فری بیز کلچر: سیاسی پالیسیاں یا غریبوں کا فائدہ؟

شیلٹر ہومس کے بحران پر عدلیہ کی تشویش یا پھر کوئی غلط فہمی؟

0

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

جسٹس بی آر گوائی کا بے گھر افراد کے بارے میں بیان، تنازعات کے گھیرے میں
پچھلے دنوں جسٹس بی آر گوائی کا کیا گیا تبصرہ قوم کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہوں یعنی شلٹر ہومس کے معاملے پر سپریم کورٹ کی حالیہ سماعت کے دوران جسٹس بی آر گوائی نے کہا کہ مفت ملنے کی وجہ سے لوگ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جسٹس بی آر گوائی کی بنچ نے کہا کہ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرتے ہوئے انہیں مرکزی دھارے کے شامل ہونا چاہیے، انہیں معاشرے کا حصہ بنانے کے بجائے کیا ہم انہیں پیراڈائز یعنی مفت خور طبقہ نہیں بنا رہے ہیں؟ گوائی اور اے جی مسیح کی بنچ، ایک آر کمار کی جانب سے دائر کردہ درخواست جو بے گھروں کے لیے شیلٹر ہومس سے متعلق تھی، اس کی سماعت کر رہے تھے۔
اس کیس کے ایک اور درخواست گزار اور وکیل پرشانت بھوشن بھی ہیں، انہوں نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پالیسیاں صرف امیروں کے لیے بنائی گئی ہیں، غریبوں کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے پچھلے کچھ سالوں میں اربن شیلٹر ہومس یعنی شہری پناہ گاہ کی اسکیم کی فنڈنگ روک دی ہے جس کے نتیجے میں ریاستیں اور مرکزی زیر انتظام علاقے یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں اور وہ شیلٹر ہومس نہیں بنا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی لوگ سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ صورتحال اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ موسم سرما میں سردی سے ٹھٹھرنے کی وجہ سے سات سو پچاس سے زائد بے گھر افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
اتنی سنگین صورت حال ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اعلان کیے جانے والے مفت وعدوں، یعنی فری بیز سے طفیلیوں کا ایک طبقہ پیدا ہو رہا ہے اور لوگوں کو مفت راشن اور رقم دے کر انہیں نکما بنایا جا رہا ہے۔
بدقسمتی سے بے گھر افراد اور غریب لوگ اس کیفیت کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ بے گھر ہونے کی وجہ سے ان پر کسی قسم کی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ لوگ سب سے زیادہ عدم توجہی اور غیر ترجیحی بنے ہوئے ہیں۔ مسٹر کمار نے کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت دکھ اور افسوس ہو رہا ہے کہ ہماری ہمدردی صرف اور صرف امیروں کے لیے ہے، غریبوں کے لیے نہیں ہے۔
یہ سنتے ہی جج صاحب بھڑک گئے، کہنے لگے کہ یہ کوٹ روم ہے، رام لیلا میدان نہیں، یہاں رام لیلا میدان جیسی تقریر نہ کریں۔ عدالت میں، اپنے آپ کو دلیل تک ہی محدود رکھیں۔ اگر آپ کسی کی حمایت کر رہے ہیں تو اسے اس حد تک ہی محدود رکھیں۔ غیر ضروری الزامات نہ لگائیں۔ یہاں سیاسی تقریر نہ کریں۔ ہم اپنے کمرہ عدالت کو سیاسی پلیٹ فارم میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔
پرشانت بھوشن نے وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ درخواست گزار صرف علاقے کی خوبصورتی کے نام پر شیلٹر ہومس کو ہٹانے کا مسئلہ اٹھا رہا ہے۔ دہلی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ پناہ گاہیں خستہ حالت میں ہیں۔ اس پر جج صاحب مزید برہم ہوگئے، جسٹس گوائی نے کہا، "بدقسمتی سے ان مفت چیزوں کی وجہ سے، جو صرف انتخابات کے وقت ہوتے ہیں۔ جیسے لاڈلی بہن اور کچھ اسی طرح کی اسکیمیں وغیرہ، اسی وجہ سے وہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں مفت راشن مل رہا ہے۔ انہیں کوئی کام کیے بغیر ہی رقم مل رہی ہے تو وہ بھلا کام کیوں کریں گے؟ ایسا کیوں ہے؟ کیا انہیں مین اسٹریم سوسائٹی کا حصہ نہیں بنانا چاہیے؟ انہیں ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کی اجازت نہ دی جائے؟
