پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ملک میں موسم کے کروٹ لیتے ہی ہوا زہر آلود ہو چکی ہے۔ نہ صرف دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقے بلکہ کئی شہر ان دنوں شدید فضائی آلودگی کی زد میں ہیں۔ ہوا میں پھیلتا زہر خطرناک بنتا جا رہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق بھارت کی صد فیصد آبادی پارٹیکولیٹ میٹر (Particulate Matter) 2.5 کے زیر سایہ زندگی گزار رہی ہے، جو سب سے نقصان دہ آلودگی تسلیم کی جاتی ہے۔
ایسی آلودگیوں میں ڈوبے ہوئے ممالک میں نہ صرف سالانہ لاکھوں لوگ موت کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ معیشت بھی تباہ ہو رہی ہے۔ 2021 میں اس کی وجہ سے بھارت میں اکیس لاکھ لوگوں کی موت ہوئی۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے ملک کو 36 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2019 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے بے وقت اموات اور بیماریوں کی وجہ سے پیداوار میں کمی کے باعث ملک کو بالترتیب 28.8 اور آٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا جو ملک کی جی ڈی پی کا 1.26 فیصد ہے۔
شفاف ہَوا: ایک بنیادی حق
اگرچہ صاف و شفاف ہوا کی دستیابی انسان کا بنیادی حق ہے لیکن فضائی آلودگی دنیا بھر میں انسانوں کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ زہریلے مادے نہ صرف صحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ دل کے دورے، برین اسٹروک اور دیگر غیر متعدی بیماریوں (Non-Communicable Diseases) کا سبب بن رہے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بیرونی اور گھریلو فضائی آلودگی سالانہ 77 لاکھ لوگوں کو وقت سے پہلے موت کی نیند سلا دیتی ہے۔ فضائی آلودگی کا اثر خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
فضائی آلودگی کے ذرائع
فضائی آلودگی کے بنیادی ذرائع میں پارٹیکولیٹ میٹر، کاربن مونو آکسائیڈ (CO) نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO2) اور سلفرڈائی آکسائیڈ شامل ہیں۔ بڑھتی ہوئی شہری کاری (Urbanisation) صنعتی سرگرمیاں اور دیگر انسانی اعمال آلودگی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
پارٹیکولیٹ میٹر (PM) ہوا میں پائے جانے والے انتہائی چھوٹے ذرات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ذرات صحت پر براہ راست اثر ڈالتے ہیں، دل اور پھیپھڑوں کو متاثر کرتے ہیں۔ PM-10 اور PM-2.5 جیسے ذرات کے سائز اور اثرات کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
حکومتی اقدامات
حکومت ہند نے جنوری 2019 میں قومی شفاف فضائی پروگرام (NCAP) کا آغاز کیا جس کا مقصد 2024 تک پارٹیکولیٹ میٹر 10 (PM-10) کی سطح میں کمی لانا تھا۔ بعد میں اس ہدف کو 2025-26 تک بڑھا دیا گیا۔ NCAP کے تحت 131 شہروں میں 2023-24 کے دوران فضائی آلودگی میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ اکیاون شہروں میں PM-10 کی سطح میں بیس فیصد سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی، جبکہ اٹھارہ شہروں نے نیشنل ایمبینٹ ایئر کوالٹی اسٹینڈرڈز (NAAQS) کو پورا کیا ہے۔
فضائی آلودگی: ایک خاموش قاتل
فضائی آلودگی آج دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے اور بھارت اس معاملے میں بدترین متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ ہماری صد فیصد آبادی مسلسل پارٹیکولیٹ میٹر (PM 2.5) کے اثر میں رہتی ہے جو دل، پھیپھڑوں اور سانس سے متعلق بیماریوں جیسے دمہ، اسٹروک اور کینسر کا سبب بنتی ہے۔
