
فرانس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان اور نئی سفارتی کشمکش
فرانس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان اور نئی سفارتی کشمکش
محمد مجیب الاعلیٰ
امن کا راگ اور مزاحمت پر قدغن لگانے کی بات!
غزہ میں جاری نسل کشی، اسرائیلی جارحیت اور عالمی بے حسی کے ماحول میں فرانس نے امن و استحکام کی ایک نئی سفارتی کوشش کا آغاز کیا ہے۔ صدر ایمانوئل ماکرون نے فلسطینی صدر محمود عباس کو ارسال کردہ خط میں دو ریاستی حل کے لیے فرانس کے عزم کا اعادہ کیا اور سعودی عرب کے اشتراک سے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک بین الاقوامی امن کانفرنس کی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔ اس کے علاوہ ماکرون نے اعلان کیا کہ فرانس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے پر پوری طرح تیار ہے۔ تاہم، فرانس کے اس اقدام کو فوری طور پر شدید بین الاقوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ نے اسے ’’قبل از وقت‘‘ اور ’’یکطرفہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے فیصلے امن مساعی کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے تنبیہ کی کہ "یہ اعلان دراصل حماس جیسے گروہوں کو تقویت دے گا اور اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گا۔” اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس فیصلے کو "دہشت گردی کی فتح” سے تعبیر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ فرانس دراصل ایران اور اس کے علاقائی حلیفوں کے بیانیے کو تقویت دے رہا ہے۔ کینیڈا، آسٹریلیا اور چند دیگر مغربی حکومتوں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نے واضح کر دیا کہ واشنگٹن فلسطین کو یکطرفہ تسلیم کرنے کے کسی بھی اقدام کو ویٹو کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
یہ تمام بیانات اس تلخ حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین اب صرف اخلاقی یا انسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی تزویراتی ترجیحات اور سیاسی مصلحتوں کے شکنجے میں جکڑ چکا ہے—جہاں ظالم کے حق میں صف بندی فوری اور مظلوم کے لیے انصاف مشروط بن چکا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکرون اور فلسطینی اتھاریٹی کے صدر محمود عباس کے درمیان مکاتبت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور عالمی طاقتیں تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ماکرون کا یہ پیغام فلسطینی اتھارٹی کے لیے ایک طرح کی اخلاقی پشت پناہی تو فراہم کرتا ہے لیکن اسی کے ساتھ اس میں مزاحمتی تحریکوں کے اسلحے کی واپسی اور ’دہشت گردی کی مذمت‘ جیسے نکات بھی شامل ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فرانسیسی موقف مکمل طور پر غیر جانب دار نہیں ہے بلکہ مخصوص سیاسی مصلحتوں کے جال میں لپٹا ہوا ہے۔
فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان بظاہر ایک مثبت سفارتی پیش رفت معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے بین السطور کئی پیچیدہ اور بعض پہلوؤں میں متضاد نکات بھی پوشیدہ ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکرون نے جہاں فلسطینی عوام کی قومی امنگوں کا اعتراف کیا ہے، وہیں ’دہشت گردی‘ کی مذمت اور عسکری گروہوں سے اسلحہ واپس لینے جیسے مطالبات کے ذریعے اسلامی مزاحمتی قوتوں کو درپردہ مجرم ٹھیرایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسی مزاحمت جو بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک قابض قوت کے خلاف منصفانہ دفاع کے زمرے میں آتی ہے، اسے دہشت گردی قرار دینا انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟
اسی خط و کتابت کے دوران فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی ایک افسوس ناک موقف اختیار کیا جب انہوں نے حماس کی مزاحمتی کارروائیوں کی مذمت کی۔ یہ وہی حماس ہے جو صہیونی ریاست کے مظالم کے خلاف سینہ سپر ہو کر ہزاروں فلسطینیوں کے دل کی آواز بن چکی ہے۔ اگر فلسطینی اتھاریٹی خود اپنے ہی عوام کی مزاحمتی آواز کو مسترد کر دے تو امن کی کوئی بھی کوشش خود اپنی جڑیں کھو بیٹھتی ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ آیا ظالم اور مظلوم کو ایک ہی پلڑے میں رکھنے سے پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے یا ہم ایک ایسی عالمی سفارت کاری کے شاہد ہیں جو لفظوں میں تو ’’دو ریاستی حل‘‘ کا نعرہ بلند کرتی ہے لیکن عمل میں قابض و مقبوض اور ظالم و مظلوم دونوں کو یکساں قرار دیتی ہے؟ یہی وہ طرزِ فکر ہے جس نے مسئلہ فلسطین کو دہائیوں سے معلق رکھا ہوا ہے۔
جب تک دنیا صہیونی جارحیت پر دو ٹوک مؤقف نہیں اپناتی اور جب تک مظلوم کی مزاحمت کو اس کے حقِ دفاع کے طور پر تسلیم نہیں کرتی تب تک کوئی بھی کانفرنس، کوئی بھی قرارداد اور کوئی بھی امن کوشش محض سفارتی نمائش کہلائے گی۔
بین الاقوامی برادری کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ پائیدار امن کے تصور کو دو فریقوں کے درمیان جنگ کے خاتمے تک محدود نہ رکھے بلکہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک جاری رکھے۔ امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ظالم کو ظلم سے روکا نہ جائے، مظلوم کی دادرسی نہ ہو، اس کے حقوق کی بحالی نہ ہو اور اس کی آواز کو عالمی پلیٹ فارم پر تسلیم نہ کیا جائے۔ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جب عالمی اداروں نے طاقتور فریقوں کی حمایت کی—چاہے وہ استعماری دور کی ہو یا حالیہ تنازعات— اس کے نتیجے میں نہ صرف مظلوم کی بے بسی بڑھی، بلکہ عدم استحکام نے عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈالا ہے۔ اگر عالمی نظام اسی روش پر قائم رہا تو یہ تاریخ کے ریکارڈ میں ایک اور ناکامی کے طور پر درج ہوگا، جہاں انصاف کے نام پر صرف طاقت ور ظالم کی پشت پناہی کی گئی اور مظلوموں کو فنا کے گھاٹ اترنے کا تماشا دیکھا گیا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025