فن خاکہ نگاری

محمود عالم مرحوم کے خاکے

ظہیر دانش عمری
ریسرچ اسکالر،شعبہ فارسی،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،حیدرآباد

خاکہ در اصل کسی شخص کی خوبیوں اور خامیوں کو ہوبہو پیش کرنے کا نام ہے۔ اس میں مصنف کو نہ مبالغہ آرائی کی اجازت ہے اور نہ تنقیص کی۔ اردو ادب کا پہلا باقاعدہ خاکہ ’’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ہے، جسے مرزا فرحت اللہ بیگ جیسے مشہور مزاح نگار نے تحریر کیا ہے۔ اس کے بعد خاکہ نگاری میں متعدد نام سامنے آئے، جیسے مولانا محمد صلاح الدین ، شاہد احمد دہلوی، ماہر القادری ، عامر عثمانی، شبلی نعمانی، عبدالحق، مالک رام، مولانا عبدالماجد دریابادی، تقی عثمانی، جوش ملیح آبادی، فراقؔ، شمیم حنفی، یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین، شمیم علیم، مولانا ثناءاللہ عمری، محمدطفیل، مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری اور مولانا حبیب الرحمن اعظمی عمری وغیرہ نے خاکہ نگاری کے فن کو عروج بخشا۔ اردو ادب یقیناً ان اہل علم کی تاقیامت احسان مند رہے گی۔
خاکہ نگاری نہ مدلل مداحی ہے اور نہ تنقیصِ محض کا نام ہے بلکہ انسان کو بحیثیت انسان پیش کرنے کا نام خاکہ ہے، یعنی خوبیوں کے ساتھ خامیوں کا بیان ہو، انسان کے روشن رویوں کے ساتھ ساتھ تاریک پہلوؤں کو پیش کیا جائے، خاکہ کس شخصیت پر لکھاجائے آیا صرف معروف شخصیات پر خاکہ لکھا جائے یاگمنام شخصیات پر لکھا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی شخصیت پر خواہ وہ معروف ہو یا گمنام ہم خاکہ لکھ سکتے ہیں، جیسے بابائے اردو نے اپنے چند ہم عصر ملازمین کا خاکہ لکھا ہے۔ عموماً اردو ادب میں خاکے معروف شخصیات کے ہی لکھے گئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی معروف شخصیت کی نجی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، اس کی ذاتی تفصیلات کو پڑھنا چاہتا ہے۔
  خاکہ زیادہ تر ایسے ادیبوں نے لکھا ہے جو افسانہ، انشائیہ یا مزاح لکھا کرتے تھے اس وجہ سے اس صنف ادب میں بہت ساری خوبیاں یکجا ہوگئی ہیں، اس میں افسانے کا اختصار شامل ہوگیا، انشائیہ کی مٹھاس رچ بس گئی اور مزاح کی پھلجھڑیاں اس کا جزو بن گئی ہیں۔
فن خاکہ نگاری کے ضمن میں جہاں مشہور و معروف خاکہ نویس گزرے ہیں ان میں   محمود عالم کا نام اور مقام نہایت ہی منفرد ہے۔ وہ اردو زبان کے صاحب طرز ادیب اور عالم دین تھے۔ انہوں نے شاعری، افسانہ نگاری، تبصرہ و تنقید نگاری میں کمال حاصل کیا تھا۔ ان کی زبان بڑی شستہ اورصاف ستھری تھی۔ راقم الحروف نے موصوف کی کہانیوں اور افسانوں سے استفادہ کیا ہے۔ آپ کی کہانیاں اور افسانے زیادہ تر اصلاحی اور سماج کے بگاڑ کو درست کرنے کے رویوں سے مملو ہوتے ہیں ۔
  آپ 1952ء کو پیدا ہوئے تھے۔ مدرسہ شمس الہدیٰ سے فراغت حاصل کی۔ اپنی کلاس میں ہمیشہ فرسٹ پوزیشن سے کامیاب ہوتے رہے۔ کئی رسائل کی ادارتی ذمہ داریاں نبھائیں۔ جن میں اسٹوڈینٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کا ترجمان ماہنامہ ’رفیق‘ قابل ذکر ہے جس کی ادارت انہوں نے 1983 سے 1987 تک نبھائی۔ انتقال کے چند سال قبل ریاض میں لائبریرین کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے تھے۔ آپ کی درج ذیل مطبوعہ تصانیف موجود ہیں :
۱۔ صبر اور جہاد  
  ۲۔ مولانا مودودی اور معاصر علماء
۳۔ تحصیل و ترسیل
 ۴۔ تنقیح وتشریح ۵۔ عرب کا مجاہد 
۶۔ توضیح و تصریح
 ۷۔ لمحے بھرکا ہم سفر
