جبری مذہب کی تبدیلی ایک ’سنگین مسئلہ‘ ہے: سپریم کورٹ
نئی دہلی، نومبر 14: سپریم کورٹ نے پیر کے روز جبری مذہب کی تبدیلی کو ایک ’’سنگین مسئلہ‘‘ قرار دیا اور مرکز سے کہا کہ وہ 22 نومبر تک اس معاملے پر اپنا موقف واضح کرے۔
جسٹس ایم آر شاہ اور ہیما کوہلی کی بنچ نے کہا کہ اگر زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو وہ ملک کی سلامتی کے ساتھ ساتھ شہریوں کے مذہب اور ضمیر کی آزادی کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ مذہب کی آزادی ہو سکتی ہے لیکن جبری تبدیلی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ججوں نے کہا ’’اپنا موقف بالکل واضح کریں، آپ کیا اقدام کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔ تبدیلی آئین کے تحت قانونی ہے، لیکن زبردستی تبدیلی نہیں۔‘‘
اس پر سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اس معاملے پر ریاستی قانون سازی ہے، خاص طور پر مدھیہ پردیش اور اڈیشہ میں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان ریاستی ایکٹ کے جواز کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا ہے۔
عدالت نے یہ بیانات وکیل اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیے جس میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے کہا گیا کہ وہ کالے جادو، توہم پرستی اور زبردستی مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان طریقوں کے متاثرین اکثر سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ ہوتے ہیں، خاص طور پر درج فہرست ذاتوں اور قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