فضائے بدر پیدا کر۔۔

معرکہ بدرکبریٰ اور اس کے اسباق

ڈاکٹر ساجدعباسی

فتح و نصرت کے لوازم ہیں: اللہ اور رسول کی اطاعت، آپسی اتحاد، صبرو استقامت، اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر ، عجزو انکساری کے ساتھ دعا اور جنگی تیاری کے ساتھ اللہ کی ذات پر کامل بھروسا
رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا ایک اہم منفرد و اعجازی پہلو یہ ہے کہ آپ کی سیرت میں کئی مراحل ملتے ہیں جو ہر چند سالوں کے بعد بدلتے رہتے ہیں۔ چونکہ آپ خاتم النبیین ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی سیرت میں اتنے محاذ و مرحلے رکھے ہیں کہ قیامت تک کے تمام انسانوں کے ساتھ پیش آنے والے مختلف حالات میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ ہادی ورہنما بن جائے۔ جبکہ دیگر انبیاء ورسل کی سیرتوں میں سارے دور نبوت ورسالت میں ایک یا دو مرحلے ملتے ہیں۔حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی میں ساڑھے نو سو سال تک دعوتی مشن ایک ہی مرحلے میں رہتا ہے یہاں تک کہ قوم کی اکثریت انکار کرتی ہے اور عذاب کا شکار ہوجاتی ہے۔ قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ شعیب اور قومِ لوط کے پاس بھیجے گئے پیغمبروں کی دعوتی سرگزشت ایک ہی مرحلے پر مشتمل ہوتی ہے کہ دعوت دی جاتی ہے اور قوم انکار کرتی ہے اور بالآخر وہ تباہ کردی جاتی اور مٹھی بھر افراد ان پیغمبروں کے ساتھ بچالیے جاتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک دعوتی دور تھا جس میں وہ اپنے باپ ،اپنی قوم اور بادشاہ کے سامنے حق پیش کرتے ہیں ۔اتمامِ حجت کے بعد ہجرت ہوتی ہے اور ساری زندگی دعوتی مشن کے لیے سفر میں گزرتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک دور ہے جس میں نبوت کے بعد فرعون اور اس کی قوم کے سامنے حق پیش کیا جاتا ہے۔ اس دور میں آپ پر اور بنی اسرائیل پر سخت حالات گزرتے ہیں اور ظلم جب بہت بڑھ جاتا ہے تو فرعون کو اس کی فوج سمیت غرق کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام کے دورِ رسالت کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے جس میں وہ ایک نہایت بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح میں لگ جاتے ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں ایک ہی مرحلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی اصلاح کرتے کرتے دنیا سے ہی اٹھالیے جاتے ہیں ۔
حضرت محمد ﷺ کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا تھا کہ مکہ میں اہلِ ایمان بچالیے جاتے اور منکرین پر عذاب نازل ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مکی دورِ نبوت بھی چار ادوار پر مشتمل تھا۔ پہلا تین سالہ دور خاموش دعوت کا دور، دوسرا دور (دو سال) ظلم و ستم کے آغاز کا دور، تیسرا دور (پانچ سال) ظلم و ستم کی انتہا (persecution) کا دور ہے جس میں ہجرت حبشہ واقع ہوئی اور شعب ابی طالب کی گھاٹی میں بنو ہاشم و بنو مطلب کو محصور کر دیا گیا اور چوتھا دور (تین سال) جس میں مکہ میں دعوت اتمام حجت کے مقام کو پہنچتی ہے ۔ اس لیے نئے امکانات کو تلاش کرنے کے لیے طائف کا سفر کیا جاتا ہے جہاں کے سردار آپ کی دعوت کو رد کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد حج کے قافلوں میں دعوت الی اللہ مرکوز ہوتی ہے جہاں اہل یثرب کو قبول ِ اسلام کی توفیق ملتی ہے جس کے نتیجہ میں ہجرت مدینہ کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
مکی دور نبوت سے جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے اتمامِ حجت کے بعد ہی دوسرے محاذ رونما ہوتے ہیں ۔چنانچہ ہجرت کا اہم ترین واقعہ پیش آتا ہے جو اسلامی تاریخ کا نہایت اہم باب ہے۔ہجرت کے بعد جہاد و قتال کا دور شروع ہوتا ہے جو دین کے غلبہ کی صورت میں تکمیل پاتا ہے۔ مدنی دورِ نبوت میں بھی کئی ادوار ہیں۔ میثاقِ مدینہ ومعاہدات، دفاعی جنگیں، صلح کا دور، جب اسلام اور کفر کے درمیان طاقت کا توازن تقریباً یکساں ہوجائے، اسلام طاقتور ہوجائے تو اقدامی جنگ کا مرحلہ تاکہ دنیا سے ظلم اور فتنہ کا استیصال ہو۔
