فضائی آلودگی کے مضر صحت اثرات۔ بچوں کا نمونیہ سے تحفظ اور علاج
(طب نبوی و طب ہندی کی روشنی میں)
حکیم ایم اجمل فاروقی، دہرہ دون
موسم سرما کی آمد کے ساتھ ساتھ ہوا کی آلودگی اور اس سے ہونے والی بیماریوں کا ذکر آجاتا ہے۔ خصوصاً دلی کے آس پاس سے لے کر پورے گنگا کے دو آبے میں ہوا میں آلودگی کا پیمانہ AQI خراب سے خراب سے خراب تر ہوتا ہوا خطرناک اور ایمرجنسی کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ یہ پورا خطہ چاروں طرف سے زمین سے گھر ہوا ہے یہاں اس موسم میں ہوا بالکل نہیں چلتی یا بہت ہلکی ہوتی ہے جس سے ماحول میں اٹھنے والی گرد، دھول، جرثومہ، کیمیائی کثافت، گاڑیوں کا دھواں، تعمیراتی کاموں سے اٹھنے والی گرد دھول، گاڑیوں کے چلنے سے اڑنے والی دھول، فصلوں کے بُھس کو جلانے سے اٹھے والا دھواں، گاؤں گاؤں میں کھانا پکانے کے لیے لکڑی اور اوپلوں کا استعمال یا گرمی حاصل کرنے کے لیے جلائے جانے والے کیمیاوی یا قدرتی وسائل سب مل کر ہوا میں تیرتے رہتے ہیں۔ ان کی مقدار عالمی پیمانہ پر ۰۵ مایکرو گرامcum نارمل مانی جاتی ہے۔اس کثافت کو PM.25 کہتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ مقدار ۴۰ مائکروگرام نارمل مانی جاتی ہے۔ سال میں 50-70% ایام میں ان علاقوں میں کثافت کی یہ مقدار ۲۰۰ سے زیادہ ہوتی ہے۔
اگر ہم سانس کے ذریعہ کثافتی ذرات جن کا سائز مائیکرون (۱۔ مائکرون –ایک میٹر کا دس لاکھواں حصہ یا ایک ملی میٹر کا ایک ہزارواں حصہ) ہو تو یہ صرف ناک تک محدود رہتا ہے۔ اگر یہ ذرات ۱۰-۵۔۲ مائیکرون تک ہوں تو سانس کی نلی کے اوپری حصہ تک چلے جاتے ہیں اور گلے میں خراش، کھانسی یا گھٹن جیسی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ اگر یہ ذرات ۵۔۲ مائیکرون سے کم ہوں تویہ پھیپھڑے تک پہنچ کر کھانسی، بلغم، سوجن پیدا کرتے ہیں۔ دل کی تکلیف کو بھی بڑھا سکتے ہیں۔ اور اگر یہ ۵۱ مائیکرون کے ہوں تو یہ سیدھا پھیپھڑوں کے ذریعہ خون میں شامل ہو کر جسم میں ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ اور دل و رگوں کی بیماریوں، دماغ میں سوجن فالج، دمہ کے دورہ اور اعصابی امراض پیدا کرسکتے ہیں یا ان کو مزید خراب کرسکتے ہیں۔ چین سے ایک بار پھر بچوں میں شدید نمونیہ کی خبریں آرہی ہیں۔ مرکزی سرکار کے ذریعہ صوبائی سرکاروں کو حالات پر نگاہ رکھنے کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ ہسپتالوں، نرسنگ ہوم میں سانس، کھانسی، بخار کے مریض بچوں کی تعداد اور امراض کے نوعیت پر نگاہ رکھیں۔ بچوں میں بخار، کھانسی، آنکھوں سے پانی بہنا یا لگاتار رونا اس کی علامتیں ہوسکتی ہیں۔ بالغوں میں کھانسی، گلے میں خراش، آنکھوں سے پانی بہنا سانس میں دقت، اعصابی کمزوری، سر درد چکر، بھولنے کے چھوٹے چھوٹے دورہ وغیرہ اس موسم کی علامتیں ہو سکتی ہیں۔ بہت بھیڑ بھاڑ والے علاقوں، دھویں سے بھر پور ماحول، زیر تعمیر عمارتوں کے قریب رہنے والوں مختلف مصنوعات خصوصاً کیماوی مادہ بنانے والی صنعتوں کے دھوئیں وغیرہ میں رہنے والوں کے پھیپھڑوں، دل و دماغ کے متاثر ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ بار برداری کرنے والے مزدوروں خصوصاً سمنٹ، چونا، رنگ روغن کے کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک طرح سے دوہری مار ہے کہ ان کے کام کے مقامات بھی آلودہ اور رہائشی علاقہ بھی آلودہ اور گھروں میں دھول دھواں ہی ملتا ہے۔ اوپر سے کھانے پینے میں بھی مقوی غذا کا فقدان ہوتا ہے۔ جب ۱۴۰ کروڑ میں سے نصف سے زیادہ آبادی کو مفت ۵ کلو اناج زندہ رہنے کے لیے دیا جا رہا ہے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ کتنی مقوی غذا یا مکمل غذا لے سکتے ہیں تاکہ بیماریوں کا مقابلہ کرسکیں۔
ان سب انتہائی ناموافق، نامساعد حالات میں عام انسان اور خواص بھی فضائی آلودگی کے مضر اثرات سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ یہ اہم سوال ہے جس پر مشورے آتے رہتے ہیں۔ مگر وہ مشورے جو قابل عمل ہوں وہ کیا ہو سکتے ہیں؟ معاشرہ اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک حد تک تکلیف اٹھا کر آلودگی پھیلانے والے عوامل گاڑیوں، سواریوں، لفٹ، جنریٹر، اے سی، ہیٹر کا استعمال انتہائی ضروری حالات میں کریں۔ ہیٹر وغیرہ کے استعمال سے ہوا سے نمی اور آکسیجن کم ہونے کے مضر اثرات ہوتے ہیں۔ کٹوتی اور بچت اوپر سے لیڈروں، حکمرانوں، افسروں اور کارپوریٹ سے شروع ہوتو اثر ہوگا۔ عوام تو ویسے بھی مہنگی بجلی کے ڈر سے کم ہی خرچ کرتے ہیں۔ دو مہنیوں دسمبر و جنوری میں ماسک کا اہتمام بہت مفید اور ضروری ہے اور آسانی سے دستیاب بھی ہے۔ خواتین کے لیے تو دوپٹہ یا حجاب و اسکارف بھی کافی ہے۔ جسم کا جتنا حصہ ڈھکا رہے گا کثافت اور آلودگی کے اندرونی مضر اثرات کے علاوہ جلد پر بی مضر اثرات نہیں ہوتے ۔ AIIMS دہلی کے سابق ڈائریکٹر رندیپ گلیریا نے اس موضوع پر انڈین ایکسپریس کو انٹرویو میں جو تفصیلات بتائی ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ مضر ذرات کس سائز کے کہاں کہاں پر بیماری پیدا کرتے ہیں تو ایک بار پھر وضو کے دوران کلی، مسواک، خصوصاً مسواک سے حلق کے پیچھے کی طرف رگڑنے کی سنت، ناک میں پانی ڈالنے کو فرض قرار دیے جانے کا انتہائی ضمنی دنیوی فائدہ کی طرف دھیان منتقل ہوگیا جس کا عملی مظاہرہ کورونا وبا کے دوران افریقہ اور ایشیا کے غریب ترین مسلم ممالک اور اٹلی، امریکہ، فرانس جرمنی میں ہونے والی اموات کے فرق سے ظاہر ہوا تھا۔ گلیریا صاحب نے بتایا کہ زیادہ بڑے ذرات ناک تک رہتے ہیں۔ جب دن میں پانچ بار وضو کیا ۱۵ با رکلی اور ناک میں پانی ڈالا تو وہ صاف ہو ہی گئے۔ زیادہ باریک ذرات بھی زیادہ اندر نہیں جائیں گے۔ کیونکہ اوپر حلق، خنجرہ اور ناک کے اندر میں مدافعتی نظام مضبوط ہوگا۔ اگر کچھ فیصد ذرات اندر گئے بھی تو اسے قدرتی مدافعتی نظام زائل کردے گا۔ غیر مسلم لوگ بھی اگر پورا وضو نہ بھی کریں تو بھی کلی اور ناک میں پانی چڑھانے اور مسواک سے حلق صاف کرنے کو تو اختیار کر ہی سکتے ہیں۔
موسم سرما میں اعضائے تنفس اور نظام تنفس کے آرگن کی اندرونی جھلیوں کی صحت کے لیے حرارت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے تاکہ زہریلے ذرات اور بیکٹیریا اثر نہ کریں ایسی غذا جس میں حیاتین A+D زیادہ ہو، استعمال کرنا ضروری ہے۔ انڈا، مچھلی، تل کا تیل، پستہ، کلیجی، السی کاتیل، باجرا، مکھانہ، اخروٹ، میتھی، زیتون اس کے سستے مہنگے ذرائع ہوسکتے ہیں۔ مختلف طریقہ سے شہد اور ادرک کا استعمال ایک ساتھ یا الگ الگ ہلکے گرم پانی میں ملا کر لیتے رہنے سے صحت کے لیے مفید اور اعضائے تنفس کی صحت اور اخراج فضلہ جو کسی بھی وجہ سے ہو اس کے لیے مفید ہے۔ انجیر مفید اور متبرک پھل ہے۔ مضر صحت مادہ کو جسم سے باہر کی طرف پھینکنے میں اس کا خاص حصہ ہے۔ اسے ۵۔۳ کی تعداد میں رات کو ایک کپ پانی میں بھگو کر صبح ہلکا گرم کرکے ۲/۱۔۱ چمچ شہد ملا کر پی لیں۔ پھل چبانا چاہیں تو چبالیں۔ شوگر کے مریض کنٹرول رکھیں۔ انجیر ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے اور قبض دور کرنے کے لیے بھی مفید ہے۔ ہلکا گرم پانی ہی استعمال میں رکھا جائے۔ اچار، چٹنیاں، کولڈرنک، آئس کریم وغیرہ بلغمی مزاج کے لوگ اس موسم میں نہ لیں۔ دہی وغیرہ زیادہ کھٹا یا ٹھنڈا نہ ہو۔ صبح و شام خصوصا کپڑوں کا خیال رکھیں۔ کنپٹی اور سینہ سردی لگنے کے نازک مقامات ہیں۔ ان کو ڈھانک کر رکھیں۔ آدھی آستین یا بغیر استین کے سوئٹر یا جیکٹ ہمیشہ پہنے رہیں اور ٹوپا، اسکارف، مفلر، شال کسی بھی طرح کنپٹی و ماتھا ڈھانک کر رکھیں۔ سرسوں یا تل کا تیل پورے جسم کے ساتھ صرف ناک، ماتھے یا بالوں پر لگانا بی انفکشن سے بچاتا ہے۔ ذرا سی لاپروائی سے کئی کئی ہفتہ نزلہ زکام، کھانسی، بلغم سے جنگ کرنا پڑتا ہے۔
اب علاج کی طرف دھیان دیں تو بچوں کے نمونیا کی علامات، ناک بہنا، زیادہ رونا، کراہنا، بخار، کھانسی، آنکھ سے پانی بہتا ہو تو لعوق سپستاں خیار شنبری ۳/۱ چمچہ دن میں ۳ بار چٹائیں۔اوپر سے شربت صدر عرق مکوئے گرم پانی کے ساتھ ڈراپر یا چمچہ سے پلاتے رہیں۔ بخار زیادہ ہو تو بچوں کے بخار اتارنے والے سیرپ حسب ضرورت ۲/۱،۲/۱ چمچہ ، ۱ چمچہ دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی بھی بام خصوصاً ہمدرد مرہم اور روغن سرخ یا روغن احمر یا سمندری تیل تارپین کا تیل یا موم (شہد کی مکھی کے چھتہ والا) کو سرسوں کے تیل میں گرم کرکے ان میں سے کوئی بھی چیز سینہ پر آگے پیچھے اور ناک کے اوپر لگائیں اور سکائی کر دیں۔ انتہائی مفید اور تیز اثر ادویہ ہیں۔ اگر حاصل کرسکتے ہیں تو قسط شیریں ۴/۱ گرام سے لے کر ۱ گرام تک باریک کرکے شہد میں ملا کر دن میں دو بار چٹائیں۔ اسی سفوف کو نزلے میں بھی لگا سکتے ہیں۔ سرسوں یا تل کے تیل میں گرم کرکے سینہ پر بھی لگا سکتے ہیں۔ شیر خوار بچوں کی ماؤں کو تھوڑا چاول یا دہی جیسی چیزوں کا پرہیز کرنا ہوگا۔ مریض بچوں کو پتلا دلیا، ابلا انڈا، چائے، ہلکا گرم پانی دینا ضروری ہے۔ بادام باریک کرکے شہد میں ملا کر چٹانا غذا اور دوا دونوں کا کام کرتا ہے۔ بہت کمزوری کی حالت میں دوا المسک معتدل جواہر والا ۲/۱ یا ایک گرام پانی میں گھول کر اسی پر کشتہ جواہر مہرہ اچاول کے برابر چھڑک کر چٹانے سے فوری طاقت حاصل ہوتی ہے اور جسم مرض کو کنٹرول کرنے کا اہل ہوجاتا ہے۔ اس میں ملا کر یا الگ سے زعفران۴-۳ریشہ دودھ، شہد گرم پانی کسی میں بھی ملا کر دے سکتے ہیں۔
سانس لینے کی دقت محسوس ہوتو آخر میں مذکورہ ادویہ اور لگانے والے نسخہ لگا کر سنکائی کریں انشاء اللہ ایمرجنسی کے حالات یا نرسنگ ہوم جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مگر بچوں کا معاملہ نازک ہوتا ہے اس لیے ضرورت محسوس ہونے پر ایمرجنسی خدمات لینے میں تامل نہیں کرنا چاہیے۔ اس نسخہ کی اہم ترین افادیت یہ ہے کہ بلغم کا اخراج دستوں یا نارمل اجابت کے ذریعہ ہوتا رہتا ہے۔ اس سے سانس لینے کی دقت ہی نہیں ہوتی۔ بلغم سینہ پر پھیپھڑوں کی نالیوں میں جمنے نہیں پاتا کیونکہ بچہ کھانس کرکے بلغم نہیں نکال سکتا اس لیے یہ نہایت موثر نسخہ ثابت ہوتا ہے۔
بالغوں کے لیے بچاؤ کے لیے مذکورہ بالا تدابیر ٹھنڈ سے بچنے، قوت مدافعت بڑھانے والی سستی /مہنگی غذاؤں، دھوپ میں۳۰-۲۵ منٹ بیٹھنا اور کوئی بھی تیل خصوصاً تل سرسوں یا زیتون لگانا۔ انجیر ۵-۳ شہد گرم پانی میں ملا کر، ادرک ثابت یارس شہد یا گرم پانی میں ملا کر لینا، باجرا اور تل کا استعمال جیسی عادات سے انسانوں کے برے اعمال، لالچ اور امیروں کی عیاشی کے نیتجہ میں پیدا ہونے والے امراض سے بچا جا سکتا ہے جب کہ اصل علاج یہ ہے کہ پوری کائنات کو انسانی مرضی اور نفس کے تابع نہ کرکے خالق کائنات، فاطرالسموات والارض کی مرضی کے مطابق چلایا جائے۔ اور یہ COP-28 جیسے ڈراموں سے ممکن نہیں ہے۔ ان ڈراموں کے انعقاد سے ہی اچھا خاصا فضلہ اور کچرا پیدا ہوتا ہے۔ یہ چونچلے اور حکمرانوں و کارپوریٹ کی ساحری ہے جو محکوموں کو سلانے کے لیے برپا کی جاتی ہے۔
مضمون نگار سے رابطہ:
9068522851
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024