فوجداری قوانین کی تبدیلی حقیقت ہے یا فسا نہ

دفعہ 124 اے اب بھارتی قانون نہیں رہے گا، لیکن اسے دفعہ 158 بھارتیہ نیائے سمو یتھا کے طور پر رکھا گیا ہے

زعیم الدین احمد حیدرآباد

جن قوانین کو تبدیل کیا جا رہا ہے ان کی ساری تحریر انگریزی میں لکھی جارہی ہے لیکن ان قوانین کے عنوانات ہندی میں ہیں جبکہ عنوان بھی تحریر کا حصہ ہی ہوتا ہے۔۔ بہر حال مودی حکومت کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ چیزوں کو جوں کا توں رکھتی ہے اور صرف نام تبدیل کرکے اسے اپنے کارناموں میں گنتی ہے۔
مرکزی حکومت نے بھارتی فوجداری نظام قوانین (کریمنل جسٹس سسٹم) کو پوری طریقہ سے تبدیل کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں ایک نیا بل پیش کیا، مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ انڈین پینل کوڈ، کوڈ آف کریمنل پروسیجر، ایویڈینس ایکٹ، ان تینوں قوانین کو یکسر تبدیل کر رہی ہے۔ جب کے ماہرین قوانین کا کہنا ہے کہ اس میں نیا کچھ بھی ہیں، قوانین تبدیل نہیں کیے گئے ہیں بلکہ اکثر قوانین کے صرف نام تبدیل کیے گئے ہیں۔ قوانین کو آگے پیچھے کیا گیا ہے، جو قوانین پہلے درج تھے انہیں پیچھے کیا گیا ہے اور جو قوانین پیچھے صفحات پر درج تھے انہیں آگے درج کیا گیا ہے۔ اگر کچھ قوانین تبدیل بھی کیے گئے ہیں تو ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔
امیت شاہ وزیر داخلہ نے ان تین بلوں کو پارلیمنٹ میں پیش کرتے وقت کہا کہ برطانوی سامراج کے فوجداری قوانین جو غلامی کی علامتیں ہیں ہم انہیں مٹا کر بھارتی فوجداری قوانین مدون کرنے جا رہے ہیں، ان بلوں کو سلیکٹ کمیٹی کو بھیج دیا گیا، امید کرتے ہیں کہ ان قوانین پر بہتر انداز میں تحقیق ہوگی۔ امیت شاہ کی بات بھی درست ہے کہ سامراجی قوانین غلامی کی علامت ہیں، ان قوانین کو اسی وقت ہٹ جانا چاہیے تھا جب ملک آزاد ہوا تھا انہیں اب تک کیوں نافذ العمل رکھا گیا؟ یہی حیران کن بات ہے، اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے قوانین خود جنہوں نے مدون کیے ہیں ان کے پاس بھی نہیں ہیں، انہوں نے تو اپنی عوام کے لیے نئے قوانین مدون کرلیے ہیں، ہمارے ملک میں آج بھی وہی قوانین نافذ العمل ہیں۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان فوجداری قوانین میں پارلیمنٹ نے کئی مرتبہ تبدیلی کی ہے، ان میں سے کئی قوانین کو منسوخ بھی کیا ہے اور نئے زمانے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نئے قوانین متعارف بھی کروائے ہیں، پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ قوانین برطانوی سامراجی غلامی کی علامتیں ہیں؟ بہر حال ان تینوں بلوں کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ ان بلوں کے گہرائی سے مطالعہ کے لیے وافر وقت ملے گا، جیسے جیسے باتیں سامنے آئیں گی اس پر گفتگو کی جاتی رہے گی، اور بھی باتیں واضح ہوتی جائیں گی۔