غزوۂ بدر کا پس منظر:
ہجرت سے پہلے کفارِ قریش نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اس نئی تحریک کو روکنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ محمد ﷺ کو قتل کر دیا جائے ورنہ اگر آپ کو جلا وطن بھی کردیا جائے تو جلاوطنی میں بھی یہ تحریک پروان چڑھے گی اور سارے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی ۔اس لیے مشرکینِ مکہ کے لیے اہلِ ایمان کا ہجرت کرنا بھی ایک سانحہ سے کم نہ تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ ہجرت کے بعد بھی اس خطرہ سے نمٹا جائے اور مدینے کی نوزائیدہ ریاست کی بیخ کنی کردی جائے۔ یہ ان کے لیے اس لیے بھی ضروری تھا کہ شام سے مکہ تک کے تجارتی سفر کی شاہراہ مدینے سے ہوکر گزرتی تھی اور مدینہ کی اسلامی ریاست ان کے تجارتی راستے کے لیے خطرہ بن چکی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ شاہراہ مسلمانوں کے اثر و رسوخ سے بالکل آزاد کردی جائے۔ رسول اللہ ﷺ بھی یہ چاہتے تھے کہ اس تجارتی شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کریں تاکہ قریش اور ان کے حلیف اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ پالیسی پر نظر ثانی کریں۔نبی کریم ﷺ نے قریش کے قافلوں کو دھمکی دینے کے لیے اس شاہراہ پر چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کیے لیکن ان کے ذریعے کوئی کشت وخون نہیں ہوا اور نہ کوئی قافلہ لوٹا گیا۔ اُدھر سے اہلِ مکہ بھی
مدینے کی طرف غارتگر دستے بھیجتے رہے جس میں اہل مدینہ کے مویشی لوٹ لیے جاتے تھے۔ شعبان دو ہجری میں قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ پچاس ہزار اشرفیوں کے مال کے ساتھ شام سے مکہ کی جانب رواں تھا جس میں تیس چالیس سے زیادہ محافظ نہیں تھے۔ اس تجارتی قافلہ کے سردار ابوسفیان تھے جنہوں نے خطرے کو بھانپ کر ایک آدمی کو مدینے کی طرف دوڑایا تاکہ قافلہ کی حفاظت کے لیے ایک لشکر روانہ کردیا جائے۔ اس سے سارے مکے میں ہیجان برپا ہوگیا اور قریش کے بڑے بڑے سردار جنگ کے لیے تیار ہوگئے کہ نہ صرف قافلہ کی حفاظت کی جائے بلکہ مدینے کی ریاست پر حملہ کرکے ہمیشہ کے لیے اسلام اور مسلمانوں کو جڑ سے ختم کر دیا جائے۔ تقریباً ایک ہزار تین سو مردانِ جنگ جن میں سے 600 زرہ پوش تھے اور سو گھوڑوں پر سوار تھے۔ مکے سے روانہ ہوتے ہیں۔ لشکر کا سپہ سالار عمرو بن ہشام المعروف ابو جہل تھا۔
ادھر نبی کریم ﷺ نے انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان کے سامنے حالات کی حقیقت رکھ دی کہ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف جنوب سے قریش کا لشکر چلا آرہا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک تمہیں مل جائے گا، بتاؤ تم کس کے مقابلے پر چلنا چاہتے ہو؟ جواب میں اکثریت نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے لیکن رسول اللہ ﷺ کے پیشِ نظر لشکر سے مڈبھیڑ تھی اس لیے آپ نے سوال دہرایا۔ اس پر مہاجرین میں سے مقدادؓ بن عمرو نے کہا ”یا رسول اللہ جدھر آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اسی طرف چلیے ،ہم آپ کے ساتھ ہیں جس طرف بھی آپ جائیں۔ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا دونوں لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ آپ چونکہ انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے اس لیے پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس پر انصار میں سے سعدؓ بن معاذ اٹھے اور انہوں نے انصار کی طرف سے حضور اکرم ﷺ کی پر زور حمایت میں الفاظ کہے کہ اگر آپ ہمیں لے کر سمندر پر جا پہنچیں اور اس میں اتر جائیں تب بھی ہم آپ کے ساتھ رہیں گے۔ اسی بات کو اللہ کی مدد کی صورت میں سورۃ انفال میں فرمایا کہ:وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