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں بھارت میں فضائی آلودگی کی وجہ سے 16.7 لاکھ اموات ہوئیں جو ملک کی مجموعی اموات کا 17.8 فیصد تھیں۔ 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر اکیس لاکھ ہو گئی۔
فضائی آلودگی کے خطرناک عناصر
فضائی آلودگی میں اضافہ کرنے والے عناصر میں پارٹیکولیٹ میٹر، کاربن مونو آکسائیڈ (CO) نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO2) اور سلفرڈائی آکسائیڈ شامل ہیں۔ یہ زہریلے مادے ہوا میں انسانی سرگرمیوں جیسے گاڑیوں کے دھوئیں و فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے مادے، تعمیراتی سرگرمیوں اور زراعت کے طریقوں کی وجہ سے شامل ہوتے ہیں۔
پارٹیکولیٹ میٹر PM-10 اور PM-2.5 کے ذرات جو بال سے تیس گنا زیادہ باریک ہوتے ہیں سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر خون میں شامل ہو جاتے ہیں اور دل و پھیپھڑوں پر سنگین اثر ڈالتے ہیں۔
حکومت کے اقدامات اور ان کے اثرات
حکومت ہند نے 2019 میں قومی شفاف فضائی پروگرام (NCAP) متعارف کرایا تاکہ فضائی آلودگی کی سطح کو کم کیا جا سکے۔ اس پروگرام کے تحت:
131 شہروں کے لیے ایکشن پلان تیار کیا گیا۔
گاڑیوں کے اخراج، صنعتی آلودگی، گھریلو ایندھن کے استعمال اور تعمیراتی دھول جیسے ذرائع کو ہدف بنایا گیا۔
2023-24 میں اکیاون شہروں نے PM-10 کی سطح میں بیس فیصد سے زائد کمی ریکارڈ کی۔
اٹھارہ شہروں نے نیشنل ایمبینٹ ایئر کوالٹی اسٹینڈرڈز (NAAQS) کی ضروریات کو پورا کیا۔
معاشی نقصانات
فضائی آلودگی کے نتیجے میں صرف صحت ہی متاثر نہیں ہو رہی بلکہ معیشت بھی شدید نقصان اٹھا رہی ہے۔
2019 میں بے وقت اموات اور بیماریوں کی وجہ سے پیداوار میں کمی سے ملک کو بالترتیب 28.8 اور 8 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
یہ ملک کی جی ڈی پی کا 1.26 فیصد ہے۔
ماحول کے تحفظ کے لیے اجتماعی کوششیں
فضائی آلودگی کو روکنے کے لیے حکومت، صنعتوں اور عام عوام کے درمیان قریبی تعاون ضروری ہے۔
صاف توانائی کے ذرائع کو فروغ دینا۔
برقی گاڑیوں (EVs) کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا۔
فیکٹریوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سخت ضابطے نافذ کرنا۔
شجر کاری اور جنگلات کے تحفظ کے اقدامات کو تیز کرنا۔
ایک بنیادی حق کی جنگ
شفاف ہوا ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن فضائی آلودگی اس حق سے محرومی کا باعث بن رہی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر شہری اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور آلودگی کو کم کرنے میں حصہ لے۔
بھارت کے لیے فضائی آلودگی کا خاتمہ ایک اہم چیلنج ہے لیکن مؤثر حکمت عملی، مستقل مزاجی اور اجتماعی اقدامات کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
فضائی آلودگی اور سماجی ذمہ داری
فضائی آلودگی کے اثرات انفرادی صحت سے آگے بڑھ کر معاشرتی اور ماحولیاتی مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اجتماعی شعور اور سماجی ذمہ داری کا مظاہرہ ضروری ہے۔
تعلیمی اداروں کا کردار
تعلیمی ادارے فضائی آلودگی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں:
اسکولوں میں ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
بچوں کو پودے لگانے اور ان کی دیکھ بھال کا شعور دیا جائے۔
عوامی مہمات کے ذریعے فضائی آلودگی کے خطرات اور اس کے انسداد کے لیے اقدامات کی اہمیت پر زور دیا جائے۔
صنعتی شعبے میں اصلاحات
صنعتی شعبہ فضائی آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس کے لیے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے:
فیکٹریوں کے لیے سخت ماحولیاتی ضابطے نافذ کیے جائیں۔