امیت شاہ نے کہا کہ ہم ’’راج دروہ‘‘ کے قانون کو مکمل طور پر برخاست کر رہے ہیں، اب کوئی راج دروہ کا قانون نہیں ہوگا، انہوں نے کہا کہ دفعہ 124 اے اب بھارتی قانون نہیں رہے گا، لیکن درحقیقت اس کو دفعہ 158 بھارتیہ نیائے سمویتھا کے طور پر رکھا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دفعہ میں مزید سختیاں شامل کردی گئی ہیں، یعنی دفعات کو وہی ہیں محض ان کے نام اور جگہ تبدیل کیے گئے ہیں، اب ان کے نام وہ نہیں ہوں گے جو پہلے تھے جیسے کہ آئی پی سی یعنی انڈین پینل کوڈ اب اس کا نام تبدیل کر کے "بھارتیہ نیائے سمویتھا” رکھا گیا ہے۔ سی آر پی سی یعنی کوڈ آف کریمنل پروسیجر کا نام بدل کر "بھارتیہ ناگریکا سرکشھا سمویتھا” رکھا گیا ہے، اسی طرح ایویڈینس ایکٹ کا نام بدل کر "بھارتیہ ساکشیہ” رکھا گیا ہے۔ ویسے ناموں کی تبدیلی میں تو مودی حکومت کا کوئی ثانی نہیں ہے، ایسے ہر نام جہیں وہ غلامی کی علامت سمجھتے ہیں، تبدیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک کے نام سے لے کر گلی کوچوں کے ناموں تک سب بھگوا رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ پھر یہ کہ مودی حکومت کے کام بغیر تنازعہ کے ہوں یہ ممکن نہیں ہے، تنازعہ اور مودی دونوں ایک دوسرے کے مترادف بن گئے ہیں۔ اب ان ناموں میں بھی تنازعہ پیدا ہو گیا ہے، پہلا یہ ہے کہ قوانین کے نئے نام ان میں پائے جانے والے مواد کی عکاسی نہیں کر رہے ہیں، مثلاً انڈین پینل کوڈ یعنی تعزیرات ہند کے تحت سزائیں کیوں دی جائیں، کس لیے سزائیں دی جائیں، کیسے دی جائیں اور جس حد تک دی جائیں ان سارے معاملات پر اس میں بحث کی گئی ہے، لیکن اس کا نام بدل کر بھارتیہ نیانیہ سمویتھا رکھا گیا، نیانیہ کے معنی عدل و انصاف یعنی جسٹس کے ہیں، عدل و انصاف ایک بہت وسیع اصطلاح ہے، اسے صرف تعزیرات کے لیے مختص نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے یہ نام اپنے اندر موجود قانونی مواد کی عکاسی نہیں کر رہا ہے، اس میں صرف تعزیراتی قوانین ہی ہوں گے جب کہ مفہوم کے لحاظ سے اس میں سارے فوجداری و عدل و انصاف کے قوانین درج ہونے چاہئیں۔ اسی طرح انڈین کوڈ آف کریمنل پروسیجر کا نام اب "بھارتیہ ناگریکا سرکشھا سمویتھا” ہے، اس میں سرکشھا کے معنی حفاظت یا تحفظ کے ہیں، جبکہ تحفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے، تعزیرات اس مفہوم کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہوتا ہے۔ فوجداری قانون اس تحفظ کے مفہوم کا احاطہ نہیں کرتا۔ حفاظت یا تحفظ میں اور بھی بہت سارے معاملات ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہ نام بھی اس قانون میں موجود مواد کی عکاسی نہیں کر رہا ہے۔ یہ تنقید کا ایک تکنیکی پہلو ہے، اس کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔
یہ تنقید جنوبی ہند کی ریاستوں سے کی گئی ہے، اس کی ابتدا ڈی ایم کے کے سربراہ ایم کے اسٹالن نے کی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ ہندی نام ہیں، ہندی ناموں کو کس طرح رکھا جاسکتا ہے جبکہ ملک میں بہت ساری زبانیں ہیں، کس بنیاد پر ہندی کو دیگر زبانوں پر ترجیح دی جا سکتی ہے؟ کیا یہ ہندی کو بالجبر ہم پر تھوپنے کی کوشش نہیں ہے؟ اس کو غیر ہندی ریاستیں کیسے قبول کریں گی جبکہ یہ قوانین ریاست اور مرکز کے درمیان مشترکہ ہوتے ہیں۔ یعنی ریاست اپنے طور پر قوانین مدون کرسکتی ہے، اس کے باوجود جو قوانین مرکزی حکومت بناتی ہے اسی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ غیر ہندی ریاست کا کوئی وکیل اس قانون کے مطابق بحث کرے گا تو اسے چار و ناچار اس کا نام لینا ہی پڑے گا اور وہ نام ہندی زبان میں ہیں، تو وہ کیوں ہندی زبان کا نام لے؟ اس سے قبل ان کے نام آئی پی سی، سی آر پی سی وغیرہ تھا لیکن اب اگر ان کو مخفف انداز میں بھی پکارا جاتا ہے تو وہ ہندی میں ہی ہوگا، کیا ہندی کو ہم پر زبردستی تھوپا جائے گا؟ اسی لیے ڈی ایم کے اسے ہندی سامراجیت کا نام دے رہی ہے۔ آپ ہمیں برطانوی سامراجیت کی غلامی کی علامت سے نکال کر ہندی سامراجیت کی طرف لے جا رہے ہیں؟ اسٹالن کی یہ باتیں یوں ہی نہیں ہیں، اس کے پیچھے دلائل ہیں۔ کیا مودی حکومت نے ہندی کو تھوپنے کی کوشش نہیں کی ہے اور انہوں نے اپنے وزراء کو تاکید نہیں کی کہ وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر صرف ہندی میں ہی پوسٹ کریں؟ کیا امیت شاہ نے ہندی کو بھارت کی روح قرار نہیں دیا تھا؟ دیگر زبانوں کو اور خاص کر جنوبی ہند کی زبانوں کو دوسرے درجے کی زبانیں تصور نہیں کیا جاتا ہے؟ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ریاستوں کے درمیان خط و کتابت ہندی زبان ہونی چاہیے۔ انہوں نے علاقوں کے نام بھی ہندی زبان میں رکھنے کی بات کہی تھی۔ یہ ساری باتیں دستور ہند کے خلاف ہیں کیوں کہ حکومت نے ان زبانوں کو دوسرے درجے کی زبانیں سمجھا ہے، حالانکہ جتنی قدر ہندی زبان کی ہے اتنی ہی قدر و منزلت دیگر زبانوں کی بھی ہے۔ اس میں پہلا و دوسرا درجہ نہیں ہے۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں ان کے الزامات صحیح معلوم ہوتے ہیں۔
اس میں ایک اور پہلو سے بھی نقص نظر آتا ہے، وہ یہ کہ اس میں دستوری اعتبار سے بھی خامیاں ہیں۔ دستور کی دفعہ 348 بی کی بھی اس میں خلاف ورزی ہو رہی ہے، اس دفعے میں صاف اور واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ میں مدون ہونے والے قوانین کی بااعتماد تحریریں انگریزی زبان میں ہی لکھی جائیں گی۔ یعنی جو بھی قوانین پارلیمنٹ میں بنائے جائیں گے ان کی نقول صرف اور صرف انگریزی زبان میں ہی لکھی جائیں گی۔ وہیں اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جو قوانین ریاستیں بناتی ہیں ان کو اجازت ہوگی کہ وہ اپنی علاقائی زبانوں میں بناسکتی ہیں۔ گوکہ جن قوانین کو تبدیل کیا جا رہا ہے ان کی ساری تحریر انگریزی میں لکھی جارہی ہے لیکن ان قوانین کے عنوانات ہندی میں کیوں ہیں جبکہ عنوان بھی تحریر کا حصہ ہی ہوتا ہے۔ تحریر بغیر عنوان کے نہیں ہو سکتی، تو پھر عنوان ہندی میں کیوں لکھا گیا ہے؟ عنوان بھی انگریزی میں ہونا چاہیے۔ بہر حال مودی حکومت کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ چیزوں کو جوں کا توں رکھتی ہے صرف نام تبدیل کرکے اسے اپنے کارناموں میں گنتی ہے۔

 

***

 امیت شاہ وزیر داخلہ نے ان تین بلوں کو پارلیمنٹ میں پیش کرتے وقت کہا کہ برطانوی سامراج کے فوجداری قوانین جو غلامی کی علامتیں ہیں ہم انہیں مٹا کر بھارتی فوجداری قوانین مدون کرنے جا رہے ہیں، ان بلوں کو سلیکٹ کمیٹی کو بھیج دیا گیا، امید کرتے ہیں کہ ان قوانین پر بہتر انداز میں تحقیق ہوگی۔ امیت شاہ کی بات بھی درست ہے کہ سامراجی قوانین غلامی کی علامت ہیں، ان قوانین کو اسی وقت ہٹ جانا چاہیے تھا جب ملک آزاد ہوا تھا انہیں اب تک کیوں نافذ العمل رکھا گیا؟ یہی حیران کن بات ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 اکتوبر تا 21 اکتوبر 2023