 محمود عالم نے اپنی تصنیف میں اپنے اساتذہ، محسنین، علماء و مشائخ کا مختصراً تذکرہ کیا ہے، خاکے نہایات مختصر تحریر کیے ہیں لیکن اختصار کے ساتھ ساتھ آپ کے خاکے جامعیت سے متصف نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اساتذہ کا تذکرہ بڑی محبت سے کیا ہے۔ استاد یقیناً طالب علم کے لیے دنیا میں جنت سے کم نہیں، کیوں کہ استاذ اچھے اخلاق و کردار کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ علم کے جہان طالب علم کے سامنے وا کرتا ہے۔ نالائق، بے کار، ناکارہ اور معمولی طالب علم کو لائق و فائق بناتا ہے۔ ذہین طلباء کے ساتھ ساتھ کمزور طلباء پر بھی توجہ صرف کرتا ہے۔ اپنے اساتذہ کی قدر کرنا طالب علم کے لیے واجب ہے۔ جو طالب علم استاد کی قدر نہیں پہچان سکا، ان سے کماحقہ  استفادہ نہیں کرسکا اس سے بد بخت اور بد نصیب شخص پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے۔
 مولانا محمد یعقوب صاحب محمود عالم کے استاد ہیں جن کا تذکرہ موصوف نے اس طرح کیا ہے ۔ ’’گاؤں والوں پر مولانا کا بڑا رعب و دبدبہ تھا۔ چائے خانہ، پان کی دکان، لانڈری، ٹیلرنگ ہاؤس اور ہر دکان پر مولانا کا حکم نامہ جاری ہوتا تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کے حکم کو ٹال سکے۔ تنخواہ معمولی تھی، گھر گھر سے چاول کی مٹھیا کی وصول ہوتی تھی۔ یہی مٹھیا مولانا کی اصل کھیتی تھی ۔‘‘(زمانہ اس کو بھلا نہ دے ،ص: ۱۳)
محمود عالم نے ایسے کرداروں کی تصویر کشی کی ہے جن کے بارے میں ہم صرف سنتے تھے یا ان کی کتابیں پڑھتے تھے۔ وہ اساتذہ جو مالی طور پر نہایت بد حال تھے ان کے واقعات، علم کے لیے ان کی قربانیاں جان کر آنکھیں بھر آتی ہیں۔ دل درد سے لبریز ہوجاتا ہے۔نہ جانے وہ کیسی صورتیں تھیں جنہوں نے تیرے علم کے لیے دن رات ایک کر دیے، جو علم کے سچے قدر دان تھے، جو علم کے لیے تکلیف برداشت کرنا سعادت سمجھتے تھے۔ ایک آج کےطلباء ہیں جو نہایت آرام و اطمینان کے باوجود مدارس اور اسکولوں کے ذمہ داروں  سے گلے شکوے کرنے سے باز نہیں آتے۔ محمود عالم ایسے ہی اساتذہ کے شاگرد تھے، اس لیے فاقہ کشی کی روایت کو انہوں نے بھی نبھایا۔محمود عالم کا بچپن بڑی غربت اور عسرت میں گزرا، اس لیے وہ کافی چھوٹی عمر میں ہی حساس طبیعت کے مالک بن گئے تھے۔ قناعت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی،  مگروہ بچپن میں بڑے چلبلے اور شریر بھی تھے، جیسا کہ انہوں نے خود ذکر کیا ہے: ’’بچپن میں میرے اندر شوخی اور شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اگرچہ غربت اور افلاس نے وقت سے پہلے سنجیدہ بنا دیا تھا لیکن طبعی شوخی اور چلبلا پن میرے اندر موجود تھا۔ بہت جلد سب کی توجہ کا مرکز بن جایا کرتا تھا‘‘ (ایضاً ، ص: ۳۴)
  محمود عالم نے جن اہل قلم سے استفادہ کیا ہے ان میں خصوصاً مائل خیر آبادی قابل ذکر ہیں۔ محمود عالم ۱۸ سال کی عمر میں ’’نور‘‘ کے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگے تھے، تقریباً تین سال تک ماہنامہ نور میں کام کرتے رہے، اپنے دو بزرگوں کا وہ بہت احسان مانتے ہیں جنہوں نے ان کے دور میں ’نور‘ کی خامیوں کی طرف بر ملا اشارہ کیا۔ ان کے اس عمل کے سبب محمود عالم کی تحریریں کسی قسم کے سقم سے یکسر پاک رہیں۔ مائل خیرآبادی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’راقم الحروف بچپن سے ان کی تحریر کا دلدادہ تھا، ان کے مضامین اور کہانیاں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا، ’نور‘ بچوں میں بے حد مقبول تھا۔ مائل چچا اس کے مدیر تھے۔ ہمیں اس کا انتظار رہا کرتا تھا، بچپن ہی سے ان کی کہانیوں کو دلچسپی سے پڑھتا رہا ہوں اور اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ ادھر کچھ دنوں سے ان کی بعض تحریر یں سہ روزہ دعوت میں چھپتی رہیں، قند مکرر کے طور پر دوبارہ اور سہ بارہ پڑھتے وقت بھی یہ احساس نہ ہوا کہ وقت ضائع ہو رہا ہے۔ ان کی تحریر  میں ایسی تازگی تھی کہ بار بار پڑھئے اور لطف اٹھائیے۔ مولانا اسماعیل میرٹھی کے بعد وہ اردو کے منفرد ادیب تھے کہ اس خاص اسلوب کے موجہ و ماہر تھے۔ بڑی سے بڑی بات اور گہرا فلسفہ معصوم بچوں کے ذہن میں کیسے اتارا جائے یہ وہ جانتے تھے‘۔