پرشانت بھوشن نے پھر مداخلت کرنے کی کوشش اور کہا کہ اگر ان کے پاس نوکریاں ہوتیں تو وہ مین اسٹریم سوسائٹی کا حصہ ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان شیلٹر ہومس میں رہنے والے عام طور پر معمولی ملازمتیں کرتے ہیں اور یہ اپنا ذاتی گھر بنانے کہ متحمل نہیں ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جو لوگ شیلٹر ہومس میں رہتے ہیں وہ معمولی مزدور ہوتے ہیں، وہ نہ تو اپنا ذاتی گھر بنا سکتے ہیں اور نہ ہی کرایہ کا گھر رکھ سکتے ہیں، رات گزارنے کے لیے شیلٹر ہومس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ پرشانت بھوشن نے کہا کہ "اس ملک میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو کچھ کام ہونے کے باوجود کام کرنا نہ چاہتا ہو، ان لوگوں کے شہروں میں آنے کی وجہ یہی ہے کہ ان کے گاؤں میں کوئی کام نہیں ہے۔”
یہ سن کر جج صاحب کو اور بھی غصہ آ گیا، انہوں نے اس بات کو یک طرفہ علم قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور اپنا ذاتی تجربہ بیان کرنے لگے۔ "میں ایک کسان گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ مہاراشٹر میں ان ہی مفتوں فری بیز کی وجہ سے، جو انتخابات سے پہلے کیے جاتے ہیں کسانوں کو مزدور نہیں مل رہے ہیں۔ کیوں کہ مزدوروں کو گھر بیٹھے مفت راشن جو مل رہا ہے”۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ جسٹس گوائی نے عدالت میں مفت اشیاء کی فراہمی پر بحث کو اٹھایا ہے۔ اس سے قبل 7 جنوری کو جوڈیشل افسران کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے، انہوں نے کہا تھا کہ "ریاستی حکومتوں کے پاس ان لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے پیسے ہوتے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے، الیکشن آتے ہی، لاڈلی بہنا اور دیگر نئی اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں، مقرر کردہ رقم ادا کرتے ہیں۔ یہاں دہلی میں کسی نہ کسی پارٹی کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو ہر شخص کو ڈھائی ہزار روپے مفت دیں گے۔”
سپریم کورٹ میں فری بیز کلچر کے معاملے پر بھی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ بی جے پی دہلی کے ترجمان اشونی اپادھیائے کی طرف سے دائر کردہ مفاد عامہ کی درخواست (پی آئی ایل) جس میں الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے دوران مفت اشیاء دینے کا وعدہ نہ کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ اس کے جواب میں 2022 میں سپریم کورٹ نے تین ججوں کی بنچ کے سامنے سیاسی جماعتوں کی جانب سے مراعات دینے سے متعلق درخواستوں کی فہرست بنانے کی ہدایت دی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر کارپوریٹ کمپنیوں کو جو مراعات دیے جاتے ہیں اور ان کا جو قرض یعنی رائٹ آپس کے نام پر معاف کیا جاتا ہے، اگر اس میں سے آدھی رقم بھی نکال کر اس سے غریب و بے گھر افراد کو گھر بنا کر دیا جاتا تو آج ملک میں کوئی بے گھر نہ ہوتا، حکومت کارپوریٹس کو دو چار روپے میں فی ایکڑ زمین فراہم کرتی ہے، لیکن ان ہی کمپنیوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو ایک انچ زمین مہیا نہیں کرسکتی، اس ملک میں ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ اسے کھانا ملے، اسے رہنے کے لیے گھر میسر ہو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اسے اس کی بنیادی ضروریات فراہم کرے۔ سوٹ بوٹ کی سرکاروں کو دھوپ کی شدت اور خون جما دینے والی سردی کی تکلیفوں کا کیا احساس ہوگا، انہیں تو مزدوروں کا خون چوسنے والے کارپوریٹس کے تلوے چاٹنے سے ہی فرصت نہیں ہے!

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 مارچ تا 08 مارچ 2025