(سورہ انفال 68)
اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم رُوئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔
دنیا میں اکثر انقلابات اس لیے ناکام ہوتے ہیں کہ جو افراد اس انقلاب کے نقیب ہوتے ہیں ان کے اندر اتحاد وجانثاری کا فقدان ہوتا ہے۔ موسی علیہ السلام کو ایسی امت سے واسطہ پڑا جس کے دل جانثاری اور جذبۂ اطاعت سے خالی تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی مدد اس طرح سے ہوئی کہ ایک طرف اوس اور خزرج کے دو قبیلوں کے درمیان الفت پیدا ہوئی جو ہجرت سے قبل دائمی عداوت میں مبتلا تھے ۔دوسری طرف انصار و مہاجرین کے درمیان بے نظیر اخوت پیدا ہوچکی تھی۔ چونکہ اس غزوہ کا پہلا ہدف تجارتی قافلہ تھا اس لیے مدینے کے سارے مرد نہیں نکلے۔ چنانچہ تین سو سے کچھ زیادہ مردانِ جنگ (86مہاجر،61 قبیلہ اوس اور 170 قبیلہ خزرج ) کے ساتھ اسلامی لشکر، قافلہ کے بجائے کفارِ مکہ کے لشکر کی جانب روانہ ہوا۔ مسلمانوں کے پاس تین گھوڑےاور 70 اونٹ تھے جن پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ ان میں سے صرف 60 افراد کے پاس زرہیں تھیں۔ چند سرفروشوں کے سوا اکثر آدمی یہ محسوس کر رہے تھے جیسے جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جارہے ہیں (سورۃ انفال 6) اور جن کے دلوں میں نفاق تھا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ دین نے ان لوگوں کو پاگل کردیا ہے۔ (سورۃ الانفال 49)
ادھر اہلِ مکہ کا لشکر بدر کے رخ پر جا رہا تھا راستے میں ابو سفیان کا پیغام ملا کہ قافلہ اہلِ مدینہ کی زد سے نکل چکا ہے اس لیے لشکر کو واپس لوٹا دیا جائے۔ مکے کے لشکر میں بیشتر لوگ واپسی کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ابوجہل اڑ گیا اور نہایت ہی کبرو غرور سے بولا ”خدا کی قسم ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ بدر جاکر وہاں تین روز قیام کریں گے، لوگوں کو اونٹ ذبح کر کے کھلائیں گے، شراب پلائیں گے اور ہماری لونڈیاں گائیں گی تاکہ سارے عرب پر ہماری دھاک بیٹھ جائے“(سورۃ الانفال 47) ابوجہل کے مقابلے میں اخنس بن شریق نے واپسی کا ارادہ کیا اور اس کے ساتھ تین سو لوگ واپس ہوئے۔ اس طرح مکے کے لشکر میں ایک ہزار افراد رہ گئے۔
جب اہلِ مکہ کو اس بات کا اندیشہ ہوا کہ کہیں بنو بکر کا قبیلہ ان کے لشکر کے خلاف کارروائی نہ کردے جس سے اہلِ مکہ کی دشمنی چلی آرہی تھی تو اس موقع پر ابلیس بنو کنانہ کے سردار سراقہ بن مالک کی شکل میں نمودار ہوا اور بولا میں بھی تمہارا رفیقِ کار ہوں۔ لیکن جب اس نے فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے اترتے دیکھا تو وہ الٹے پاؤں
بھاگنے لگا اور کہنے لگا کہ میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جسے تم نہیں دیکھ سکتے (سورۃ الانفال 48)۔ عتبہ بن ربیعہ نے بھی تقریر کی اور کہا ”قریش کے لوگو !تم لوگ محمد اور ان کے ساتھیوں سے لڑکر کوئی کارنامہ انجام نہ دوگے۔ اس لیے واپس چلو اور محمد اور سارے عرب سے کنارہ کش ہو رہو۔ اگر عرب نے انہیں مار لیا تو یہ وہی چیز ہوگی جسے تم چاہتے ہو“۔لیکن ابوجہل کے موقف میں نرمی پیدا نہیں ہوئی اور اس نے کہا: بخدا ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور محمد کے درمیان فیصلہ کر دے۔
معرکہ سے قبل مومنین پر اللہ تعالیٰ نے سکینت نازل فرمائی اور ایک رات قبل ایسی با برکت بارش نازل فرمائی جس سے مسلمانوں کے اندر سے بزدلی (نجاست) دور ہوئی، زمین ہموار ہوئی اور ریت میں سختی پیدا ہوئی جس سے مسلمانوں کے قدم زمین پر جمنے لگے(سورۃ الانفال 11)۔
17 رمضان دو ہجری کو بدر کے مقام پر فریقین کا مقابلہ ہوا۔ مقابلہ سے قبل نبی کریمؐ نے انتہائی تضرع کے ساتھ دعا کی کہ: ”خدایا! یہ ہیں قریش اپنے سامانِ غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ خدایا، بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی۔“