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے جو کم اخراج کو یقینی بنائے۔
صنعتوں کو ماحولیاتی دوستانہ اقدامات اپنانے پر مالی مراعات دی جائیں۔
حکومتی پالیسیوں میں بہتری کی ضرورت
فضائی آلودگی کو مؤثر طریقے سے کم کرنے کے لیے حکومتی پالیسیوں میں مزید بہتری کی ضرورت ہے:
قومی سطح پر کلین انرجی پراجیکٹس شروع کیے جائیں۔
فضائی آلودگی کے ذرائع پر قابو پانے کے لیے مزید سخت قوانین بنائے جائیں۔
گاوؤں اور قصبوں میں گھریلو ایندھن کے استعمال کے متبادل طریقے متعارف کرائے جائیں۔
ٹیکنالوجی کا کردار
ٹیکنالوجی فضائی آلودگی کے مسئلے کے حل میں ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے:
ہوا کی کوالٹی کو مانیٹر کرنے کے لیے جدید سینسرز اور آلات نصب کیے جائیں۔
نٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) اور مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کرتے ہوئے فضائی آلودگی کے فوری اثرات کا تجزیہ کیا جائے۔
صاف توانائی کی پیداوار کے لیے شمسی اور ہوا سے توانائی کے منصوبے بڑھائے جائیں۔
عوامی شمولیت: کلید کامیابی
فضائی آلودگی جیسے مسئلے پر قابو پانے کے لیے عوامی شمولیت ناگزیر ہے:
• عام لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ وہ اپنے روزمرہ کے رویوں میں کیسے تبدیلی لا سکتے ہیں، جیسے ذاتی گاڑیوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال۔
• پلاسٹک کے کم استعمال اور پودے لگانے جیسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی جائے۔
یہ وقت ہے کہ ہم ماحولیاتی تحفظ کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور عملی اقدامات کریں۔ ہمیں چاہیے کہ درخت لگانے کو ترجیح دیں، بلا ضرورت ایندھن کا استعمال کم کریں اور صاف توانائی کے ذرائع کو اپنائیں۔
حکومتوں کو چاہیے کہ وہ پائیدار ترقی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں نافذ کریں جن سے آلودگی کم ہو اور عوام کو صحت مند زندگی گزارنے کا موقع ملے۔ صنعتی فضلہ کے مناسب انتظام، پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو فروغ اور کوئلے کی جگہ صاف توانائی کے ذرائع اپنانے کی طرف سنجیدہ اقدامات ضروری ہیں۔
انفرادی سطح پر ہمیں چاہیے کہ اپنی طرزِ زندگی میں ایسے معمولات شامل کریں جو ماحولیاتی نقصان کم کریں۔ مثال کے طور پر:
پانی اور بجلی کے ضیاع سے بچیں۔
فضائی آلودگی بڑھانے والے عوامل جیسے گاڑیوں کا غیر ضروری استعمال کم کریں۔
کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مناسب طریقے اپنائیں اور ری سائیکلنگ کو فروغ دیں۔
ماحولیاتی آگاہی کی اہمیت
تعلیمی اداروں اور میڈیا کو چاہیے کہ ماحولیاتی مسائل پر عوامی شعور بیدار کریں اور یہ باور کرائیں کہ قدرتی وسائل کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
اگر ہم آج ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اسلام کے ماحولیاتی تحفظ کے اصولوں پر عمل کریں تو نہ صرف ہم اپنی زندگی بہتر بنائیں گے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک صحت مند، خوشحال اور صاف ستھری دنیا چھوڑ سکیں گے۔
***
***
فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے انفرادی، حکومتی اور سماجی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ کسی ایک علاقے یا ملک تک محدود نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے بلکہ اس کے حل کے لیے عالمی سطح پر تعاون اور حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے ابھی اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلوں کے لیے یہ زمین رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024