹ کے مطابق اسلامی بینک مالی بحران کے دور میں بھی بحران سے دو چار نہیں ہوئے۔ اسلامی اقتصادی نظام میں پیسے سے پیسہ کمانا غلط ہے، اس لیے شریعت کے مطابق ادارے قیاس آرائیوں میں ملوث ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ حقیقی معیشت میں اثاثوں کی بنیاد رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسلامی فائنانسنگ، عالمی مالیاتی اثاثوں کے صرف ایک فیصد کی نمائندگی کرتی ہے لیکن 2021 میں 17 فیصد شرح نمو کے ساتھ یہ شعبہ روایتی بینکنگ کے مقابلے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ S&P گلوبل ریٹنگز کو توقع ہے کہ اسلامی مالیات 2023-2024 میں اوسطاً 10 فیصد تک ہو جائے گا۔ اسلامی مالیات 30 سال پہلے مشکل سے موجود تھی لیکن آج 4 ٹریلین ڈالر کی صنعت ہے جس کے سیکڑوں مالیاتی ادارے 80 سے زائد ممالک میں واقع ہیں۔ اسلامی بینک اسلامی مالیاتی صنعت میں اب تک کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں اور ان کا حصہ 75.1 ٹریلین یا کل اثاثوں کا 70 فیصد ہے۔ اسٹیٹ آف گلوبل اسلامک اکانومی کی رپورٹ کے مطابق 2025 تک کل اسلامی مالیاتی اثاثے 49 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔ جبکہ روایتی فائنانس قرض پر مبنی ہے اور لین دین میں تمام خطرات اور ذمہ داری صارف ہی برداشت کرتا ہے جبکہ اسلامی بینکاری اثاثہ پر مبنی ہے، جس میں مالیاتی ادارے اور صارف کے درمیان شراکت داری کے حصے کے طور پر منافع اور نقصانات کا اشتراک کیا جاتا ہے۔کوئی بھی بینک، صارف کے مالی مسائل اور دیوالیہ پن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا جو اکثر روایتی مالیات میں ہوتا ہے۔ روسی ایسوسی ایشن آف ایکسپرٹس ان اسلامک فائنانس کے ایگزیکٹیو سیکرٹری کا کہنا ہے ’’اسلامی فائنانس شراکت داری پر مبنی تعلقات کو فروغ دیتا ہے، جو کہ روایتی مالیات میں شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔‘‘روس 2008 کے مالیاتی بحران کے بعد سے ہی عالمی اسلامک بینکنگ نظام کے نفاذ پر غور کر رہا ہے۔ 2014 میں یوکرین سے کریمیا کے الحاق کے بعد مغربی پابندیوں کے دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے، روسی بینکوں کی ایسوسی ایشن نے روسی فیڈریشن میں اسلامی بینکاری کی اجازت دینے اور شرعی بینکوں کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے مرکزی بینک کے اندر ایک کمیٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ یوکرین میں جنگ اور روس کے اقتصادی شعبے پر مغربی دباؤ صرف تازہ ترین پیش رفت ہے جس نے اسلامی بینکاری کی طرف رجوع کرنے کے عمل کو تیز کیا ہے۔
مشہور ماہر اقتصادیات جاوید عالم کہتے ہیں کہ غربت، معاشی ناہمواری اور موسمیاتی تبدیلی کی لیے سربراہی اجلاس میں جو قراردادیں منظور کی گئی ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں میں تبدیلی کی بات کہی گئی ہے جس میں غربت کے شکار ممالک کو آسان قسطوں میں قرض کی فراہمی بھی شامل ہے۔ مگر قرض کسی بھی معیشت کی مشکلات کا حل نہیں ہے بلکہ اس پر اضافی بوجھ ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ آج متبادل معیشت اور طریقہ کار کی بات کہی جا رہی ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ دنیا نے اسلامک بیکنگ نظام کو قبول کرلیا ہے مگر یہ واضح ہے کہ اگر روس جیسے ملک میں اسلامک بیکنگ کے تجربات کامیاب ہوتے ہیں تو یہ متبادل کی تلاش میں سرگرداں ممالک کے لیے ایک بڑا تحفہ ثابت ہوسکتا ہے۔
***
***
قرض کسی بھی معیشت کی مشکلات کا حل نہیں ہے بلکہ اس پر اضافی بوجھ ہے۔یہی وہ وجہ ہے کہ آج متبادل معیشت اور طریقہ کار کی بات کہی جا رہی ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ دنیا نے اسلامک بیکنگ نظام کو قبول کرلیا ہے مگر یہ واضح ہے کہ اگر روس جیسے ممالک میں اسلامک بیکنگ کے تجربات کامیاب ہوتے ہیں تو یہ متبادل کی تلاش میں سرگرداں ممالک کے لیے ایک بڑا تحفہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023