  محمود عالم نے ان تمام خاکوں میں اپنے ممدوحین کے اخلاق کو نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ گویا اپنے قارئین کو اچھے اخلاق اپنانے، اخلاق مذمومہ سے دور رہنے کی غیر شعوری طور پر تلقین کر رہے ہوں، مولانا ابو سلیم محمد عبدالحی کی تربیت میں محمود عالم نے تین سال گزارے۔ آپ کی مہربانیوں، شفقتوں، محبتوں کا تذکرہ جس انداز میں کیا ہے کہ دل بے اختیار ان اوصاف کو اپنانے اور ان کی اتباع کرنے کو چاہتا ہے۔ انتظام کی جو صلاحیت محمد عبدالحی مرحوم میں تھی وہ بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔
  محمود عالم جوانی میں بڑے شریر واقع ہوئے تھے۔ شرارت در حقیقت ذہانت کی علامت ہوتی ہے۔ چنانچہ واقف عظیم آبادی کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کی تفصیل اس طرح بیان کرتے ہیں :
  ’’علامہ سید شاہ فضل امام واقفؔ عظیم آبادی کا نام میں نے سن رکھا تھا لیکن ملاقات ایمر جنسی کے زمانے میں ہوئی۔ خدا بخش لائبریری کے ریڈنگ روم میں تشریف فرما تھے۔ میں نے اندرا گاندھی کی ہجو لکھی ہے ‘کسی نے کہا ’’ارشاد فرمائیے‘‘ فرمایا: اک پیکر فریب ہے اندرا کہیں جسے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’یہ ہجو ہے یا قصیدہ‘‘ یہ سنتے ہی چراغ پا ہوگئے۔ آپ مجھے ہجو اور قصیدے کا فرق سمجھائیں گے؟‘‘ میں آپ کی بھی ہجو لکھ دوں گا‘‘ میں نے کہا’’ آپ جب لکھیں گے تب لکھیں گے‘ ‘میں تو ابھی لکھوں گا’’ اور فوراً تک بندی کرڈالی ۔
اک بحر بے کنار ہے واقف کہیں جسے
لیکن تنک مزاج ہے ہاتف کہیں جسے
  ڈاکٹر احمد یوسف نے محمود عالم کے خاکوں کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’جن پر خاکے لکھتے ہیں ان کی شخصیت کے مدھم مدھم سے خد و خال اور اس کے قلب و جگر کی کوئی واردات پیش کرتے ہیں تو آپ اس سے خاصا لطف اٹھاتے ہیں‘‘۔
  محمود عالم نے زیادہ تر ایسی شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جن میں تقویٰ، پرہیز گاری، اخلاص، ہیبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو اللہ کو خوش کرنے کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے۔ چند بزرگوں کے خاکے اتنے پر اثر ہیں کہ پڑھ کر آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ ان کی قناعت،اللہ پر یقین اور صبر کے بارے میں پڑھ کر رشک ہوتا ہے۔
آج اردو زبان کو ایسے ہی قلم کاروں اور خاکہ نگاروں کی ضرورت ہے جو دینی و علمی بزرگ شخصیات کی حقیقی زندگی کے سبق آموز پہلوؤں کو عوام کے سامنے اس انداز سے رکھیں کہ قارئین دوران مطالعہ اپنے آپ کو ان اخلاق سے متصف کرنے کا تہیہ کرنے پر مجبور ہو جائیں اور ایک صالح معاشرہ وجود میں آئے۔
***

 

***

   محمود عالم نے زیادہ تر ایسی شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جن میں تقویٰ، پرہیز گاری، اخلاص، ہیبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو اللہ کو خوش کرنے کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے۔ چند بزرگوں کے خاکے اتنے پر اثر ہیں کہ پڑھ کر آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ ان کی قناعت،اللہ پر یقین اور صبر کے بارے میں پڑھ کر رشک ہوتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2023