معرکہ کے دوران نبی کریم ﷺ زرہ پہن کر میدان جنگ کی طرف آگے بڑھے اور ایک مٹھی بھر مٹی لی اور قریش کی طرف رخ کرکے فرمایا: شاھت الوجوہ (چہرے بگڑ جائیں) اور مٹھی بھر مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی۔ یہ مٹی ان کی آنکھوں میں جا لگی جس سے ان کی بصارت جاتی رہی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب تم نے پھینکا تو درحقیقت تم نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (سورۃ الانفال 17)۔
اس معرکہ میں سب سے زیادہ آزمائش مہاجرین کی تھی جن کے سامنے ان کے رشتہ دار تھے۔ایک طرف خونی رشتہ تھا تو دوسری طرف حق و باطل کا تقاضا تھا کہ وہ ان سے لڑیں۔
یہ عام معرکہ نہیں تھا بلکہ یہ اللہ کا فیصلہ تھا کہ کس کو باقی رہنا ہے اور کس کو ہلاک ہوناہے۔ اس معرکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مدد کی اور کفار کو شکست فاش ہوئی جس میں ان کے 70 آدمی مارے گئے جس میں ان کے بڑے بڑے سردار شامل ہیں اور ان میں سے 70 قید ہوئے۔ اس لیے اس معرکہ کو یوم الفرقان کہا گیا۔ اس دن یہ فیصلہ کردیا گیا کہ اسلام اور اہلِ اسلام کو زندہ رہنا ہے اور باطل اور اس کے علمبرداروں کو ہلاک ہونا ہے (سورۃ الانفال 42)
ابو جہل کو دو نو عمر جوانوں (معاذؓبن عمروبن جموح اور معاذؓبن عفراء) نے قتل کیا۔ اس پر ابو جہل نے کہا کاش! مجھے کسانوں کے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔اس طرح مکے کے اس متکبر فرعون کا کام تمام ہوا اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا جس کا وہ مطالبہ کر رہا تھا کہ خدایا ہم میں سے جو برسرِ حق ہو اسے فتح دے اور جو برسرِ ظلم ہو اسے رسوا کر دے۔(سورۃ الانفال19)
معرکہ کے بعد مالِ غنیمت پر اختلاف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم سے اَنفال کے متعلق پُوچھتے ہیں؟ کہو”یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔(سورۃ الانفال 1)۔
جنگی قیدیوں کے بارے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مشورہ دیا کہ چونکہ ان میں مہاجرین کے رشتہ دار ہیں اس لیے ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے۔ آپ نے حضرت ابوبکر کے مشورہ پر عمل کیا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت تنبیہ ہوئی کہ: کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔
(سورۃ الانفال 67)
غزوۂ بدر کے اسباق:
۱۔ جب اسلامی ریاست پر کفار و مشرکین کی طرف سے یلغار ہو تو اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے پامردی سے مقابلہ کرنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی ایمانی کیفیت کے مطابق فرشتوں کے ذریعے مدد کرنے پر قادر ہے۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
۲۔ فتح نصیب ہو تو اس کو اپنی شجاعت کا نتیجہ نہ سمجھیں بلکہ اس کو عین اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت سمجھیں۔
۳۔ فتح و نصرت کے لوازم ہیں: اللہ اور رسول کی اطاعت، آپسی اتحاد، صبرو استقامت، اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر ، عجزو انکساری کے ساتھ دعا اور جنگی تیاری کے ساتھ اللہ کی ذات پر کامل بھروسا۔
۴۔ ہمہ وقت جنگی ساز وسامان کی فراہمی اور اتنی جنگی تربیت اور تیاری ہو کہ دشمن خوف زدہ رہے۔ اس سے اس بات کا امکان رہتا ہے کہ دشمن جنگ کرنے میں پہل کرنے سے ڈرے۔ (سورۃ الانفال 60)
۵۔ جنگی ساز وسامان میں کمی کی تلافی ایمانی طاقت، صبر وا ستقامت اور اخلاقی تفوق سے دو سے دس گنا تک ہو سکتی ہے۔(سورۃ الانفال 65-66)
۶۔ جب اسلام کمزوری کی حالت میں ہو تو دشمن کی طاقت کو کچلنے کے جتنے بھی مواقع فراہم ہوں ان کو بروئے کار لایا جائے ورنہ اگر نرمی کرکے چھوڑ دیا جائے تو یہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ اہلِ اسلام پر کاری ضرب لگانے سے ذرا بھی نہیں چوکیں گے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 اپریل تا 15 اپریل 2023